آئی ایس آئی کے نئے سربراہ
آئی ایس آئی ایک انتہائی غیر معمولی نوعیت اور اہمیت کا منفرد قومی ادارہ ہے۔
وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی مشاورت سے لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی پانے والے انتہائی باصلاحیت اور نہایت اچھی شہرت کے حامل اعلیٰ فوجی افسر رضوان اختر کو ملک کے اہم ترین انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی کا سربراہ مقرر کر دیا ہے۔
بلاشبہ یہ تقرری بالکل میرٹ پر اور اہلیت کے عین مطابق کی گئی ہے جسے حق بہ حق دار کہا جائے تو ذرا بھی مبالغہ نہ ہوگا۔ ایسے نازک اور پرآشوب دور میں جب کہ وطن عزیز کو داخلی اور خارجی دونوں اعتبار سے طرح طرح کے خطرات کا سامنا ہے یہ تقرری غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے۔ آئی ایس آئی کے موجودہ سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام آیندہ ماہ 7 نومبر کو اپنے عہدے سے ریٹائر ہونے والے ہیں جس کے بعد لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر ان کی جگہ پر اپنے نئے منصب کا چارج سنبھال لیں گے۔
لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر کی یہ تقرری باعث حیرت نہیں ہے کیونکہ اپنی لیاقت اور تجربے کے لحاظ سے سب کی نظریں ان ہی پر مرکوز تھیں۔ اس تقرری کے اعلان سے قبل ہی انھیں تین ستارہ جنرل کی حیثیت سے ترقی دے دی گئی تھی۔ اس سے پہلے وہ دو ستارہ جرنیل کے طور پر سندھ رینجرز کے سربراہ کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے۔ انھیں مارچ 2012 میں سندھ رینجرز کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔ اپنی سربراہی کے اس نازک دور میں انھوں نے کراچی آپریشن کی نگرانی کی جوکہ ایک انتہائی کٹھن اور چیلنجنگ کام تھا۔ انھوں نے اپنی یہ ذمے داری کماحقہ انتہائی پیشہ ورانہ انداز میں نہایت ایمانداری اور غیر جانب داری کے ساتھ انجام دینے کی مقدور بھر کوشش کی۔ جنرل رضوان اختر بنیادی طور پر فرنٹیئر فورس سے تعلق رکھتے ہیں۔
2010 سے 2012 تک انھوں نے جنوبی وزیرستان میں بحیثیت جنرل آفیسر کمانڈنگ نہایت کامیابی کے ساتھ خدمات انجام دیں۔ جنوبی وزیرستان اور کراچی کے مخصوص حالات میں کام کرکے انھیں ایک نیا تجربہ حاصل ہوا جو آئی ایس آئی کے سربراہ کے طور پر ان کے انتخاب میں بڑا معاون ثابت ہوا۔ اس غیر معمولی نوعیت کے تجربے نے ان کی ٹوپی میں گویا سرخاب کا پر لگادیا۔
شاید یہی بات دیگر ہم منصبوں پر ان کی ترجیح کا باعث بنی جن میں ان کے سینئرز بھی شامل تھے۔ کاؤنٹر ٹیررازم اس کا سبب بنا اور ان کے حسن انتخاب کے حوالے سے بڑا کام آیا۔ تاہم بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کو بھی اس بات کی داد دینا پڑے گی کہ انھوں نے درست ذمے داری کے لیے موزوں ترین شخص کا انتخاب کیا۔ اس کے علاوہ جن دیگر جرنیلوں کو ترقی دی گئی ہے وہ بھی اپنے اپنے میرٹ کے لحاظ سے ترقی پانے کے مستحق تھے۔ نئے لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر نے 1982 میں جب فرنٹیئر فورس رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا تھا تو حسن اتفاق سے وہ بھی ستمبر کا ہی مہینہ تھا۔
