زمین پر رہنے والو …خدا حافظ
خطرے کی گھنٹیاں بج رہی ہیں، ہمیں چاہیے کہ کاربن کے اخراج میں کمی لائیں تا کہ بدترین اثرات سے بچا جا سکے۔
یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ 24 ستمبر کو ہونے والے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے ایجنڈے میں موسمیاتی تبدیلی کا مسئلہ بھی شامل تھا۔ گزشتہ ایک دہائی سے قدرتی آفات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، خشک سالی دنیا کے مختلف خطوں میں بڑھی ہے، تباہ کن سیلابوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، سمندری طوفانوں نے تباہیاں مچائی ہیں، برفباری کے ریکارڈ ٹوٹے ہیں، شدید گرمیوں کے دورانیے اور ان کی شدت میں بے پناہ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ شدید گرمی کے 14 برسوں میں سے 13 برس اسی 21 ویں صدی میں آئے ہیں، تباہ کن بارشوں سے تباہی پھیلی ہے۔
ان سب واقعات کے نتیجے میں لاکھوں لوگ جاں بحق ہو چکے ہیں، اربوں ڈالر کی املاک تباہ ہوئی اور ان حادثات کی تعداد کم نہیں ہو رہی بلکہ ان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ان واقعات کے نتیجے میں دنیا بھر میں پناہ گزینوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے اور سیاسی عدم استحکام کا مسئلہ بھی پیدا ہوا۔ ان واقعات کے تانے بانے کسی نہ کسی طرح سے موسمیاتی تبدیلی سے ہی ملتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کے بقول ''اگر یہی حال رہا تو عالمی خوش حالی اور سلامتی سے متعلق ہمارے سارے کے سارے منصوبے بے کار ہو کر رہ جائیں گے۔'' یہ بھی محض اتفاق نہیں ہے کہ امریکا نے موسمیاتی تبدیلی سے متعلق اپنے منفی رویے کو تبدیل کر دیا ہے۔
دنیا بھر میں ہونے والی تمام عالمی ماحولیاتی کانفرنسوں کو کسی مثبت اور ٹھوس نتیجے پر نہ پہنچنے دینے میں بنیادی کردار امریکا کا رہا ہے۔ 2009ء میں کوپن ہیگن میں ہونے والی عالمی ماحولیاتی سربراہی کانفرنس جس میں کسی ایک مسئلے کو لے کر دنیا کی تاریخ کے سب سے زیادہ ملکوں کے سربراہ جمع ہوئے۔ موسمیاتی تبدیلی کی تبدیل ہوتی دنیا میں 23 ستمبر کو نیویارک میں ہونے والی ایک روزہ عالمی ماحولیاتی سربراہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر بارک اوباما نے کہا کہ ''خطرے کی گھنٹیاں بج رہی ہیں، ہمیں چاہیے کہ کاربن کے اخراج میں کمی لائیں تا کہ بدترین اثرات سے بچا جا سکے۔''
''قومی موسمیاتی رپورٹ 2014ء'' کے نام سے جاری ہونے والی امریکی رپورٹ نے جسے 300 سے زائد ماہرین پر مشتمل ٹیم نے تیار کیا ہے۔ اس رپورٹ کی تیاری میں 7 شعبوں جن میں ایکو سسٹم، زراعت، پانی، جنگل، انسانی صحت، توانائی اور باربرداری کے 7 شعبے شامل ہیں۔ اس رپورٹ میں کہا گیا کہ موسمیاتی تبدیلی کی شرح کا دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ ہم بحیثیت معاشرہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج سے متعلق کیا اقدامات بروئے کار لاتے ہیں۔ اس رپورٹ نے امریکا میں درجہ حرارت میں اضافے، خشک سالی، سیلاب، سمندروں کی بڑھتی ہوئی سطح کے ساتھ موسموں کی شدت کی دیگر وجوہات کی بھی واضح نشاندہی کرتے ہوئے ان کا تعلق موسمیاتی تبدیلی سے جوڑا ہے۔ واضح رہے کہ اسی رپورٹ کو بنیاد بنا کر اوبامہ انتظامیہ کانگریس سے موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے فوری اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کر رہی ہے۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کے بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی جس میں دنیا بھر سے تعلق رکھنے والے اعلیٰ پائے کے ہزاروں سائنسدان شامل ہیں، کی جانب سے جاری کی گئی تازہ ترین 5th اسیسمنٹ رپورٹ سامنے آئی ہے۔ یہ رپورٹ 12000 سے زائد سائنسی تحقیقوں کی بنیاد پر مرتب کی گئی ہے، جس میں واضح طور پر بتا دیا گیا ہے کہ اگر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی نہ لائی گئی تو پہلے سے موجود خطرات مزید سنگین ہو جائیں گے۔ رپورٹ میں خبردار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ خطرات حال اور مستقبل دونوں کے ہیں لیکن کرہ ارض پر بسنے والے معاشروں نے اپنا طرز عمل تبدیل نہ کیا تو مستقبل کہیں زیادہ بھیانک دکھائی دیتا ہے۔
گرین ہاؤس گیسوں میں سب سے زیادہ اضافہ کرنے والے صنعتی ممالک ہوں یا تیزی سے ابھرتی ہوئی عالمی معیشتیں، چین اور بھارت سمیت دنیا کے کسی ملک کی پاس اب اس بات کا کوئی جواز نہیں رہا کہ وہ موسمیاتی تبدیلی کی حقیقت سے انکار کر سکیں۔ کچھ برسوں پہلے تک کیا جانے والا یہ منفی پروپیگنڈہ کہ موسمیاتی تبدیلی محض ایک مفروضہ ہے، اپنی موت آپ مر چکا ہے۔ عالمی رائے عامہ بھی اس امر پر متفق ہو چکی ہے کہ کرہ ارض کی بقا کو درپیش اس مہیب خطرے کا مقابلہ مشترکہ طور پر کرنا ہو گا کیونکہ یہ کسی ایک ملک یا خطے کا معاملہ نہیں ہے۔ یہ حقیقت بھی عیاں ہو چکی ہے کہ اس خطرے کا سبب خود حضرت انسان بنے ہیں۔
سائنسدان تفصیل سے بتا چکے ہیں کہ کرہ ارض کا اوسط زمینی درجہ حرارت جو صنعتی انقلاب سے پہلے تھا اس میں دو ڈگری سیلسیس کے اضافے کے بعد اگر زمین کے درجہ حرارت میں معمولی سا اضافہ بھی ہوتا ہے تو کرہ ارض پر زندگی کی ضمانت نہیں دی جا سکتی ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب ہے ایک کھرب ٹن کاربن ڈائی کا اخراج۔ ماہرین کے مطابق گزشتہ 250 برسوں میں اس میں سے 50 فیصد کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج ہو چکا ہے باقی 50 فیصد کے بارے میں سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ جس تیزی سے کاربن کے اخراج کا سلسلہ جاری ہے اس کے مطابق اگلے 40 برسوں میں یہ حد بھی عبور ہو جائے گی۔ کیا یہ بہت ہی خوفناک صورتحال نہیں ہے؟ 65 ملین سال پہلے کرہ ارض پر ایسا حیاتی تغیر رونما ہوا جس کے نتیجے میں ڈائنا سارز کی نسل کا خاتمہ ہو گیا تھا۔
عالمی رہنماؤں کو بھی اس بات کا ادراک ضرور ہو گا لیکن وقت تیزی سے نکل رہا ہے۔ کرہ ارض کی بقا پر لگے سوالیہ نشان کو ختم کرنے کے لیے چین، امریکا اور بھارت سمیت دنیا کے تمام ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ملکوں کو گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں یقینی طور پر کمی لانی ہو گی۔ مستقبل کی دنیا کی جو تصویر ترقی پذیر اور غریب ملکوں کی حکومتیں اور عوام نہیں دیکھ رہے ہیں وہ ترقی یافتہ ملکوں کے عوام کو واضح طور پر نظر آ رہی ہے، اس لیے وہ موسمیاتی تبدیلی کے خلاف فیصلہ کن اقدامات اٹھانے کے لیے سڑکوں پر آ چکے ہیں۔ ماحولیاتی کانفرنس سے قبل 3 لاکھ سے زائد لوگ نیویارک کی مرکزی شاہراہوں پر موجود تھے جو عالمی سربراہوں کو بتا رہے تھے کہ جلد از جلد فیصلہ کن اقدامات اٹھائے جائیں، وقت نکلتا جارہا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کے خلاف یہ دنیا میں ہونے والا سب سے بڑا مارچ تھا۔
اس مارچ میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کو 20 لاکھ لوگوں کے دستخطوں پر مشتمل ایک یادداشت بھی پیش کی گئی۔ ویسے تو دنیا کے 125 سے زائد ملکوں میں ہزاروں مظاہرے اور ریلیاں نکالی گئی لیکن تعداد کی لحاظ سے امیر ملکوں میں ہوئے مارچ کے شرکا کی تعداد ہزاروں میں تھی۔ یہ اس بات کی غمازی ہے کہ وہ آنے والے وقتوں کی تصویر دیکھ رہے ہیں جس کی واضح جھلک ان مظاہروں میں استعمال ہونے والے ہزاروں بینروں، پوسٹروں اور پلے کارڈز پر لکھے گئے سلوگنز میں نظر آتی ہے۔ ایک پلے کارڈ پر نعرہ درج تھا ''زمین پر رہنے والو... خدا حافظ''۔
ترقی پذیر اور غریب ملکوں میں صورتحال اس کے برعکس ہے۔ یہ وہ دنیا ہے جو کاربن کے اخراج میں آٹے میں نمک کے برابر کی حصہ دار ہے لیکن متاثر سب سے شدید ہے۔ ان ملکوں کی حکومتیں اور عوام موسمیاتی تبدیلی کے معاملے کو بہت نیچے کے نمبروں پر رکھتے ہیں۔ پاکستان کی مثال لے لیں جو موسمیاتی تبدیلی سے شدید متاثر ہونے والے 10 سرفہرست ملکوں میں شامل ہے اور عالم یہ ہے کہ خطے کے کئی چھوٹے بڑے ملکوں میں احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں لیکن پاکستان میں ہر طرف مکمل خاموشی رہی۔ موسمیاتی مسائل پر کام کرنے والے حکومتی اداروں کی بات تو چھوڑیں ماحولیات کے تحفظ پر کام کرنے والے بڑے بڑے نام، بڑی بڑی تنظیمیں، ماحولیات کے تحفظ کے نام پر ملکی اور غیر ملکی دورے کر رہے ہیں۔ ملک میں صرف رپورٹوں اور فنڈنگ کا کھیل جاری ہے اور اربوں روپے کی ملکی اور غیر ملکی فنڈنگ اس حوالے سے خرچ کی جا چکی ہے۔ پاکستان کی کسی بھی سیاسی جماعت کا اس مسئلے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ پاکستان پرانا ہو یا نیا، ماحولیات کسی کا مسئلہ نہیں۔