جنگل شہر کی طرف بھاگتا ہے
سدرہ سحر عمران کی یہ نظم ’جنگل شہر کی طرف بھاگتا ہے ‘ روایتی، ثقافتی و سماجی مروجہ لسانی معنویت سے انحراف ہے
سدرہ سحر عمران کی یہ نظم 'جنگل شہر کی طرف بھاگتا ہے ' روایتی، ثقافتی و سماجی مروجہ لسانی معنویت سے انحراف ہے، شہر تہذیب کا سگنیفائر ہے تو جنگل جب شہر کی طرف بھاگتا ہے تو ایک استعارہ بن جاتا ہے جو تہذیب سے متضاد ہے۔ جنگل کا شہر کی طرف بھاگنا ایسی علامت ہے جو تہذیب و تمدن کی رو بہ زوال حالتوں کا سگنیفائر ہے اور جنگل اپنے آپ میں سگنیفائڈ بھی ہے، اس نظم کا عنوان اپنے آپ میں معنی اور استعارہ دونوں کا مجموعہ ہے باقی مصرعوں میں معنی کو استعارہ مسلسل التواء میں رکھتا ہے۔ اس نظم کی بُنّت اور تراکیب نئی ہیں۔ الفاظ اگرچہ وہی ہیں مگر ان کو مصرعہ سازی میں ایک الگ، نئے زاویے سے پرویا گیا ہے۔
شاعرہ نے استعاراتی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے معنی کا التوا ممکن بھی بنایا ہے اور استعارے کی فصیلوں میں اپنے معنی کو محفوظ بھی کیا ہے۔ معنی جو ہماری عملی سرگرمی میں جنم لیتے ہیں جو افراد کی مشترک فہم کا نتیجہ ہوتا ہے جو کسی ثقافت سے وابستہ ہوتا ہے اور جس سے افراد کا مشترک رشتہ ہوتا ہے، یہ بات عجیب اس لیے بھی لگے گی کہ ہم نے کبھی 'جنگل کو شہر کی طرف بھاگتے نہیں دیکھا' اور نہ ہی 'وہ سمندر۔۔۔۔ جو کہیں ہمیں گرا ہوا ملا تھا۔۔۔۔ ہم نے اُٹھا کر ایک پینٹنگ میں رکھ دیا' اور یقیناََ ہم نے ایسے لوگ بھی کبھی نہیں دیکھے جو 'اپنی آنکھیں ابلنے کے لیے رکھ دیتے ہیں' غرض یہ کہ اس نظم میں ہر مصرعہ ایسا ہے جس کی عملی سرگرمی سے ایسی کوئی نسبت نہیں بنتی جو معنی بنانے والے اذہان کی تسکین کر سکے یا جمالیاتی پہلو ہی کی تسکین کا سبب ہو۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ جمالیاتی حوالوں سے بھی کسی ادب پارے کو سراہنے والے انجانے میں معنی بنا رہے ہوتے ہیں اور یہ نظم ایسا نہیں کرنے دے رہی اور اس نظم میں ایسا کوئی مجموعی یا یکتا معنیٰ نہیں ملتا جو ایک سماج اور ثقافت کے باسیوں کی مشترک فہم کی گرفت میں آ جائے یا لسانی قاعدے اور قوانین کے تحت اس کو محصور کر سکیں کیونکہ 'ہمارے ہاتھ۔۔۔۔ ان رسیوں سے دراز ہیں۔۔۔۔ جو ہمیں درخت سے باندھنا چاہتی ہیں۔۔۔۔ اور ہماری زبان۔ ۔۔۔ اس کلہاڑی سے زیادہ تیز ہے۔۔۔۔ جس کا پھل اندھیرے میں چمکتا ہے'۔ اس نظم کا عنوان ہی ابہام سے پر استعارہ ہے جو تہذیبی و ثقافتی اقدار کی نفی کے طور پر پیش کیا گیا ہے، وہ تہذیبیں جو شہر کی آغوش میں جنم لیتی ہیں۔
