پرانا ناپرساں اور نیا ناپرساں

سیاست کی منڈی اجڑی ہوئی تھی، جمہوریت کی ماں مر چکی تھی، شاخ پر الو بیٹھا اور کوا کائیں کائیں کرتا تھا۔

barq@email.com

ہمارے چینل ''ہیاں سے ہواں تک'' کے ناظرین کو یہ علم تو ہو ہی چکا ہے کہ جس جگہ آج کل نیا نکور، رنگ رنگیلا، ہرا ہریلا، بھرا بھریلا، چمکتا دمکتا، لشکارے مارتا ہوا اور لہلہاتا ہوا ''ناپرساں'' ہے یہاں پہلے ایک بہت ہی ٹوٹا پھوٹا، موٹا جھوٹا، گلاسٹر خستہ و شکستہ، دراڑ، دراڑ، کھنڈر کھنڈر پرانا ناپرساں ہوا کرتا تھا جس میں ہر طرف ظلم و ستم کا بازار گرم تھا۔ سیاست کی منڈی اجڑی ہوئی تھی، جمہوریت کی ماں مر چکی تھی، شاخ پر الو بیٹھا اور کوا کائیں کائیں کرتا تھا۔ گلی گلی، گاؤں گاؤں، شہر شہر گدھے خچر لوٹتے تھے۔ کتے بھونکتے تھے اور گیدڑ چلاتے تھے، طرح طرح کے امراض اسے لاحق تھے۔

لیڈریا، وزیریا، ممبریریا، فنڈیریا اور گنڈیریا اسے چمٹے ہوئے تھے اس کے پیٹ میں کیڑے ہی کیڑے تھے جس میں کدو دانے، خربوز دانے، وزیر دانے، لیڈر دانے، منتخب نمایندانے، کرپشن دانے اور نہ جانے کیا کیا دانے شامل تھے اور یہ سارے امراض بہت پرانے مرض اور پیچیدہ ہو چکے، طرح طرح کے حکماء اطباء معالجا، نجات دہندے اور مصلحین آئے لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی... اور بری بات یہ تھی کہ کوئی اس پر ''رحمت خدا کی'' بھی نہیں کہہ رہا تھا دراصل اس کی تعمیر ہی میں مضمر ایک صورت خرابی کی تھی۔ الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا لیکن اس سے پہلے کہ یہ تباہی کے اس دہانے میں جا کر گرتا جس پر یہ عرصہ اٹھاسٹھ سال سے کھڑا جھول رہا تھا، اچانک لوگوں کی دعائیں مستجاب ہوئیں، بندہ پریشان اللہ مہربان کے مصداق پردہ غیب سے دو نجات دہندے ایک ساتھ ظاہر ہوئے اور ایک ساتھ ایک نسخہ کیمیا لائے جس کا طبی نام ''دھرنا'' تھا اور عام زبان میں امرت دھارا کہلاتا تھا۔

زباں پہ بار خدایا یہ کس کا نام آیا
کہ میرے نطق نے بوسے مری زباں کے لیے

زباں کے بوسے اس لیے کہ زبان پر یہ نام آتے ہی بتاشے کی طرح یوں گھل جاتا ہے... اس عظیم الشان ''دھرنا دی انقلاب'' کے نتیجے میں پرانے سال خوردہ دیمک زدہ گلے سڑے ناپرساں کی جگہ نیا ناپرساں وجود میں آیا، جو یہ تو ہم پہلے بھی بتا چکے ہیں کہ اس کا نام بھی خداداد سے بدل کر ''اللہ داد'' رکھا گیا لیکن اس واقعہ عظیم کی پوری پوری تفصیل شان نزول اور وجہ تسمیہ ابھی تک کسی کو معلوم نہیں ہے اس لیے چینل ''ہیاں سے ہواں تک'' کے مشہور بلکہ بدنام زمانہ ٹاک شو چونچ بہ چونچ میں آج اس پر چرچا کر رہے ہیں جس کے لیے ہم نے مملکت ناپرساں کے سب سے بڑے دھرنا نگار، جناب دھرنا دھرن دھرلی صاحب کو بلایا ہے۔ باقی دو ماہرین کو تو آپ جانتے ہیں کہ ان کا کاٹا پانی بھی نہیں مانگتا، یعنی جناب علامہ بریانی و پلاؤ و زردہ، عرف برڈ فلو ماہر تعویزات و عملیات و غذائیات و ازدواجیات... اور قہر خداوندی چشم گل چشم عرف ڈینگی مچھر۔

اینکر : ہاں تو جناب دھرنا دھرن صاحب... آج کل مملکت اللہ داد ناپرساں میں یہ جو جشن عظیم برپا ہے اس کے آگے پیچھے اور اوپر نیچے ذرا اچھی طرح روشنی ڈالیے
دھر : اس سلسلے میں سب سے پہلے ہمیں ناپرساں کی تاریخ پر روشنی ڈالنا ہو گی کوئی اٹھاسٹھ سال قبل کی بات ہے۔

اینکر : ذرا ٹھہریئے... یہ قبل دھرنا کا کیا مطلب ہے؟
دھر : قبل دھرنا اس تاریک دور کو کہا جاتا ہے جب دھرنا نے ناپرساں کو منور نہیں کیا تھا۔

علامہ : قبل مسیح اور بعد از مسیح یعنی بیفور کرائسٹ اور آفٹر کرائسٹ تو سنا تھا لیکن یہ قبل دھرنا اور بعد از دھرنا؟
چشم : نئے امریکی کیلنڈر بیفور نائن الیون اور آفٹر نائن الیون کے بارے میں بھی پتہ ہے لیکن...
دھر : میں سمجھاتا ہوں عیسوی کیلنڈر کوکرائسٹ یعنی حضرت مسیح کی پیدائش سے شروع کیا جاتا ہے، مسیح سے پہلے کے زمانوں کو قبل مسیح اور بعد کے سالوں کو بعد از مسیح کہا جاتا ہے۔
علامہ : ہاں اور مختصر طور پر اسے اردو میں (ق م) اور (ب م) کہا جاتا ہے اور انگریزی میں بی سی اور اے سی سے لکھا جاتا ہے۔

چشم : لیکن یہ قبل دھرنا اور بعد دھرنا... یعنی (ق د) اور (ب د) کیا ہے؟

دھر : وہی تو سمجھا رہا ہوں، مملکت ناپرساں میں اپنا نیا کیلنڈر چلتا ہے جس کا نام دھرنا کیلنڈر ہے۔ دھرنے سے پہلے کے واقعات (ق د) کہلاتے ہیں اور بعد کے سالوں کے لیے (ب د) کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں کیوں کہ پرانے ناپرساں کو ڈی مالش اور ڈسٹرائے کرنے کے بعد اس کی راکھ سے جو نیا بچہ نیا ناپرساں نکل آیا ، اس کا نعرہ تھا جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو۔
علامہ : مطلب یہ کہ نئے ناپرساں میں بکرمی، عیسوی، ہجری اور شمسی کیلنڈروں کی طرح نیا کیلنڈر ''دھرناوی'' چل رہا ہے۔
چشم : اب سمجھا۔
دھر : چنانچہ اس دھرنا وی کیلنڈر کے مطابق سن اٹھاسٹھ قبل دھرنا... میں جب ناپرساں کا وجود قائم ہو گیا تو پہلے ہی دن سے اس کی تعمیر میں اک صورت خرابی کی پیدا ہو گئی۔ چنانچہ روز بروز اس کی حالت خراب ہونے لگی کیوں کہ بے شمار قسم کے کیڑے اس کا خون چوستے تھے۔ کدو دانے، توری دانے، وزیر دانے، مشیر دانے، افسر دانے، منتخب دانے اور سردار دانے

علامہ : سردار دانے کون سے کیڑے ہوتے ہیں؟
دھر : یہ سب سے زیادہ خطرناک کیڑے ہوتے ہیں، ایک مرتا ہے تو دس انڈے لا لاروے چھوڑ جاتا ہے اور کسی بھی دوا سے یہ فنا نہیں ہوتے نہ جمہوریت سے، نہ قانون سے، نہ آئین سے نہ مذہب سے اور نہ ''مارنے'' سے۔
چشم : بڑے خطرناک کیڑے ہیں۔
دھر : یوں سمجھ لو کہ ہرکولیس کی عفریت کی طرح ایک سر کاٹو تو اس کی جگہ دس نکل آتے ہیں۔
اینکر : تم دونوں چپ رہو اور جناب دھرنا وی کو بولنے دو۔

دھر : اس پرانے روگی ناپرساں کے بہت سارے علاج معالجے کیے گئے ''کیڑوں'' کا ایک خاندان ختم ہوتا ہے تو دوسرا پیدا ہو جاتا ہے اور انڈے بچے دینے لگتا ہے۔
علامہ : پھر کیا ہوا؟
دھر : پھر وہی ہوا جو منظور خدا ہوا۔ خدا کی رحمت جوش میں آئی اور ایک بھی نہیں دو دو نجات دہندے بیک وقت پیدا ہوئے، یعنی ''چپڑیاں'' اور وہ بھی دو دو... ایک کے ہاتھ میں انقلاب تھا تو دوسرے کے ہاتھ میں نیا ناپرساں ۔
علامہ : کمال ہے اتنا بڑا کام... کیسے ہو گیا، ایک پوری نئی مملکت کی تعمیر کسی معجزے سے کم نہیں۔
دھر : یہ اس لیے ہوا کہ ایک نجات دہندے کو آسمان کی تائید حاصل تھی اور دوسرے کو زمین... ایک کے ساتھ خدائی مدد شامل حال تھی تو دوسرے کو انسانوں کا سپورٹ حاصل تھا، اور پھر ان دونوں نے ہتھیار بھی بڑا زبردست استعمال کیا تھا۔
اینکر : کون سا ہتھیار، کوئی بم یا راکٹ یا میزائل
دھر : جی نہیں ان سب کا باپ دھرنا دھرنا دھرنا
علامہ : اس دھرنے پر ذرا تفصیلیے
چشم : اور نئے ناپرساں کا نقشہ بھی کھنیچئے
اینکر : اس کے ہمیں ایک چھوٹا سا بریک لینا پڑے گا
دھر : ہاں ذرا تفصیل سے بتانا پڑے گا (بریک)
Load Next Story