آئی ایس آئی ایک انتہائی غیر معمولی نوعیت اور اہمیت کا منفرد قومی ادارہ ہے جس کے کندھوں پر دفاع وطن کی غیر معمولی ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں۔ دشمن کی آنکھوں میں یہ ادارہ ہمیشہ سے کانٹا بن کر کھٹکتا رہا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ اس کی عقابی نگاہیں ہیں۔ اس ادارے کے قیام کو اگر وطن عزیز کی بقا و سلامتی کے حوالے سے ایک سنگ میل اور نہایت نیک شگون کہا جائے تو اس میں ذرا سا بھی مبالغہ نہ ہوگا۔ اس ادارے کی وجہ سے ہمارے دشمنوں کی نیندیں حرام رہتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ اس پر الزام تراشی کا کوئی بہانہ اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ ہمارے ازلی دشمنوں کے ایجنٹوں کی ہمیشہ یہ کوشش رہتی ہے کہ اس ادارے کو ان واقعات میں بھی ملوث کریں جن سے اس کا دور پرے کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ اس ادارے کا سب سے بڑا دشمن ہمارا پڑوسی بھارت ہے جو منہ میں رام رام جپتا رہتا ہے اور بغل میں چھری چھپائے ہوئے ہے۔ بھارت میں جب بھی کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے وہ جھٹ سے اس کی ذمے داری آئی ایس آئی پر ڈال دیتا ہے۔
ماضی کی ایک سیاسی حکومت نے اس ادارے کو وزارت داخلہ کے ماتحت کرکے سویلین کنٹرول میں لانے کی تجویز پیش کی تھی مگر بوجوہ یہ کوشش کامیاب نہ ہوسکی۔ اس ادارے کی ساخت اور کام کی نوعیت کا تقاضا یہ ہے کہ اسے اس کی موجودہ حالات میں ہی برقرار رکھا جائے اور کسی بھی قسم کی مہم جوئی یا تجربے بازی سے اجتناب کیا جائے۔ بصورت دیگر نہ صرف اس ادارے کی برسوں سے بنائی ہوئی ساکھ کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ لاحق ہوگا بلکہ اس کی کارکردگی کے متاثر ہونے کا بھی قوی امکان ہوگا۔ اس ادارے کے ساتھ کسی بھی قسم کی چھیڑ چھاڑ سے محض سیاسی مفادات حاصل ہوسکتے ہیں جب کہ اس کا خمیازہ قومی مفادات کو پہنچنے والے نقصانات کی صورت میں بھگتنا پڑسکتا ہے۔
آئی ایس آئی کے سربراہ کی تقرری کے پروسیجر کے مطابق بری فوج کے سربراہ کو لیفٹیننٹ جنرلوں کے ایک پینل پر مشتمل ناموں کی سفارش وزیراعظم کی منظوری کے لیے پیش کرنا ہوتی ہے۔ مگر ماضی قریب کی روایت کے مطابق سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اس عہدے کے لیے وزیراعظم کو صرف لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام کا نام ہی تجویز کیا تھا جس کے بعد سویلین حکومت کے پاس کوئی اور چوائس باقی نہیں تھی۔ حکومت نے بھی کسی قسم کی حیل و حجت کے بغیر اس تجویز کو منظور کرلیا تھا اور یوں یہ اہم تقرری نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ انجام پاگئی تھی۔ خدا کا شکر ہے کہ اس مرتبہ بھی یہ معاملہ کسی اختلاف رائے یا بدمزگی کے بغیر حسب روایت انتہائی اتفاق رائے کے ساتھ طے پاگیا ہے جو اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ حکومت وقت اور ہماری فوجی قیادت ایک ہی صفحے پر ہیں اور ادھر ادھر سے اڑائی جانے والی افواہوں میں کوئی صداقت نہیں ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر بڑے خوش قسمت ہیں کہ ان کی شخصیت بالکل بے داغ اور غیر متنازعہ ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 2012 میں اپنے عہدے سے ریٹائر ہونے تک سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل شجاع پاشا کی شخصیت کتنے تنازعات کا مرکز رہی تھی۔ بعض حلقوں کی طرف سے موجودہ آئی ایس آئی چیف جنرل ظہیر الاسلام کو بھی نہیں بخشا گیا ہے اور ان پر بھی سیاست میں ملوث ہونے کا الزام لگادیا گیا ہے۔
ان حالات میں نئے آئی ایس آئی چیف پر بڑی بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنا دامن سیاست سے بچاکر رکھیں اور اپنی ساکھ پر کوئی آنچ نہ آنے دیں۔ اس حوالے سے انھیں ہر وقت اور ہر حال میں چوکس اور چوکنا رہنا ہوگا اور انتہائی احتیاط سے کام لینا ہوگا۔ بقول شاعر:
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہہ شیشہ گری کا
رہی بات الزام تراشنے والوں کی تو یہ ان کا روز مرہ کا کام یا محبوب ترین مشغلہ ہے۔ ویسے بھی دوسروں پر کیچڑ اچھالنا کون سا مشکل کام ہے۔ وطن عزیز کی سیاست میں اس عیب کو سب سے بڑا ہنر سمجھا جاتا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ اس وقت وطن عزیز پر بیرونی اور اندرونی دونوں طرح کے زبردست خطرات منڈلا رہے ہیں جن کی وجہ سے آئی ایس آئی کو ماضی کے مقابلے میں بہت زیادہ اور انتہائی سنگین چیلنجوں کا سامنا ہے۔ ایک جانب بیرونی سازشیں ہیں تو دوسری جانب داخلی ریشہ دوانیاں درپیش ہیں۔ ایک طرف ظاہری دشمن گھات لگائے بیٹھے ہیں تو دوسری طرف آستینوں میں چھپے ہوئے سانپ موقعے کی تلاش میں ہیں۔ ان حالات میں آئی ایس آئی کے لیے ہر آن خبردار اور چوکنا رہنا ہوگا کیونکہ بھول چوک کی ذرا سی بھی گنجائش باقی نہیں ہے۔ امید واثق ہے کہ آئی ایس آئی کے نئے سربراہ ان تمام چیلنجوں سے عہدہ برآ ہونے میں پوری طرح کامیاب ہوں گے اور فوجی و سویلین قیادت نے انھیں منتخب کرنے کا جو اہم فیصلہ کیا ہے وہ انشا اللہ ہر اعتبار سے بالکل درست ثابت ہوگا۔ قوم کی دعائیں اور نیک خواہشات ان کے ساتھ ہیں۔
بلاشبہ یہ تقرری بالکل میرٹ پر اور اہلیت کے عین مطابق کی گئی ہے جسے حق بہ حق دار کہا جائے تو ذرا بھی مبالغہ نہ ہوگا۔ ایسے نازک اور پرآشوب دور میں جب کہ وطن عزیز کو داخلی اور خارجی دونوں اعتبار سے طرح طرح کے خطرات کا سامنا ہے یہ تقرری غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے۔ آئی ایس آئی کے موجودہ سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام آیندہ ماہ 7 نومبر کو اپنے عہدے سے ریٹائر ہونے والے ہیں جس کے بعد لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر ان کی جگہ پر اپنے نئے منصب کا چارج سنبھال لیں گے۔
لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر کی یہ تقرری باعث حیرت نہیں ہے کیونکہ اپنی لیاقت اور تجربے کے لحاظ سے سب کی نظریں ان ہی پر مرکوز تھیں۔ اس تقرری کے اعلان سے قبل ہی انھیں تین ستارہ جنرل کی حیثیت سے ترقی دے دی گئی تھی۔ اس سے پہلے وہ دو ستارہ جرنیل کے طور پر سندھ رینجرز کے سربراہ کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے۔ انھیں مارچ 2012 میں سندھ رینجرز کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔ اپنی سربراہی کے اس نازک دور میں انھوں نے کراچی آپریشن کی نگرانی کی جوکہ ایک انتہائی کٹھن اور چیلنجنگ کام تھا۔ انھوں نے اپنی یہ ذمے داری کماحقہ انتہائی پیشہ ورانہ انداز میں نہایت ایمانداری اور غیر جانب داری کے ساتھ انجام دینے کی مقدور بھر کوشش کی۔ جنرل رضوان اختر بنیادی طور پر فرنٹیئر فورس سے تعلق رکھتے ہیں۔
