نہ میں مَجھ نہ گھوڑا نہ شیر اور بندر صرف ووٹر
میاں صاحبان کے محلات اور ایوانوں میں جو مال مویشی رکھے گئے ہیں ان میں بھینسیں بھی ہیں
حالات اس قدر پریشان کن ہیں کہ ان کو بیان کرنا قوم پر ایک اور ظلم کرنا ہے لیکن کسی کالم نگار کے لیے اگر وہ ملک اور قوم کے لیے لکھتا ہے کسی مہرباں کے لیے نہیں تو وہ عام حالات سے بگاڑ کیسے کر سکتا ہے اسے ہر حال کو بیان کرنا ہے خواہ اس سے اس کے دل پر اور اس کے قارئین پر کیا کچھ نہ گزر جائے لیکن حالات بنانے والوں کے طفیل ایک دو واقعات ایسے ہوئے ہیں کہ مجھے ان میں کچھ ذاتی راحت مل سکی ہے۔
سنا ہوا تو تھا لیکن ٹی وی پر دیکھا بھی کہ میاں صاحبان کے محلات اور ایوانوں میں جو مال مویشی رکھے گئے ہیں ان میں بھینسیں بھی ہیں لیکن تمام پالتو جانوروں میں مساوات قائم ہے اور گرمیوں میں بھینسوں کو کسی تالاب میں نہیں نہلایا جاتا بلکہ انھیں ایک لمبے چوڑے برآمدہ نما چھپر کے نیچے کھڑا کر دیا جاتا ہے اور اوپر سے مستقل لگے ہوئے پائپوں کے ذریعے ان پر فواروں سے پانی ڈالا جاتا ہے اور ان پھواروں کے نیچے یہ بھینسیں بے حد خوش ہو جاتی ہیں۔ پاکستانی عوام کی طرح بھینس ایک بے عقل جانور سمجھا جاتا ہے لیکن ایک زمیندار کی بھینسوں نے جب ایک بار دودھ کم دیا تو تفتیش کرنے سے پتہ چلا کہ بھینسوں کو واپسی پر ایک پرانے بھٹھے سے لایا گیا جہاں مٹی کے برتنوں کے ٹکڑے پڑے تھے اس سے بھینسوں کو جو تکلیف ہوئی وہ دودھ کی کمی کا سبب بن گئی۔ بھینسوں نے ثابت کر دیا کہ وہ نہیں ان کے رکھوالے انسان بے عقل ہیں۔
بہر کیف میں نے جب شدید گرمی اور اس سے زیادہ شدید لوڈشیڈنگ کی حالت میں دیکھا کہ ان مجھوں کو کس طرح ٹھنڈا رکھا جا رہا ہے تو میں نے تحریری طور پر درخواست کی کہ کاش میں بھی میاں صاحب کی ایک مجھ ہوتا۔ اس پر میاں صاحب کے ایک رفیق کار اور خدمت گزار کا فون آیا کہ فی الحال ہاؤس فل ہے لیکن ڈر ہے کہ جب ہاؤس میں کچھ گنجائش نکلے گی صاحب خانہ کہاں ہوں گے۔ برسوں تک غائب ہو جانا ان کا پرانا وتیرہ ہے اور حالت یہ ہے کہ ایک فارسی شاعر کے بقول ''میرا مہربان اس قدر فیاض ہے کہ وہ سیر و شکار کے لیے بھی جہاں جاتا ہے وہیں خیمہ و خرگاہ نصب کر لیتا ہے اور ایک نئی دنیا بنا لیتا ہے''۔
اس لیے میاں صاحب جہاں بھی ہوں گے ان کا خیمہ و خرگاہ اپنا ہو گا اور ہم بھی کسی کونے میں سما جائیں گے۔ بہر کیف فی الحال مجھ بننے کی خواہش کو بس ایک اور خواہش ہی رہنے دیتے ہیں اور ایک منعم کی طرف چلتے ہیں جن کے ہاں بھینس نہیں گھوڑے عیش کرتے ہیں۔ ان کے مشہور و معروف گھوڑوں کی تعداد تو بہت ہے مگر فی الوقت کوئی بیس گھوڑے لاہور میں ان کی اداسی دور کرنے کے لیے پیش کیے گئے جن کے ساتھ وہ کافی دیر تک پیار کرتے رہے۔
یہ ہیں سابق صدر جناب آصف زرداری گھوڑوں کے ساتھ ان کا تعلق بہت پرانا ہے اور یہ گھوڑے کیا ہیں عربی النسل جن کی قیمت کروڑوں میں ہے اور ان کی خاطر تواضع اور دیکھ بھال پر روزانہ پندرہ لاکھ روپے صرف ہوتے ہیں۔ ان کی خوراک انسانوں کی خوراک سے کہیں زیادہ قیمتی ہوا کرتی ہے۔ گھوڑا کبھی ذرا باحیثیت لوگوں کی روز مرہ کی ضروریات کا حصہ ہوتا تھا۔ سفر کا یہی ذریعہ تھا۔ اب میں ان خواب و خیال ہو جانے والے زمانوں کا ذکر کیا کروں۔ مجھے سیاہ رنگ کی مشکی گھوڑی اب تک یاد ہے جو انتہائی تند و تیز تھی اور صرف والد ماجد ہی اسے قابو کرتے تھے اور اس پر سوار ہو کر وہ زمینوں کا چکر لگاتے تھے یا کسی مقدمے کی پیشی کے لیے خوشاب جایا کرتے تھے اور پھر اس سے آگے کشتی پر دریائے جہلم عبورکر کے شاہ پور جاتے تھے۔
اس سے نرم مزاج گھوڑے دوسرے گھر والوں کی تحویل میں ہوا کرتے تھے جن پر میں بھی سواری کیا کرتا تھا مگر گرانی اور گھوڑوں کی انتہائی مہنگی دیکھ بھال نے ان کو رفتہ رفتہ ختم کر دیا اور ان کی جگہ موٹر کاروں نے لے لی، پٹرول کے پیسے ہوں تو چلتی ہے ورنہ بلا خرچ آرام کے ساتھ کھڑی رہتی ہے۔ گھوڑے کی طرح ہر حال میں خرچ نہیں مانگتی۔ گھوڑا عربی ہو یا فرنگی اب اسے مڑ کر کوئی دیکھتا نہیں لیکن گاڑی کو دیکھا جاتا ہے کہ اس زمانے میں گاڑی کسی کی حیثیت کی پہچان ہے لیکن گاڑیوں کے باوجود میری یہ خواہش ہے کہ میں بھی میاں صاحب کی مجھ کی طرح زرداری صاحب کا گھوڑا ہوتا مربے کھاتا مالشیں کراتا اور کھلی فضاؤں میں دوڑتا۔
روٹی روزی سے بے نیاز ہر ایک کو تند و تیز نگاہ سے دیکھتا اور موج مستی کی کیفیت میں رہتا۔ میں ٹی وی پر خبریں بہت کم دیکھتا ہوں اور خبریں بنانے والے جانوروں پر توجہ نہیں دیتا اس کی جگہ میں جنگلی جانوروں کی فلمیں دیکھتا ہوں اور ان کی آزادانہ زندگی پر رشک کرتا ہوں مگر کیا کروں خدا نے انسان بنا دیا ہے۔ نہ مجھ نہ گھوڑا اور نہ کوئی شیر چیتا۔ بندر بھی ہوتا تو درختوں کی شاخوں پر جھومتا رہتا مگر میں تو انسان ہوں اور مجھ پر قادری اور عمران جیسے انسانوں کی نظریں ہیں کہ یہ بطور ووٹر کتنے کا بکے گا۔