ورلڈ کپ 2015 قومی ٹیم کی قیادت’’معمہ‘‘ بن گئی
کپتان چاہے مصباح ہوں یا میں، ہمیں معلوم ہونا چاہیے، اگر مجھے ذمے داری دینی ہے تو پہلے بتایا جائے، آفریدی
ورلڈ کپ 2015 میں قومی ٹیم کی قیادت ہنوز ' معمہ ' بنی ہوئی ہے۔
آسٹریلیا کیخلاف سیریز کے تیسرے ون ڈے میں مصباح کے ' آرام ' اور چیئرمین شہریارخان کی مشروط حمایت نے صورتحال کو نازک موڑ پر پہنچادیا، آل راؤنڈر شاہد آفریدی نے بورڈ حکام پر واضح کردیا ہے کہ کپتان چاہے مصباح ہوں یا میں، ہمیں اس بابت معلوم ہونا چاہیے، اگر مجھے ذمے داری دینی ہے تو پہلے بتایا جائے ، حالیہ پرفارمنس کے ساتھ میگا ایونٹ میں نہیں جاسکتے، دوسری جانب مصباح الحق نے بھی صورتحال کا ادراک کرلیا، ان کا کہنا ہے کہ میرے لیے پاکستان سب سے پہلے ہے، اگر اعتماد بحال کرتے ہوئے رنزاسکورکرپایا تو ساتھ رہوں گا بصورت دیگر ٹیم پر بوجھ نہیں بنوں گا اور فیصلہ کروں گا۔
آؤٹ آف فارم قومی کپتان نے اس حقیقت کا ادراک کیا کہ اگر انھیں ایک روزہ ٹیم کا کپتان برقرار رہنا ہے تو رنز اسکور کرنا ہوں گے،خراب فارم سے پریشان 40 سالہ مصباح کی جگہ آسٹریلیا سے سیریز کے اختتامی ون ڈے میں شاہد آفریدی نے قیادت کے فرائض انجام دیے تھے لیکن یہ تبدیلی بھی قومی ٹیم کی قسمت نہ بدل سکی، پی سی بی کے چیئرمین چیئرمین شہریار خان نے گذشتہ دن کہا تھا کہ قومی ایک روزہ ٹیم کی قیادت کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ سراسر مصباح کریں گے لیکن اگر مصباح قیادت چھوڑتے ہیں تو بورڈ نے اس صورتحال کی پہلے سے حکمت عملی تیار کر لی ہے، ایک روزہ ٹیم کی قیادت چھوڑنے کے سوال پر مصباح نے کہا کہ میرا ایسا کوئی ارداہ نہیں لیکن میری نظریں اگلے چار سے پانچ ٹیسٹ میچز پر مرکوز ہیں کیونکہ رنز بہت اہمیت کے حامل ہیں،انھوں نے کہا کہ میرے لیے ٹیم اور پاکستان پہلے ہے۔
اگر میں اپنا اعتماد بحال کرتے ہوئے رنز اسکور کرنے میں کامیاب رہتا ہوں تو ٹیم کے ساتھ رہوں گا لیکن ایسا کرنے میں ناکام رہا تو ٹیم پر بوجھ نہیں بنوں گا اور فیصلہ کروں گا، لیکن ساتھ ساتھ مصباح محسوس کرتے ہیں کہ ورلڈ کپ میں پاکستان کو تجربے کی ضرورت پڑے گی اور ان کی پوری کوشش ہے کہ وہ فارم بحال کر کے رنز اسکور کرتے ہوئے ٹیم میں اپنا کردار ادا کر سکیں،کپتان نے کہا کہ وہ تنقید سے نہیں گھبراتے، کبھی قسمت ساتھ دیتی ہے اور کبھی نہیں، میں کریز پر سیٹ ہوا تو رن آؤٹ ہوگیا، میرے خیال میں گزشتہ 8 اننگز کے دوران میں چار مرتبہ رن آؤٹ ہوا لیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے، مصباح نے آسٹریلیا کیخلاف آخری ایک روزہ میچ سے دستبردار کو ذاتی فیصلہ قرار دیتے ہوئے ٹیم میں کسی بھی قسم کے اختلافات کی سختی سے تردید کی۔
انھوں نے کہا کہ میں نے ذاتی طور پر ٹیم مینجمنٹ اور آفریدی سے درخواست کی تھی، کیونکہ اگلے ایک سے ڈیڑھ ماہ تک ٹیسٹ کرکٹ کھیلنی ہے اور میری فارم نہیں ہے، اس سے ٹیم کو نقصان پہنچ رہا تھا اور ہم سیریز ہار گئے لہذا میں نے سوچا کہ بہتر یہی ہے کہ میری جگہ کسی دوسرے پلیئرکو موقع دیا جائے۔دوسری جانب آسٹریلیا کے خلاف تیسرے اور اخری ایک روزہ میچ میں قائم مقام کپتان کے فرائض انجام دینے والے آل راؤنڈر شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ اگر انھیں ورلڈ کپ میں قومی ٹیم کی قیادت سونپنی ہے تو پہلے سے بتایا جائے، اس سوال پر کہ کیا آپ ورلڈ کپ تک ایک روزہ کرکٹ میں قومی ٹیم کی قیادت کرنا چاہیں گے تو آفریدی نے کہا کہ میرے خیال میں کپتان چاہے مصباح ہوں یا میں، ہمیں اس بارے میں معلوم ہونا چاہیے، اگر مجھے ورلڈ کپ میں قومی ٹیم کی قیادت دینی ہے تو پہلے سے اس بارے میں بتایا جائے۔
قومی ٹیم کے ٹی ٹوئنٹی کپتان سے جب مصباح کی جانب سے میچ نہ کھیلنے کے حوالے سے پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ پاکستان کی قیادت کوئی آسان کام نہیں، مصباح نے آرام کرنے کا فیصلہ ذاتی حیثیت میں کیا، یاد رہے کہ چیئرمین پی سی بی شہریار خان نے کہا ہے کہ یہ مصباح پر منحصر ہے کہ انھیںورلڈ کپ میں قومی ٹیم کی قیادت کرنی ہے یا نہیں لیکن بورڈ قیادت کے دیگر آپشنز کے حوالے سے بھی غور و خوض کررہا ہے، پی سی بی نے اس سے قبل مصباح کو ورلڈ کپ 2015 تک کپتان برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا تھا،آفریدی نے کہا کہ آسٹریلیا کیخلاف ٹیم کی خراب کارکردگی اور سیریز میںوائٹ واش شکست سے ٹیم کے ورلڈ کپ میں چانسز کو بری طرح نقصان پہنچا ہے، آسٹریلیا کے خلاف اخری ایک روزہ میچ جیت کر پاکستان کے پاس ساکھ بحال کرنے کا اچھا موقع تھا لیکن ٹیم آخری لمحات میں جیتی بازی ایک رن سے گنوا بیٹھی، آفریدی نے کہا کہ اس کارکردگی کے ساتھ آئندہ سال فروری اور مارچ میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی سرزمین پر ہونے والے ورلڈ کپ میں نہیں جا سکتے۔
اگر ہم یواے ای کی وکٹوں پر نہیں جیت سکتے تو ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم اس کارکردگی کے ساتھ ورلڈ کپ میں کیسے جا سکتے ہیں، یاد رہے کہ پاکستان کو اپنے آخری پانچوں میچوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا جہاں اس سے قبل سری لنکا کے خلاف پہلا میچ جیتنے کے بعد سیریز میں 2-1 سے ناکامی کا صدمہ سہنا پڑا تھا، آل راؤنڈر نے گزشتہ میچ میں بولرز کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے بیٹسمینوں کو آڑے ہاتھوں لیا، ان کا کہنا تھا کہ اگر مکمل صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو ہم نے بولرز کی محنت پر پانی پھیر دیا ، جنھوں نے آسٹریلیا کو 231 رنز تک محدود رکھا تھا، ابوظبی کی پچ پر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ 280 سے زائد رنز بنائیں گے، لیکن ہم انھیں 231 رنز تک محدود کرنے میں کامیاب رہے ۔
ہمارا اصل مسئلہ پارٹنرشپ کا نہ ہونا ہے، جب ہم شراکت بنانے لگتے تو ہماری وکٹیں گرنا شروع ہو جاتیں۔یاد رہے کہ قومی ٹیم 22 اکتوبر سے آسٹریلیا کیخلاف دبئی میں دو میچزکی سیریز کا آغاز کرے گی، اس کے بعد نیوزی لینڈ سے3 ٹیسٹ ، 5 ایک روزہ اور ایک ٹی ٹوئنٹی میچزبھی انہی میدانوں میں شیڈول ہے۔