2010 سے 2012 تک انھوں نے جنوبی وزیرستان میں بحیثیت جنرل آفیسر کمانڈنگ نہایت کامیابی کے ساتھ خدمات انجام دیں۔ جنوبی وزیرستان اور کراچی کے مخصوص حالات میں کام کرکے انھیں ایک نیا تجربہ حاصل ہوا جو آئی ایس آئی کے سربراہ کے طور پر ان کے انتخاب میں بڑا معاون ثابت ہوا۔ اس غیر معمولی نوعیت کے تجربے نے ان کی ٹوپی میں گویا سرخاب کا پر لگادیا۔
شاید یہی بات دیگر ہم منصبوں پر ان کی ترجیح کا باعث بنی جن میں ان کے سینئرز بھی شامل تھے۔ کاؤنٹر ٹیررازم اس کا سبب بنا اور ان کے حسن انتخاب کے حوالے سے بڑا کام آیا۔ تاہم بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کو بھی اس بات کی داد دینا پڑے گی کہ انھوں نے درست ذمے داری کے لیے موزوں ترین شخص کا انتخاب کیا۔ اس کے علاوہ جن دیگر جرنیلوں کو ترقی دی گئی ہے وہ بھی اپنے اپنے میرٹ کے لحاظ سے ترقی پانے کے مستحق تھے۔ نئے لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر نے 1982 میں جب فرنٹیئر فورس رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا تھا تو حسن اتفاق سے وہ بھی ستمبر کا ہی مہینہ تھا۔
آئی ایس آئی ایک انتہائی غیر معمولی نوعیت اور اہمیت کا منفرد قومی ادارہ ہے جس کے کندھوں پر دفاع وطن کی غیر معمولی ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں۔ دشمن کی آنکھوں میں یہ ادارہ ہمیشہ سے کانٹا بن کر کھٹکتا رہا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ اس کی عقابی نگاہیں ہیں۔ اس ادارے کے قیام کو اگر وطن عزیز کی بقا و سلامتی کے حوالے سے ایک سنگ میل اور نہایت نیک شگون کہا جائے تو اس میں ذرا سا بھی مبالغہ نہ ہوگا۔ اس ادارے کی وجہ سے ہمارے دشمنوں کی نیندیں حرام رہتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ اس پر الزام تراشی کا کوئی بہانہ اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ ہمارے ازلی دشمنوں کے ایجنٹوں کی ہمیشہ یہ کوشش رہتی ہے کہ اس ادارے کو ان واقعات میں بھی ملوث کریں جن سے اس کا دور پرے کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ اس ادارے کا سب سے بڑا دشمن ہمارا پڑوسی بھارت ہے جو منہ میں رام رام جپتا رہتا ہے اور بغل میں چھری چھپائے ہوئے ہے۔ بھارت میں جب بھی کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے وہ جھٹ سے اس کی ذمے داری آئی ایس آئی پر ڈال دیتا ہے۔
ماضی کی ایک سیاسی حکومت نے اس ادارے کو وزارت داخلہ کے ماتحت کرکے سویلین کنٹرول میں لانے کی تجویز پیش کی تھی مگر بوجوہ یہ کوشش کامیاب نہ ہوسکی۔ اس ادارے کی ساخت اور کام کی نوعیت کا تقاضا یہ ہے کہ اسے اس کی موجودہ حالات میں ہی برقرار رکھا جائے اور کسی بھی قسم کی مہم جوئی یا تجربے بازی سے اجتناب کیا جائے۔ بصورت دیگر نہ صرف اس ادارے کی برسوں سے بنائی ہوئی ساکھ کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ لاحق ہوگا بلکہ اس کی کارکردگی کے متاثر ہونے کا بھی قوی امکان ہوگا۔ اس ادارے کے ساتھ کسی بھی قسم کی چھیڑ چھاڑ سے محض سیاسی مفادات حاصل ہوسکتے ہیں جب کہ اس کا خمیازہ قومی مفادات کو پہنچنے والے نقصانات کی صورت میں بھگتنا پڑسکتا ہے۔
