پاک ایران تعلقات اقبال ؒ اور کلامِ صوفیائے عظام

علامہ اقبال کی پی ایچ ڈی کا مقالہ بھی ایرانی تہذیب و فلسفہ پر مشتمل ہے۔


Tanveer Qaisar Shahid October 13, 2014
[email protected]

KARACHI: پشاور میں متعین ایرانی قونصل جنرل جناب حسن درویش وندنے پشاور پریس کلب کے زیراہتمام ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اور ایران کی تاریخ، ثقافت، دین، سیاست اور دشمن ایک ہے۔ دونوں ممالک دوست اور برادر ہمسایہ ہیں، ان کی ہزاروں کلومیٹر سرحد مشترکہ ہے، دونوں کے درمیان بہتر تعلقات ہی ہم دونوں بردار اسلامی ممالک کے لیے مفید ہیں، مَیں پاکستان کے لیے امن اور پاکستانیوں کی خوشحالی کے لیے دعا گو ہوں۔ جناب حسن درویش وند کے ہم شکرگزار ہیں کہ انھوں نے پاکستان اور اہل پاکستان کے لیے حقیقی بنیادوں پر اپنی نیک تمناؤں کا اظہار کیا ہے۔

بُرا ہو عالمی شاطروں اور فرقہ پرستوں کا جو پاک ایران تعلقات میں رخنہ ڈالنے اور تلخیاں پیدا کرنے کی سازشیں کرتے رہتے ہیں لیکن ان کی کوششیں اور سازشیں بالعموم ناکامی کا منہ دیکھتی ہیں۔ پاک ایران تعلقات میں مزید بہتری پیدا کرنے کے لیے وزیراعظم محمد نواز شریف نے بھی تین ماہ قبل ایران کا دورہ کیا تھا۔ ایران کے صدر جناب ڈاکٹر حسن روحانی اور میاں صاحب کے درمیان خوشگوار ماحول میں ملاقات ہوئی تھی۔ عالمی سازش کنندگان کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ پاکستان اور ایران متصادم اور متحارب فضا میں رہیں۔

ہم عالمی شاطروں کی سازشوں کو ناکام بنا سکتے ہیں اگر ہمارے حکمران خود کو اور اپنے عوام کو یہ بتا سکیں کہ ہمارے اکابرین ایران سے کس قدر گہرا اُنس رکھتے رہے اور ایرانی زبان، ثقافت، تہذیب اور علوم و فنون ان کے دل کے کتنے قریب تھے۔ ایران کے حوالے سے ہمارے ان سیاسی اکابرین میں شاعرِ مشرق حکیم الامت حضرت علامہ سر محمد اقبال علیہ رحمہ سرِ فہرست حیثیت رکھتے ہیں۔ انھوں نے ایران کبھی نہیں دیکھا لیکن وہ ایران سے عشق کرتے تھے، ایرانی زبان میں انھوں نے بیشتر شاعری کی اور ایرانی کلچر کی ہمیشہ تعریف کرتے رہے۔ جناب عامر علی قریشی نے بھی گزشتہ دنوں ایک انگریزی جریدے میں شایع ہونے والے اپنے ایک دلچسپ آرٹیکل میں واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ حضرت علامہ اقبال ایران سے کتنی گہری رغبت رکھتے تھے۔

علامہ اقبال کی پی ایچ ڈی کا مقالہ بھی ایرانی تہذیب و فلسفہ پر مشتمل ہے۔ 1910ء میں علی گڑھ کی مسلم یونیورسٹی میں لیکچر دیتے ہوئے اقبال نے کہا تھا کہ یونان کو فتح کرنے سے روم کو جو نعمتیں ملیں، اسی طرح ایران کی فتح سے مسلمان بھی مالا مال ہوگئے۔ مطلب یہ کہ ایرانی تہذیب اتنی ترقی یافتہ اور ایران علم و فضل میں ایسے اوجِ کمال کو پہنچا ہوا تھا کہ اس کی فتح سے اسلام اور مسلم تہذیب کو اَن گنت فائدے پہنچے۔