آسٹریلیا کیخلاف سیریز کے تیسرے ون ڈے میں مصباح کے ' آرام ' اور چیئرمین شہریارخان کی مشروط حمایت نے صورتحال کو نازک موڑ پر پہنچادیا، آل راؤنڈر شاہد آفریدی نے بورڈ حکام پر واضح کردیا ہے کہ کپتان چاہے مصباح ہوں یا میں، ہمیں اس بابت معلوم ہونا چاہیے، اگر مجھے ذمے داری دینی ہے تو پہلے بتایا جائے ، حالیہ پرفارمنس کے ساتھ میگا ایونٹ میں نہیں جاسکتے، دوسری جانب مصباح الحق نے بھی صورتحال کا ادراک کرلیا، ان کا کہنا ہے کہ میرے لیے پاکستان سب سے پہلے ہے، اگر اعتماد بحال کرتے ہوئے رنزاسکورکرپایا تو ساتھ رہوں گا بصورت دیگر ٹیم پر بوجھ نہیں بنوں گا اور فیصلہ کروں گا۔
آؤٹ آف فارم قومی کپتان نے اس حقیقت کا ادراک کیا کہ اگر انھیں ایک روزہ ٹیم کا کپتان برقرار رہنا ہے تو رنز اسکور کرنا ہوں گے،خراب فارم سے پریشان 40 سالہ مصباح کی جگہ آسٹریلیا سے سیریز کے اختتامی ون ڈے میں شاہد آفریدی نے قیادت کے فرائض انجام دیے تھے لیکن یہ تبدیلی بھی قومی ٹیم کی قسمت نہ بدل سکی، پی سی بی کے چیئرمین چیئرمین شہریار خان نے گذشتہ دن کہا تھا کہ قومی ایک روزہ ٹیم کی قیادت کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ سراسر مصباح کریں گے لیکن اگر مصباح قیادت چھوڑتے ہیں تو بورڈ نے اس صورتحال کی پہلے سے حکمت عملی تیار کر لی ہے، ایک روزہ ٹیم کی قیادت چھوڑنے کے سوال پر مصباح نے کہا کہ میرا ایسا کوئی ارداہ نہیں لیکن میری نظریں اگلے چار سے پانچ ٹیسٹ میچز پر مرکوز ہیں کیونکہ رنز بہت اہمیت کے حامل ہیں،انھوں نے کہا کہ میرے لیے ٹیم اور پاکستان پہلے ہے۔
اگر میں اپنا اعتماد بحال کرتے ہوئے رنز اسکور کرنے میں کامیاب رہتا ہوں تو ٹیم کے ساتھ رہوں گا لیکن ایسا کرنے میں ناکام رہا تو ٹیم پر بوجھ نہیں بنوں گا اور فیصلہ کروں گا، لیکن ساتھ ساتھ مصباح محسوس کرتے ہیں کہ ورلڈ کپ میں پاکستان کو تجربے کی ضرورت پڑے گی اور ان کی پوری کوشش ہے کہ وہ فارم بحال کر کے رنز اسکور کرتے ہوئے ٹیم میں اپنا کردار ادا کر سکیں،کپتان نے کہا کہ وہ تنقید سے نہیں گھبراتے، کبھی قسمت ساتھ دیتی ہے اور کبھی نہیں، میں کریز پر سیٹ ہوا تو رن آؤٹ ہوگیا، میرے خیال میں گزشتہ 8 اننگز کے دوران میں چار مرتبہ رن آؤٹ ہوا لیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے، مصباح نے آسٹریلیا کیخلاف آخری ایک روزہ میچ سے دستبردار کو ذاتی فیصلہ قرار دیتے ہوئے ٹیم میں کسی بھی قسم کے اختلافات کی سختی سے تردید کی۔
