ملالہ تجھے سلام
بحیثیت ایک پاکستانی ہمیں اپنے نوبل انعام یافتگان (Nobel laureates) پر فخر کرنا چاہیے
شاید مجھے زندگی میںکبھی اتنی خوشی نہ ملی ہو جتنی گزشتہ ہفتے وطن عزیز کی ایک دخترملالہ یوسف زئی کوامن کا نوبل انعام ملنے پر حاصل ہوئی ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نوعمر لڑکی نے فروغ علم اور تعلیم نسواں کے لیے جس ناقابل بیان وارفتگی کا مظاہرہ کیا اور شدت پسندوں کے سامنے دلیری سے بھی گریز نہیں کیا ۔ سب سے بڑھ کر اس نے پوری دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ پاکستان میں ان لوگوں کی اکثریت ہے، جوآج بھی صوفیاء کے وسیع القلبی، رواداری اور تحمل وبرداشت کے فکر وفلسفے پر یقین رکھتے ہیں ۔تاریخ کی ناقابل تردید حقیقت یہ ہے کہ عظیم المرتبت رحمان بابا،خوشحال خان خٹک اور بطل حریت باچا خان کی دھرتی پہ جنم لینے والوں نے تاریخ کے کسی بھی دور میں نہ استعمارکی بالادستی قبول کی اور نہ کبھی باطل قوتوں کے آگے سر جھکایا۔آج اسی مٹی سے ملالہ یوسف زئی کا خمیر اٹھا ہے ، جو کم عمری کے باوجود ہر دھونس و دھمکی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جہل کے اندھیروں کو علم کی روشنی سے بدلنے کے لیے پرعزم ہے ۔
لیکن کچھ حلقے ایسے بھی ہیں جو اسے ملنے والے امن نوبل انعام کے بارے میں مختلف قسم کے سازشی نظریات کو پھیلا رہے ہیں ۔اس سے قبل یہی عناصر اس پر ہونے والے دہشت گرد حملے کے بارے میں شکوک وشبہات کا اظہارکرکے ابہام پھیلا چکے ہیں ۔ دراصل بعض مخصوص حلقے صدیوں سے جاری تحمل و برداشت اور رواداری کے اس کلچر کا خاتمہ چاہتے ہیں ، جو صوفیاء کی تعلیمات کی وجہ سے اس خطے کے عوام کا صدیوں سے مزاج چلا آ رہا ہے ۔ اس کے علاوہ مخصوص قبائلی سوچ جو تعلیم نسواں کے خلاف سرگرم عمل ہے ، وہ بھی ملالہ پر دشنام طرازی کا ایک سبب ہے ۔پاکستان میں یہ رویے اس لیے پیدا ہوئے ہیں ، کیونکہ ہماری اشرافیہ نے ہزاروں برسوں پر محیط تہذیبی وثقافتی ورثے کو نظر انداز کرتے ہوئے اس خطے کی تاریخ کی کڑیاں کبھی محمد بن قاسم کی سندھ میں آمد یا پھر تحریک پاکستان سے جوڑیں ۔
اس دہرے معیار نے ایک ایسا فکری ابہام پیدا کیا، جو سماجی تشکیلات اور سیاسی نظام کو متاثر کرنے کا سبب بنا ہے اور مختلف قسم کی سازشی تھیوریوں کیلیے گنجائش پیدا ہوئی ہے ۔ اسی لیے احساس کمتری کا شکار حلقے عالمی سطح پر ملنے والی عزت سے لطف اندوز ہونے اور اس پر فخر کرنے کے بجائے اس میں کیڑے نکالتے ہیں ۔ کبھی ڈاکٹر عبدالسلام کا مسئلہ انھیںعالمی سطح پر ملنے والیRecognition کو قومی تفاخر بنانے سے روکتا ہے۔ کبھی ملالہ کی عالمی سطح پر پذیرائی ان حلقوں کے حلق سے نہیں اترتی ۔
پہلے بھی کئی بار لکھا ، آج پھر اپنی بات کا اعادہ کر رہا ہوں کہ تحریک پاکستان کا پھر سے مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ کیونکہ حکمران اشرافیہ اور اس کی زیر سرپرستی بعض حلقوں نے اس تحریک اور پاکستان کی ریاست کے منطقی جوازکے بارے میں جو ابہام پیدا کیے وہ آج قومی مزاج کی جمہوری تشکیل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکے ہیں ۔ انھوں نے نہ تو تاریخی حقائق کا باریک بینی سے مطالعہ کیا اور نہ ہی برٹش انڈیا کے مسلمانوںکی اجتماعی دانش کو سمجھنے کی کوشش کی ۔اس لیے اگر اس تصورکو تسلیم کرلیا جائے کہ برٹش انڈیا کے مسلمان ہندوستان سے الگ ہوکر ایک تھیوکریٹک ریاست کے قیام کے متمنی تھے ، توسوال پیدا ہوتا ہے کہ انھوں نے جید علماء اور نامور مذہبی اکابرین کی موجودگی کے باوجود جدید عصری تعلیم یافتہ وکیل محمد علی جناح کو اپنا رہبر کیوں منتخب کیا ؟
یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بانی ملک نے قیام پاکستان سے تین روز قبل دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے تمام شہریوں کے لیے مساوی حقوق کی جو بات کی،اس کا مقصد کیا تھا؟ ان سوالات پر مختلف پہلوؤں سے غور کرنے سے دیگر بہت سے سوالات کے جوابات مل سکتے ہیں ۔ ساتھ ہی تاریخ عالم میں ابھرنے والی ان تحاریک کا بھی مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے ، جن میں کہیں مذہب اور کہیںنسلی و لسانی تفاخر کو قومی آزادی کے حصول کے لیے بطور آلہ کار استعمال کیا گیا ۔ لیکن اپنے مقاصد میں کامیابی کے بعد ان تحاریک کی قیادت نے جذباتی نعروں کو چھوڑ کر اپنی تمام تر توانائیاں قومی ترقی کے اہداف کے حصول کے لیے صرف کیں ۔
مگر یہ ہو نہ سکا اور معاملات و مسائل بگڑتے چلے گئے ۔ عوام کی اکثریت نئے ملک کو ایک فلاحی جمہوری ریاست بنانے کی خواہش مند تھی ، جب کہ اشرافیہ اسے سیکیورٹی اسٹیٹ بنانے پر تلی ہوئی تھی ۔اس مقصد کے لیے اس نے اسلامائزیشن کی راہ اپنائی ۔دراصل قیام پاکستان کے فوراً بعد جن لوگوں کے ہاتھوں میں اقتدار آیا اور جو اس کا انتظام وانصرام چلانے کے ذمے دار تھے، ان کا عام آدمی کے ساتھ کوئی ربط و رابطہ کیا ایک طرح کا تفاوت Disconnect پایا جاتا تھا ۔ جس کی وجہ سے عوام میں ریاست کے بارے میں بیگانگی پیدا ہوئی ۔ پھر ریاست کے مختلف اداروں کے درمیان بھی Disconnect تھا،جس نے متوازن حکمرانی کے تصور کو مجروح کیا۔
دوسری طرف مہاراشٹراورگجرات سے آنے والے صنعتکاروں اور سرمایہ داروں کا مقامی افرادی قوت کے ساتھ ہر سطح پر Disconnectموجودتھا ۔یوں آجر اور اجیر کے درمیان فطری تعلق قائم نہیں ہوسکا ۔اسی طرح ملک کی مختلف وفاقی اکائیوں اور لسانی گروپوں کے درمیان بھی وسیع Disconnectتھا۔ جس کی وجہ سے پاکستانی قومیت کا تصور اجاگر نہیں ہوسکا اوراس کے نتیجے میں سقوط ڈھاکہ کی راہ ہموار ہوئی ۔32 برس کی براہ راست فوجی آمریتیں اور باقی ادوار میںقائم ہونے والی سویلین حکومتوں کی ریاستی منصوبہ سازی میں عدم اختیار نے ریاست اور عوام کے درمیان بھی Disconnect پیدا کر دیا ۔ اس رویے اور روش نے سماج کے مختلف طبقات کے درمیان پائے جانے والے تفاوت (Disconnect) کو کم کرنے کے بجائے اس میں اضافہ کیا ۔ بلکہ فکری ہم آہنگی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کردیں ۔
ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ محدود طبقہ جو اب تک ہونے والے کسی بھی عام انتخابات میں5فیصد سے زائد نشستیں حاصل نہیں کر پایا ، اسٹبلشمنٹ کی پشت پناہی کی وجہ سے ریاستی منصوبہ سازی پر حاوی آچکا ہے اور ریاست کے منطقی جوازکی وہ تفہیم پیش کرتا ہے جو بانی پاکستان کے تصور ریاست سے متصادم ہے ۔ نتیجتاً پاکستان ایک جدید فلاحی جمہوری ریاست کے بجائے تھیوکریسی کے زیر اثر سیکیورٹی اسٹیٹ بنتا چلا گیا اور آج بھی اسی کشمکش میں مبتلاہے ۔
پاکستان میں جدید سیاسی وسماجی افکار، اظہار اور ضمیر کی آزادی شجر ممنوعہ قرار پائی ۔ اسلحے کے زور پر سیاسی طاقت کے حصول کی خواہش نے مختلف نوعیت کے امتیازات کو متشدد شکل دیدی ہے ۔ جس کی وجہ سے قبائلی کلچر کی حوصلہ افزائی ہوئی اور خواتین اورغیر مسلموں سمیت مسلمانوں کے مختلف مسالک کے ساتھ ناانصافیوں کا ناختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا ۔ اساتذہ پر حملے ، درسگاہوں کی تباہی اور اہل علم کا اغوا روز کا معمول بن گیا ۔ خاص طور پر تعلیم نسواں کی حوصلہ شکنی کے لیے طالبات کے تعلیمی اداروں کو نشانہ بنایا جاتا ہے ۔
مخصوص مفادات کے حصول کی خاطر ریاستی مقتدرہ خاموش تماشائی بنی رہی ۔ اس کا ایک سبب سیاسی جماعتوں میں نظریاتی تفاوت کی وجہ سے فکری ہم آہنگی کا فقدان ہے ۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ کچھ سیاسی جماعتیں شدت پسند عناصر کی چیرہ دستیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے ان کے ساتھ مذاکرات پر اصرار کرتی رہی ہیں ۔ جب کہ وہ جماعتیںجوشدت پسندوں کے خلاف کارروائی کی حامی ہیں وہ اس سیاسی عزم سے عاری ہیں ، جو ایسے اقدامات کے لیے درکار ہوتا ہے ۔ ایسے میں سوات کے آشوب زدہ علاقے سے گل مکئی کے قلمی نام سے اس خوبصورت وادی میں ہونے والی زیادتیوں کا پردہ چاک کرنا شروع کیا، تو عالمی سطح پرتہلکہ مچ گیا ۔
اصل نام ظاہر ہونے پر جھنجھلاہٹ میں مبتلا شدت پسندوں نے گل مکئی یعنی ملالہ پر حملہ کردیا ۔ اس کا نصیب اچھا تھا ۔ میڈیا کی منصفانہ رپورٹنگ اورفوج کی بروقت کارروائی نے اس کی زندگی بچانے میں نمایاں کردار ادا کیا ۔ لندن پہنچ کر کئی کامیاب آپریشنوں کے بعد جب وہ صحتیاب ہوئی تو اس نے نہ صرف اپنی تعلیم کے ٹوٹے ہوئے سلسلہ کو جوڑا بلکہ تعلیم کے فروغ کے لیے اپنی توانائیاں وقف کردیں ۔دنیا کے امن پسندوں اور علم دوست حلقوں نے اس کے بلند خیالات کو سراہتے ہوئے ہاتھوں ہاتھ لیا ۔ اس لیے جو لوگ سازشی تھیوریاں گھڑ رہے ہیں ، وہ اپنے احساس کمتری کا اظہار کر رہے ہیں ۔
بحیثیت ایک پاکستانی ہمیں اپنے نوبل انعام یافتگان (Nobel laureates) پر فخر کرنا چاہیے، جنہوں نے وطن عزیز کا نام سربلند کیا ہے ۔ ایک نے سائنس (فزکس) کے میدان میں ہمارا نام روشن کیا ، تو دوسری نے فروغ علم کو اپنا مشن بناکر امن کا انعام حاصل کیا ۔ پچھلے برس شرمین عبید نے اپنی دستاویزی فلم پر آسکر ایوارڈ حاصل کیا تھا ۔ یہ سب لوگ عالمی سطح پر ہماری نیک نامی کا باعث بنے ہیں ۔اس لیے ہمیں ان کا شکر گذار ہونا چاہیے ۔ہمیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ ہم اپنی شناخت ایک جنگجو(Warrior) کے بجائے علم دوست اور امن پسند کے طور پر کرانے سے کیوں کتراتے ہیں ۔
آج کی دنیا میں جنگجوؤں کو نہیں بلکہ امن نوازوں کو احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ ہماری اس جدید دنیا میں نیلسن منڈیلا نے جو تحمل، برداشت اور رواداری کی روایات قائم کی ہیں، وہ ہم سب کے لیے مشعل راہ ہیں ۔ اس لیے آئیے ہم سب مل کر ملالہ یوسف زئی کو سلام عقیدت پیش کریں اور اس کے اہل خانہ ، پورے پختونخواہ اور ہر پاکستانی شہری کو مبارکباد دیں اور خوشی کے ان لمحات کو مل جل کر enjoyکریں۔