اقبال مرحوم نے اگرچہ 1890ء کے آس پاس اردو شاعری کا آغاز کر دیا تھا لیکن جب وہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کی خاطر یورپ گئے تو وہیں آپ نے یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ شاعری کے لیے زیادہ تر فارسی ہی کو ذریعہ اظہار بنائیں گے۔ بعد ازاں اپنے فیصلے پر انھوں نے پوری طرح عمل بھی کیا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اقبال علیہ رحمہ کے تقریباً بارہ ہزار اشعار میں سے سات ہزار اشعار فارسی زبان میں ہیں۔ آپ کی شاعری کے مجموعے دس ہیں۔

ان میں چھ فارسی پر محیط ہیں۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شاعرِ مشرق کو اردو کے مقابلے میں فارسی زبان سے زیادہ رغبت و محبت تھی۔ جناب عمار قریشی نے انکشاف کیا ہے کہ 1932ء میں جب ایرانی فرمانروا رضا شاہ پہلوی نے بنگالی ہندو نوبل انعام یافتہ شاعر رابندر ناتھ ٹیگور کو اپنے ہاں بڑے اعزاز کے ساتھ مدعو کیا تو اقبال کے دل پر خراش لگی۔ بعد ازاں انھوں نے اپنی کئی فارسی کتابیں ایران بھجوائیں تو سہی لیکن ان کا تعارف ایران کے صرف ایک محدود سے اعلیٰ علمی حلقے تک محدود رہا۔ علامہ اقبالؒ بلا شبہ ٹیگور سے کہیں بڑے شاعر اور فلسفی تھے۔

حضرت علامہ اقبال کی وفات کے بعد یہ ایران کا معروف شاعر محمد تقی بہار تھا جس نے پورے ایران میں اقبال کی فارسی شاعری کو متعارف کرایا۔ تقی بہار نے اقبال کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے بار بار کہا کہ عالمِ اسلام کو ایسا شاعر ایک ہزار سال بعد ملا ہے۔ جناب محمد تقی بہار کے بعد یہ ایرانی وزیراعظم محمد مصدق صاحب تھے جنہوں نے اقبال کی شاعری سے متاثر ہوکر قومی سطح پر انھیں متعارف کروایا۔ 1952ء میں محمد مصدق نے ایرانی ریڈیو پر علامہ اقبال کا کلام پڑھا تو گویا ایران میں ایک برق سی دوڑ گئی۔ اقبال نے مغربی تہذیب کے کھوکھلے پن کو جس طرح آشکار کیا ہے، یہ موضوع محمد مصدق کو بہت عزیز اور مرغوب تھا۔ 1970ء کے عشرے میں یہ علی شریعتی، مہدی بازرگان، سید علی خامنہ ای اور ڈاکٹر عبدالکریم سروش تھے جنہوں نے علامہ اقبال کو نئے سرے سے ''دریافت'' کیا اور اقبال کا نام ایران کے گلی کوچوں اور ایرانی تعلیمی اداروں میں باز گشت بن کر گونجنے لگا۔

جناب آیت اللہ خمینی علیہ رحمہ کی قیادت میں 1979ء میں ایران کے اندر جو انقلاب برپا ہوا، اس میں بجا طور پر حضرت علامہ اقبال کے کلام کا بھی ایک کردار تھا۔ اسی لیے کلامِ اقبال کو، انقلاب کے بعد، ایران کے بڑے بڑے شہروں کی دیواروں پر خوبصورت خطاطی میں آویزاں کیا گیا۔ جناب علی شریعتی کے نزدیک حضرت علامہ اقبال کی وہی خاص الخاص اہمیت تھی جو اہمیت و فوقیت علامہ اقبال مولانا روم کو دیتے تھے۔ پاکستان کے معروف اور عالمی شہرت یافتہ اخبار نویس اور محقق و مصنف جناب خالد احمد نے اکتوبر 2010ء کو انگریزی اخبار ''ایکسپریس ٹریبیون'' میں ایک تفصیلی اور چشم کشا جو آرٹیکل تحریر کیا۔

