میڈیا واچ ڈاگ – کسے دا یار نہ وچھڑے
نصرت فتح علی خان کے گیت اور قوالیوں کی شدت سننے والوں پر ایسا سحر طاری کرتے کہ دنیا جھوم اٹھتی۔
SIALKOT:
آج کا دن بھی اکتوبر کے دنوں کی طرح عام سے اندا ز سے ہی گزر جاتا مگر آج ایک ایسی ہستی نے اس دنیا میں قدم رکھا جس نے خدا اور بندے کی محبت کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے میں پھیلا دیا۔ چار بہنوں کے بعد 13 اکتوبر 1948ء میں فیصل آباد شہر میں پیدا ہونے والے اس بیٹے کے بارے میں اس کے والدین کے اپنے ہی خواب تھے، وہ اسے ایک ڈاکٹر کے روپ میں دیکھنا چاہتے تھے کیونکہ اس کے والدین سمجھتے تھے کہ ان کا پیشہ اس بچے کو وہ عزت وہ مقام نہیں دے پائے گا جس کا وہ حقدار ہے ۔ وہ اس حقیقت سے بے خبر تھے کہ انسان کے قدم ابھی زمین پر پڑتے بھی نہیں مگر اس سے پہلے قدرت اس کا مقصد اور منزل کا تعین کر چکی ہوتی ہے۔
ان کی شناخت پاکستان تھی مگر اس کی شخصیت کے سامنے یوں لگتا ہے کہ جیسے پاکستان کی شناخت وہ تھے۔ جیسا کہ سب ہی جانتے ہیں کہ میوزک کنسرٹس دنیا بھر میں ہوتے ہیں ،اگرکنسرٹ میں امریکن گلوکار وں کے ہوں تو وہاں سب وہ لوگ موجود ہونگے جو انگریزی زبان سمجھتے ہوں۔لیکن جب ان کا ایک کنسرٹ جاپان میں ہواتو عجب منظر دیکھنے میں آیا کہ وہاں تمام سامعین جاپانی تھے ،ان میں پاکستانی یا اردو سمجھنے والے آٹے میں نمک کے برابر تھے۔اس نے امریکہ اور برطانیہ میں صوفیانہ کلام کو مشرقی اور جدید مغربی موسیقی کے حسین امتزاج سے ایک نیا انداز میں متعارف کرایا۔ اورجب انہوں نے دم مست قلندرگانا شروع کیا تو سارا عالم جھوم اٹھا، یہاں تک کہ میڈونا جیسی گلوکارا ان کے ساتھ گانے کی خواہش مند تھی۔
پیٹر گیبرئیل کے ساتھ Signal to noice جیسا کلاسک گانا تخلیق ہوا جس کی گونج آج بھی کیٹ واک کے ریمپ پر سنی جا سکتی ہے۔ انہوں نے مائیکل بروک کے ساتھ مل کر نائٹ سونگ البم پیش کیا جس کے بعد اہل مغرب ان کے دیوانہ بن گئے۔ انگلش بلاک بسٹرز فلمیں Dead man walking اور The last temptation of Christ کے ساؤنڈ ٹریکس میں ان کی آواز نے وہی اثر دکھایا جو پاکستانی ڈرامے دھواں میں "کسے دا یار نہ وچھڑے " نے دکھایا تھا کہ دیکھنے والے کی آنکھ میں آنسو بھر آئے تھے۔
اب تو واضح ہو گیا ہوگا کہ یہ شخصیت کون ہے؟ جی ہاں نصرت فتح علی خان۔ موسیقی کی ابتدائی تربیت والد استاد فتح علی خان سے حاصل کی ان کی وفات کے بعد چچا مبارک علی خان اور سلامت علی خان نے موسیقی کے اسرار و رموز سکھنے کی ذمہ داری لے لی ،اور پھر ان کا وہ سفر شروع ہوا کہ انہوں نے اپنے آباؤ اجداد کے اس فن کو بین الاقوامی سطح پرمتعارف کرا دیا ۔ 1979ء میں ان کی اپنی فرسٹ کزن ناہید سے شادی ہوئی جن سے ایک بیٹی ندا ہے۔ وہ صرف ایک گائیک ہی نہیں تھے جن کی آواز کانوں کے راستے ہی دل تک جا پہنچتی ہے اگر صرف ایک گائیک ہوتے تو ان کی آواز کچھ عرصے دل میں بستی اور پھر کہیں گم ہو جاتی یا کوئی اور اس جیسی آواز دل میں گھر کر لیتی مگرایسا نہیں ہوا۔
