پیپلز پارٹی کے جلسے کی تیاریاں عروج پر پہنچ گئیں
سندھ حکومت نے شدید سکیورٹی خدشات کے پیش نظر جلسہ کی حفاظت کے لیے خصوصی انتظامات کیے ہیں
18 اکتوبر کو کراچی میں پیپلز پارٹی کے جلسہ کی تیاریاں زوروشور سے جاری ہیں۔
پیپلز پارٹی کی پوری قیادت جلسے کو کامیاب بنانے کے لیے انتظامات میں مصروف ہے اور اس کی یہ کوشش ہے کہ جلسہ میں لوگ زیادہ سے زیادہ تعداد میں شرکت کریں کیونکہ یہ وہ جلسہ ہے جو 7 سال پہلے 18 اکتوبر 2007 ء کو نہیں ہو سکا تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ 7 سال پہلے شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کا تاریخی استقبال ہوا تھا اور بعض قوتوں کو یہ برداشت نہیں ہوا اور انہوں نے دہشت گردی کر کے نہ صرف جمہوریت کے قافلے کو روک دیا تھا بلکہ بے گناہ لوگوں کو بھی شہید کر دیا تھا ۔
پیپلز پارٹی کی قیادت نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ بلاول بھٹو زرداری اسی روکے گئے قافلے کو لے کر آگے بڑھیں گے اور وہیں سے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کریں گے۔ اس لیے پیپلز پارٹی کی قیادت اس جلسے کو اپنے لیے ایک بہت بڑا چیلنج تصور کرتی ہے ۔ وہ چاہتی ہے کہ جلسے میں عوام کی بھرپور شرکت سے یہ محسوس ہو کہ یہ 18 اکتوبر 2007ء والا جلسہ ہے ۔ اسی بات کو مد نظر رکھ کر تیاریاں بھی کی جا رہی ہیں ۔
اس بات کی امید کی جا رہی ہے کہ جلسہ میں سندھ سمیت پورے ملک سے لوگ شرکت کریں گے۔ پنجاب ، آزاد کشمیر ، گلگت بلتستان ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے قافلے آنے کی توقع کی جا رہی ہے۔ لوگوں کی بڑی تعداد میں آمد کے پیش نظر جلسہ گاہ میں بڑے پیمانے پر انتظامات کیے جا رہے ہیں۔ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے مزارکے سامنے شاہراہ قائدین پر یہ جلسہ منعقد ہو گا لیکن چاروں طرف کی شاہراہوں پر لاوڈ اسپیکرز اور بڑی بڑی اسکرینز نصب کی جائیں گی ۔
جلسہ گاہ کے ارد گرد دو مربع میل تک گاڑیاں پارک کرنے کی اجازت نہیں ہو گی ۔ دو میل کے دائرے سے باہر تمام کھلی جگہوں اور پارکس وغیرہ کو پارکنگ کے طور پر استعمال کیا جائے گا ۔ اندرون ملک سے آنے والی گاڑیوں کے لیے ایک ٹریفک پلان مرتب کیا جا رہا ہے۔ ٹریفک کو کنٹرول کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کے 1500 کارکن خدمات انجام دیں گے۔ سپرہائی وے پر کاٹھور کے مقام پر جبکہ نیشنل ہائی وے پر گھگھر پھاٹک پر پیپلز پارٹی کے استقبالیہ کیمپ قائم کیے جائیں گے۔ ان استقبالیہ کیمپوں سے مختلف اضلاع کے گاڑیوں کے قافلوں کو پیپلز پارٹی کے کارکن کراچی شہر میں ان کے مخصوص پارکنگ ایریاز میں لے آئیں گے۔ پارکنگ سے لوگ پیدل جلسہ گاہ پہنچیں گے اور جلسہ ختم ہونے کے بعد واپس بھی پیدل اپنی گاڑیوں تک جائیں گے تاکہ کوئی بد نظمی نہ ہو اور ملتان جیسا کوئی سانحہ رونما نہ ہو سکے۔