یہ نظم استعارہ در استعارہ پہلے مصرعے سے آخری مصرعے تک سفر کرتی ہے۔ استعارہ اور علامتیں جو جمالیاتی پہلو کی مضبوط بنیاد ہوتے ہیں مگر ضرورت سے زیادہ ابہام اس نظم میں پیش کیے گئے شاعرہ کے خیال کے گرد مضبوط دیوار بنا رہا ہے اور شاعرہ نے ہو سکتا ہے کہ دانستہ ایسا کیا ہو یہ نظم جو بظاہر لاشعور کی سرگرمی نظر آ رہی ہے ممکن ہے کہ شاعرہ کے پختہ شعور کا عمل ہے، اس نظم کو دانستہ ایسا تخلیق کیا گیا ہے اس لیے کہ بدلتے وقت کے ساتھ ہم آہنگ بھی رہ سکے یعنی یہ نظم کسی مخصوص ثقافتی جبر سے فرار کی کوشش بھی ہے اور روایتی لسانی تراکیب سے انحراف بھی ہے۔
اس نظم کا متن قاری یا شارح کو خود کنٹرول کر رہا ہے اور اس میں پائے جانے والے شگاف ہی وہ خالی جگہیں ہیں جن کو قاری یا شارحین نے اپنے اندازِ فکر اور نقطہِ نظر سے پر کرنا ہے اور اس نظم کی قراّت کرنے والے سب لوگوں کا معنی ایک دوسرے سے اس لیے مختلف ہو گا کہ شاعرہ نے خود ایسا چاہا ہے کہ کوئی ایک مشترک معنی قاری یا شارحین نہ بنا سکیں، مثلاً َ''لہریں تمام درخت کاٹ کر۔۔۔۔ اپنے ساتھ لے جاتی ہیں'' یہ مصرعہ پڑھنے سے ایک منظر تخیل میں جنم لیتا ہے مگر لہروں کا درخت کاٹنا نہیں بلکہ لہروں میں درختوں کا بہہ جانا کسی انسان کی فہم میں آتا ہے دوسرے ہی مصرعے میں ''خالی ڈبوں سے شہد نکال کر کھانے والے۔۔۔ اپنی آنکھیں ابلنے کے لیے رکھ دیتے ہیں'' اس منظر میں ابھرنے والے کون ہیں ان کا تاریخی پس منظر نظم سے غائب ہے یہ مصرعے بھی اپنے آپ میں ایک منظر بنا سکتے ہیں جو صرف منظر ہے جس کا کوئی مفہوم گرفت میں نہیں آتا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ مصرعے اور اس مصرعہ میں وہ ثقافتی دھارا موجود نہیں جو ان کو باہم مربوط کرسکتا تھا، جس میں سگنیفائر سگنیفائڈ میں تبدیل ہوسکتا۔ اس لیے اس نظم کے مصرعے اپنی اپنی جگہ ایک منظر بنا رہے ہیں مگر ان کا آپس میں ربط موجود نہیںہے۔ ان کی قراّت سے ہر کوئی اپنی انفرادی فہم کے تحت معنی کو بنانے کی کوشش کرے گا مگر مجموعی سماجی سرگرمی میں استحکام پانے والا کوئی معنی بنانا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ اس نظم کی مصرعہ سازی اس طور ہوئی ہے کہ انفرادی سطح پر ہر لفظ ایک معنی رکھتا ہے اس کو پڑھنے والوں کے لیے مجموعی سطح پرکوئی ایک معنی بنانا اس لیے مشکل ہو گیا ہے کہ اس نظم کی جڑیں کسی مادی ثقافت کی روایات میں نہیں ہیں ثقافت جو مشترک افرادی سرگرمی ہے۔
شاعرہ کی یہ نظم ایک طرف تو ردِ تشکیل کے اس دعویٰ کا اثبات ہے کہ معنی زبان کے اندر موجود ہوتا ہے۔ یعنی 'متن سے باہر کچھ نہیں' دوسری طرف اس نظم کا ابہام اور استعاراتی قوت جو ہر مصرعہ کو ایک دوسرے سے جدا معنوی استحکام بھی بخش رہی ہے اور نظم کے مرکزی معنی کو التوا میں بھی رکھے ہوئے ہے۔۔۔۔ یہ کثیرالمعنویت کی داعی قاری اساس تنقید کو استحکام بخشتی ہے جو مصنف کی لامرکزیت کا دعویٰ کرتی ہے مگر اس نظم کو ڈی کوڈ کرنے سے میں نہیں سمجھتی کہ شاعرہ لا مرکز ہو رہی ہے، بلکہ استعاروں کی مضبوط فصیلوں پر مبنی اس نظم کا متن قلعہ معنی کے سلطان کی محفوظ پناگاہ بن چکا ہے۔
وہ معنی جو شاعرہ کا ہے، ان فصیلوں میں پڑے شگاف متن کی اپنے آپ میں کمزوری ہیں، جو الفاظ کے مابین وقت کے جبر کی صورت موجود ہیں اور انھی شگافوں سے قاری یا شارح جب اپنے اپنے پس منظر سے جھانکتا ہے تو اسے اپنے اپنے پیش منظر میں استعاروں میں پناہ گزیں معنی کے سلطان کا کوئی ایک پہلو دکھائی دے گا جو اس نظم کی شرح کرنے والوں کے لیے ایک دوسرے سے مختلف اس لیے ہو گا کہ سب کا اپنا اپنا پس منظر مختلف ہے یہی وجہ ہے کہ سدرہ کی اس نظم کے لسانی حوالوں سے تو بہت سے معنی بنیں گے مگر اس معنی تک شاید ہی کوئی دوسرا پہنچ پائے گا جسے شاعرہ نے اپنی پہلے کی حیثیت میں لکھا بھی ہے اور اس کو استعاروں کے قلعہ میں محفوظ کرنے کی بہت کوشش کی ہے مگر اس نظم کے آخری مصرعوں میں شاعرہ کے استعارے ثقافتی جبر کے دائروں سے باہر مستحکم نہیں ہو سکے۔
اس کے باوجود شاعرہ قاری کو متنی معنی میں الجھائے رکھنے میں آخر تک کامیاب دکھائی دیتی ہے اور اپنی شاعرانہ طاقت کو استعمال کرتے ہوئے اپنے اس معنی کو مستحکم و محفوظ رکھتی ہے جس کے استحکام کی وجہ سے خود بھی لا مرکز نہیں ہو پاتی، کیونکہ اپنی اپنی فہم کے تحت قاری یا شارحین کے معنی کا جنم ضرور ہوتا ہے مگر اس سے شاعر یا ادیب کے معنی کی موت واقع نہیں ہوتی، بلکہ اس معنی تک رسائی نا پا سکنے کی ناکامی کو شاعر یا ادیب کی لامرکزیت کا نام دے کر لسانی تھیوریوں کے خالق ایک طرف تو خود کو مصنف کو لامرکز کر دینے کی تسلی دیتے ہیں تو دوسری طرف اپنے ہی ساتھ اس وقت تضاد میں آتے ہیں جب ردِ تشکیلی بیانیہ کو حتمی تسلیم کرتے ہیں جب کہ انھی کے مطابق ادبی متون اپنے معنی کے لیے قاری کے محتاج ہیں، مگر یہ بات فراموش کر دی جاتی ہے کہ ایک قاری کا جنم متن کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ اور کسی متن کا حتمی معنی یا اقدار نہیں ہیں۔ بلکہ کسی متن کی جتنی قراّت ہوتی ہے اور جتنے معنی بنائے جاتے ہیں وہ شاعر یا ادیب کے معنی تک رسائی کی کاوشیں ہوتی ہیں ۔
