یہ بلوچستان ہے
تو یہ وہ بلوچستان ہے…جہاں امن کے ایک مختصر وقفے کے بعد اس کا دارالحکومت ایک بار پھر لہولہان ہے ۔
بلوچستان کے مقتول صحافیوں کے قتل کے خلاف بہ طور احتجاج بلوچستان اسمبلی کے سامنے صحافیوں کے پانچ روزہ علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ میں مختلف مکتبہ فکر کے لوگوں کی آمد و رفت کا سلسلہ جاری رہا۔ انھی دنوں چونکہ اسمبلی کا اجلاس بھی جاری تھا، اس لیے اس بہانے لگ بھگ حکومتی و اپوریشن جماعتوں کے سبھی اراکین نے اپنی حاضری لگوائی اور صحافیوں سے ہمدردی کے دو بول ضرور اد اکیے۔ ایک جانب جہاں وزیراعلیٰ سمیت تمام حکومتی وزرا اپنی بے بسی کا رونا رہتے رہے، وہیں دوسری جانب اپوزیشن رہنما حکومتی نااہلی پہ تبرے بھیجتے رہے۔
کیمپ کے آخری روز جب کہ صحافی رہنماؤں کی اختتامی تقاریر جاری تھیں، بلوچستان حکومت کے ایک انتہائی اہم وزیر، لیکن حکومت کے سخت ناقد ،اپنے محافظین کے لاؤ لشکر سمیت آ پہنچے۔ سردار صاحب کی آمد پہ 'ہٹو بچو' کا سماں رہا۔ انھوں نے آتے ہی دعا پڑھی، مقتول صحافیوں کے لیے اپنی ہمدردی کا اظہار کیا۔ کیس کی تفتیش سے متعلق معلوم کرنے پر جب صحافی رہنماؤں نے انھیں بتایا کہ صورت حال یہ ہے کہ صوبے کا وزیر اعلیٰ ہم سے آکر پوچھتا ہے کہ کیس کا کیا بنا؟ قاتلوں کا کچھ پتہ چلا؟ کہتے ہے کہ یہ لوگ (عدلیہ) میری ایک نہیں سنتے، میں بالکل بے بس ہوں۔ اس پہ سردار موصوف نے اپنی تاؤ زدہ مونچھوں کے نیچے خندہ زن ہوتے ہوئے فرمایا،'' ارشاد اور اس کے دوستوں کی شہادت پہ مجھے افسوس ہے، لیکن ویسے تم لوگوں کے ساتھ یہ ہونا چاہیے۔
تم سب نے ہی ان کو ہمارے سر پہ بٹھایا، تم لوگ ہی اُس وقت بڑھ چڑھ کے لکھ رہے تھے اور بول رہے تھے کہ ڈاکٹر مالک کو ہی آنا چاہیے، پڑھا لکھا آدمی ہے، شریف آدمی ہے، امن ہو جائے گا، حالات بہتر ہوں گے؛ اب کر کے دکھائے حالات بہتر...''اور پھر اپنے مخصوص 'سرداری'اندازمیں زور دیتے ہوئے کہا،'' او بھائی یہ بلوچستان ہے، یہاں شرافت سے کام نہیں چلتا، اِدھر ڈانڈا چاہیے، آپ ڈنڈا اٹھاؤ اور دیکھو کہ کیسے نہیں سنتے ہیں ادارے آپ کی بات...'' کم زور ، بے بس اور پہلے سے سردار و غیر سردار کے 'ڈنڈے' کے مارے صحافی بے چارے سر نیہوڑائے جی ، جی کرتے رہ گئے۔
اسی شہید صحافی ارشاد مستوئی کے عزیز ،وزیر اعلیٰ بلوچستان سے ملنے ان کے دفتر پہنچے تو انھیں یہ دیکھ کر اچنبھا ہوا کہ وزیر اعلیٰ کا دفتر کسی 'عوامی شکایتی مرکز'کا منظر پیش کر رہا تھا، دفتر میں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ حتیٰ کہ بعض لوگ وزیر اعلیٰ کی میز پہ یوں جھک کے ان کے کان میں سرگرشیاں کر رہے تھے کہ گویا کسی کلرک کا میز ہو، جس سے فائل آگے کھسکانے کے لیے کوئی ساز باز ہو رہی ہو۔ اور جب وزیر اعلیٰ کو اپنے کسی آدمی کی 'ترقی 'کے لیے کسی بیورو کریٹ سے فون پہ 'گذارش' کرتے ہوئے سنا گیا تو گویا سننے والوں پہ پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ کہاں وزیر اعلیٰ کے 'ہٹو بچو' کے ہوٹر بجاتے قافلے، کہ جن کے ابرو ہلنے سے احکامات کی تعمیل ہو جاتی ہے، اور کہاں یہ عالم ......مقتول صحافی کے اقارب کو وزیراعلیٰ کی 'بے بسی ' کا یقیں آیا۔ وہ خاصے جز بز ہو کر لوٹے ۔
اٹلی میں رہنے والے مکران کے ایک پروفیسر، کسی زمانے میں ڈاکٹرمالک کے دوست اور وزیر اعلیٰ بننے کے بعد ان کے ناقدین میں سے ایک ، ابھی کچھ روز ہوئے سوشل میڈیا پہ رطب اللسان تھے کہ کچھ عرصہ ہوا روم میں ڈاکٹر مالک سے ان کی ملاقات ہوئی ، جس میں موصوف نے انھیں بتایا کہ بلوچستان حکومت فن کاروں، ادیبوں، شعرا کی فلاح بالخصوص مالی تعاون کے لیے خصوصی اقدامات کر رہی ہے ۔ انھوں نے کئی معروف ادیبوں اور فن کاروں کے نام لے کر بتایا کہ جنھیں تین تا پانچ لاکھ روپے کی مالی امداد وزیراعلیٰ کے خصوصی فنڈ سے جاری کی گئی ہے ۔
کئی ادیبوں کو کتابوں کی اشاعت کے لیے خصوصی طور پر رقم فراہم کی گئی ہے ۔ادبی سرگرمیوں کے لیے ہر چھوٹی بڑی ادبی تنظیم کی بھی معاونت کی جا رہی ہے ۔بلوچی، براہوی اور پشتو اکیڈمی کی سالانہ گرانٹ دگنی کر دی گئی ہے(جو ایک کروڑ روپے سالانہ بنتی ہے) ۔ پروفیسر موصوف نے لکھا کہ اگر واقعی یہ سب ہو رہا ہے تو اس اقدام کو سراہا جانا چاہیے، لیکن عالم یہ ہے کہ کوئی ادیب، کوئی ادبی تنظیم اس حکومت سے خوش نہیں ، اس طرزِ حکومت سے خوش نہیں ۔
ابھی جب ایک معاصر سیاسی تنظیم کی حکومتی تنظیم کے ساتھ اخباری بیانات کی چپقلش شروع ہوئی تو جس روز حکومت کے خلاف سخت بیان اخبار میں شایع ہوا، عین اسی روز مذکورہ تنظیم کے ایک اہم رکن وزیر اعلیٰ ہاؤس میں ایک 'ٹھیکہ' منظور کروا رہے تھے ۔ کسی 'منچلے ' نے شرارت کر کے وزیر اعلیٰ کے ساتھ ان کی مسکراہٹ کے باہمی تبادلے والے تصویر کھینچ لی، جس پہ موصوف نہایت جز بز ہوئے۔
باوجود اس کے، عملاً صورت حال یہ ہے کہ سیاسی تنظیمیں (سرداری و غیر سرداری) سبھی بلوچستان میں موجودہ طرزِ حکومت کی سخت ناقد ہیں ۔ حتیٰ کہ اپوزیشن سے زیادہ، حکومت میں شامل جماعتیں اس تنقید میں پیش پیش ہوتی ہیں ۔ ہر دوسرے ہفتے اتحادی جماعتوں کے 'ناراض رہنماؤں 'کا اہم اجلاس منعقد ہوتا ہے، جہاں حکومت کے رویے پر شاکی احباب کی جانب سے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے مخلوط حکومت کے ساتھ اتحاد پہ 'نظر ثانی' کی دھمکی دی جاتی ہے ۔
تو یہ وہ بلوچستان ہے...جہاں امن کے ایک مختصر وقفے کے بعد اس کا دارالحکومت ایک بار پھر لہولہان ہے ۔ چاند رات سے لے کر عید کے دوسرے دن تک کوئٹہ مسلسل خون میں نہاتا رہا ۔ عید قرباں اب کی بار ہزاروں جانوروں سمیت کئی معصوم انسانوں کی قربانی بھی لے گئی ۔ ہزاروں کی نسل کشی کا تھما ہوا سلسلہ پھر سے چل پڑا ۔ اندرونِ بلوچستان تو خیر اس سلسلے کی رفتار میں فرق آتا رہتا ہے ، لیکن یہ سلسلہ مکمل طور پہ تھمتا نہیں ۔ حتیٰ کہ اس بار ایک طویل وقفے کے بعد کوئٹہ میں ایک بار پھر آبادکار حجام کی دکان کو نشانہ بنایا گیا ۔
اُدھر پنجگور میں نجی تعلیمی ادارے وزیر اعلیٰ کی مکمل یقین دہانی کے باوجود شرپسندوں کے نشانے پر رہنے کے بعد، بالآخر مکمل طور پہ بند ہو چکے ۔ جس روز وزیر اعلیٰ نے بلوچستان میں امن و امان کی بہتری کا کھل کر اظہار کیا ، اس سے اگلے روز کوئٹہ دھماکوں سے گونج اٹھا۔ یہی وزیر اعلیٰ خود پنجگور کے تین ماہ سے بند تعلیمی اداروں کو اپنے ہاتھوں سے کھول کرآئے اور سکیورٹی کی یقین دہانی کرائی، ان کے کوئٹہ پہنچتے ہی شرپسندوں نے ایک نجی اسکول کے اسٹاف روم کو آگ لگا دی ۔ تب حکومت بے بسی کا اظہار نہ کرے تو بھلا کیا کرے !
سو، یہ بلوچستان ہے ...''جہاں شرافت نہیں، ڈنڈے کا زور چلتا ہے!''یہاں ڈنڈے سے محروم حکومت خود 'ڈنڈے بازی' کا شکار ہو جاتی ہے ۔ اور حکومت کے خلاف حالیہ 'ڈنڈے بازی' یہ ہوئی ہے کہ ایک خبرکے مطابق بلوچستان کی موجودہ حکومت کا قیام 'آدھی آدھی مدت 'کے ایک معاہدے کے تحت عمل میں آیا تھا، جس کے مطابق ڈھائی برس بعد اِن ہاؤس تبدیلی کے ذریعے موجودہ جماعت کو ہٹا کر اسمبلی کی اکثریتی جماعت کو عنانِ حکومت سونپ دی جائے گی ۔اگر یہ خبر درست ہے تو سو ، اس معاہدے کے مطابق موجودہ حکومت کے پاس کوئی ایک، سوا ایک برس کا عرصہ باقی ہے۔ جس کے بعد حکومت شریف اور پڑھے لکھے لوگوں سیلے لی جائے گی ۔ تب تک بے بسی کے ساتھ، 'شرافت کی بے بسی' کا تماشا دیکھیے ۔
کیمپ کے آخری روز جب کہ صحافی رہنماؤں کی اختتامی تقاریر جاری تھیں، بلوچستان حکومت کے ایک انتہائی اہم وزیر، لیکن حکومت کے سخت ناقد ،اپنے محافظین کے لاؤ لشکر سمیت آ پہنچے۔ سردار صاحب کی آمد پہ 'ہٹو بچو' کا سماں رہا۔ انھوں نے آتے ہی دعا پڑھی، مقتول صحافیوں کے لیے اپنی ہمدردی کا اظہار کیا۔ کیس کی تفتیش سے متعلق معلوم کرنے پر جب صحافی رہنماؤں نے انھیں بتایا کہ صورت حال یہ ہے کہ صوبے کا وزیر اعلیٰ ہم سے آکر پوچھتا ہے کہ کیس کا کیا بنا؟ قاتلوں کا کچھ پتہ چلا؟ کہتے ہے کہ یہ لوگ (عدلیہ) میری ایک نہیں سنتے، میں بالکل بے بس ہوں۔ اس پہ سردار موصوف نے اپنی تاؤ زدہ مونچھوں کے نیچے خندہ زن ہوتے ہوئے فرمایا،'' ارشاد اور اس کے دوستوں کی شہادت پہ مجھے افسوس ہے، لیکن ویسے تم لوگوں کے ساتھ یہ ہونا چاہیے۔