بلاول بھٹو زرداری ٹرک میں جلسہ گاہ پہنچیں گے۔ اس جلسہ کے حوالے سے کراچی سمیت پورے سندھ میں زبردست جوش و خروش پایا جاتا ہے ۔ سندھ کے ہر گوٹھ ، قصبے اور شہر سے گاڑیاں روانہ ہوں گی ۔ ہر ضلع میں تمام گاڑیاں ایک مقام پر جمع ہوں گی اور پھر مقامی رہنماؤں کی قیادت میں قافلوں کی صورت میں ایک ساتھ نکلیں گی۔ ہر ضلع کی سطح پر ضلعی عہدیداران اور منتخب ارکان اسمبلی کارکنوںکے ساتھ اجلاس منعقد کر رہے ہیں اور عوامی رابطہ مہم چلا رہے ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما سید اویس مظفر18 اکتوبر کے جلسہ کے حوالے سے ٹھٹھہ اور سجاول سے تعلق رکھنے والے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور ضلعی عہدیداروں کے ساتھ روزانہ کی بنیاد پر اجلاس منعقد کر رہے ہیں جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ ان دونوں اضلاع سے زیادہ سے زیادہ لوگ جلسہ میں لے جانے کے لیے انتظامات کیے جائیں گے۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو اس ملک کے مظلوموں ، غریبوں ، مزدوروں ، کسانوں اور یوتھ کی واحد امید ہیں، یہ جلسہ اس ملک میں سیاست کو ایک نیا رخ دے گا ۔ اجلاس میں ارباب وزیر میمن ، ڈاکٹرعبدالواحد سومرو ، عثمان ملکانی ، ارباب رمیز الدین ، خواجہ الطاف، عثمان جلبانی ، ریحانہ لغاری ، رخسانہ شاہ ، انجینئر تیمور سیال ، شبیر قریشی، امتیاز قریشی، اقبال چانڈیو اور پیر رحمانی نے شرکت کی ۔ سید اویس مظفر نے کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی جمہوریت پر مکمل یقین رکھتی ہے اور اس نے ہر دور میں جمہوری نظام کے لیے قربانیاں پیش کی ہیں، 18 اکتوبر کا دن بھی ایک ایسا ہی دن ہے جب پاکستان پیپلزپارٹی کی چیئرپرسن شہید محترمہ بے نظیر بھٹو تمام تر دھمکیوں کے باوجود اس ملک میں جمہوریت کے استحکام کی خاطر اپنی جلاوطنی ختم کرکے واپس تشریف لائیں تو ان پر بزدل دہشت گردوں نے جان لیوا حملہ کیا تاہم پاکستان پیپلزپارٹی کے جیالے کارکنوں نے اپنی جانیں قربان کرکے اپنی قائد کو بچایا اور یہ ثابت کیا کہ پیپلزپارٹی کی قیادت اور اس کے کارکن جمہوریت کے لیے لازم و ملزوم ہیں ۔
انھوں نے کہا کہ 18 اکتوبر کو لاکھوں پاکستانی چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کا خطاب سننے کے لیے بے چین ہیں، یہ جلسہ کراچی میں ہونے والے اب تک کے تمام جلسوں کا ریکارڈ توڑ دے گا۔ انھوں نے کہا کہ کراچی پاکستان پیپلزپارٹی کا اہم قلعہ ہے اور یہاں کی ترقی میں پیپلزپارٹی نے سب سے زیادہ کام کیا ہے۔ ٹھٹھہ اور سجاول سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی اور عہدیداروں نے اس موقع پر بتایا کہ سندھ کے عوام چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹوزرداری کا خطاب سننے کے لیے بے چین ہیں اور ایک سمندر مزار قائد پر پہنچنے کے لیے بے تاب نظر آتا ہے، اجلاس میں جلسے کی تیاریوں کے حوالے سے معاملات کو حتمی شکل بھی دی گئی۔
سندھ حکومت نے شدید سکیورٹی خدشات کے پیش نظر جلسہ کی حفاظت کے لیے خصوصی انتظامات کیے ہیں۔ اس ضمن میں سکیورٹی اداروں اور سندھ پولیس کے ساتھ کئی اجلاس منعقد کیے گئے ہیں ، جن میں جلسہ گاہ اور ارد گرد کی سکیورٹی کا پلان وضع کر لیا گیا ہے ۔ اس مرتبہ پیپلز پارٹی کی اپنی صوبائی حکومت ہے ۔ وفاقی حکومت کے سکیورٹی اداروں کی بھی اس حوالے سے مشاورت اور معاونت حاصل کی جا رہی ہے۔ یہ جلسہ پر امن طور پر منعقد ہو جاتا ہے تو اس کے پاکستان کی سیاست پر انتہائی گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔
پیپلز پارٹی کی پوری قیادت جلسے کو کامیاب بنانے کے لیے انتظامات میں مصروف ہے اور اس کی یہ کوشش ہے کہ جلسہ میں لوگ زیادہ سے زیادہ تعداد میں شرکت کریں کیونکہ یہ وہ جلسہ ہے جو 7 سال پہلے 18 اکتوبر 2007 ء کو نہیں ہو سکا تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ 7 سال پہلے شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کا تاریخی استقبال ہوا تھا اور بعض قوتوں کو یہ برداشت نہیں ہوا اور انہوں نے دہشت گردی کر کے نہ صرف جمہوریت کے قافلے کو روک دیا تھا بلکہ بے گناہ لوگوں کو بھی شہید کر دیا تھا ۔
پیپلز پارٹی کی قیادت نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ بلاول بھٹو زرداری اسی روکے گئے قافلے کو لے کر آگے بڑھیں گے اور وہیں سے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کریں گے۔ اس لیے پیپلز پارٹی کی قیادت اس جلسے کو اپنے لیے ایک بہت بڑا چیلنج تصور کرتی ہے ۔ وہ چاہتی ہے کہ جلسے میں عوام کی بھرپور شرکت سے یہ محسوس ہو کہ یہ 18 اکتوبر 2007ء والا جلسہ ہے ۔ اسی بات کو مد نظر رکھ کر تیاریاں بھی کی جا رہی ہیں ۔
اس بات کی امید کی جا رہی ہے کہ جلسہ میں سندھ سمیت پورے ملک سے لوگ شرکت کریں گے۔ پنجاب ، آزاد کشمیر ، گلگت بلتستان ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے قافلے آنے کی توقع کی جا رہی ہے۔ لوگوں کی بڑی تعداد میں آمد کے پیش نظر جلسہ گاہ میں بڑے پیمانے پر انتظامات کیے جا رہے ہیں۔ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے مزارکے سامنے شاہراہ قائدین پر یہ جلسہ منعقد ہو گا لیکن چاروں طرف کی شاہراہوں پر لاوڈ اسپیکرز اور بڑی بڑی اسکرینز نصب کی جائیں گی ۔
جلسہ گاہ کے ارد گرد دو مربع میل تک گاڑیاں پارک کرنے کی اجازت نہیں ہو گی ۔ دو میل کے دائرے سے باہر تمام کھلی جگہوں اور پارکس وغیرہ کو پارکنگ کے طور پر استعمال کیا جائے گا ۔ اندرون ملک سے آنے والی گاڑیوں کے لیے ایک ٹریفک پلان مرتب کیا جا رہا ہے۔ ٹریفک کو کنٹرول کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کے 1500 کارکن خدمات انجام دیں گے۔ سپرہائی وے پر کاٹھور کے مقام پر جبکہ نیشنل ہائی وے پر گھگھر پھاٹک پر پیپلز پارٹی کے استقبالیہ کیمپ قائم کیے جائیں گے۔ ان استقبالیہ کیمپوں سے مختلف اضلاع کے گاڑیوں کے قافلوں کو پیپلز پارٹی کے کارکن کراچی شہر میں ان کے مخصوص پارکنگ ایریاز میں لے آئیں گے۔ پارکنگ سے لوگ پیدل جلسہ گاہ پہنچیں گے اور جلسہ ختم ہونے کے بعد واپس بھی پیدل اپنی گاڑیوں تک جائیں گے تاکہ کوئی بد نظمی نہ ہو اور ملتان جیسا کوئی سانحہ رونما نہ ہو سکے۔