جن سے مصنف ہی کی حیثیت مضبوط ہوتی ہے کیونکہ جس متن کے گرد قاری اور شارحین گھوم رہے ہوتے ہیں وہ مصنف یا شاعر کا لکھا ہوتا ہے، اور لکھنے والے کی اپنی اہلیت کا اہم کردار ہوتا ہے کہ وہ اپنے معنی کو ثقافتی اور تاریخی جبر سے کیسے آزاد کرا پاتا، جیسا کہ اس نظم کی شاعرہ نے استعارے کو بروئے کار لاتے ہوئے کسی حد تک کیا ہے۔ لاتشکیلی تھیوری میں استعارہ معنی کے استحکام کے خلاف عمل آراء ہوتا ہے مگر یہی استعارہ شاعرہ نے اپنی نظم میں اسطرح استعمال کیا ہے کہ ایک طرف تو قاری کو کثیرالمعنویت کی خوبصورت دلدل میں دھکیل دیتا ہے تو دوسری طرف شاعرہ کے معنی کا محافظ بن جاتا، شاعرہ کی مرکزیت اس نظم میں اس لیے قائم رہتی ہے کہ اس کا شاید یہی مقصد تھا کہ اس کی نظم کا کوئی ایک معنی نہ بن پائے۔
شاعرہ نے استعاراتی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے معنی کا التوا ممکن بھی بنایا ہے اور استعارے کی فصیلوں میں اپنے معنی کو محفوظ بھی کیا ہے۔ معنی جو ہماری عملی سرگرمی میں جنم لیتے ہیں جو افراد کی مشترک فہم کا نتیجہ ہوتا ہے جو کسی ثقافت سے وابستہ ہوتا ہے اور جس سے افراد کا مشترک رشتہ ہوتا ہے، یہ بات عجیب اس لیے بھی لگے گی کہ ہم نے کبھی 'جنگل کو شہر کی طرف بھاگتے نہیں دیکھا' اور نہ ہی 'وہ سمندر۔۔۔۔ جو کہیں ہمیں گرا ہوا ملا تھا۔۔۔۔ ہم نے اُٹھا کر ایک پینٹنگ میں رکھ دیا' اور یقیناََ ہم نے ایسے لوگ بھی کبھی نہیں دیکھے جو 'اپنی آنکھیں ابلنے کے لیے رکھ دیتے ہیں' غرض یہ کہ اس نظم میں ہر مصرعہ ایسا ہے جس کی عملی سرگرمی سے ایسی کوئی نسبت نہیں بنتی جو معنی بنانے والے اذہان کی تسکین کر سکے یا جمالیاتی پہلو ہی کی تسکین کا سبب ہو۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ جمالیاتی حوالوں سے بھی کسی ادب پارے کو سراہنے والے انجانے میں معنی بنا رہے ہوتے ہیں اور یہ نظم ایسا نہیں کرنے دے رہی اور اس نظم میں ایسا کوئی مجموعی یا یکتا معنیٰ نہیں ملتا جو ایک سماج اور ثقافت کے باسیوں کی مشترک فہم کی گرفت میں آ جائے یا لسانی قاعدے اور قوانین کے تحت اس کو محصور کر سکیں کیونکہ 'ہمارے ہاتھ۔۔۔۔ ان رسیوں سے دراز ہیں۔۔۔۔ جو ہمیں درخت سے باندھنا چاہتی ہیں۔۔۔۔ اور ہماری زبان۔ ۔۔۔ اس کلہاڑی سے زیادہ تیز ہے۔۔۔۔ جس کا پھل اندھیرے میں چمکتا ہے'۔ اس نظم کا عنوان ہی ابہام سے پر استعارہ ہے جو تہذیبی و ثقافتی اقدار کی نفی کے طور پر پیش کیا گیا ہے، وہ تہذیبیں جو شہر کی آغوش میں جنم لیتی ہیں۔
یہ نظم استعارہ در استعارہ پہلے مصرعے سے آخری مصرعے تک سفر کرتی ہے۔ استعارہ اور علامتیں جو جمالیاتی پہلو کی مضبوط بنیاد ہوتے ہیں مگر ضرورت سے زیادہ ابہام اس نظم میں پیش کیے گئے شاعرہ کے خیال کے گرد مضبوط دیوار بنا رہا ہے اور شاعرہ نے ہو سکتا ہے کہ دانستہ ایسا کیا ہو یہ نظم جو بظاہر لاشعور کی سرگرمی نظر آ رہی ہے ممکن ہے کہ شاعرہ کے پختہ شعور کا عمل ہے، اس نظم کو دانستہ ایسا تخلیق کیا گیا ہے اس لیے کہ بدلتے وقت کے ساتھ ہم آہنگ بھی رہ سکے یعنی یہ نظم کسی مخصوص ثقافتی جبر سے فرار کی کوشش بھی ہے اور روایتی لسانی تراکیب سے انحراف بھی ہے۔