آئی ایس آئی کے سربراہ کی تقرری کے پروسیجر کے مطابق بری فوج کے سربراہ کو لیفٹیننٹ جنرلوں کے ایک پینل پر مشتمل ناموں کی سفارش وزیراعظم کی منظوری کے لیے پیش کرنا ہوتی ہے۔ مگر ماضی قریب کی روایت کے مطابق سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اس عہدے کے لیے وزیراعظم کو صرف لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام کا نام ہی تجویز کیا تھا جس کے بعد سویلین حکومت کے پاس کوئی اور چوائس باقی نہیں تھی۔ حکومت نے بھی کسی قسم کی حیل و حجت کے بغیر اس تجویز کو منظور کرلیا تھا اور یوں یہ اہم تقرری نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ انجام پاگئی تھی۔ خدا کا شکر ہے کہ اس مرتبہ بھی یہ معاملہ کسی اختلاف رائے یا بدمزگی کے بغیر حسب روایت انتہائی اتفاق رائے کے ساتھ طے پاگیا ہے جو اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ حکومت وقت اور ہماری فوجی قیادت ایک ہی صفحے پر ہیں اور ادھر ادھر سے اڑائی جانے والی افواہوں میں کوئی صداقت نہیں ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر بڑے خوش قسمت ہیں کہ ان کی شخصیت بالکل بے داغ اور غیر متنازعہ ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 2012 میں اپنے عہدے سے ریٹائر ہونے تک سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل شجاع پاشا کی شخصیت کتنے تنازعات کا مرکز رہی تھی۔ بعض حلقوں کی طرف سے موجودہ آئی ایس آئی چیف جنرل ظہیر الاسلام کو بھی نہیں بخشا گیا ہے اور ان پر بھی سیاست میں ملوث ہونے کا الزام لگادیا گیا ہے۔
ان حالات میں نئے آئی ایس آئی چیف پر بڑی بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنا دامن سیاست سے بچاکر رکھیں اور اپنی ساکھ پر کوئی آنچ نہ آنے دیں۔ اس حوالے سے انھیں ہر وقت اور ہر حال میں چوکس اور چوکنا رہنا ہوگا اور انتہائی احتیاط سے کام لینا ہوگا۔ بقول شاعر:
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہہ شیشہ گری کا
رہی بات الزام تراشنے والوں کی تو یہ ان کا روز مرہ کا کام یا محبوب ترین مشغلہ ہے۔ ویسے بھی دوسروں پر کیچڑ اچھالنا کون سا مشکل کام ہے۔ وطن عزیز کی سیاست میں اس عیب کو سب سے بڑا ہنر سمجھا جاتا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ اس وقت وطن عزیز پر بیرونی اور اندرونی دونوں طرح کے زبردست خطرات منڈلا رہے ہیں جن کی وجہ سے آئی ایس آئی کو ماضی کے مقابلے میں بہت زیادہ اور انتہائی سنگین چیلنجوں کا سامنا ہے۔ ایک جانب بیرونی سازشیں ہیں تو دوسری جانب داخلی ریشہ دوانیاں درپیش ہیں۔ ایک طرف ظاہری دشمن گھات لگائے بیٹھے ہیں تو دوسری طرف آستینوں میں چھپے ہوئے سانپ موقعے کی تلاش میں ہیں۔ ان حالات میں آئی ایس آئی کے لیے ہر آن خبردار اور چوکنا رہنا ہوگا کیونکہ بھول چوک کی ذرا سی بھی گنجائش باقی نہیں ہے۔ امید واثق ہے کہ آئی ایس آئی کے نئے سربراہ ان تمام چیلنجوں سے عہدہ برآ ہونے میں پوری طرح کامیاب ہوں گے اور فوجی و سویلین قیادت نے انھیں منتخب کرنے کا جو اہم فیصلہ کیا ہے وہ انشا اللہ ہر اعتبار سے بالکل درست ثابت ہوگا۔ قوم کی دعائیں اور نیک خواہشات ان کے ساتھ ہیں۔