اس کا مطالعہ کرنے سے بھی عیاں ہوتا ہے کہ حضرت علامہ اقبالؒ کے کلام نے ایرانی دانشور ڈاکٹر عبدالکریم سروش کی جدوجہد کو کیسے مہمیز دی۔ ڈاکٹر عبدالکریم سروش بھی علامہ اقبال کی طرح مغربی یونیورسٹیوں کے تعلیم یافتہ تھے اور اقبال ہی کی طرح مغربی تہذیب کے باطن سے پوری طرح باخبر بھی۔ جناب سروش کی ایرانی انقلاب میں کیا اعلیٰ خدمات تھیں اور حضرت امام خمینی انھیں کس نظر سے دیکھتے تھے، اس کا اندازہ محض اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ انقلابِ ایران کے فوراً بعد امام خمینی نے انھیں اپنی اہم ترین ایڈوائزری کونسل کا رکن بنایا اور انھیں یہ فریضہ سونپا کہ وہ نہ صرف نئی نئی یونیورسٹیاں بنائیں بلکہ ان کے لیے نصاب بھی مرتب کریں۔

ایران اور پاکستان کے باہمی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے کلامِ اقبال، بلا شبہ، مرکزی کردار ادا کرسکتا ہے کہ تقریباً تمام اہلِ ایران اقبالِ لاہوری سے محبت رکھتے ہیں۔ ہمارے عظیم صوفیائے کرام، جنہوں نے اپنے افکار و کردار سے برصغیر کے طول و عرض میں اسلام اور امن کا دل نشیں پیغام پھیلایا، کی ساری محفوظ گفتگوئیں اور شاعرانہ کلام فارسی ہی میں ہے۔ ترکی کے بے مثال صوفی اور حکیم صفت شاعر مولانا روم علیہ رحمہ، جنھیں حضرت علامہ اقبال علیہ رحمہ اپنے مرشدِ ہندی تسلیم کرتے ہیں، کی ساری شاعری فارسی میں ہے؛ چنانچہ ہمیں اگر امن کے ان پیامبروں اور اسلام کے مبلغین سے تجدیدِ محبت کرنی ہے تو ہمیں فارسی کے اسرار ورموز بھی سیکھنا ہوں گے۔ گذشتہ دنوں حیات آباد (پشاور) میں خانہ فرہنگِ ایران میں منعقدہ ایک تقریب، جس میں ممتاز محققین اور ماہرینِ تعلیم نے شرکت کی۔

سے خطاب کرتے ہوئے ایرانی قونصل جنرل محترم حسن درویش وند نے خطاب کرتے ہوئے بجا کہا تھا کہ ماضی قریب میں دنیا کے اس خطے میں جتنی بھی اسلامی کتابیں لکھی گئیں، ان میں نصف سے زائد فارسی زبان میں تھیں۔ ان تصنیفات نے برصغیر کے کونے کونے میں اسلامی تعلیمات اور قابلِ فخر اسلامی تہذیب کا پیغام پہنچایا۔ اسی تقریب سے خانہ فرہنگِ ایران پشاور کے ڈائریکٹر جنرل علی یوسفی صاحب نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے عوام فارسی سے ناآشنا اور نابلد رہ ہی نہیں سکتے کہ پاکستان کے قومی شاعر حضرت علامہ اقبال کا نصف سے زائد کلام اسی زبان میں ہے۔ اس خوبصورت علمی تقریب میں پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر رسول جان بھی شریک تھے۔ آپ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مَیں فارسی زبان کی عظمت کو سلام اور اس سے محبت کرتا ہوں کیونکہ مجھے صوفیائے کرام اور صوفیانہ کلام سے گہری محبت ہے اور ہمارے عظیم صوفیائے کرام نے فارسی ہی کو ذریعہ اظہار بنایا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