اس نظم کا متن قاری یا شارح کو خود کنٹرول کر رہا ہے اور اس میں پائے جانے والے شگاف ہی وہ خالی جگہیں ہیں جن کو قاری یا شارحین نے اپنے اندازِ فکر اور نقطہِ نظر سے پر کرنا ہے اور اس نظم کی قراّت کرنے والے سب لوگوں کا معنی ایک دوسرے سے اس لیے مختلف ہو گا کہ شاعرہ نے خود ایسا چاہا ہے کہ کوئی ایک مشترک معنی قاری یا شارحین نہ بنا سکیں، مثلاً َ''لہریں تمام درخت کاٹ کر۔۔۔۔ اپنے ساتھ لے جاتی ہیں'' یہ مصرعہ پڑھنے سے ایک منظر تخیل میں جنم لیتا ہے مگر لہروں کا درخت کاٹنا نہیں بلکہ لہروں میں درختوں کا بہہ جانا کسی انسان کی فہم میں آتا ہے دوسرے ہی مصرعے میں ''خالی ڈبوں سے شہد نکال کر کھانے والے۔۔۔ اپنی آنکھیں ابلنے کے لیے رکھ دیتے ہیں'' اس منظر میں ابھرنے والے کون ہیں ان کا تاریخی پس منظر نظم سے غائب ہے یہ مصرعے بھی اپنے آپ میں ایک منظر بنا سکتے ہیں جو صرف منظر ہے جس کا کوئی مفہوم گرفت میں نہیں آتا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ مصرعے اور اس مصرعہ میں وہ ثقافتی دھارا موجود نہیں جو ان کو باہم مربوط کرسکتا تھا، جس میں سگنیفائر سگنیفائڈ میں تبدیل ہوسکتا۔ اس لیے اس نظم کے مصرعے اپنی اپنی جگہ ایک منظر بنا رہے ہیں مگر ان کا آپس میں ربط موجود نہیںہے۔ ان کی قراّت سے ہر کوئی اپنی انفرادی فہم کے تحت معنی کو بنانے کی کوشش کرے گا مگر مجموعی سماجی سرگرمی میں استحکام پانے والا کوئی معنی بنانا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ اس نظم کی مصرعہ سازی اس طور ہوئی ہے کہ انفرادی سطح پر ہر لفظ ایک معنی رکھتا ہے اس کو پڑھنے والوں کے لیے مجموعی سطح پرکوئی ایک معنی بنانا اس لیے مشکل ہو گیا ہے کہ اس نظم کی جڑیں کسی مادی ثقافت کی روایات میں نہیں ہیں ثقافت جو مشترک افرادی سرگرمی ہے۔
شاعرہ کی یہ نظم ایک طرف تو ردِ تشکیل کے اس دعویٰ کا اثبات ہے کہ معنی زبان کے اندر موجود ہوتا ہے۔ یعنی 'متن سے باہر کچھ نہیں' دوسری طرف اس نظم کا ابہام اور استعاراتی قوت جو ہر مصرعہ کو ایک دوسرے سے جدا معنوی استحکام بھی بخش رہی ہے اور نظم کے مرکزی معنی کو التوا میں بھی رکھے ہوئے ہے۔۔۔۔ یہ کثیرالمعنویت کی داعی قاری اساس تنقید کو استحکام بخشتی ہے جو مصنف کی لامرکزیت کا دعویٰ کرتی ہے مگر اس نظم کو ڈی کوڈ کرنے سے میں نہیں سمجھتی کہ شاعرہ لا مرکز ہو رہی ہے، بلکہ استعاروں کی مضبوط فصیلوں پر مبنی اس نظم کا متن قلعہ معنی کے سلطان کی محفوظ پناگاہ بن چکا ہے۔