انھوں نے کہا کہ میں نے ذاتی طور پر ٹیم مینجمنٹ اور آفریدی سے درخواست کی تھی، کیونکہ اگلے ایک سے ڈیڑھ ماہ تک ٹیسٹ کرکٹ کھیلنی ہے اور میری فارم نہیں ہے، اس سے ٹیم کو نقصان پہنچ رہا تھا اور ہم سیریز ہار گئے لہذا میں نے سوچا کہ بہتر یہی ہے کہ میری جگہ کسی دوسرے پلیئرکو موقع دیا جائے۔دوسری جانب آسٹریلیا کے خلاف تیسرے اور اخری ایک روزہ میچ میں قائم مقام کپتان کے فرائض انجام دینے والے آل راؤنڈر شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ اگر انھیں ورلڈ کپ میں قومی ٹیم کی قیادت سونپنی ہے تو پہلے سے بتایا جائے، اس سوال پر کہ کیا آپ ورلڈ کپ تک ایک روزہ کرکٹ میں قومی ٹیم کی قیادت کرنا چاہیں گے تو آفریدی نے کہا کہ میرے خیال میں کپتان چاہے مصباح ہوں یا میں، ہمیں اس بارے میں معلوم ہونا چاہیے، اگر مجھے ورلڈ کپ میں قومی ٹیم کی قیادت دینی ہے تو پہلے سے اس بارے میں بتایا جائے۔
قومی ٹیم کے ٹی ٹوئنٹی کپتان سے جب مصباح کی جانب سے میچ نہ کھیلنے کے حوالے سے پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ پاکستان کی قیادت کوئی آسان کام نہیں، مصباح نے آرام کرنے کا فیصلہ ذاتی حیثیت میں کیا، یاد رہے کہ چیئرمین پی سی بی شہریار خان نے کہا ہے کہ یہ مصباح پر منحصر ہے کہ انھیںورلڈ کپ میں قومی ٹیم کی قیادت کرنی ہے یا نہیں لیکن بورڈ قیادت کے دیگر آپشنز کے حوالے سے بھی غور و خوض کررہا ہے، پی سی بی نے اس سے قبل مصباح کو ورلڈ کپ 2015 تک کپتان برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا تھا،آفریدی نے کہا کہ آسٹریلیا کیخلاف ٹیم کی خراب کارکردگی اور سیریز میںوائٹ واش شکست سے ٹیم کے ورلڈ کپ میں چانسز کو بری طرح نقصان پہنچا ہے، آسٹریلیا کے خلاف اخری ایک روزہ میچ جیت کر پاکستان کے پاس ساکھ بحال کرنے کا اچھا موقع تھا لیکن ٹیم آخری لمحات میں جیتی بازی ایک رن سے گنوا بیٹھی، آفریدی نے کہا کہ اس کارکردگی کے ساتھ آئندہ سال فروری اور مارچ میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی سرزمین پر ہونے والے ورلڈ کپ میں نہیں جا سکتے۔
اگر ہم یواے ای کی وکٹوں پر نہیں جیت سکتے تو ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم اس کارکردگی کے ساتھ ورلڈ کپ میں کیسے جا سکتے ہیں، یاد رہے کہ پاکستان کو اپنے آخری پانچوں میچوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا جہاں اس سے قبل سری لنکا کے خلاف پہلا میچ جیتنے کے بعد سیریز میں 2-1 سے ناکامی کا صدمہ سہنا پڑا تھا، آل راؤنڈر نے گزشتہ میچ میں بولرز کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے بیٹسمینوں کو آڑے ہاتھوں لیا، ان کا کہنا تھا کہ اگر مکمل صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو ہم نے بولرز کی محنت پر پانی پھیر دیا ، جنھوں نے آسٹریلیا کو 231 رنز تک محدود رکھا تھا، ابوظبی کی پچ پر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ 280 سے زائد رنز بنائیں گے، لیکن ہم انھیں 231 رنز تک محدود کرنے میں کامیاب رہے ۔
ہمارا اصل مسئلہ پارٹنرشپ کا نہ ہونا ہے، جب ہم شراکت بنانے لگتے تو ہماری وکٹیں گرنا شروع ہو جاتیں۔یاد رہے کہ قومی ٹیم 22 اکتوبر سے آسٹریلیا کیخلاف دبئی میں دو میچزکی سیریز کا آغاز کرے گی، اس کے بعد نیوزی لینڈ سے3 ٹیسٹ ، 5 ایک روزہ اور ایک ٹی ٹوئنٹی میچزبھی انہی میدانوں میں شیڈول ہے۔