تم سب نے ہی ان کو ہمارے سر پہ بٹھایا، تم لوگ ہی اُس وقت بڑھ چڑھ کے لکھ رہے تھے اور بول رہے تھے کہ ڈاکٹر مالک کو ہی آنا چاہیے، پڑھا لکھا آدمی ہے، شریف آدمی ہے، امن ہو جائے گا، حالات بہتر ہوں گے؛ اب کر کے دکھائے حالات بہتر...''اور پھر اپنے مخصوص 'سرداری'اندازمیں زور دیتے ہوئے کہا،'' او بھائی یہ بلوچستان ہے، یہاں شرافت سے کام نہیں چلتا، اِدھر ڈانڈا چاہیے، آپ ڈنڈا اٹھاؤ اور دیکھو کہ کیسے نہیں سنتے ہیں ادارے آپ کی بات...'' کم زور ، بے بس اور پہلے سے سردار و غیر سردار کے 'ڈنڈے' کے مارے صحافی بے چارے سر نیہوڑائے جی ، جی کرتے رہ گئے۔
اسی شہید صحافی ارشاد مستوئی کے عزیز ،وزیر اعلیٰ بلوچستان سے ملنے ان کے دفتر پہنچے تو انھیں یہ دیکھ کر اچنبھا ہوا کہ وزیر اعلیٰ کا دفتر کسی 'عوامی شکایتی مرکز'کا منظر پیش کر رہا تھا، دفتر میں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ حتیٰ کہ بعض لوگ وزیر اعلیٰ کی میز پہ یوں جھک کے ان کے کان میں سرگرشیاں کر رہے تھے کہ گویا کسی کلرک کا میز ہو، جس سے فائل آگے کھسکانے کے لیے کوئی ساز باز ہو رہی ہو۔ اور جب وزیر اعلیٰ کو اپنے کسی آدمی کی 'ترقی 'کے لیے کسی بیورو کریٹ سے فون پہ 'گذارش' کرتے ہوئے سنا گیا تو گویا سننے والوں پہ پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ کہاں وزیر اعلیٰ کے 'ہٹو بچو' کے ہوٹر بجاتے قافلے، کہ جن کے ابرو ہلنے سے احکامات کی تعمیل ہو جاتی ہے، اور کہاں یہ عالم ......مقتول صحافی کے اقارب کو وزیراعلیٰ کی 'بے بسی ' کا یقیں آیا۔ وہ خاصے جز بز ہو کر لوٹے ۔
اٹلی میں رہنے والے مکران کے ایک پروفیسر، کسی زمانے میں ڈاکٹرمالک کے دوست اور وزیر اعلیٰ بننے کے بعد ان کے ناقدین میں سے ایک ، ابھی کچھ روز ہوئے سوشل میڈیا پہ رطب اللسان تھے کہ کچھ عرصہ ہوا روم میں ڈاکٹر مالک سے ان کی ملاقات ہوئی ، جس میں موصوف نے انھیں بتایا کہ بلوچستان حکومت فن کاروں، ادیبوں، شعرا کی فلاح بالخصوص مالی تعاون کے لیے خصوصی اقدامات کر رہی ہے ۔ انھوں نے کئی معروف ادیبوں اور فن کاروں کے نام لے کر بتایا کہ جنھیں تین تا پانچ لاکھ روپے کی مالی امداد وزیراعلیٰ کے خصوصی فنڈ سے جاری کی گئی ہے ۔
کئی ادیبوں کو کتابوں کی اشاعت کے لیے خصوصی طور پر رقم فراہم کی گئی ہے ۔ادبی سرگرمیوں کے لیے ہر چھوٹی بڑی ادبی تنظیم کی بھی معاونت کی جا رہی ہے ۔بلوچی، براہوی اور پشتو اکیڈمی کی سالانہ گرانٹ دگنی کر دی گئی ہے(جو ایک کروڑ روپے سالانہ بنتی ہے) ۔ پروفیسر موصوف نے لکھا کہ اگر واقعی یہ سب ہو رہا ہے تو اس اقدام کو سراہا جانا چاہیے، لیکن عالم یہ ہے کہ کوئی ادیب، کوئی ادبی تنظیم اس حکومت سے خوش نہیں ، اس طرزِ حکومت سے خوش نہیں ۔
