تاخیر کا ذمے دار کون
سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے واضح طور پر کہا تھا کہ ملک بھر میں بلدیاتی انتخابات نہ کرانا غیر آئینی اقدام ہے۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ ہم اپریل میں کے پی کے بلدیاتی انتخابات کرانے کے لیے تیار تھے مگر سپریم کورٹ نے ایسا نہیں ہونے دیا اور صوبوں کو نومبر میں انتخابات کرانے کے لیے کہا۔ اس لیے ہم نومبر میں کے پی کے میں بلدیاتی انتخابات کرا دیں گے اور عوام سے کیا گیا اپنا وعدہ پورا کر دیں گے۔ واضح رہے کہ عمران خان نے کے پی کے میں 90 روز میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا اعلان کیا تھا مگر 16 ماہ ہو جانے پر بھی نہیں ہوئے۔
سندھ کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے حال ہی میں پھر کہا ہے کہ سندھ حکومت بلدیاتی انتخابات کرانے کو تیار ہے لیکن ہم چاروں صوبوں میں ایک جیسا بلدیاتی نظام چاہتے ہیں اب یہ وفاقی حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ قدم بڑھائے، انھوں نے یہ بھی کہا کہ سندھ پہلا صوبہ ہے جس نے بلدیاتی نظام کے حوالے سے سب سے پہلے قانون سازی کی اور عدالت کو بھی یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ سندھ حکومت بلدیاتی انتخابات کرانے کو تیار ہے اور اسی لیے حلقہ بندی بھی کرائی گئی تھی مگر وہ عدالت میں چیلنج کر دی گئی جو کہ آج تک عدالت میں زیر التوا ہے۔
قائم علی شاہ اپنی ضعیفی کے باعث یہ بھول گئے کہ سندھ کی عدالت عالیہ نے متحدہ و دیگر جماعتوں کی اپیل پر سندھ حکومت کی کرائی گئی حلقہ بندیوں کو غیر قانونی قرار دے کر نئی حلقہ بندیاں الیکشن کمیشن کے ذریعے کرانے کا حکم دیا تھا۔
پنجاب میں بھی عدالت عالیہ نے پنجاب حکومت کی کرائی گئی بلدیاتی حلقہ بندیاں غیر قانونی قرار دے کر الیکشن کمیشن کو حلقہ بندی کی ہدایت کی تھی جس کے لیے وفاقی حکومت نے یہ اختیار الیکشن کمیشن کو دینے کے لیے قانون سازی کرنی ہے، مگر سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود اب تک الیکشن کمیشن کو یہ اختیار نہیں ملا جب کہ 15 اگست تک حلقہ بندی کی جانا تھی تا کہ نومبر میں سندھ و پنجاب میں بلدیاتی الیکشن ہو سکتے مگر ہر کام دیر سے کرنے کی عادی نواز شریف حکومت نے سپریم کورٹ کے حکم پر عمل نہیں کیا اور اکتوبر شروع ہو چکا ہے اور سپریم کورٹ کے حکم پر عمل نہیں ہوا جس کے نتیجے میں توہین عدالت کی کارروائی لازم ہو چکی ہے اور صوبائی حکومتوں نے حلقہ بندیاں کرانے کا اختیار الیکشن کمیشن کو سپریم کورٹ کے حکم پر منتقل کرنے کے لیے اپنی اسمبلیوں میں بھی کوئی فیصلہ نہیں کرایا۔
سندھ کے وزیر اطلاعات و بلدیات شرجیل انعام میمن متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ سندھ حکومت تو کب سے بلدیاتی انتخابات کرانے کو تیار ہے مگر سپریم کورٹ نے بلدیاتی انتخابات نہیں ہونے دیے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہائی کورٹ نے سندھ حکومت کی کرائی گئی حلقہ بندیاں غیر قانونی قرار دی تھیں جس کی وجہ سے بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے جا سکے۔ شرجیل میمن کا یہ بھی کہنا ہے کہ بلدیاتی نظام اب صوبوں کے پاس ہے اور ہر صوبے کا حق ہے کہ وہ حلقہ بندی کرائے مگر ہائی کورٹس نے صوبوں کا یہ حق ختم کر کے الیکشن کمیشن کو یہ حق دینے کا فیصلہ دیا ہے جس کی وجہ سے سندھ میں بلدیاتی الیکشن نہیں کرائے جا سکے اور سندھ حکومت تاخیر کی ذمے دار نہیں ہے ۔
واضح رہے کہ سندھ اور پنجاب کی حکومتوں نے اپنے صوبوں میں مرضی کی حلقہ بندیاں اپنے سیاسی مفاد کے لیے کرائی تھیں اور سندھ حکومت نے تو اس سلسلے میں من مانیوں کی حد کر دی تھی اور یونین کونسلوں کی حلقہ بندی ایسی کرائی تھی کہ کسی یونین کونسل میں ایک لاکھ آبادی رکھی تھی اور کہیں صرف دس ہزار آبادی پر یونین کونسل بنائی تھی۔ سندھ حکومت نے اپنے ووٹروں کے حلقوں میں کم آبادی کی زیادہ سے زیادہ یونین کونسل بنائی تھیں تا کہ پی پی کے زیادہ بلدیاتی عہدیدار منتخب کروا کر بلدیہ عظمیٰ میں پی پی کا میئر منتخب کرایا جا سکے۔
پنجاب حکومت نے بھی اپنے سیاسی مفاد کے لیے من پسند یونین کونسلیں قائم کی تھیں جنھیں عدالتوں میں چیلنج ہونا تھا اور ایسا ہی ہوا اور سندھ اور پنجاب میں کی جانے والی من پسند حلقہ بندیاں عدالتی حکم پر غیر قانونی قرار پائی تھیں۔
سندھ اور پنجاب کی حلقہ بندیاں ہی چیلنج ہوئی تھیں جب کہ کے پی کے میں حلقہ بندیاں ہی نہیں ہوئی تھیں جب کہ گزشتہ سال 7 دسمبر کو سپریم کورٹ کے حکم پر بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات تو صوبائی حکومت نے کرا دیے تھے مگر 9 ماہ سے زیادہ عرصہ گزر گیا مگر بلوچستان میں باقی چیئرمینوں اور کوئٹہ کے میئر کا انتخاب نہیں کرایا جا رہا۔
عمران خان کی کے پی کے حکومت نے اپنی اسمبلی سے کوئی بلدیاتی نظام منظور کرایا اور نہ حلقہ بندیاں کیں تو عمران خان آیندہ ماہ نومبر میں کیسے بلدیاتی انتخابات کرا سکیں گے جب کہ وہ اپنے پہلے اعلان پر تو عمل کرانے میں ناکام رہے ہیں۔
پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے لیے سابق وزیر قانون رانا ثنا اللہ آئے دن بلدیاتی انتخابات کے سلسلے میں بیان بازی کرتے رہتے تھے مگر ان کے مستعفی ہونے کے بعد پنجاب کے وزیر اعلیٰ کو بلدیاتی انتخابات یاد ہیں نہ وہاں کوئی وزیر بلدیات ہے اور نہ ہی پنجاب میں حلقہ بندیاں الیکشن کمیشن سے کرانے کے لیے کوئی پیش رفت ہوئی ہے۔ وفاقی حکومت نے ایک سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد بھی ملک بھر کے کنٹونمنٹس بورڈز کے الیکشن کرانے کے لیے قانون سازی کرائی نہ کوئی دلچسپی لی، اسلام آباد اور گلگت بلتستان میں تو بلدیاتی انتخابات کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔
سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے واضح طور پر کہا تھا کہ ملک بھر میں بلدیاتی انتخابات نہ کرانا غیر آئینی اقدام ہے افتخار چوہدری ہی کے حکم پر بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات ہوئے تھے۔ کے پی کے نے انکار کر کے تاریخ تک نہیں دی تھی جب کہ سندھ و پنجاب میں دو بار بلدیاتی انتخابات کی تاریخیں دی گئیں اور امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے مگر دونوں جگہ الیکشن ملتوی ہو گئے اور امیدواروں کے اربوں روپے الیکشن کمیشن کے پاس ہیں عمران خان اور شرجیل میمن سپریم کورٹ کو اس تاخیر کا کھلم کھلا ذمے دار قرار دے رہے ہیں اور سپریم کورٹ کے حکم پر نومبر میں بھی بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں۔ غیر آئینی اقدام جاری ہیں اور عوام منتظر ہیں کہ صوبائی حکومتوں کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہو ۔
سندھ کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے حال ہی میں پھر کہا ہے کہ سندھ حکومت بلدیاتی انتخابات کرانے کو تیار ہے لیکن ہم چاروں صوبوں میں ایک جیسا بلدیاتی نظام چاہتے ہیں اب یہ وفاقی حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ قدم بڑھائے، انھوں نے یہ بھی کہا کہ سندھ پہلا صوبہ ہے جس نے بلدیاتی نظام کے حوالے سے سب سے پہلے قانون سازی کی اور عدالت کو بھی یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ سندھ حکومت بلدیاتی انتخابات کرانے کو تیار ہے اور اسی لیے حلقہ بندی بھی کرائی گئی تھی مگر وہ عدالت میں چیلنج کر دی گئی جو کہ آج تک عدالت میں زیر التوا ہے۔
قائم علی شاہ اپنی ضعیفی کے باعث یہ بھول گئے کہ سندھ کی عدالت عالیہ نے متحدہ و دیگر جماعتوں کی اپیل پر سندھ حکومت کی کرائی گئی حلقہ بندیوں کو غیر قانونی قرار دے کر نئی حلقہ بندیاں الیکشن کمیشن کے ذریعے کرانے کا حکم دیا تھا۔
پنجاب میں بھی عدالت عالیہ نے پنجاب حکومت کی کرائی گئی بلدیاتی حلقہ بندیاں غیر قانونی قرار دے کر الیکشن کمیشن کو حلقہ بندی کی ہدایت کی تھی جس کے لیے وفاقی حکومت نے یہ اختیار الیکشن کمیشن کو دینے کے لیے قانون سازی کرنی ہے، مگر سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود اب تک الیکشن کمیشن کو یہ اختیار نہیں ملا جب کہ 15 اگست تک حلقہ بندی کی جانا تھی تا کہ نومبر میں سندھ و پنجاب میں بلدیاتی الیکشن ہو سکتے مگر ہر کام دیر سے کرنے کی عادی نواز شریف حکومت نے سپریم کورٹ کے حکم پر عمل نہیں کیا اور اکتوبر شروع ہو چکا ہے اور سپریم کورٹ کے حکم پر عمل نہیں ہوا جس کے نتیجے میں توہین عدالت کی کارروائی لازم ہو چکی ہے اور صوبائی حکومتوں نے حلقہ بندیاں کرانے کا اختیار الیکشن کمیشن کو سپریم کورٹ کے حکم پر منتقل کرنے کے لیے اپنی اسمبلیوں میں بھی کوئی فیصلہ نہیں کرایا۔
سندھ کے وزیر اطلاعات و بلدیات شرجیل انعام میمن متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ سندھ حکومت تو کب سے بلدیاتی انتخابات کرانے کو تیار ہے مگر سپریم کورٹ نے بلدیاتی انتخابات نہیں ہونے دیے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہائی کورٹ نے سندھ حکومت کی کرائی گئی حلقہ بندیاں غیر قانونی قرار دی تھیں جس کی وجہ سے بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے جا سکے۔ شرجیل میمن کا یہ بھی کہنا ہے کہ بلدیاتی نظام اب صوبوں کے پاس ہے اور ہر صوبے کا حق ہے کہ وہ حلقہ بندی کرائے مگر ہائی کورٹس نے صوبوں کا یہ حق ختم کر کے الیکشن کمیشن کو یہ حق دینے کا فیصلہ دیا ہے جس کی وجہ سے سندھ میں بلدیاتی الیکشن نہیں کرائے جا سکے اور سندھ حکومت تاخیر کی ذمے دار نہیں ہے ۔