جب نصرت فتح علی خان کے سروں نے بولنا شروع کیا کہ یہ جو ہلکا ہلکا سُرور ہے، تمہیں دل لگی بھول جانی پڑے گی، آفرین آفرین، سایہ بھی ساتھ جب چھوڑ جائے، مست نظروں سے اللہ بچائے، وگڑ گئی اے تھوڑے دناں تو، من اٹکیا بے پرواہ دے نال، آنکھ اٹھی محبت نے انگڑائی لی، مینوں یار دی نماز پڑھ لین دے اور اللہ ہواللہ ہو تو دنیا اس صوفی کی مرید ہوگئی۔ جیسے ہی وہ اسٹیج پر آتے لوگ جھومنے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ وہ دل سے نہیں روح سے گاتا تھے اور روح کبھی گم نہیں ہوتی۔ جب انہوں نے گیت گائے تو اس میں بھی وہی شدت وہی کیفیت تھی جو سننے والے کو ایک سحر میں گم کر دیتی تھی، پیچیدہ سے پیچیدہ راگ کو خان صاحب اس مہارت سے استعمال کرتے کہ مشکل سے مشکل گانا بھی سادہ اور عام فہم ہو جاتا اور سننے والا اس میں کھو جاتا تھا۔ نصرت فتح علی خان کے البمز کی تعداد ایک سو پچیس سے زائد ہے۔ انہیں مختلف قومی اور بین الاقوامی ایوارڈ سے نوازا گیا۔
نصرت فتح علی خان 48 برس کی عمر میں 16 دسمبر 1997ء کو ہمیں چھوڑ گئے لیکن ان کی آواز کی گونج آج بھی اسی طرح سنائی دیتی ہے اور تا قیامت خدا کی ثناء کرتی رہے گی۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آج کا دن بھی اکتوبر کے دنوں کی طرح عام سے اندا ز سے ہی گزر جاتا مگر آج ایک ایسی ہستی نے اس دنیا میں قدم رکھا جس نے خدا اور بندے کی محبت کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے میں پھیلا دیا۔ چار بہنوں کے بعد 13 اکتوبر 1948ء میں فیصل آباد شہر میں پیدا ہونے والے اس بیٹے کے بارے میں اس کے والدین کے اپنے ہی خواب تھے، وہ اسے ایک ڈاکٹر کے روپ میں دیکھنا چاہتے تھے کیونکہ اس کے والدین سمجھتے تھے کہ ان کا پیشہ اس بچے کو وہ عزت وہ مقام نہیں دے پائے گا جس کا وہ حقدار ہے ۔ وہ اس حقیقت سے بے خبر تھے کہ انسان کے قدم ابھی زمین پر پڑتے بھی نہیں مگر اس سے پہلے قدرت اس کا مقصد اور منزل کا تعین کر چکی ہوتی ہے۔
ان کی شناخت پاکستان تھی مگر اس کی شخصیت کے سامنے یوں لگتا ہے کہ جیسے پاکستان کی شناخت وہ تھے۔ جیسا کہ سب ہی جانتے ہیں کہ میوزک کنسرٹس دنیا بھر میں ہوتے ہیں ،اگرکنسرٹ میں امریکن گلوکار وں کے ہوں تو وہاں سب وہ لوگ موجود ہونگے جو انگریزی زبان سمجھتے ہوں۔لیکن جب ان کا ایک کنسرٹ جاپان میں ہواتو عجب منظر دیکھنے میں آیا کہ وہاں تمام سامعین جاپانی تھے ،ان میں پاکستانی یا اردو سمجھنے والے آٹے میں نمک کے برابر تھے۔اس نے امریکہ اور برطانیہ میں صوفیانہ کلام کو مشرقی اور جدید مغربی موسیقی کے حسین امتزاج سے ایک نیا انداز میں متعارف کرایا۔ اورجب انہوں نے دم مست قلندرگانا شروع کیا تو سارا عالم جھوم اٹھا، یہاں تک کہ میڈونا جیسی گلوکارا ان کے ساتھ گانے کی خواہش مند تھی۔
