پاکستانی خبردار رہیں
ہمارے حکمرانوں کے پاس زر و جواہر کا کوئی اندازہ نہیں ان کی کلائی کی گھڑی تک بھی کروڑوں روپوں کی ہوتی ہے۔
بھارت کی طرف سے پاکستان کی مار کٹائی جاری ہے اور بقول امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق اس پر دو ماہ گزر چکے ہیں۔ جماعت اسلامی والے تو غلط قسم کی باتیں بناتے ہیں۔ عمر قید اور پھانسی وغیرہ ان کا معمول اور پرانی عادت ہے جو ہمیں ہرگز پسند نہیں۔ اس وقت ہم صرف بھارت کی بات کرتے ہیں جس کے ہر لیڈر کی زبان پر ہماری ہزار سالہ حکمرانی کا شکوہ جاری رہتا ہے۔
بھارت نے ہم سے اپنی ہزار سالہ مبینہ غلامی کا پہلا بدلہ سقوط ڈھاکہ کی صورت میں لیا اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے انکشاف کیا کہ وہ مسلمانوں کے ہزار برس تک غلام رہے اور اس طویل غلامی کا بدلہ تھا۔ اب اندرا کے جانشین مودی صاحب نے کچھ رعایت کی ہے اور کہا ہے کہ ہم 99 برس تک مسلمانوں کے غلام رہے اور ہمیں اس غلامی کا بدلہ لینا ہے۔ یہ دو ماہ سے ہماری ٹھکائی اس بدلے کا آغاز ہے اور انھوں نے صحیح موقع تلاش کیا ہے کہ ہمارے نئے حکمران بھارت کے اس قدر باجگزار اور تابعدار ہیں کہ اُف تک نہیں کرتے۔ بھارت کو ہمارے خلاف غیر مسلم دنیا کی ہمیشہ تائید رہی ہے۔ پہلے سوویت یونین اور اب امریکا بھارت کے سرپرست ہیں اور اسے بھارت کی خواہش کے مطابق اسلحہ دے رہے ہیں۔ بات یہ ہے کہ اسلحہ اپنی جگہ بہت اہم ہے۔
گولی کی جگہ پتھر تو نہیں مارا جا سکتا لیکن مسلمانوں کے پاس ایک اور اسلحہ بھی ہوتا ہے اور جنگوں کے دوران دنیا نے یہ دوسرا اسلحہ بھی دیکھا۔ سوویت یونین کے ایٹمی بموں کے ذخیرے گوداموں میں سڑتے رہ گئے اور بندوق والے افغانوں نے نہ صرف سوویت یونین کو جنگ میں شکست دی بلکہ اس کا نام و نشان تک مٹا دیا۔ چشم فلک نے اتنا بڑا معجزہ پہلی بار دیکھا اور یہ بظاہر اس قدر غیر یقینی تھا کہ اسے پریشان ذہن لوگوں نے امریکی جنگی مدد کی وجہ قرار دیا گیا لیکن کوئی نہیں بتاتا کہ اب جب اس میدان سے امریکا بھاگ رہا ہے تو آج کے افغانوں کو کس کی مدد حاصل ہے۔ بات یہ ہے کہ مسلمان مجاہد کے بازوؤں کے علاوہ اس کے اندر ایک ایسا ناقابل شکست جذبہ زندہ ہوتا ہے ایک ایسا اسلحہ ہوتا ہے جو ایمان سلامت رہے تو کبھی شکست نہیں کھاتا۔
اسی جذبے کا نام اللہ و رسولؐ کی راہ میں جہاد ہے اور بھارت کا ہندو تو کوئی شے ہی نہیں اگر وہ کوئی شے ہے تو اسے ہمارے حکمرانوں نے بنا رکھا ہے جو سوائے تجارت کے کچھ اور نہیں جانتے۔ مجھے تو ڈر لگتا ہے کہ کہیں یہ سوداگر بھارت کے ساتھ پاکستان کا سودا بھی نہ کر لیں۔ ایک مفکر اور معاشرتی علوم کے ماہر تھے ابن خلدون۔ انھوں نے اپنی زندہ جاوید کتاب مقدمہ تاریخ میں لکھا تھا کہ کسی ملک کا اقتدار کبھی کسی تاجر کو نہ دو وہ اسے بھی مال کی تجارت سمجھے گا اور ہمارے حکمرانوں کی حالت دیکھ کر ایک شاعر نے اسے یوں بیان کیا ہے
سوائے زر نہیں کچھ بھی امیر شہر کے پاس
کوئی اب اس سے زیادہ غریب کیا ہو گا
ہمارے حکمرانوں کے پاس زر و جواہر کا کوئی اندازہ نہیں ان کی کلائی کی گھڑی تک بھی کروڑوں روپوں کی ہوتی ہے لیکن جہانبانی انسانی تاریخ کا مشکل ترین فن ہے۔ پیغمبر اسے بھی سکھانے کے لیے آتے ہیں اور یہ فن دولت کا نہیں عقل اور فراست کا محتاج ہے۔ ہمارے پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی فراست کے ساتھ جو ٹیم تیار کی اس نے جہانبانی کی نئی تاریخ لکھ دی۔ غیر ملکوں کے سفیر جب مدینہ میں حاضری دیتے تھے یا مسلمانوں کے امیر جب کسی دوسرے ملک میں جاتے تھے تو ان کے قدموں کے نیچے زمین کانپتی تھی۔ زمین اپنے اوپر اتنے بڑے حکمران انسانوں کو دیکھ کر کانپ اٹھتی تھی کہ میں ان قدموں کا احترام کس طرح کروں۔
یہ سب اس لیے تھا کہ یہ حکمران نہ صرف ریاست بلکہ ریاست کے ایک ایک باشندے کے نگہبان ہوتے تھے۔ خلفائے راشدین سے بعد میں آنے والے ایک حکمران کا زمانہ تھا جب خرابی عروج پر پہنچی تھی اور اس حکمران نے اسے فرو اور ختم کرایا تھا اس کے زمانے میں دمشق کے قریب ایک ریوڑ کی بکری کو بھیڑیا کھا گیا۔ ریوڑ کے مالک نے واویلا مچا دیا۔ اس پر اس کے بیٹے نے کہا کہ بابا یہ تو ہمارے ساتھ ہوتا ہی رہتا ہے آپ کیوں اس قدر فریادی ہیں۔
اس کے جواب میں بوڑھے نے کہا کہ بیٹا میں ایک بکری کو نہیں اپنے حکمران کو رو رہا ہوں۔ میرا امیر المومنین فوت ہو گیا ہے بعد میں پتہ چلا کہ خلیفہ عمر بن عبدالعزیز اسی وقت انتقال کر گئے تھے۔ یہ وہ مسلمان حکمران تھے وہ نہیں تھے جو بزدلی اور مفاد پرستی کے عروج پر ہوں۔ ملک کی سرحدوں کے بیسیوں گاؤں کے رہائشی گھر بار چھوڑ چکے ہوں اور شہادتوں کا سلسلہ جاری ہو لیکن بمشکل دو چار لفظ اگر کہے بھی جائیں تو وہ بھی اقوام متحدہ جیسے ایک نمائشی ادارے سے کہ دیکھیں بھارت ہمارے ساتھ کیا سلوک کر رہا ہے۔
اصل میں سچ تو یہ ہے کہ یہ بھی بھارت کی مہربانی ہے کہ وہ نرم سلوک کر رہا ہے ورنہ کمزور جب طاقت پکڑتا ہے تو وہ بڑا ظالم ہوتا ہے۔ اپنی ہر کسر پوری کرتا ہے۔ بھارت کی روح ابھی آزاد نہیں ہوئی اس کو معلوم ہے کہ سقوط ڈھاکہ ہو یا کچھ اور سب مسلمانوں کی غداریوں کا نتیجہ ہے نہ کہ بھارت کی طاقت کا۔
پاکستانیوں کو خبردار رہنا چاہیے کہ حالات صرف سرحدی بدامنی تک محدود نہیں ہوں گے اور ہمارا ملک محفوظ ہاتھوں میں نہیں ہے۔ ایسے موقعوں پر عربی زبان کا ایک جملہ بولا جاتا ہے کہ ہماری ذمے داری تو صرف بات پہنچا دینی تھی۔