ابھی جب ایک معاصر سیاسی تنظیم کی حکومتی تنظیم کے ساتھ اخباری بیانات کی چپقلش شروع ہوئی تو جس روز حکومت کے خلاف سخت بیان اخبار میں شایع ہوا، عین اسی روز مذکورہ تنظیم کے ایک اہم رکن وزیر اعلیٰ ہاؤس میں ایک 'ٹھیکہ' منظور کروا رہے تھے ۔ کسی 'منچلے ' نے شرارت کر کے وزیر اعلیٰ کے ساتھ ان کی مسکراہٹ کے باہمی تبادلے والے تصویر کھینچ لی، جس پہ موصوف نہایت جز بز ہوئے۔
باوجود اس کے، عملاً صورت حال یہ ہے کہ سیاسی تنظیمیں (سرداری و غیر سرداری) سبھی بلوچستان میں موجودہ طرزِ حکومت کی سخت ناقد ہیں ۔ حتیٰ کہ اپوزیشن سے زیادہ، حکومت میں شامل جماعتیں اس تنقید میں پیش پیش ہوتی ہیں ۔ ہر دوسرے ہفتے اتحادی جماعتوں کے 'ناراض رہنماؤں 'کا اہم اجلاس منعقد ہوتا ہے، جہاں حکومت کے رویے پر شاکی احباب کی جانب سے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے مخلوط حکومت کے ساتھ اتحاد پہ 'نظر ثانی' کی دھمکی دی جاتی ہے ۔
تو یہ وہ بلوچستان ہے...جہاں امن کے ایک مختصر وقفے کے بعد اس کا دارالحکومت ایک بار پھر لہولہان ہے ۔ چاند رات سے لے کر عید کے دوسرے دن تک کوئٹہ مسلسل خون میں نہاتا رہا ۔ عید قرباں اب کی بار ہزاروں جانوروں سمیت کئی معصوم انسانوں کی قربانی بھی لے گئی ۔ ہزاروں کی نسل کشی کا تھما ہوا سلسلہ پھر سے چل پڑا ۔ اندرونِ بلوچستان تو خیر اس سلسلے کی رفتار میں فرق آتا رہتا ہے ، لیکن یہ سلسلہ مکمل طور پہ تھمتا نہیں ۔ حتیٰ کہ اس بار ایک طویل وقفے کے بعد کوئٹہ میں ایک بار پھر آبادکار حجام کی دکان کو نشانہ بنایا گیا ۔
اُدھر پنجگور میں نجی تعلیمی ادارے وزیر اعلیٰ کی مکمل یقین دہانی کے باوجود شرپسندوں کے نشانے پر رہنے کے بعد، بالآخر مکمل طور پہ بند ہو چکے ۔ جس روز وزیر اعلیٰ نے بلوچستان میں امن و امان کی بہتری کا کھل کر اظہار کیا ، اس سے اگلے روز کوئٹہ دھماکوں سے گونج اٹھا۔ یہی وزیر اعلیٰ خود پنجگور کے تین ماہ سے بند تعلیمی اداروں کو اپنے ہاتھوں سے کھول کرآئے اور سکیورٹی کی یقین دہانی کرائی، ان کے کوئٹہ پہنچتے ہی شرپسندوں نے ایک نجی اسکول کے اسٹاف روم کو آگ لگا دی ۔ تب حکومت بے بسی کا اظہار نہ کرے تو بھلا کیا کرے !
سو، یہ بلوچستان ہے ...''جہاں شرافت نہیں، ڈنڈے کا زور چلتا ہے!''یہاں ڈنڈے سے محروم حکومت خود 'ڈنڈے بازی' کا شکار ہو جاتی ہے ۔ اور حکومت کے خلاف حالیہ 'ڈنڈے بازی' یہ ہوئی ہے کہ ایک خبرکے مطابق بلوچستان کی موجودہ حکومت کا قیام 'آدھی آدھی مدت 'کے ایک معاہدے کے تحت عمل میں آیا تھا، جس کے مطابق ڈھائی برس بعد اِن ہاؤس تبدیلی کے ذریعے موجودہ جماعت کو ہٹا کر اسمبلی کی اکثریتی جماعت کو عنانِ حکومت سونپ دی جائے گی ۔اگر یہ خبر درست ہے تو سو ، اس معاہدے کے مطابق موجودہ حکومت کے پاس کوئی ایک، سوا ایک برس کا عرصہ باقی ہے۔ جس کے بعد حکومت شریف اور پڑھے لکھے لوگوں سیلے لی جائے گی ۔ تب تک بے بسی کے ساتھ، 'شرافت کی بے بسی' کا تماشا دیکھیے ۔