بلاول بھٹو زرداری ٹرک میں جلسہ گاہ پہنچیں گے۔ اس جلسہ کے حوالے سے کراچی سمیت پورے سندھ میں زبردست جوش و خروش پایا جاتا ہے ۔ سندھ کے ہر گوٹھ ، قصبے اور شہر سے گاڑیاں روانہ ہوں گی ۔ ہر ضلع میں تمام گاڑیاں ایک مقام پر جمع ہوں گی اور پھر مقامی رہنماؤں کی قیادت میں قافلوں کی صورت میں ایک ساتھ نکلیں گی۔ ہر ضلع کی سطح پر ضلعی عہدیداران اور منتخب ارکان اسمبلی کارکنوںکے ساتھ اجلاس منعقد کر رہے ہیں اور عوامی رابطہ مہم چلا رہے ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما سید اویس مظفر18 اکتوبر کے جلسہ کے حوالے سے ٹھٹھہ اور سجاول سے تعلق رکھنے والے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور ضلعی عہدیداروں کے ساتھ روزانہ کی بنیاد پر اجلاس منعقد کر رہے ہیں جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ ان دونوں اضلاع سے زیادہ سے زیادہ لوگ جلسہ میں لے جانے کے لیے انتظامات کیے جائیں گے۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو اس ملک کے مظلوموں ، غریبوں ، مزدوروں ، کسانوں اور یوتھ کی واحد امید ہیں، یہ جلسہ اس ملک میں سیاست کو ایک نیا رخ دے گا ۔ اجلاس میں ارباب وزیر میمن ، ڈاکٹرعبدالواحد سومرو ، عثمان ملکانی ، ارباب رمیز الدین ، خواجہ الطاف، عثمان جلبانی ، ریحانہ لغاری ، رخسانہ شاہ ، انجینئر تیمور سیال ، شبیر قریشی، امتیاز قریشی، اقبال چانڈیو اور پیر رحمانی نے شرکت کی ۔ سید اویس مظفر نے کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی جمہوریت پر مکمل یقین رکھتی ہے اور اس نے ہر دور میں جمہوری نظام کے لیے قربانیاں پیش کی ہیں، 18 اکتوبر کا دن بھی ایک ایسا ہی دن ہے جب پاکستان پیپلزپارٹی کی چیئرپرسن شہید محترمہ بے نظیر بھٹو تمام تر دھمکیوں کے باوجود اس ملک میں جمہوریت کے استحکام کی خاطر اپنی جلاوطنی ختم کرکے واپس تشریف لائیں تو ان پر بزدل دہشت گردوں نے جان لیوا حملہ کیا تاہم پاکستان پیپلزپارٹی کے جیالے کارکنوں نے اپنی جانیں قربان کرکے اپنی قائد کو بچایا اور یہ ثابت کیا کہ پیپلزپارٹی کی قیادت اور اس کے کارکن جمہوریت کے لیے لازم و ملزوم ہیں ۔
انھوں نے کہا کہ 18 اکتوبر کو لاکھوں پاکستانی چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کا خطاب سننے کے لیے بے چین ہیں، یہ جلسہ کراچی میں ہونے والے اب تک کے تمام جلسوں کا ریکارڈ توڑ دے گا۔ انھوں نے کہا کہ کراچی پاکستان پیپلزپارٹی کا اہم قلعہ ہے اور یہاں کی ترقی میں پیپلزپارٹی نے سب سے زیادہ کام کیا ہے۔ ٹھٹھہ اور سجاول سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی اور عہدیداروں نے اس موقع پر بتایا کہ سندھ کے عوام چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹوزرداری کا خطاب سننے کے لیے بے چین ہیں اور ایک سمندر مزار قائد پر پہنچنے کے لیے بے تاب نظر آتا ہے، اجلاس میں جلسے کی تیاریوں کے حوالے سے معاملات کو حتمی شکل بھی دی گئی۔
سندھ حکومت نے شدید سکیورٹی خدشات کے پیش نظر جلسہ کی حفاظت کے لیے خصوصی انتظامات کیے ہیں۔ اس ضمن میں سکیورٹی اداروں اور سندھ پولیس کے ساتھ کئی اجلاس منعقد کیے گئے ہیں ، جن میں جلسہ گاہ اور ارد گرد کی سکیورٹی کا پلان وضع کر لیا گیا ہے ۔ اس مرتبہ پیپلز پارٹی کی اپنی صوبائی حکومت ہے ۔ وفاقی حکومت کے سکیورٹی اداروں کی بھی اس حوالے سے مشاورت اور معاونت حاصل کی جا رہی ہے۔ یہ جلسہ پر امن طور پر منعقد ہو جاتا ہے تو اس کے پاکستان کی سیاست پر انتہائی گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