پیٹر گیبرئیل کے ساتھ Signal to noice جیسا کلاسک گانا تخلیق ہوا جس کی گونج آج بھی کیٹ واک کے ریمپ پر سنی جا سکتی ہے۔ انہوں نے مائیکل بروک کے ساتھ مل کر نائٹ سونگ البم پیش کیا جس کے بعد اہل مغرب ان کے دیوانہ بن گئے۔ انگلش بلاک بسٹرز فلمیں Dead man walking اور The last temptation of Christ کے ساؤنڈ ٹریکس میں ان کی آواز نے وہی اثر دکھایا جو پاکستانی ڈرامے دھواں میں "کسے دا یار نہ وچھڑے " نے دکھایا تھا کہ دیکھنے والے کی آنکھ میں آنسو بھر آئے تھے۔
اب تو واضح ہو گیا ہوگا کہ یہ شخصیت کون ہے؟ جی ہاں نصرت فتح علی خان۔ موسیقی کی ابتدائی تربیت والد استاد فتح علی خان سے حاصل کی ان کی وفات کے بعد چچا مبارک علی خان اور سلامت علی خان نے موسیقی کے اسرار و رموز سکھنے کی ذمہ داری لے لی ،اور پھر ان کا وہ سفر شروع ہوا کہ انہوں نے اپنے آباؤ اجداد کے اس فن کو بین الاقوامی سطح پرمتعارف کرا دیا ۔ 1979ء میں ان کی اپنی فرسٹ کزن ناہید سے شادی ہوئی جن سے ایک بیٹی ندا ہے۔ وہ صرف ایک گائیک ہی نہیں تھے جن کی آواز کانوں کے راستے ہی دل تک جا پہنچتی ہے اگر صرف ایک گائیک ہوتے تو ان کی آواز کچھ عرصے دل میں بستی اور پھر کہیں گم ہو جاتی یا کوئی اور اس جیسی آواز دل میں گھر کر لیتی مگرایسا نہیں ہوا۔
جب نصرت فتح علی خان کے سروں نے بولنا شروع کیا کہ یہ جو ہلکا ہلکا سُرور ہے، تمہیں دل لگی بھول جانی پڑے گی، آفرین آفرین، سایہ بھی ساتھ جب چھوڑ جائے، مست نظروں سے اللہ بچائے، وگڑ گئی اے تھوڑے دناں تو، من اٹکیا بے پرواہ دے نال، آنکھ اٹھی محبت نے انگڑائی لی، مینوں یار دی نماز پڑھ لین دے اور اللہ ہواللہ ہو تو دنیا اس صوفی کی مرید ہوگئی۔ جیسے ہی وہ اسٹیج پر آتے لوگ جھومنے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ وہ دل سے نہیں روح سے گاتا تھے اور روح کبھی گم نہیں ہوتی۔ جب انہوں نے گیت گائے تو اس میں بھی وہی شدت وہی کیفیت تھی جو سننے والے کو ایک سحر میں گم کر دیتی تھی، پیچیدہ سے پیچیدہ راگ کو خان صاحب اس مہارت سے استعمال کرتے کہ مشکل سے مشکل گانا بھی سادہ اور عام فہم ہو جاتا اور سننے والا اس میں کھو جاتا تھا۔ نصرت فتح علی خان کے البمز کی تعداد ایک سو پچیس سے زائد ہے۔ انہیں مختلف قومی اور بین الاقوامی ایوارڈ سے نوازا گیا۔
نصرت فتح علی خان 48 برس کی عمر میں 16 دسمبر 1997ء کو ہمیں چھوڑ گئے لیکن ان کی آواز کی گونج آج بھی اسی طرح سنائی دیتی ہے اور تا قیامت خدا کی ثناء کرتی رہے گی۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