توکون میں کون

آج تقریباً ہر سیاسی پارٹی کے کارکن شخصیات کے گرد چاروں طرف سے چھائے ہوئے ہیں۔


فاطمہ نقوی October 13, 2014
[email protected]

کسی شہر میں دو بھائی رہتے تھے ایک بھائی بادشاہ کی نوکری کرتا اور دوسرا بھائی محنت مزدوری کرکے دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرتا۔ ایک دن بادشاہ کی نوکری کرنے والے بھائی نے غریب محنت کش بھائی سے کہا'' تو بادشاہ کی نوکری کیوں نہیں کر لیتا کہ کام کرنے کے جھنجھٹ سے ہی تیری جان چھوٹ جائے۔'' غریب بھائی نے جواب دیا'' میں بادشاہ کی نوکری اس لیے نہیں کرتا کہ مجھے کام کرکے کھانا تو منظور ہے مگر بادشاہ کی غلط باتوں میں بھی ہاں میں ہاں ملانا منظور نہیں۔''

آج جب ہم چاروں طرف ہاں میں ہاں ملاکر اربوں روپیہ کمانے والے ملازموں کو دیکھتے ہیں تو اندازہ ہوجاتا ہے کہ وہ یہ پیسہ یہ عیاشیاں صرف اور صرف بادشاہ کی ہاں میں ہاں ملاکر ہی حاصل کرتے ہیں آج تقریباً ہر سیاسی پارٹی کے کارکن شخصیات کے گرد چاروں طرف سے چھائے ہوئے ہیں۔ کیونکہ یہ All the Kings Men ہیں۔ یہ نمایاں چلتے پرزے قسم کے کارکن ہی صرف اپنے حالات بدلنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور آگے بڑھنے کا کوئی نہ کوئی راستہ تلاش بھی کرلیتے ہیں اور اس طرح سے ملک کے درپیش مسائل سے آنکھیں چرا کر صرف اپنے اپنے لیڈروں کی ہاں میں ہاں ملانے کو ہی اپنی بھلائی کا ذریعہ سمجھتے ہیں کیونکہ اگر پارٹی برسراقتدار آگئی تو یہ نمایندے اپنی خدمات کا صلہ اچھی طرح وصول کرنا جانتے ہیں۔

(رہے عوام تو ان کے لیے صرف اور صرف دل فریب نعرے ہی کافی ہیں) اسی لیے جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ کہنا ان کے بائیں ہاتھ کا کمال ہوتا ہے۔ آج جب ہم میڈیا پر مختلف لوگوں کو اپنے لیڈروں کے حق میں بیان دیتے دیکھتے ہیں تو یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ ان کے کھائے ہوئے نمک کو حلال کر رہے ہیں ورنہ تو آج کے نوجوان باشعور طبقے کو ان جعلسازوں کی تمام حرکات و سکنات سے آگاہ کردیا ہے اور اسی لیے وہ اس نظام سے بھی متنفر ہوگئے ہیں کیونکہ تبدیلی صرف شکلوں کی حد تک ہی آتی ہے کیونکہ کوئی بھی پارٹی جو حکومت بنائے اس سے عام آدمی کے حالات نہیں بدلتے اگر کوئی تبدیلی عام آدمی کے لیے آتی ہے تو وہ یہ ہے کہ اس کے حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں اور زندگی گزارنا دشوار سے دشوار تر جب کہ ارباب اختیار کے حالات پہلے سے بہتر اور مزید بہتر نظر آرہے ہیں۔

کئی سیاست دان تو ایسے بھی ہیں جو جدی پشتی رئیس نہیں بلکہ انھوں نے اپنے کیریئر کا آغاز گورنمنٹ کے محکمے میں معمولی اہلکار کی حیثیت سے شروع کیا تھا مگر سیاست اور لیڈروں کی چاکری کی بدولت آج ارب پتی ہیں اور یہ لیڈر جو عوام کے ووٹوں سے پارلیمنٹ میں رونق لگاتے ہیں مگر عام آدمی کی بہتری کی بات اس لیے نہیں کرتے کیونکہ اس سے ان کو اپنی مراعات کے جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔ وزیر اعظم جنھوں نے اقتدار حاصل کرنے کے بعد پارلیمنٹ کو اہمیت نہیں دی ، مگر خود پر مشکل پڑی تو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے پر مجبور ہوگئے، اس اجلاس میں عوام کا کروڑوں روپیہ تو ضایع ہوگیا مگر صرف ایک دوسرے پر الزام تراشی کی گئی یا اپنے اپنے لیڈران کی شان میں قلابے ملائے گئے۔

عام آدمی بھی اب باشعور ہو رہا ہے گلو بٹ کا واقعہ تو حال ہی کا ہے کہ پولیس کے ٹاؤٹ کی دیدہ دلیری سب نے دیکھی مگر اسی چاکری کی بدولت آج وہ میڈیا پر ہیرو بنا بیٹھا ہے کہ بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا۔ اب تو اس کو پارٹی بھی مل گئی اور مری میں آرام کا موقعہ بھی اور یہی وجہ ہے کہ لوگوں نے اب جاب تلاش کرنے کی بجائے کسی کا ٹاؤٹ بننے کو ترجیح دی ہے کیونکہ نام نہاد سیاسی کارکن لیڈر بن کر آسانی سے اپنے کام نکلوا سکتے ہیں۔ اسمبلی میں تحریک استحقاق پیش کردیں یا کوئی ایک فون ایسا کروا دیں جس سے محکموں کے سربراہان میں کھلبلی مچ جاتی ہے مگر آخر ایسا کب تک ہوتا رہے گا ۔

عمران خان نے تبدیلی کا نعرہ لگا کر ترسے اور مرجھائے ہوئے لوگوں بالخصوص نوجوانوں میں ایک نئی روح پھونک دی ہے لوگ کہہ رہے ہیں ان دھرنوں سے کوئی اثر ہونے والا نہیں ہے مگر ان دھرنوں، احتجاجی جلسوں کا اثر معاشرتی سوچ پر پڑ رہا ہے کیونکہ اگر پتھر پر بھی پانی کی بوند مسلسل پڑتی رہے تو وہ اس میں سوراخ کردیتی ہے اس لیے آج عوام کی سوچ میں تبدیلی کے آثار نظر آرہے ہیں وہ اس فرسودہ نظام سے نالاں نظر آرہے ہیں لوگوں نے اپنے حقوق کی پہچان شروع کردی ہے عزت، خودداری اور بے غیرتی میں فرق واضح ہونا شروع ہوگیا ہے ۔

اسی لیے سیاست کے اونچے ایوانوں اور موروثی سیاست کے علمبرداروں میں ہلچل مچ رہی ہے کہیں کارکنوں سے معافی مانگی جا رہی ہے تو کہیں دوسری سیاسی جماعتوں پر حملے کیے جا رہے ہیں تو کہیں کسی کا مذاق اڑایا جا رہا ہے بوکھلاہٹ میں سمجھ نہیں آرہا ہے کہ بھاگنے والے کارکنوں کو کیسے اکٹھا کیا جائے مگر لوگ اب ہاتھوں میں آنے والے نہیں ہیں۔ سیاسی ساکھ برقرار رکھنی ہے تو اب فرسودہ ہتھکنڈوں سے باہر نکل کر عوام کے لیے کام کرنا ہوگا بلدیاتی سطح پر اقتدار عوام کے حقیقی نمایندوں کے حوالے کرنا ہوگا ورنہ عوام صاف کہہ دیں گے تو کون ، میں کون؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں