آنکھیں دل کا آئینہ ہیں
شاعرزندگی کوالگ نقطہ نظر سے دیکھتا ہے۔ اس کی سوچ کا منفرد انداز وجود، زندگی اور کائنات کی ترجمانی الگ طریقے سے کرتا ہے
KARACHI:
شاعر زندگی کو الگ نقطہ نظر سے دیکھتا ہے۔ اس کی سوچ کا منفرد انداز وجود، زندگی اور کائنات کی ترجمانی الگ طریقے سے کرتا ہے۔ بظاہر چیزیں مختلف اور الگ دکھائی دیتی ہیں، مگر ان کے درمیان رابطوں کی خوبصورتی مسکراتی ہے۔ انحصار کی روشنی محسوس ہوتی ہے اور یکجہتی کا اظہار ملتا ہے۔ وجود سے زندگی اور کائنات تک بکھرے ہوئے فاصلوں میں تعلق کی ان دیکھی ڈور بندھی ہے۔ اس تعلق کی خوبصورتی کو شاہ عبداللطیف بھٹائی نے جا بجا اپنی شاعری میں اجاگر کیا ہے۔ تعلق کو محسوس کرنے اور اسے نبھانے کا محور انسانی آنکھ ہے۔ ذہن آنکھ کی کھڑکی سے دنیا دیکھتا ہے۔ آنکھوں کا رابطہ اگر ذہن سے فعال ہے تو یہ الہامی کیفیات کی ترجمان کہلاتی ہیں۔
سُر آسا ایک راگنی کا نام ہے۔ اس سُر میں شاہ صاحب نے انسان کو دنیاوی تضادات سے دور رہنے کی تلقین کی ہے۔ تمام تر امیدیں، آرزوئیں اور امنگیں بامقصد اور بااصول زندگی کے حصول سے وابستہ کرتے ہیں۔ قلب و نظر کو اعلیٰ نصب العین اور کامل محور چاہیے۔ آنکھیں دیکھتی ہی نہیں بلکہ محسوس کرتی ہیں۔ آنکھ کے مشاہدے میں اگر احساس کی چاشنی شامل ہے تو پرکھ کا یہ داخلی پہلو ہے۔ صوفی کا رجحان داخلیت پسندی کی طرف مائل ہے۔ وہ من کی دنیا کا مسافر ہے۔ وہ باہر کی دنیا کو باطن کی آنکھ سے پرکھتا ہے۔
بقول شاہ:
یہ آنکھیں ہیں جو پر خطر راہ اختیار کرتی ہیں۔ یہ پرکھے بغیر اعتبار کر لیتی ہیں۔ یہ آنکھیں ہیں جو ایسی منزل کو کھوجتی ہیں، جس کی رہگزر بے یقینی کی دھول سے اٹی ہے۔ پھر یہ کسی راہ گیر کی خاطر روح کو وقف انتظار کرتی ہیں۔''
شاہ لطیف کے نزدیک آنکھوں کی یہ بے ساختگی اور فطری رغبت انسان کو اپنی ذات سے جدا کر دیتی ہے۔ کیونکہ آنکھیں بغیر پرکھے جب محبت کی ڈور سے بندھ جاتی ہیں تو دل کو جذباتی نقصان برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ پھر یہ آنکھیں گھٹا کی طرح برستی ہیں، جو کئی بار سیر ہو کر بھی جلوہ یار کو ترستی ہیں۔
جس کو گرداب راس آ جائے
ہر کنارہ اسے کھٹکتا ہے
اپنے ہی دل میں دیکھ لے اس کو
کس لیے جا بجا بھٹکتا ہے
حقیقت یہ ہے کہ تکلیف اور دھوکا کھائے بغیر، قلب و نظر میں گہرائی پیدا نہیں ہو پاتی۔ زندگی میں کمی اور تشنگی نہ ہو تو دل کی مٹی زرخیزی سے محروم رہ جاتی ہے۔ پرکھ کا پیمانہ غلط ہو تو پھر تکلیف ناگزیر ہے۔ قصور کسی دوسرے کا نہیں بلکہ کوتاہی انسان کی اپنی سمجھ کی ہے۔ سوچ کی غلط فہمی یا پھر کہیں خوش فہمی و خوش گمانی زندگی کو دکھ کے جہنم میں جھونک دیتے ہیں۔ دکھوں سے قلب کو جلا اور نظر کو آگہی کا عرفان عطا ہوتا ہے۔ آنکھوں سے گمراہی کے پردے اٹھنے لگتے ہیں۔
دل کی آنکھیں جو کھول کر دیکھے
رو برو اس کو جلوہ گر دیکھے
پھر نہ کہلائے تو کبھی مشرک
ہر طرف حسن معتبر دیکھے
یہی وجہ ہے کہ شاہ لطیف انسان کو قلب و نظر سے بے یقینی اور منفی سوچ کا زنگ اتارنے کے لیے کہتے ہیں۔ یہ باطن کی تیسری آنکھ ہے، جو اندھیرے میں بھی دیکھ سکتی ہے۔ رومی بھی اپنے شعر میں کہتے ہیں شفاف اور بے تاثر ذہن ایک ایسا آئینہ ہے، جس سے خدائی عکس واضح طور پر جھلکتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ نظریاتی تضادات، انا پرستی اور خود غرضی ظرف کے آئینے کو حددرجہ میلا کر دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے حالات کا صحیح تجزیہ نہیں کیا جا سکتا۔ اور نہ ہی ایک دوسرے کا نقطہ نظر سمجھا جا سکتا ہے۔ دور حاضر بھی نا سمجھی، بے یقینی اور عدم برداشت کا شکار ہو کے انسانی قدروں اور مثبت سوچ سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔ جب انسان اپنی ذات کو نہیں سمجھ سکتا تو وہ خدا کی ذات کو کیسے پہچان پائے گا۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ جب ہمارے اپنے رہبر سوچ و رویوں میں غیر واضح ہیں، تو ان کے بتائے ہوئے راستوں پر چلنے والے یوں ہی بھٹکتے رہیں گے۔
وہم کثرت کو غرق وحدت کو
مان لے خود پرستیوں کی ہار
راز ہے تیری کامیابی کا
بے خودی ہی میں اے قلاش یار
وہ زندگی جہاں سکون، قناعت اور پرکھنے کا جوہر موجود ہو، وہاں خاموشی اور ٹھہراؤ خودبخود پیدا ہو جاتے ہیں۔ سکوت، وجود کی تلاش کا محرک ہے۔ ہم دنیا کی بھیڑ میں کھو کر خود کو کبھی نہیں پا سکتے۔ مگر خاموشی جب میسر آتی ہے، تو ہم اپنی ذات کے مقابل آن کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس پر آشوب دور کا سب سے بڑا المیہ شور ہے۔ یہ شور چاہے انسان کے ذہن میں اٹھتا ہو یا باہر کی دنیا کا حصہ ہو۔ یہ ہنگامے زوال اور گمنامی کی وجہ بنتے ہیں۔ ہم نے ہر طرف مجمعے لگا رکھے ہیں۔ اجتماع میں فرد ذاتی ذمے داری سے غافل ہو جاتے ہیں اور المیے جنم لیتے ہیں۔ ہم آج تک اجتماع کو اپنی طاقت نہیں بنا سکے۔ طاقت تصور کی آنکھ عطا کرتی ہے۔
تصور اس وقت تک مضبوط نہیں ہو سکتا جب تک خیال میں سچائی نہ ہو۔ خیال کی سچائی سے باطن کی آنکھ راہ سجھاتی ہے۔ آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ قصور کس کا ہے، راہ سجھانے والوں کا یا راستہ ڈھونڈنے والے منزل کے فریب میں کس قدر مبتلا ہیں۔ منزل کی طرف جانے والے راستے دل کے قریب سے ہو کے نہ گزریں اگر تو تلاش جستجو بے ثمر ہی کہلائے گی۔ شاہ لطیف کسی مخصوص دور کے شاعر نہیں ہیں۔ ان کی شاعری میں ان تمام سوالات کے جوابات موجود ہیں، جو اس جدید دور میں اٹھائے جاتے ہیں۔ مسئلہ فقط یہ ہے کہ ہم اپنے لوک ورثے اور صوفی شاعری کے اصلی پیغام سے غیر واقف ہیں۔ ہمارے جسم خواہشات کی لے پر رقصاں ہیں مگر ہم نہ تو اپنی روح کی تشنگی کو محسوس کر سکتے ہیں اور نہ ہی اسے سیراب کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔
شاعر زندگی کو الگ نقطہ نظر سے دیکھتا ہے۔ اس کی سوچ کا منفرد انداز وجود، زندگی اور کائنات کی ترجمانی الگ طریقے سے کرتا ہے۔ بظاہر چیزیں مختلف اور الگ دکھائی دیتی ہیں، مگر ان کے درمیان رابطوں کی خوبصورتی مسکراتی ہے۔ انحصار کی روشنی محسوس ہوتی ہے اور یکجہتی کا اظہار ملتا ہے۔ وجود سے زندگی اور کائنات تک بکھرے ہوئے فاصلوں میں تعلق کی ان دیکھی ڈور بندھی ہے۔ اس تعلق کی خوبصورتی کو شاہ عبداللطیف بھٹائی نے جا بجا اپنی شاعری میں اجاگر کیا ہے۔ تعلق کو محسوس کرنے اور اسے نبھانے کا محور انسانی آنکھ ہے۔ ذہن آنکھ کی کھڑکی سے دنیا دیکھتا ہے۔ آنکھوں کا رابطہ اگر ذہن سے فعال ہے تو یہ الہامی کیفیات کی ترجمان کہلاتی ہیں۔
سُر آسا ایک راگنی کا نام ہے۔ اس سُر میں شاہ صاحب نے انسان کو دنیاوی تضادات سے دور رہنے کی تلقین کی ہے۔ تمام تر امیدیں، آرزوئیں اور امنگیں بامقصد اور بااصول زندگی کے حصول سے وابستہ کرتے ہیں۔ قلب و نظر کو اعلیٰ نصب العین اور کامل محور چاہیے۔ آنکھیں دیکھتی ہی نہیں بلکہ محسوس کرتی ہیں۔ آنکھ کے مشاہدے میں اگر احساس کی چاشنی شامل ہے تو پرکھ کا یہ داخلی پہلو ہے۔ صوفی کا رجحان داخلیت پسندی کی طرف مائل ہے۔ وہ من کی دنیا کا مسافر ہے۔ وہ باہر کی دنیا کو باطن کی آنکھ سے پرکھتا ہے۔
بقول شاہ:
یہ آنکھیں ہیں جو پر خطر راہ اختیار کرتی ہیں۔ یہ پرکھے بغیر اعتبار کر لیتی ہیں۔ یہ آنکھیں ہیں جو ایسی منزل کو کھوجتی ہیں، جس کی رہگزر بے یقینی کی دھول سے اٹی ہے۔ پھر یہ کسی راہ گیر کی خاطر روح کو وقف انتظار کرتی ہیں۔''
شاہ لطیف کے نزدیک آنکھوں کی یہ بے ساختگی اور فطری رغبت انسان کو اپنی ذات سے جدا کر دیتی ہے۔ کیونکہ آنکھیں بغیر پرکھے جب محبت کی ڈور سے بندھ جاتی ہیں تو دل کو جذباتی نقصان برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ پھر یہ آنکھیں گھٹا کی طرح برستی ہیں، جو کئی بار سیر ہو کر بھی جلوہ یار کو ترستی ہیں۔
جس کو گرداب راس آ جائے
ہر کنارہ اسے کھٹکتا ہے
اپنے ہی دل میں دیکھ لے اس کو
کس لیے جا بجا بھٹکتا ہے
حقیقت یہ ہے کہ تکلیف اور دھوکا کھائے بغیر، قلب و نظر میں گہرائی پیدا نہیں ہو پاتی۔ زندگی میں کمی اور تشنگی نہ ہو تو دل کی مٹی زرخیزی سے محروم رہ جاتی ہے۔ پرکھ کا پیمانہ غلط ہو تو پھر تکلیف ناگزیر ہے۔ قصور کسی دوسرے کا نہیں بلکہ کوتاہی انسان کی اپنی سمجھ کی ہے۔ سوچ کی غلط فہمی یا پھر کہیں خوش فہمی و خوش گمانی زندگی کو دکھ کے جہنم میں جھونک دیتے ہیں۔ دکھوں سے قلب کو جلا اور نظر کو آگہی کا عرفان عطا ہوتا ہے۔ آنکھوں سے گمراہی کے پردے اٹھنے لگتے ہیں۔
دل کی آنکھیں جو کھول کر دیکھے
رو برو اس کو جلوہ گر دیکھے
پھر نہ کہلائے تو کبھی مشرک
ہر طرف حسن معتبر دیکھے
یہی وجہ ہے کہ شاہ لطیف انسان کو قلب و نظر سے بے یقینی اور منفی سوچ کا زنگ اتارنے کے لیے کہتے ہیں۔ یہ باطن کی تیسری آنکھ ہے، جو اندھیرے میں بھی دیکھ سکتی ہے۔ رومی بھی اپنے شعر میں کہتے ہیں شفاف اور بے تاثر ذہن ایک ایسا آئینہ ہے، جس سے خدائی عکس واضح طور پر جھلکتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ نظریاتی تضادات، انا پرستی اور خود غرضی ظرف کے آئینے کو حددرجہ میلا کر دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے حالات کا صحیح تجزیہ نہیں کیا جا سکتا۔ اور نہ ہی ایک دوسرے کا نقطہ نظر سمجھا جا سکتا ہے۔ دور حاضر بھی نا سمجھی، بے یقینی اور عدم برداشت کا شکار ہو کے انسانی قدروں اور مثبت سوچ سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔ جب انسان اپنی ذات کو نہیں سمجھ سکتا تو وہ خدا کی ذات کو کیسے پہچان پائے گا۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ جب ہمارے اپنے رہبر سوچ و رویوں میں غیر واضح ہیں، تو ان کے بتائے ہوئے راستوں پر چلنے والے یوں ہی بھٹکتے رہیں گے۔
وہم کثرت کو غرق وحدت کو
مان لے خود پرستیوں کی ہار
راز ہے تیری کامیابی کا
بے خودی ہی میں اے قلاش یار
وہ زندگی جہاں سکون، قناعت اور پرکھنے کا جوہر موجود ہو، وہاں خاموشی اور ٹھہراؤ خودبخود پیدا ہو جاتے ہیں۔ سکوت، وجود کی تلاش کا محرک ہے۔ ہم دنیا کی بھیڑ میں کھو کر خود کو کبھی نہیں پا سکتے۔ مگر خاموشی جب میسر آتی ہے، تو ہم اپنی ذات کے مقابل آن کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس پر آشوب دور کا سب سے بڑا المیہ شور ہے۔ یہ شور چاہے انسان کے ذہن میں اٹھتا ہو یا باہر کی دنیا کا حصہ ہو۔ یہ ہنگامے زوال اور گمنامی کی وجہ بنتے ہیں۔ ہم نے ہر طرف مجمعے لگا رکھے ہیں۔ اجتماع میں فرد ذاتی ذمے داری سے غافل ہو جاتے ہیں اور المیے جنم لیتے ہیں۔ ہم آج تک اجتماع کو اپنی طاقت نہیں بنا سکے۔ طاقت تصور کی آنکھ عطا کرتی ہے۔
تصور اس وقت تک مضبوط نہیں ہو سکتا جب تک خیال میں سچائی نہ ہو۔ خیال کی سچائی سے باطن کی آنکھ راہ سجھاتی ہے۔ آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ قصور کس کا ہے، راہ سجھانے والوں کا یا راستہ ڈھونڈنے والے منزل کے فریب میں کس قدر مبتلا ہیں۔ منزل کی طرف جانے والے راستے دل کے قریب سے ہو کے نہ گزریں اگر تو تلاش جستجو بے ثمر ہی کہلائے گی۔ شاہ لطیف کسی مخصوص دور کے شاعر نہیں ہیں۔ ان کی شاعری میں ان تمام سوالات کے جوابات موجود ہیں، جو اس جدید دور میں اٹھائے جاتے ہیں۔ مسئلہ فقط یہ ہے کہ ہم اپنے لوک ورثے اور صوفی شاعری کے اصلی پیغام سے غیر واقف ہیں۔ ہمارے جسم خواہشات کی لے پر رقصاں ہیں مگر ہم نہ تو اپنی روح کی تشنگی کو محسوس کر سکتے ہیں اور نہ ہی اسے سیراب کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