پاکستان ایک نظر میں نعروں کی سیاست

ہر تقریر کے ساتھ ایک نیا نعرہ لگانا ضروری ہے ورنہ سیاست نہیں چمکتی۔


سہیل اقبال خان October 15, 2014
ہر تقریر کے ساتھ ایک نیا نعرہ لگانا ضروری ہے ورنہ سیاست نہیں چمکتی۔ فوٹو اے پی

GILGIT: سیاست کے میدان میں تقریریں،جوش،وعدے،مفاد سب عام ہے،اور خاص کر پاکستانی سیاست میں تو تقریروں سے عوام کے سامنے وہ پل باندھے جاتے ہیں،جن کا تصور کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔بچارے عوام سچی جھوٹی تقریریں سن کر سیاستدانوں سے امیدیں وابستہ کرلیتے ہیں۔نتیجہ عوام آسانی سے بیوقوف بن جاتی ہے اور سیاست دان عوام کو خواب دیکھا کر پتلی گلی سے نکل جاتا ہے۔ لیکن اب تو بات صرف تقریروں تک نہیں رہی اب تو نعروں کی سیاست نے زور پکڑ لیا ہے۔

ہر تقریر کے ساتھ ایک نیا نعرہ لگانا ضروری ہے ورنہ سیاست نہیں چمکتی۔ ہمارے ملک کی سیاست میں شاید نعروں سے عوام میں جوش،امید اور کارکنوں میں ایک جذبہ پیدا کیا جاتا ہے۔ لیکن اگر ان نعرے کسی ایک مخصوص پارٹی یا قیادت کے خلاف ہو تو یہ نعرے ملک کے اندر انتشار کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ ماضی میں بھی نعروں کی تحریک کے ذریعے سیاسی جماعتیں اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوئیں۔ چاہے کوئی بھی نعرہ سیاسی مقاصد رکھتا ہو یا نہیں۔ لیکن اس نعرے میں ایک مختصر پیغام ضرور ہوتا ہے،جس کا تعلق کسی چیز سے بھی ہو سکتا ہے۔

نعروں سے مجھے تحریک انصاف کا دھرنا یاد آرہا ہے۔ جب تحریک انصاف نے اپنی طاقت کے بل بوتے پر وزیراعظم کے استعفی کا مطالبہ کیا تو انہیں کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہوئی ،یہاں تک کہ انہوں نے اسلام آباد کی سڑکوں پر جہگہ بھی تبدیل کی ،ریڈ زون کا بھی رخ کیالیکن پھر بھی سیاسی کامیابی حاصل نہ کر پائے۔مگر جب تحریک انصاف اور عوامی تحریک نے مل کر ''گو نوازگو'' کا نعرہ لگایا تو عوام کی جانب سے انہیں بے حد پزیرائی حاصل ہوئی۔ ہر جانب اس نعرے کو عام کیا گیا،سوشل میڈیا،جلسے جلسوں،ہر جہگہ تحریک انصاف اور عوامی تحریک نے گو نواز گو کا نعرہ لگایا،یہاں تک کہ ملکی کرنسی پر بھی اس نعرے کو لکھنے کی مہم کا آغاز کیا گیا،جو بعد میں واپس لے لی گئی۔

دوسری جانب گو نواز گو کے بدلے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی جانب سے '' گو عمران گو '' کا نعرہ لگایا گیا۔ ان نعروں نے ملک کے انتشار کو عام کی جس کا عملی مظاہرہ ملتان میں ہمارے سامنے آیا، جہاں مسلم لیگ ن اورتحریک انصاف کے کارکنوں نے آمنے سامنے نعرے بازی کی، اگر پولیس نہ ہوتی وہاں کافی نقصان بھی ہو سکتا تھا۔

آج پیپلز پارٹی کی جانب سے بھی روزگار کے نعرے لگائے جا رہے ہیں، چلیں کم از کم ان نعروں کی تو سمجھ آتی ہے،کیونکہ یہ عوام کو بنیادی سہولیات دینے کی بات کرتے ہیں،لیکن گو نواز گو،گو عمران گ جیسے نعرے معاشرے میں سوائے انتشار کے اور کچھ نہیں۔تحریک انصاف نے جہاں گو نواز گو کا نعرہ بلند کیا توان کی پارٹی کے اندر سے ہی گو خٹک گو کے نعروں کی آوزیں بلند ہونا شروع ہو گئیں۔عمران خان صاحب خو د تو کہتے ہیں کہ کوئی بھی نعرے لگانے سے کوئی نہیں روک سکتا،یہ جمہوری حق ہے،لیکن جب ان پارٹی سے نعروں کی آوزیں آئیں تو فورا اس کو شو کاز نوٹس جاری کر دیا گیا۔

سیاست کا یہ اصول جب بھی کسی سیاسی پارٹی نے کوئی نعرہ بلند کیا وہ خود بھی اس نعرے سے محفوظ نہیں رہ سکی اور اس کے خلاف بھی وہ نعرے لگائے گئے۔جو راہ جس سیاسی پارٹی نے اپنائی اس کی قیمت اس کو اپنی حکومت میں بھی ادا کرنی پڑی۔آج تحریک انصاف نعرے اور دھرنا دے تو رہی ہے،لیکن کل اپنی حکومت میں بھی ان سب چیزوں کے لئے تیار رہے ،کیونکہ آپ خود ہی اس روایت کو قائم کر رہے ہیں۔ سیاست ایک ایسا کھیل ہے جہاں جو کام آج اپنے مفاد کے لئے کیا جائے وہی کام کل آپ کے خلاف بھی کیا جائے گا۔ کیونکہ وقت اپنے آپ کو ضرور دہراتا ہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