پاکستان ایک نظر میں میاں صاحب خدارا خود کو بدلیے
میاں صاحب پتا نہیں ایک بات ہمیشہ ذہن سے نکال دیتے ہیں کہ بادشاہ لوگوں کے دلو ں میں نہیں رہ سکتے۔
میاں صاحب چونکہ خود کاروباری مزاج رکھتے ہیں اس لیے ہر دفعہ ان کے آنے پر یہ امید بندھ جاتی ہے کہ شاید ان کے آنے سے ملکی معیشت بہتری کی طرف گامزن ہو جائے۔ لیکن ہر دفعہ یہ امیدیں ٹوٹ جاتی ہیں۔ اس کی وجہ اب میاں صاحب خود ہیں؟ ان کے نا عاقبت اندیش مشراء و وزراء ہیں؟ یا میاں صاحب کا مزاج ہے؟ یہ میاں صاحب کے علاوہ صرف اللہ ہی جانتا ہے۔
وحید کاکڑ صاحب کا فارمولہ ہو یا پھر غلام اسحٰق خان کا اختیار ۔ جب بھی میاں صاحب کی حکومت ختم ہوئی لوگوں نے شکر ادا کیا۔ لیکن پھر کچھ عرصے بعد لوگوں نے میاں صاحب کو دوبارہ موقع دیا کہ شاید ان کا مزاج کچھ تبدیل ہو گیا ہو۔ لیکن شومئی قسمت کہ ایسا کبھی نہیں ہوتا۔ میری ہمدردیاں میاں صاحب کے ساتھ ہیں کہ کبھی بھی ان کو آئینی مدت پوری کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ لیکن آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ پہلی ضرب جب مسند اقتدار پر لگی تو میاں صاحب کو ایک تھنک ٹینک بنانا چاہیے تھا جو اس بات کا تعین کرتا کہ کہیں غلطی میاں صاحب یا ان کی پارٹی کی طرف ہی تو نہیں۔ اور آئندہ جب بھی ان کو اقتدار ملتا وہ اس تھنک ٹینک کی سفارشات کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت کرتے۔ جو شاید ان کی اپنی ذات کے ساتھ ساتھ ملک کے لیے بھی بہتر ہوتا۔
میاں صاحب پتا نہیں ایک بات ہمیشہ ذہن سے نکال دیتے ہیں کہ بادشاہ لوگوں کے دلو ں میں نہیں رہ سکتے۔ میں میاں صاحب کے لیے دل سے افسوس کرتا ہوں کہ یہ مشکلات بھی سہتے ہیں ۔ قربانیاں بھی دیتے ہیں لیکن پھر بھی ان کے اقتدار میں آنے کے بعد بھی مشکلات ان کا پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ ہو سکتا ہے ان کے خلاف سازشیں بھی ہو رہی ہوں۔ لیکن میاں صاحب کو ایک دفعہ خود بھی سوچنا ہو گا کہ کہیں مسئلہ ان کے اپنے ساتھ ہی تو نہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ان کے مشیر ہی ان کو غلط مشورے دے رہے ہوں۔
امریکہ یاترا کے موقع پر جانے کس مشیر نے میاں صاحب کو والڈ روف میں ٹھہرنے کا مشورہ دیا ۔ شاید مشورہ دینے والے نے یہ دلیل دی ہو گی کہ آتے جاتے لابی میں صاحب بہادر سے ملاقات کا شرف مل سکتا ہے۔(کیوں کہ صاحب بہادر بھی اسی ہوٹل میں مقیم تھے) لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ بلکہ مہنگے ترین ہوٹل میں ٹھہرنا، تقریر کے دوران عالمی برادری کی دلچسپی نہ ہونے کے برابراور برطانیہ و امریکہ میں مظاہرین سے سامنا ہونا ایسے عوامل تھے جو اس دورے کی ناکامی کا سبب بنے۔سونے پہ سہاگہ یہ کہ پڑوسی ملک اور دیگر بعض اہم ممالک کے سربرہان نے اپنے سفارتخانوں میں رہائش اختیار کی ۔ اور پڑوسی ملک کے سربراہ کو تو سرکاری مہمان کا درجہ تک دیا گیا۔ جس سے میاں صاحب پر تنقید کے نشر مزید تیزی سے چلنا شروع ہو گئے۔
میاں صاحب کے جن مشیروں نے میاں صاحب کے اتنے مہنگے دورے کے انتظامات کیے تنقید کے جواب میں وہ کہیں نظر نہ آئے۔ میاں صاحب کے خلاف ایک مخصوص نعرے کی گونج برطانیہ و امریکہ میں بھی کم نہ ہو سکی ۔ اور ستم ظریفی یہ ہے کہ میاں صاحب جس عالمی برادری کی حمایت پہ سینہ تان کر بات کر رہے تھے اب وہ بھی قدرے پیچھے ہٹتی نظر آ رہی ہے۔
