سن فلاور پاور جنریٹر

یہ پاور جنریٹر بجلی کے ساتھ صاف پانی بھی فراہم کرے گا

یہ پاور جنریٹر بجلی کے ساتھ صاف پانی بھی فراہم کرے گا۔ فوٹو: فائل

شمسی شعاعوں سے بجلی پیدا کرنے کا رجحان دنیا بھر میں عام ہوچکا ہے۔ اس مقصد کے لیے سولر پینلز استعمال ہوتے ہیں مگر ان آلات سے بجلی کے حصول کی شرح بہت زیادہ نہیں۔ اسی لیے دھوپ کی مخصوص مقدار سے زیادہ سے زیادہ بجلی پیدا کرنے نت نئی ڈیوائسز کی ایجاد پر تحقیق جاری ہے۔

حال ہی میں کمپیوٹر بنانے والے بڑے ادارے آئی بی ایم نے اپنے سولر پاور جنریٹر کا ابتدائی نمونہ نمائش کے لیے پیش کیا۔ تیس فٹ اونچا یہ جنریٹر سورج مکھی کے پھول سے مشابہ ہے۔ المونیم کے انتہائی پتلے آئینوں پر مشتمل یہ ڈیوائس عام سولر پینلز سے مختلف ہے۔ ' سن فلاور پاور جنریٹر ' کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ یہ شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ آلودگی سے پاک پانی کی فراہمی میں بھی معاون ثابت ہوگی۔

'' سن فلاور پاور جنریٹر'' یا کنورٹر میں المونیم کی باریک چادروں یا آئینوں کے ساتھ خردبینی نلکیوں کا جال بھی بچھا ہوا ہے جن میں سے پانی گزتا ہے۔آئی بی ایم کے ماہرین کا دعویٰ ہے کہ یہ ڈیوائس سورج سے آنے والی شعاعوں کی 80 فی صد مقدار کو بجلی اور گرم پانی میں تبدیل کرے گی۔ '' سن فلاور پاور جنریٹر'' ایک روشن دن کو مجموعی طور پر 12 کلوواٹ بجلی اور 20 کلوواٹ حرارت پیدا کرے گا جو پانی کو گرم کرنے میں استعمال ہوگی۔ بجلی اور حرارتی توانائی کی یہ مقدار متعدد گھروں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہوگی۔

آئی بی ایم یہ ڈیوائس ایک سوئس کمپنی '' ایئرلائٹ انرجی'' کے ساتھ مل کر تیار کررہی ہے۔ کمپیوٹر ساز کمپنی کے مطابق ان کی ڈیوائس2017ء تک مارکیٹ میں فروخت کے لیے پیش کردی جائے گی اور اس پر آنے والی لاگت پروٹوٹائپ پر ہونے والے اخراجات کے مقابلے میں نصف سے لے کر ایک تہائی تک کم ہوگی۔ شمسی توانائی کو برقی اور حرارتی توانائی میںتبدیل کرنے والی اس ڈیوائس کے منفرد ہونے کا سبب فوٹووولٹک چِپس کے مجموعے میں سے گزرتی ہوئی خردبینی نلکیاں ہیں، جن میں پانی رواں رہتا ہے۔




سن فلاور پاورجنریٹر کا منہ سورج مکھی کے پھول کی طرح سورج کے ساتھ ساتھ گردش میں رہتا ہے، جس کے نتیجے میں طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک اس کی سطح پر دھوپ مسلسل پڑتی رہتی ہے۔ شمسی شعاعیں سطح سے ٹکرانے کے بعد ایک اُبھرے ہوئے پلیٹ فام پر نصب فوٹووولٹک سیل پر مرتکز ہوجاتی ہیں۔ یہ سیل شعاعوں کو بجلی میں تبدیل کردیتے ہیں۔ تاہم خردبینی نالیوں کے نظام کی عدم موجودگی میں شمسی شعاعوں کے ارتکاز کے باعث درجہ حرارت 1000 ڈگری سیلسیئس تک پہنچ جاتا، نتیجتاً شمسی سیل خراب ہوجاتے، مگر انتہائی باریک نالیوں میں سے بہتا ہوا پانی انھیں ٹھنڈا رکھتا ہے۔ اس کولنگ سسٹم کی وجہ سے درجہ حرارت نو ڈگری سیلسیئس کی محفوظ حد میں رہتا ہے۔

آئی بی ایم نے سپرکمپیوٹرز کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے بھی یہی کولنگ سسٹم اپنا رکھا ہے۔ زیورخ میں قائم آئی بی ایم کی ریسرچ لیبارٹری کے اہل کار برونو مائیکل کا کہنا ہے کہ یہ کولنگ سسٹم انسانی جسم کے رگوں کے نظام کو مدنظر رکھتے ہوئے تیار کیا گیا تھا۔

ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ایک ارب تیس کروڑ افراد کو بجلی کی سہولت میسر نہیں۔ تاہم صاف پانی سے محروم لوگوں کی تعداد ان سے بھی زیادہ، ڈھائی ارب ہے، جس میں 9 فی صد سالانہ کی شرح سے اضافہ ہورہا ہے۔ سن فلاور جنریٹر ان دونوں مسائل کا حل پیش کرتا ہے۔ خردبینی نالیوں میں سے گزرتے ہوئے انتہائی گرم پانی کو desalinators میں سے گزار کر پینے کے قابل بنایا جاسکتا ہے۔ کئی سن فلاور پاور جنریٹرز مل کر پورے قصبے کی ضروریات کے لیے درکار تازہ پانی فراہم کرسکیں گے۔

آئی بی ایم کے مطابق افریقا، مشرق وسطیٰ اور آسٹریلیا کے علاوہ سن فلاور پاور جنریٹر سسٹم دور دراز علاقوں میں واقع اسپتالوں، ہوٹلوں اور تفریحی گاہوں میں استعمال کیے جاسکیں گے۔ کمپنی آئندہ برس اپنی پہلی ڈیوائس بلامعاوضہ نصب کرکے دے گی۔ اس کے لیے کمپنی نے مختلف قصبوں کی انتظامیہ کی جانب سے درخواستیں بھی طلب کرلی ہیں۔
Load Next Story