وہ معنی جو شاعرہ کا ہے، ان فصیلوں میں پڑے شگاف متن کی اپنے آپ میں کمزوری ہیں، جو الفاظ کے مابین وقت کے جبر کی صورت موجود ہیں اور انھی شگافوں سے قاری یا شارح جب اپنے اپنے پس منظر سے جھانکتا ہے تو اسے اپنے اپنے پیش منظر میں استعاروں میں پناہ گزیں معنی کے سلطان کا کوئی ایک پہلو دکھائی دے گا جو اس نظم کی شرح کرنے والوں کے لیے ایک دوسرے سے مختلف اس لیے ہو گا کہ سب کا اپنا اپنا پس منظر مختلف ہے یہی وجہ ہے کہ سدرہ کی اس نظم کے لسانی حوالوں سے تو بہت سے معنی بنیں گے مگر اس معنی تک شاید ہی کوئی دوسرا پہنچ پائے گا جسے شاعرہ نے اپنی پہلے کی حیثیت میں لکھا بھی ہے اور اس کو استعاروں کے قلعہ میں محفوظ کرنے کی بہت کوشش کی ہے مگر اس نظم کے آخری مصرعوں میں شاعرہ کے استعارے ثقافتی جبر کے دائروں سے باہر مستحکم نہیں ہو سکے۔
اس کے باوجود شاعرہ قاری کو متنی معنی میں الجھائے رکھنے میں آخر تک کامیاب دکھائی دیتی ہے اور اپنی شاعرانہ طاقت کو استعمال کرتے ہوئے اپنے اس معنی کو مستحکم و محفوظ رکھتی ہے جس کے استحکام کی وجہ سے خود بھی لا مرکز نہیں ہو پاتی، کیونکہ اپنی اپنی فہم کے تحت قاری یا شارحین کے معنی کا جنم ضرور ہوتا ہے مگر اس سے شاعر یا ادیب کے معنی کی موت واقع نہیں ہوتی، بلکہ اس معنی تک رسائی نا پا سکنے کی ناکامی کو شاعر یا ادیب کی لامرکزیت کا نام دے کر لسانی تھیوریوں کے خالق ایک طرف تو خود کو مصنف کو لامرکز کر دینے کی تسلی دیتے ہیں تو دوسری طرف اپنے ہی ساتھ اس وقت تضاد میں آتے ہیں جب ردِ تشکیلی بیانیہ کو حتمی تسلیم کرتے ہیں جب کہ انھی کے مطابق ادبی متون اپنے معنی کے لیے قاری کے محتاج ہیں، مگر یہ بات فراموش کر دی جاتی ہے کہ ایک قاری کا جنم متن کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ اور کسی متن کا حتمی معنی یا اقدار نہیں ہیں۔ بلکہ کسی متن کی جتنی قراّت ہوتی ہے اور جتنے معنی بنائے جاتے ہیں وہ شاعر یا ادیب کے معنی تک رسائی کی کاوشیں ہوتی ہیں ۔
جن سے مصنف ہی کی حیثیت مضبوط ہوتی ہے کیونکہ جس متن کے گرد قاری اور شارحین گھوم رہے ہوتے ہیں وہ مصنف یا شاعر کا لکھا ہوتا ہے، اور لکھنے والے کی اپنی اہلیت کا اہم کردار ہوتا ہے کہ وہ اپنے معنی کو ثقافتی اور تاریخی جبر سے کیسے آزاد کرا پاتا، جیسا کہ اس نظم کی شاعرہ نے استعارے کو بروئے کار لاتے ہوئے کسی حد تک کیا ہے۔ لاتشکیلی تھیوری میں استعارہ معنی کے استحکام کے خلاف عمل آراء ہوتا ہے مگر یہی استعارہ شاعرہ نے اپنی نظم میں اسطرح استعمال کیا ہے کہ ایک طرف تو قاری کو کثیرالمعنویت کی خوبصورت دلدل میں دھکیل دیتا ہے تو دوسری طرف شاعرہ کے معنی کا محافظ بن جاتا، شاعرہ کی مرکزیت اس نظم میں اس لیے قائم رہتی ہے کہ اس کا شاید یہی مقصد تھا کہ اس کی نظم کا کوئی ایک معنی نہ بن پائے۔