میاں صاحب کے لیے ایک اور مشکل مرحلہ یہ آن پڑا ہے کہ دھرنا پروگرام جو محض اسلام آباد تک محدود تھا اس میں بھی کچھ تبدیلی آتی نظر آ رہی ہے۔ اور خان صاحب نے طوفانی دوروں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ قادری صاحب بھی اُسی روش پر چل پڑے ہیں ۔ کراچی و لاہور کے جلسے کامیاب تصور کیے جارہے ہیں۔ اس کے علاوہ میانوالی کا ہوم گراؤنڈ پر کیا گیا جلسہ بھی کامیابی کی سند پا چکا ہے۔ملتان میں ایک سانحے کے باوجود جلسہ خطرے کی گھنٹی بجا چکا ہے۔ پنجاب حکومت کو اس بڑھتے خطرے کا احساس ہے۔ جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی بھی اگلے کچھ دنوں تک جلسوں کا اعلان کر سکتی ہیں۔ پیپلز پارٹی اس کی ابتداء اپنے 18 اکتوبر کے جلسے سے کر سکتی ہے۔ یہ رجحان ایک خطرناک صورتحال کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ دھرنے والوں پر ایک تنقید بھی تھی کہ انہوں نے ریڈ زون میں شرکاء کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ اور وہ اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے غلط راستہ اپنا رہے ہیں۔ لیکن اب جو ملک گیر جلسوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا ہےیہ نہ تو غیر قانونی ہے اور نہ ہی مخالفین کو اس سے روکا جا سکتا ہے۔ اور حیران کن طور پر خان صاحب تو مخالفین کے مرکز میں جلسے کر رہے ہیں۔ کراچی اور لاہور کے بعد لاڑکانہ میں جلسہ کرنے کا اعلان اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ حالات کی نزاکت کا اندازہ اس بیان سے لگایا جا سکتا ہے جو خورشید شاہ صاحب نے وسط مدتی انتخابات کے حوالے سے دیا ہے۔
میاں صاحب کو اب اپنے مشراء کے علاوہ اپنی قابلیت پر بھی بھروسہ کرنا ہو گا۔ ان کو اپنے مخالفین کا مقابلہ اپنے عملی اقدامات سے کرنا ہو گا۔ بجلی کی قیمت کم کر دیں۔ پٹرول سستا کر دیں۔ ملازمتوں پر سے غیر اعلانیہ پابندی کو اعلانیہ طور پر ختم کر دیں۔ کرپشن کی روک تھام کے لیے عملی اقدامات کریں۔ تعیناتیوں میں اقربا پروری حقیقی معنوں میں ختم کر کے دکھائیں۔ میٹرو کے علاوہ کچھ توجہ باقی منصوبوں پر دیں۔ ڈیمز بنائیں۔ لیپ ٹاپ تقسیم کرنے کے بجائے تعلیم کو عام کریں۔ قرضے دینے کے بجائے نوجوانوں کو ملازمتیں دیں۔ اپنے وزراء و مشرا ء پر یہ قدغن لگا دیں کہ وہ تنقید کا جواب تنقید سے نہیں بلکہ خدمت و کام کر کے دیں۔ میاں صاحب سے گذارش ہے کہ جتنی محنت آپ وزراء سے بیانات دلوانے پر کر رہے ہیں اس سے کئی گناہ کم محنت اگر قابل، محنتی اور پر عزم لوگوں کا تھنک ٹینک بنانے پر صرف کر دیں جو صرف آپ کو نیک نیتی سے مشورے دیں تو آپ کو بہت جلد مسائل سے چھٹکارا مل سکتا ہے اور یہ تھنک ٹینک کم از کم سیاستدانوں پر مشتمل نہ ہو۔ وسط مدتی انتخابات کا خوف یا پھر دھرنوں کی فکر ذہن سے نکال کر اپنی کارکردگی کو بہتر بنائیں تو شاید دھرنا پروگرام بھی اپنی افادیت کھو بیٹھے گا۔ لیکن کارکردگی شرط ہے۔ اپنی کابینہ و وزراء و مشراء میں یہ احساس اجاگر کریں کہ وہ نواز لیگ کے نہیں بلکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر ہیں۔ ان اقدامات کو آج سے نافذ کرنا شروع کر دیں تو ''گو نواز گو'' کا نعرہ کبھی سننے کو نہیں ملے گا۔ لیکن اگر ان عملی اقدامات سے پہلوتہی برقرار رہی تو پھر امریکہ یاترا یا اندرون ملک دورے کچھ فائدہ نہیں دے سکیں گے ۔ بلکہ سب کچھ ایک '' لاحاصل بھاگ دوڑ '' بن جائے گی۔ جس کا نہ آپ کی ذات کو فائدہ ہو گا نہ ہی ملک کو۔ اور نعروں کی گونج بھی پھر یقیناًآپ کے کانوں میں پڑتی رہے گی۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
