انتخابات کا اشارہ
عمران خان نے اگرچہ بہت بڑے بڑے اور کامیاب عوامی جلسے کراچی‘ لاہور اور میانوالی میں کیے ہیں
عمران خان نے اگرچہ بہت بڑے بڑے اور کامیاب عوامی جلسے کراچی' لاہور اور میانوالی میں کیے ہیں تاہم ملتان میں منعقد ہونے والے بہت بڑے جلسے کا انجام المیے میں ہوا۔ جب سول انتظامیہ کو لازمی طور پر ان سات افراد کی ہلاکت اور متعدد زخمی ہونے والوں کا ذمے دار ٹھہرایا جانا چاہیے۔ پی ٹی آئی کے انتظامات بھی ناقص تھے لہذا اس المیے میں ان کو بھی قصور وار قرار دیا جانا چاہیے۔ یہ ایسا حادثہ تھا جیسے کہ اپنے وقوع پذیر ہونے کا انتظار کر رہا تھا۔ پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے برعکس جس کی ریلیاں بے حد منظم تھیں ان کے مقابلے میں عمران کے جلسے عمومی طور پر بد نظمی کا شکار تھے۔
ملتان کے جلسے میں جس طرح کی بھگدڑ مچی اس کے پیش نظر خواتین کو آیندہ ان جلسوں میں شرکت سے اجتناب کرنا چاہیے۔ بصورت دیگر ان جلسوں کے منفی نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ اسلام آباد میں دونوں پارٹیوں نے جو دھرنے دیے ان سے اور کچھ نہیں تو کم از کم عوام ضرور بیدار ہو گئے ہیں اور ان کا اپنے بنیادی حقوق کے بارے میں شعور اجاگر ہو گیا ہے۔ اب پی ٹی آئی... پاکستان پیپلز پارٹی کے مضبوط گڑھ لاڑکانہ میں 21 نومبر کو جلسہ کرنے کا پروگرام بنا رہی ہے۔
گزشتہ ساٹھ دن سے پاکستان مسلم لیگ (ن) زیادہ تر خاموش رہی ہے تاہم اب وہ شریف فیملی کے آبائی مرکز لاہور میں بڑا جلسہ کرنے کا پروگرام بنا رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری 18 اکتوبر 2014ء سے جمہوریت کے لیے اپنی تحریک مزار قائد اعظم کے اس مقام سے شروع کریں گے جہاں ان کی والدہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے قافلے پر 18 اکتوبر 2007ء کو حملہ کیا گیا تھا۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے سربراہ الطاف حسین کو ''اپنے نامعلوم افراد'' کو کنٹرول کرنے کا انتباہ کر کے معاملات کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔ (بعض لوگ اسے عید کے دن نمائش کے لیے پیش کی جانے والی فلم ''نا معلوم افراد'' کے حوالے سے مذاق کا نشانہ بنا رہے ہیں)۔ یہ الگ بات ہے کہ نا معلوم افراد کی اصطلاح کوئی مذاق نہیں بلکہ یہ مشتبہ مجرموں اور بالخصوص کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کرنے والوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ ایم کیو ایم کے چیف کو مخاطب کرتے ہوئے بلاول نے دھمکی دی ہے ''انکل الطاف اگر میرے کارکنوں کو ایک ہلکی سی خراش بھی آئی تو آپ لندن کی پولیس کو بھول جاؤ گے، میں تمہاری زندگی کو قابل رحم بنا دوں گا'' امکان اغلب یہ ہے کہ ایم کیو ایم کی دھمکی اصل میں پیش بندی کی حکمت عملی ہے یعنی اگر جلسے میں زیادہ بھاری تعداد میں لوگ اکٹھے نہ ہوئے تو اس کو بہانے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔
رینجرز نے کراچی میں انتہائی محنت اور جانفشانی سے کام کرتے ہوئے کسی حد تک امن قائم کر دیا ہے۔ بلاول کے غیر ضروری انتباہ کے تناظر میں ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی نے ایک ایمرجنسی میٹنگ طلب کر لی۔ ایم کیو ایم کے حیدر رضوی نے کہا ''بلاول نے اپنا بیان کاغذ کے ایک ٹکڑے سے پڑھ کر سنایا جس سے یہ مراد لی جا سکتی ہے کہ یہ پیپلز پارٹی کی باضابطہ طے شدہ پالیسی تھی، اسے زبان کا پھسلنا نہیں کہا جا سکتا، اس میں پوری نفرت اور تعصب کے ساتھ الطاف حسین کو کھلی دھمکی دی گئی ہے۔ لیکن کوئی دھمکی ہمیں اپنے ہدف کو حاصل کرنے کی راہ میں مانع نہیں ہو سکتی۔ پیپلز پارٹی سوائے سندھ کے چند دیہی علاقوں کے اپنی مقبولیت کھو چکی ہے'' ایم کیو ایم کے دعوے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سندھ کا زمیندار طبقہ ایم کیو ایم کی طرف سے صوبے میں نئے انتظامی یونٹ بنانے کے مطالبے سے تشویش میں مبتلا ہو گیا ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے پیپلز پارٹی کے نو عمر چیئرمین کی ستائش کرتے ہوئے انھیں ایک ''نڈر اور جرات مند لیڈر'' قرار دیا ہے جو کہ اپنی ذاتی سیکیورٹی کے لیے پیدا ہونے والے خطرات کو بالائے طاق رکھ کر اپنے جلسے کریں گے۔ یہ ایک نئی قیادت ہے جس کی روح اور جذبہ بھی نیا ہے۔ عوام کے ساتھ بلاول کا براہ راست رابطہ اسے بھٹو فیملی کے ایک صحیح جانشین کی حیثیت عطا کرے گا۔ بلاول بھٹو نے یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ بھٹو کی محبت عوام کے دلوں میں ابھی تک زندہ ہے لہٰذا پاکستان کا اگلا وزیر اعظم بھٹو فیملی سے ہی ہو گا۔
عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ انھیں سیاست کا سبق بھٹو فیملی سے سیکھنا چاہیے کیونکہ ''سیاست کوئی کھیل تماشا نہیں'' بلاول کی اس بات سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ پیپلز پارٹی پی ٹی آئی کو اپنے لیے بہت بڑا خطرہ سمجھتی ہے۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی کے جیالے بھی پی ٹی آئی کی طرف راغب ہو رہے ہیں جن میں شاہ محمود قریشی ایک بڑی مثال ہیں۔ یہ چیز سندھ میں پیپلز پارٹی کے لیے مشکلات کھڑی کر سکتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے بہت سے اراکین آصف علی زرداری کی اقربا پروری کی پالیسی سے دلبرداشتہ ہو کر پارٹی سے منہ پھیر رہے ہیں۔
یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ کیا ہم بامعنی انتخابی اصلاحات کے بغیر انتخاب کرانے سے کوئی فائدہ حاصل کر سکتے ہیں۔ جمہوریت کی بنیاد گراس روٹ لیول پر عوام کو انتظامی عمل میں شامل کرنا ہوتا ہے۔ اگر یہ نہیں تو جمہوریت محض ڈھکوسلا ہے۔ صوبائی حکومتیں لوکل باڈی انتخابات کرانے میں خواہ مخواہ کی رکاوٹیں پیدا کر رہی ہیں اور وہ ایسا نظام برقرار رکھنا چاہتی ہیں جس کا جاگیردار طبقے کو فائدہ ہو۔ حکومت سندھ نے 2013ء میں ایک آرڈیننس جاری کیا تھا جس میں کمیونٹی کو فیصلہ سازی میں شامل کرنے کا کہا گیا تھا لیکن اس آرڈیننس میں بہت سی خامیاں اور سقم موجود ہیں۔ مزید برآں مردم شماری کے بغیر حلقہ بندیاں کس طرح کی جا سکتی ہیں جب کہ 1998ء کے بعد سے آج تک مردم شماری کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں دی گئی۔
کسی نگران حکومت کو دی جانے والی 90 دن کی مہلت کافی نہیں کہ وہ سارے ضروری انتظامات کو مکمل کر سکے۔ لہٰذا یہ ظاہر ہے کہ انتخابات کی صورت میں مسلم لیگ ن ہی پنجاب میں زیادہ نشستیں لے گی خواہ اس کی کارکردگی کتنی بھی خراب کیوں نہ رہی ہو۔ پیپلز پارٹی کے رہنما وزیر اعظم کو تلقین کر رہے ہیں کہ قبل از وقت انتخابات کروا دیے جائیں جب کہ جماعت اسلامی کا موقف ہے کہ انتخابی اصلاحات کے بغیر انتخابات نہیں ہونے چاہئیں۔ چھوٹی سیاسی پارٹیاں جن کا کہ انتخاب میں کامیابی کا کوئی امکان نہیں وہ بھی بڑی شدت سے مخالفت کر رہی ہیں۔ سیاسی سرگرمیوں میں اضافے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ممکن ہے انتخابات کے انعقاد میں6 یا 9 ماہ کی مدت باقی رہ گئی ہو۔ لیکن کیا یہ انتخابات آزادانہ اور منصفانہ ہوں گے۔