ڈاکٹر طاہر القادری اور انتخابی سیاست

عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری جو انتخابی نظام میں خرابیوں کو بنیاد بناکر انتخابی سیاست سے عملا لاتعلق ہوگئے تھے


سلمان عابد October 16, 2014
[email protected]

عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری جو انتخابی نظام میں خرابیوں کو بنیاد بناکر انتخابی سیاست سے عملا لاتعلق ہوگئے تھے ، ان کا دوبارہ انتخابی سیاست کا حصہ بننا ایک اچھا سیاسی فیصلہ ہے ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارے انتخابی نظام میں بے شمار ایسی خرابیاں اور موذی مرض ہیں جنھوں نے عملا انتخابات کے نظام کو مذاق بناکر رکھ دیا ہے ۔ اگرچہ ہم نے ماضی کے مقابلے میں کئی انتخابی اصلاحات بھی کیں ، لیکن جب حکمرانوں اور ریاست کے اداروں کی سیاسی نیتوں میں کھوٹ اور بدنیتی ہو ، تو اچھی اصلاحات بھی کمزور سیاسی کمٹمنٹ، ذاتی مفادات پر مبنی سیاست اور اسٹیبلیشمنٹ کے مضبوط اثر و نفوذ کے سامنے بے بس ہوتی ہیں ۔اس لیے انتخابی نظام میں خرابیوں پر مایوسی کی کیفیت محض ڈاکٹر طاہر القادری تک محدود نہ تھی ، سیاسی اشرافیہ اور بعض سیاسی جماعتیں اور ان میں شامل کچھ افراد انفرادی سطح پر انتخابی نظام کے طریقہ کار پر سخت تنقید اور مایوسی کا اظہار کرتے رہے ہیں ۔

لیکن انتخابی نظام میں خرابیوں سے نمٹنے کے لیے تین ہی حکمت عملیاں ہوتی ہیں ۔ اول آپ اس انتخابی نظام سے لاتعلق ہوکر اس کی خرابیوں کی نشاندہی کرکے اپنے انتخابی لاتعلقی کے جواز کو پیش کریں ۔ دوئم آپ یہ دلیل دیں کہ پہلے انتخابی نظام بہتر ہو اور پھر ہم انتخابی سیاست کا حصہ بنیں گے ۔سوئم اسی انتخابی نظام میں خرابیوں کے باوجود اس کا حصہ بن کر اس میں اصلاحات کے عمل کا حصہ بن کر ایسی دباؤ کی سیاست کریں جو بگاڑ میں اصلاح و احوال کا کام دے سکے ۔انتخابی نظام کو اچھا اور شفاف بنانا صرف الیکشن کمیشن یا سیاسی جماعتوں ہی کی ذمے داری نہیں بلکہ اس میں ریاست کے تمام اداروں ، نگران حکومتیں اور سیاسی اشرافیہ کے گروپوں کا اہم کردار ہوتا ہے ۔

اگر آپ خود نظام کو بدلنے کے خواہاں ہیں اور اس کا راستہ بھی جمہوری اور آئینی سیاست کے اندر ہی رہ کر تلاش کرنے کے خواہش مند ہیں ، تو انتخابی سیاست ہی اس نظام کی بڑی بنیاد ہوگی ۔ آج جو دنیا میں جمہوری سیاست ہے اس کی بنیاد ووٹ کی سیاست سے منسلک ہے ۔ڈاکٹر طاہر القادری کو یہ اعتراف کرنا ہوگا کہ ان کی طرف سے ماضی میں انتخابی سیاست سے لاتعلقی کا فائدہ ان ہی سیاسی قوتوں نے اٹھایا جو اپنی ذاتی اقتدار پر مبنی سیاست کو بنیاد بنا کر انتخابی نظام کو اپنی سیاسی ڈھال بناتے رہے ہیں ۔ اس لیے اب جب دوبارہ ڈاکٹر طاہر القادری نے پاکستان کی عملی سیاست میں قدم رکھا تو ان کے بیشتر ناقدین ان کو انتخابی سیاست سے لاتعلقی کی بنیاد پر سیاسی فریق تسلیم کرنے کے لیے تیار ہی نہیں تھے ۔ حالانکہ عملی سیاست سے مراد محض انتخابی سیاست نہیں ہوتی ۔ بعض اوقات آپ انتخابات سے باہر بیٹھ کر بھی سیاسی نظام کی بہتری میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں ،لیکن ایسی صورت میں اقتدار آپ کی منزل نہیں ہوتی ، بلکہ اقتدار کے حامیوں پر اپنی پالیسیوں کا دباؤ ڈالنا مقصود ہوتا ہے ۔ لیکن جب آپ اقتدار میں آنے کے خواہش مند ہو ،تو انتخابی سیاست کو ہی بنیاد بناکر جمہوری نظام میں بہتری کی طرف بڑھا جاسکتا ہے ۔