واضح رہے کہ سندھ اور پنجاب کی حکومتوں نے اپنے صوبوں میں مرضی کی حلقہ بندیاں اپنے سیاسی مفاد کے لیے کرائی تھیں اور سندھ حکومت نے تو اس سلسلے میں من مانیوں کی حد کر دی تھی اور یونین کونسلوں کی حلقہ بندی ایسی کرائی تھی کہ کسی یونین کونسل میں ایک لاکھ آبادی رکھی تھی اور کہیں صرف دس ہزار آبادی پر یونین کونسل بنائی تھی۔ سندھ حکومت نے اپنے ووٹروں کے حلقوں میں کم آبادی کی زیادہ سے زیادہ یونین کونسل بنائی تھیں تا کہ پی پی کے زیادہ بلدیاتی عہدیدار منتخب کروا کر بلدیہ عظمیٰ میں پی پی کا میئر منتخب کرایا جا سکے۔
پنجاب حکومت نے بھی اپنے سیاسی مفاد کے لیے من پسند یونین کونسلیں قائم کی تھیں جنھیں عدالتوں میں چیلنج ہونا تھا اور ایسا ہی ہوا اور سندھ اور پنجاب میں کی جانے والی من پسند حلقہ بندیاں عدالتی حکم پر غیر قانونی قرار پائی تھیں۔
سندھ اور پنجاب کی حلقہ بندیاں ہی چیلنج ہوئی تھیں جب کہ کے پی کے میں حلقہ بندیاں ہی نہیں ہوئی تھیں جب کہ گزشتہ سال 7 دسمبر کو سپریم کورٹ کے حکم پر بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات تو صوبائی حکومت نے کرا دیے تھے مگر 9 ماہ سے زیادہ عرصہ گزر گیا مگر بلوچستان میں باقی چیئرمینوں اور کوئٹہ کے میئر کا انتخاب نہیں کرایا جا رہا۔
عمران خان کی کے پی کے حکومت نے اپنی اسمبلی سے کوئی بلدیاتی نظام منظور کرایا اور نہ حلقہ بندیاں کیں تو عمران خان آیندہ ماہ نومبر میں کیسے بلدیاتی انتخابات کرا سکیں گے جب کہ وہ اپنے پہلے اعلان پر تو عمل کرانے میں ناکام رہے ہیں۔
پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے لیے سابق وزیر قانون رانا ثنا اللہ آئے دن بلدیاتی انتخابات کے سلسلے میں بیان بازی کرتے رہتے تھے مگر ان کے مستعفی ہونے کے بعد پنجاب کے وزیر اعلیٰ کو بلدیاتی انتخابات یاد ہیں نہ وہاں کوئی وزیر بلدیات ہے اور نہ ہی پنجاب میں حلقہ بندیاں الیکشن کمیشن سے کرانے کے لیے کوئی پیش رفت ہوئی ہے۔ وفاقی حکومت نے ایک سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد بھی ملک بھر کے کنٹونمنٹس بورڈز کے الیکشن کرانے کے لیے قانون سازی کرائی نہ کوئی دلچسپی لی، اسلام آباد اور گلگت بلتستان میں تو بلدیاتی انتخابات کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔
سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے واضح طور پر کہا تھا کہ ملک بھر میں بلدیاتی انتخابات نہ کرانا غیر آئینی اقدام ہے افتخار چوہدری ہی کے حکم پر بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات ہوئے تھے۔ کے پی کے نے انکار کر کے تاریخ تک نہیں دی تھی جب کہ سندھ و پنجاب میں دو بار بلدیاتی انتخابات کی تاریخیں دی گئیں اور امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے مگر دونوں جگہ الیکشن ملتوی ہو گئے اور امیدواروں کے اربوں روپے الیکشن کمیشن کے پاس ہیں عمران خان اور شرجیل میمن سپریم کورٹ کو اس تاخیر کا کھلم کھلا ذمے دار قرار دے رہے ہیں اور سپریم کورٹ کے حکم پر نومبر میں بھی بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں۔ غیر آئینی اقدام جاری ہیں اور عوام منتظر ہیں کہ صوبائی حکومتوں کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہو ۔