فنکاری
ہوا یہ کہ بھارت کی مسلسل اشتعال انگیزی اور سرحدوں پر گولہ باری سے متعدد پاکستانی شہید ہو رہے ہیں۔
SHAHDADPUR:
یوں تو شاعری خود ہی فن ہے لیکن اس میں بھی فنکاری دکھائی جاتی ہے۔ اسے شعری فن سمجھا جاتا ہے مثلاً غالبؔ کا یہ مشہور شعر:
قفس میں مجھ سے روداد چمن کہتے نہ ڈر ہمدم
گری ہو جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو
شاعری میں اسے تجاہل عارفانہ کا فن سمجھا جاتا ہے۔ یعنی جانتے بوجھتے کسی واقعے یا بات کو یہ کہہ کر زیر بحث لانا یا دہرانا کہ جیسے پہلی بار سن رہے ہوں، اس سے قبل واقفیت نہیں تھی۔ خود اس اصطلاح کی ترکیب اپنے معنی آپ بتا دیتی ہے کہ عارفانہ (جانتے ہوئے) ہوتے ہوئے بھی تجاہل (انجان بننا)۔ ایسا کیوں کیا جاتا ہے؟ یہ سوال پوچھنا جائز ہے۔ ایسا نہ ہوا کرتا تو یہ فن نہ بنتا۔ وجوہات اس کی موقع محل سے بدل سکتی ہیں لیکن بظاہر عدم واقفیت کا تاثر دینا۔ یا پھر دوسرے کی زبان سے سنتے ہوئے یہ اندازہ لگانا یا ٹوہ لینا کہ اس واقعے پر سنانے والے کے کیا خیالات، جذبات اور تاثرات ہیں۔ کس زاویے سے وہ اس واقعے کو دیکھ رہا ہے۔ شاعری کے متعدد فن میں سے یہ عجیب سے موقعے پر ذہن میں ابھر کے آ گیا۔
ہوا یہ کہ بھارت کی مسلسل اشتعال انگیزی اور سرحدوں پر گولہ باری سے متعدد پاکستانی شہید ہو رہے ہیں۔ شہیدوں کے کنبوں پر کیا گزر رہی ہے۔ جب کہ سبب محض اتنا ہے کہ بھارت اپنی بالادستی قائم رکھنے کے لیے خوف پھیلا رہا ہے۔ پوچھنے والا سوال تو یہ ہے کہ یک بیک یہ سلسلہ کیوں شروع ہو گیا۔ ہماری حکومت نے فوجی اور سفارتی راستے تو نکالے اور مسئلے پر سنجیدہ توجہ دکھانے کے لیے نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کا اجلاس بھی طلب کر لیا۔
اجلاس اس لیے بھی ضروری تھا کہ دیگر اداروں کو بھی شامل کر لیا جائے یا اہمیت دی جائے کہ مسئلہ محض سول سوسائٹی تک نہیں ہے۔ خیر اجلاس بلانے کی کچھ بھی نیت ہو مگر اس میٹنگ میں میاں نواز شریف نے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز سے خصوصاً اور شرکا اجلاس سے عمومی طور پر سوال پوچھ لیا کہ بھارت چاہتا کیا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے بیانات مایوس کن ہیں۔ یہ سوال پوچھنے پر بعض لوگوں نے جملہ کسا جانے نہ جانے گُل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے۔ جب کہ ہم سمجھتے ہیں باغ کا جاننا مشکوک ہے گُل کو واقف ہونا چاہیے۔ میاں صاحب کا حاضرین سے یہ سوال غالبؔ کے اسی شعری فن کی نمایندگی ہے جسے تجاہل عارفانہ کہتے ہیں کہ میاں صاحب تو جانتے ہیں مگر دوسرے حضرات کیا جانتے ہیں اس سے واقفیت ہونا ضروری ہے۔
اسی تناظر میں کیے گئے سوال کا جواب اگر ملٹری آپریشن کے ڈی جی کوئی مسکت جواب دیتے جس میں دفاع بالخصوص آرمی کا نقطہ نظر کچھ حوالوں سے سامنے آ جاتا تو اسے ذہن میں رکھتے ہوئے کوئی پالیسی بنائی جا سکتی تھی۔ لیکن وہاں تو سب ہی لاجواب تھے میاں صاحب جو چاہتے تھے اس میں تو کامیاب نہیں ہوئے لیکن ملک کے باہر وہ ایک صلح جو اور توسیع پسندی کے خلاف رہنما ضرور ثابت ہو گئے۔ میاں صاحب کو ہونا بھی ایسا ہی چاہیے ان کی تربیت سرمایہ دارانہ طبقے کے ماحول میں ہوئی ہے جہاں ایک سے دو اور دو سے چار کے لیے ذہن بن جاتا ہے۔ یہی سب سے بڑی کامیابی سمجھی جاتی ہے کہ جو کچھ لاگت سے زیادہ سمیٹا جا سکے سمیٹ لو اس کے لیے راستے نکالو جسے قدر زائد یا منافع کہتے ہیں اور ادبی زبان میں سود کہا جاتا ہے جیسا کہ فیضؔ نے اس شعر میں باندھا ہے:
غائت سود و زیاں صورت آغاز و مال
وہی بے سود تجسس وہی بے کار سوال
ہم دوسری طرف نہ نکل جائیں اس لیے موضوع پر واپس آتے ہوئے اسی سوال پر غور کریں گے جو میاں صاحب کی طرف سے حاضرین سے پوچھا گیا بھارت چاہتا کیا ہے؟ بھارت مختلف الخیال گروہوں، مذہبوں قوموں کا نام ہے۔ اس لیے بھارت کے چاہنے کے بجائے میاں صاحب کو سوال یوں کرنا تھا کہ جنتا پارٹی کی حکومت کیا چاہتی ہے؟ یہ سوال کرنے میں انھیں اس لیے بھی تامل ہوا ہو گا کہ حاضرین میں سے کوئی یہ نہ کہہ دے کہ بی جے پی کو آپ سے بہتر کون جانتا ہو گا جس نے اپنی دوسری وزارت عظمیٰ کے زمانے میں واجپائی کو بلا کر مینار پاکستان کی سیر بھی کرائی تھی کچھ واضح اور کچھ خفیہ معاملات بھی طے ہونا تھے لیکن برا ہو کارگل کی فوجی مشق کا جس نے منصوبے پر پانی پھیر دیا ۔
ابھی تازہ ترین موقعے پر بھی نریندر مودی کی دستار بندی (عہدہ سنبھالنے کی رسم) پر آپ کی شرکت اور ملاقات میں کیا کچھ طے ہوا وہ بھی آپ سے بہتر کون جانتا ہو گا۔ پھر اقوام متحدہ کے اجلاس میں آپ کی شرکت جس کے لیے پاکستان میں ایک بہت بڑی لابی کا خیال تھا کہ اقوام متحدہ کے اس اجلاس میں شرکت کر کے پاکستان کی ہتک نہ کرائیں۔ کیونکہ نریندر مودی کو امریکا جو استقبال دے رہا ہے اس موقعے پر آپ کی موجودگی اور محرومی سے استقبال میں مقابلے کا عنصر ہونے کی وجہ سے اہمیت بڑھ جائے گی۔ پھر اجلاس میں مودی کی موجودگی میں کشمیر کے مسئلے کو روایتی طور پر ابھار کر تنازعے کی صورت کو ہوا دینا کہاں کی سیاست تھی۔ کس حد تک یہ سب کچھ عمداً ہوا تو اس کے اثرات کیا سمیٹے گئے۔ اب لائن آف کنٹرول پر بھارت کی مسلسل خلاف ورزی اور جارحیت پر آپ اسی طور پر دبے لفظوں میں احتجاج کریں گے یا سخت جواب بھی دیں گے۔ اس بتنگڑ کا ایک فائدہ ضرور نکلے گا کہ عالمی طاقتیں ایک بار پھر بات چیت پر زور دیں گی۔
نریندر مودی کی بدتری اور شدت پسندی کشمیر کے مسئلے کو پھر سرد خانے میں ڈالنے کے لیے کچھ شرائط پیش کر دے گا۔ کیا پاکستان میں جنگی جنون پیدا کرنے سے بیداری کی لہر اور جمہوریت کی مانگ کا تیا پائنچہ ہو سکے گا۔ یہ مستقبل جواب دے گا۔ مگر بھارت چاہتا کیا ہے اپنی جگہ اٹل سوال ہے کیا ہمیں سیٹلائٹ بنانے کے لیے comprador class (غیرملکی تجارت پر بھروسہ کرنے والے) کے لیے پاکستان میں مواقعے نکال کر فوجی خوف کم کر کے سیاسی امن و امان کو ترجیح دی جائے گی جس میں بھارت سر فہرست ہو جائے گا۔ حالات اسی جانب نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ ہماری قیادت اپنے وجود کی واضح بصیرت نہیں رکھتی محض معاشی سہولتیں ہی ہمارا ایجنڈا ہیں۔
یوں تو شاعری خود ہی فن ہے لیکن اس میں بھی فنکاری دکھائی جاتی ہے۔ اسے شعری فن سمجھا جاتا ہے مثلاً غالبؔ کا یہ مشہور شعر:
قفس میں مجھ سے روداد چمن کہتے نہ ڈر ہمدم
گری ہو جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو
شاعری میں اسے تجاہل عارفانہ کا فن سمجھا جاتا ہے۔ یعنی جانتے بوجھتے کسی واقعے یا بات کو یہ کہہ کر زیر بحث لانا یا دہرانا کہ جیسے پہلی بار سن رہے ہوں، اس سے قبل واقفیت نہیں تھی۔ خود اس اصطلاح کی ترکیب اپنے معنی آپ بتا دیتی ہے کہ عارفانہ (جانتے ہوئے) ہوتے ہوئے بھی تجاہل (انجان بننا)۔ ایسا کیوں کیا جاتا ہے؟ یہ سوال پوچھنا جائز ہے۔ ایسا نہ ہوا کرتا تو یہ فن نہ بنتا۔ وجوہات اس کی موقع محل سے بدل سکتی ہیں لیکن بظاہر عدم واقفیت کا تاثر دینا۔ یا پھر دوسرے کی زبان سے سنتے ہوئے یہ اندازہ لگانا یا ٹوہ لینا کہ اس واقعے پر سنانے والے کے کیا خیالات، جذبات اور تاثرات ہیں۔ کس زاویے سے وہ اس واقعے کو دیکھ رہا ہے۔ شاعری کے متعدد فن میں سے یہ عجیب سے موقعے پر ذہن میں ابھر کے آ گیا۔
ہوا یہ کہ بھارت کی مسلسل اشتعال انگیزی اور سرحدوں پر گولہ باری سے متعدد پاکستانی شہید ہو رہے ہیں۔ شہیدوں کے کنبوں پر کیا گزر رہی ہے۔ جب کہ سبب محض اتنا ہے کہ بھارت اپنی بالادستی قائم رکھنے کے لیے خوف پھیلا رہا ہے۔ پوچھنے والا سوال تو یہ ہے کہ یک بیک یہ سلسلہ کیوں شروع ہو گیا۔ ہماری حکومت نے فوجی اور سفارتی راستے تو نکالے اور مسئلے پر سنجیدہ توجہ دکھانے کے لیے نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کا اجلاس بھی طلب کر لیا۔
اجلاس اس لیے بھی ضروری تھا کہ دیگر اداروں کو بھی شامل کر لیا جائے یا اہمیت دی جائے کہ مسئلہ محض سول سوسائٹی تک نہیں ہے۔ خیر اجلاس بلانے کی کچھ بھی نیت ہو مگر اس میٹنگ میں میاں نواز شریف نے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز سے خصوصاً اور شرکا اجلاس سے عمومی طور پر سوال پوچھ لیا کہ بھارت چاہتا کیا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے بیانات مایوس کن ہیں۔ یہ سوال پوچھنے پر بعض لوگوں نے جملہ کسا جانے نہ جانے گُل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے۔ جب کہ ہم سمجھتے ہیں باغ کا جاننا مشکوک ہے گُل کو واقف ہونا چاہیے۔ میاں صاحب کا حاضرین سے یہ سوال غالبؔ کے اسی شعری فن کی نمایندگی ہے جسے تجاہل عارفانہ کہتے ہیں کہ میاں صاحب تو جانتے ہیں مگر دوسرے حضرات کیا جانتے ہیں اس سے واقفیت ہونا ضروری ہے۔
اسی تناظر میں کیے گئے سوال کا جواب اگر ملٹری آپریشن کے ڈی جی کوئی مسکت جواب دیتے جس میں دفاع بالخصوص آرمی کا نقطہ نظر کچھ حوالوں سے سامنے آ جاتا تو اسے ذہن میں رکھتے ہوئے کوئی پالیسی بنائی جا سکتی تھی۔ لیکن وہاں تو سب ہی لاجواب تھے میاں صاحب جو چاہتے تھے اس میں تو کامیاب نہیں ہوئے لیکن ملک کے باہر وہ ایک صلح جو اور توسیع پسندی کے خلاف رہنما ضرور ثابت ہو گئے۔ میاں صاحب کو ہونا بھی ایسا ہی چاہیے ان کی تربیت سرمایہ دارانہ طبقے کے ماحول میں ہوئی ہے جہاں ایک سے دو اور دو سے چار کے لیے ذہن بن جاتا ہے۔ یہی سب سے بڑی کامیابی سمجھی جاتی ہے کہ جو کچھ لاگت سے زیادہ سمیٹا جا سکے سمیٹ لو اس کے لیے راستے نکالو جسے قدر زائد یا منافع کہتے ہیں اور ادبی زبان میں سود کہا جاتا ہے جیسا کہ فیضؔ نے اس شعر میں باندھا ہے:
غائت سود و زیاں صورت آغاز و مال
وہی بے سود تجسس وہی بے کار سوال
ہم دوسری طرف نہ نکل جائیں اس لیے موضوع پر واپس آتے ہوئے اسی سوال پر غور کریں گے جو میاں صاحب کی طرف سے حاضرین سے پوچھا گیا بھارت چاہتا کیا ہے؟ بھارت مختلف الخیال گروہوں، مذہبوں قوموں کا نام ہے۔ اس لیے بھارت کے چاہنے کے بجائے میاں صاحب کو سوال یوں کرنا تھا کہ جنتا پارٹی کی حکومت کیا چاہتی ہے؟ یہ سوال کرنے میں انھیں اس لیے بھی تامل ہوا ہو گا کہ حاضرین میں سے کوئی یہ نہ کہہ دے کہ بی جے پی کو آپ سے بہتر کون جانتا ہو گا جس نے اپنی دوسری وزارت عظمیٰ کے زمانے میں واجپائی کو بلا کر مینار پاکستان کی سیر بھی کرائی تھی کچھ واضح اور کچھ خفیہ معاملات بھی طے ہونا تھے لیکن برا ہو کارگل کی فوجی مشق کا جس نے منصوبے پر پانی پھیر دیا ۔
ابھی تازہ ترین موقعے پر بھی نریندر مودی کی دستار بندی (عہدہ سنبھالنے کی رسم) پر آپ کی شرکت اور ملاقات میں کیا کچھ طے ہوا وہ بھی آپ سے بہتر کون جانتا ہو گا۔ پھر اقوام متحدہ کے اجلاس میں آپ کی شرکت جس کے لیے پاکستان میں ایک بہت بڑی لابی کا خیال تھا کہ اقوام متحدہ کے اس اجلاس میں شرکت کر کے پاکستان کی ہتک نہ کرائیں۔ کیونکہ نریندر مودی کو امریکا جو استقبال دے رہا ہے اس موقعے پر آپ کی موجودگی اور محرومی سے استقبال میں مقابلے کا عنصر ہونے کی وجہ سے اہمیت بڑھ جائے گی۔ پھر اجلاس میں مودی کی موجودگی میں کشمیر کے مسئلے کو روایتی طور پر ابھار کر تنازعے کی صورت کو ہوا دینا کہاں کی سیاست تھی۔ کس حد تک یہ سب کچھ عمداً ہوا تو اس کے اثرات کیا سمیٹے گئے۔ اب لائن آف کنٹرول پر بھارت کی مسلسل خلاف ورزی اور جارحیت پر آپ اسی طور پر دبے لفظوں میں احتجاج کریں گے یا سخت جواب بھی دیں گے۔ اس بتنگڑ کا ایک فائدہ ضرور نکلے گا کہ عالمی طاقتیں ایک بار پھر بات چیت پر زور دیں گی۔
نریندر مودی کی بدتری اور شدت پسندی کشمیر کے مسئلے کو پھر سرد خانے میں ڈالنے کے لیے کچھ شرائط پیش کر دے گا۔ کیا پاکستان میں جنگی جنون پیدا کرنے سے بیداری کی لہر اور جمہوریت کی مانگ کا تیا پائنچہ ہو سکے گا۔ یہ مستقبل جواب دے گا۔ مگر بھارت چاہتا کیا ہے اپنی جگہ اٹل سوال ہے کیا ہمیں سیٹلائٹ بنانے کے لیے comprador class (غیرملکی تجارت پر بھروسہ کرنے والے) کے لیے پاکستان میں مواقعے نکال کر فوجی خوف کم کر کے سیاسی امن و امان کو ترجیح دی جائے گی جس میں بھارت سر فہرست ہو جائے گا۔ حالات اسی جانب نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ ہماری قیادت اپنے وجود کی واضح بصیرت نہیں رکھتی محض معاشی سہولتیں ہی ہمارا ایجنڈا ہیں۔