ڈاکٹر طاہر القادری جب انقلاب کی بات کرتے تھے ، تو ان کے مخالفین یا ان کی سیاست پر تحفظات رکھنے والے یہ سوال ضرور اٹھاتے تھے کہ یہ انقلاب بغیر انتخابی سیاست میں حصہ لیے کیسے آئے گا ۔ یہ منطق کہ پہلے سارا انتخابی نظام ٹھیک ہو، پھر انتخابی سیاست کا حصہ بنا جائے ، محض ایک خواہش ہوسکتی ہے ، حقایق اس کے برعکس ہوتے ہیں ۔ ہمیں خرابیوں کے اندر ہی رہ کر ان خرابیوں کا مقابلہ کرنا ہوتا ہے ۔ ڈاکٹر طاہر القادری کے بارے میں یہ رائے کہ وہ انتخابی سیاست پر یقین ہی نہیں رکھتے تھے ، غلط تصور ہے ۔ ان کی تنقید موجودہ انتخابی نظام پر تھی اور ان کے بقول اس کی اصلاح کرکے ہی انتخابی سیاست کا حصہ بنا جائے گا ۔ڈاکٹر طاہر القادری نے 2013 کے انتخابات سے قبل جو انتخابی نظام اور الیکشن کمیشن کے معاملات پر جو بنیادی سوالات اٹھائے تھے ۔

اس وقت کے حالات پر ان کی بات پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی ، لیکن انتخابات کے بعد کے منظر نے ثابت کیا کہ ڈاکٹر طاہر القادری کی تنقید انتخابات سے قبل جائز تھی ، لیکن ان کے اعتراضاف کو کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی ۔ اب جو فیصلہ ڈاکٹر طاہر القادری نے انتخابی سیاست میں شرکت کا اعلان کرکے کیا ہے ، وہ قابل تعریف ہے ۔یقینا اس فیصلہ میں ڈاکٹر طاہر القادری کا اپنا فہم بھی شامل ہوگا اور ان کو لگتا ہوگا کہ اب انتخابی سیاست کا حصہ بن کر اقتدار کے حصول کی سیاست کریں ۔ لیکن ڈاکٹر طاہر القادری کے اس فہم وفراست اور فیصلہ میں ایک بڑا کریڈٹ ہمیں چوہدری برادران یعنی چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الہی کو بھی دینا ہوگا ۔

کیونکہ ڈاکٹر طاہر القادری کی انتخابی سیاست میں دوبارہ آمد کے پیچھے چوہدری برادران کی کوششوں کا عمل دخل زیادہ ہے ۔ چوہدری برادران کو اس بات کا اچھی طرح احساس ہے کہ تبدیلی کا راستہ انتخابی سیاست ہی ہوگا اور اس میں اگر ڈاکٹر طاہر القادری شامل ہوتے ہیں تو اس سے ملک کی جمہوری سیاست کو نقصان نہیں بلکہ فائدہ ہوگا ۔ اس وقت کیونکہ ڈاکٹر طاہرالقادری اور چوہدری برادران میں کافی سیاسی ہم آہنگی پائی جاتی ہے اور دونوں فریق ایک دوسرے کو اپنی سیاسی طاقت سمجھتے ہیں ۔اس لیے وہ لوگ جو ڈاکٹر طاہر القادری پر تنقید کرتے ہیں کہ وہ سیاسی فریق نہیں ۔