وحید کاکڑ صاحب کا فارمولہ ہو یا پھر غلام اسحٰق خان کا اختیار ۔ جب بھی میاں صاحب کی حکومت ختم ہوئی لوگوں نے شکر ادا کیا۔ لیکن پھر کچھ عرصے بعد لوگوں نے میاں صاحب کو دوبارہ موقع دیا کہ شاید ان کا مزاج کچھ تبدیل ہو گیا ہو۔ لیکن شومئی قسمت کہ ایسا کبھی نہیں ہوتا۔ میری ہمدردیاں میاں صاحب کے ساتھ ہیں کہ کبھی بھی ان کو آئینی مدت پوری کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ لیکن آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ پہلی ضرب جب مسند اقتدار پر لگی تو میاں صاحب کو ایک تھنک ٹینک بنانا چاہیے تھا جو اس بات کا تعین کرتا کہ کہیں غلطی میاں صاحب یا ان کی پارٹی کی طرف ہی تو نہیں۔ اور آئندہ جب بھی ان کو اقتدار ملتا وہ اس تھنک ٹینک کی سفارشات کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت کرتے۔ جو شاید ان کی اپنی ذات کے ساتھ ساتھ ملک کے لیے بھی بہتر ہوتا۔
میاں صاحب پتا نہیں ایک بات ہمیشہ ذہن سے نکال دیتے ہیں کہ بادشاہ لوگوں کے دلو ں میں نہیں رہ سکتے۔ میں میاں صاحب کے لیے دل سے افسوس کرتا ہوں کہ یہ مشکلات بھی سہتے ہیں ۔ قربانیاں بھی دیتے ہیں لیکن پھر بھی ان کے اقتدار میں آنے کے بعد بھی مشکلات ان کا پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ ہو سکتا ہے ان کے خلاف سازشیں بھی ہو رہی ہوں۔ لیکن میاں صاحب کو ایک دفعہ خود بھی سوچنا ہو گا کہ کہیں مسئلہ ان کے اپنے ساتھ ہی تو نہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ان کے مشیر ہی ان کو غلط مشورے دے رہے ہوں۔
امریکہ یاترا کے موقع پر جانے کس مشیر نے میاں صاحب کو والڈ روف میں ٹھہرنے کا مشورہ دیا ۔ شاید مشورہ دینے والے نے یہ دلیل دی ہو گی کہ آتے جاتے لابی میں صاحب بہادر سے ملاقات کا شرف مل سکتا ہے۔(کیوں کہ صاحب بہادر بھی اسی ہوٹل میں مقیم تھے) لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ بلکہ مہنگے ترین ہوٹل میں ٹھہرنا، تقریر کے دوران عالمی برادری کی دلچسپی نہ ہونے کے برابراور برطانیہ و امریکہ میں مظاہرین سے سامنا ہونا ایسے عوامل تھے جو اس دورے کی ناکامی کا سبب بنے۔سونے پہ سہاگہ یہ کہ پڑوسی ملک اور دیگر بعض اہم ممالک کے سربرہان نے اپنے سفارتخانوں میں رہائش اختیار کی ۔ اور پڑوسی ملک کے سربراہ کو تو سرکاری مہمان کا درجہ تک دیا گیا۔ جس سے میاں صاحب پر تنقید کے نشر مزید تیزی سے چلنا شروع ہو گئے۔
میاں صاحب کے جن مشیروں نے میاں صاحب کے اتنے مہنگے دورے کے انتظامات کیے تنقید کے جواب میں وہ کہیں نظر نہ آئے۔ میاں صاحب کے خلاف ایک مخصوص نعرے کی گونج برطانیہ و امریکہ میں بھی کم نہ ہو سکی ۔ اور ستم ظریفی یہ ہے کہ میاں صاحب جس عالمی برادری کی حمایت پہ سینہ تان کر بات کر رہے تھے اب وہ بھی قدرے پیچھے ہٹتی نظر آ رہی ہے۔
میاں صاحب کے لیے ایک اور مشکل مرحلہ یہ آن پڑا ہے کہ دھرنا پروگرام جو محض اسلام آباد تک محدود تھا اس میں بھی کچھ تبدیلی آتی نظر آ رہی ہے۔ اور خان صاحب نے طوفانی دوروں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ قادری صاحب بھی اُسی روش پر چل پڑے ہیں ۔ کراچی و لاہور کے جلسے کامیاب تصور کیے جارہے ہیں۔ اس کے علاوہ میانوالی کا ہوم گراؤنڈ پر کیا گیا جلسہ بھی کامیابی کی سند پا چکا ہے۔ملتان میں ایک سانحے کے باوجود جلسہ خطرے کی گھنٹی بجا چکا ہے۔ پنجاب حکومت کو اس بڑھتے خطرے کا احساس ہے۔ جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی بھی اگلے کچھ دنوں تک جلسوں کا اعلان کر سکتی ہیں۔ پیپلز پارٹی اس کی ابتداء اپنے 18 اکتوبر کے جلسے سے کر سکتی ہے۔ یہ رجحان ایک خطرناک صورتحال کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ دھرنے والوں پر ایک تنقید بھی تھی کہ انہوں نے ریڈ زون میں شرکاء کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ اور وہ اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے غلط راستہ اپنا رہے ہیں۔ لیکن اب جو ملک گیر جلسوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا ہےیہ نہ تو غیر قانونی ہے اور نہ ہی مخالفین کو اس سے روکا جا سکتا ہے۔ اور حیران کن طور پر خان صاحب تو مخالفین کے مرکز میں جلسے کر رہے ہیں۔ کراچی اور لاہور کے بعد لاڑکانہ میں جلسہ کرنے کا اعلان اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ حالات کی نزاکت کا اندازہ اس بیان سے لگایا جا سکتا ہے جو خورشید شاہ صاحب نے وسط مدتی انتخابات کے حوالے سے دیا ہے۔
میاں صاحب کو اب اپنے مشراء کے علاوہ اپنی قابلیت پر بھی بھروسہ کرنا ہو گا۔ ان کو اپنے مخالفین کا مقابلہ اپنے عملی اقدامات سے کرنا ہو گا۔ بجلی کی قیمت کم کر دیں۔ پٹرول سستا کر دیں۔ ملازمتوں پر سے غیر اعلانیہ پابندی کو اعلانیہ طور پر ختم کر دیں۔ کرپشن کی روک تھام کے لیے عملی اقدامات کریں۔ تعیناتیوں میں اقربا پروری حقیقی معنوں میں ختم کر کے دکھائیں۔ میٹرو کے علاوہ کچھ توجہ باقی منصوبوں پر دیں۔ ڈیمز بنائیں۔ لیپ ٹاپ تقسیم کرنے کے بجائے تعلیم کو عام کریں۔ قرضے دینے کے بجائے نوجوانوں کو ملازمتیں دیں۔ اپنے وزراء و مشرا ء پر یہ قدغن لگا دیں کہ وہ تنقید کا جواب تنقید سے نہیں بلکہ خدمت و کام کر کے دیں۔ میاں صاحب سے گذارش ہے کہ جتنی محنت آپ وزراء سے بیانات دلوانے پر کر رہے ہیں اس سے کئی گناہ کم محنت اگر قابل، محنتی اور پر عزم لوگوں کا تھنک ٹینک بنانے پر صرف کر دیں جو صرف آپ کو نیک نیتی سے مشورے دیں تو آپ کو بہت جلد مسائل سے چھٹکارا مل سکتا ہے اور یہ تھنک ٹینک کم از کم سیاستدانوں پر مشتمل نہ ہو۔ وسط مدتی انتخابات کا خوف یا پھر دھرنوں کی فکر ذہن سے نکال کر اپنی کارکردگی کو بہتر بنائیں تو شاید دھرنا پروگرام بھی اپنی افادیت کھو بیٹھے گا۔ لیکن کارکردگی شرط ہے۔ اپنی کابینہ و وزراء و مشراء میں یہ احساس اجاگر کریں کہ وہ نواز لیگ کے نہیں بلکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر ہیں۔ ان اقدامات کو آج سے نافذ کرنا شروع کر دیں تو ''گو نواز گو'' کا نعرہ کبھی سننے کو نہیں ملے گا۔ لیکن اگر ان عملی اقدامات سے پہلوتہی برقرار رہی تو پھر امریکہ یاترا یا اندرون ملک دورے کچھ فائدہ نہیں دے سکیں گے ۔ بلکہ سب کچھ ایک '' لاحاصل بھاگ دوڑ '' بن جائے گی۔ جس کا نہ آپ کی ذات کو فائدہ ہو گا نہ ہی ملک کو۔ اور نعروں کی گونج بھی پھر یقیناًآپ کے کانوں میں پڑتی رہے گی۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