انھیں اب اپنا موقف بدلنا ہوگا ، کیونکہ وہ اب انتخابی سیاست کا حصہ بن گئے ہیں ۔ڈاکٹر طاہر القادری کی خوبی یہ ہے کہ اس وقت ملک کے بڑے حصہ پر ان کی تنظیم کا انتظامی ڈھانچہ موجود ہے ۔ اس انتظامی ڈھانچہ کا مظاہرہ ہم لاہور میں ان کے ڈویژن کے تنظیمی اجلاس اور سیاسی جلسوں جلوس کی صورت میں دیکھ چکے ہیں ۔ اسی طرح ان کی تنظیمی صلاحیتوں اور ان کے کارکنوں کی تربیت کے موثر نظام اور ان کی سیاسی و نظریاتی کمٹمنٹ کا مظاہرہ بھی قابل دید ہے ۔اسی طرح ڈاکٹر طاہر القادری اپنے پرجوش ، ولولہ انگیز خطابت، قانونی اور آئینی نکات پر ان کی دسترس اور اپنی علمی صلاحیتوں کی باعث ایک طبقہ پر اپنا مضبوط اثر و نفوذ رکھتے ہیں۔

اب دیکھنا یہ ہوگا کہ وہ انتخابی سیاست میں کود تو پڑے ہیں ، لیکن اس انتخابی سیاست میں جہاں بہت سے مسائل موجود ہیں اس میں ڈاکٹر طاہر القادری او ان کے ساتھی اس میں کیسے اپنا راستہ بناتے ہیں ۔انتخابی سیاست میں کوئی جادوئی عمل نہیں ہوتا، بلکہ یہ عمل اپنے تسلسل کے ساتھ جڑا ہوا ہوتا ہے ۔ اس لیے ڈاکٹر طاہر القادری کو انتخابی سیاست میں دوبارہ آمد پر یہ بات پیش نظر رکھنی ہوگی کہ لوگ اس موجودہ سیاسی نظام سمیت انتخابی نظام سے نالاں ہیں ۔ لوگ واقعی نظام کی تبدیلی کے خواہش مند نظر آتے ہیں ۔ ڈاکٹر طاہر القادری کے لیے یہ بڑا چیلنج ہوگا کہ وہ عملی اور انتخابی سیاست میں نظام کی تبدیلی میں کیا بڑا کردار ادا کرتے ہیں ۔

سیاست میں عمومی طور پر تبدیلی یا انقلاب کے نعرے لگانا آسان ہوتا ہے ۔ لیکن اس کے لیے اپنی جدوجہد کو درست سمت دینا ہی قیادت کا اہم کام ہوتا ہے ۔بالخصوص آپ کے اردگرد جو لوگ جمع ہوتے ہیں یا آپ کی باتوں سے متاثر ہوتے ہیں اس ہجوم کو ایک ووٹ بینک میں تبدیل کرنا بڑی سیاسی کامیابی ہوتی ہے ۔کیونکہ ماضی میں بھی لوگ ہجوم اکٹھا کرتے رہے ہیں، لیکن ووٹ بینک کی سیاست میں وہ بڑا کردار ادا نہیں کرسکے ۔بہرحال طاہر القادری ضرور انتخابی سیاست کا حصہ بنیں ، لیکن اس حکمت عملی کو محض اقتدار کی سیاست کے بجائے عوامی مفادات کی سیاست اور نظام کی تبدیلی پر توجہ دینی چاہیے ۔ اس لیے اگر ڈاکٹر طاہر القادری انتخابی سیاست کا حصہ بن کر اسی روایتی سیاست کا حصہ بنتے ہیں جو بالادست حکمران طبقات نے اختیار کیا ہوا ہے ، تو اس سے حقیقی تبدیلی یا انقلاب کی خواہش بہت پیچھے رہ جائے گی ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں