پاکستان ایک نظر میں جاوید ہاشمی کا سیاسی مستقبل۔۔۔۔ باغی یا داغی
اگرعامر ڈوگر جیت جاتے ہیں تو یہ اس کی جیت نہیں ہوگی بلکہ جاوید ہاشمی کے سیاسی مستقبل کی شکست ہوگی۔
اکثر یہی ہوا ہے کہ ضمنی الیکشن میں وہی پارٹی کامیاب ہوتی ہے جس نے عام انتخابات میں سیٹ جیتی ہوتی ہے،لیکن 2013ء کے انتخابات کے بعد خالی ہونیوالی اکثر نشستوں پر ضمنی الیکشن پر نتائج مختلف آئے ہیں اور متعدد سیٹوں پر شکست خوردہ جماعتوں نے ہی میدان مارا ہے۔
11ستمبر 2014ء کو تحریک انصاف سے بغاوت کرنیوالے جاوید ہاشمی ایک بار پھر انتخابی دنگل میں موجود ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اپنی بغاوت سے جمہوریت کو بچانے والے باغی اپنی سیٹ بچا پائیں گے بھی یا نہیں؟۔
ملتان میں قومی اسمبلی کا حلقہ 149 ہمیشہ سے مخدوموں، قریشیوں اور ڈوگروں جیسے اہم سیاسی خاندانوں کا سیاسی اکھاڑہ ثابت ہوا ہے۔ ووٹروں پر وڈیروں کی گرفت اس علاقے میں اب بھی قائم ہے۔ اس مرتبہ کے ضمنی انتخاب میں بھی صورتحال کچھ زیادہ مختلف نہیں۔
مئی 2013 میں 83 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کر کے جاوید ہاشمی نے یہاں سے کامیابی حاصل کی۔ گزشتہ برس انھوں نے اسلام آباد سے بھی کامیابی حاصل کی تھی لیکن یہ نشست انھوں نے ملتان کے حق میں چھوڑ دی تھی۔ اب وہ دوبارہ اپنے حلقے میں ووٹروں کے پاس گئے ہیں اور کامیابی کے لیے پرامید ہیں۔ ساتھ ساتھ دعوی بھی کر رہے ہیں کہ کامیابی اُنہی کی ہوگی۔دوسری جانب تحریک انصاف کے لوگ سمجھتے ہیں کہ باغی بری طرح ہار جائیں گے اور وہ اُسکی وجہ چند روز قبل کا بڑا جلسہ بتارہے ہیں۔
ملتان الیکشن کی دلچسپ بات بڑی جماعتوں کا براہ راست اس معرکے میں سامنے نہ آنا ہے لیکن در پردہ اپنی پسند کے امیدواروں کی مکمل حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ تحریک انصاف نے کوئی وجہ بتائے بغیر جاوید ہاشمی کے خلاف لڑنے سے انکار کیا ہے لیکن عامر ڈوگر کی کھل کر حمایت کر رکھی ہے لیکن حکومت کی جانب سے جاوید ہاشمی کی حمایت پر وہ نالاں ہے۔جماعت اسلامی نے کسی بھی امیدوار کی حمایت نا کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن امید یہی ہے کہ اگر جماعت کے لوگوں نے ووٹ دیا تو اپنے پرانے ساتھی کو ہی ووٹ دیں گے۔پیپلز پارٹی نے امیدوار تو کھڑا نہیں کیا لیکن آزاد امیدوار عامر ڈوگر انہی کے جانشین ہیں،سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی ان کی پشت پر موجود ہیں۔
اصل مقابلہ جاوید ہاشمی اور عامر ڈوگر کے درمیان ہی ہے۔ اونچے سیاسی درجہ حرارت میں پرامن انتخاب کروانا انتظامیہ کے لیے یقیناً بڑا چیلنج لیکن اس سے زیادہ بڑا امتحان اس حلقے کے سوا تین لاکھ ووٹروں کے لیے ہے کہ وہ آج کسے اپنی رائے کا صحیح حق دار سمجھتے ہیں۔ تاہم مبصرین مانتے ہیں کہ سب سے زیادہ اس کھیل میں داؤ پر جاوید ہاشمی کا سیاسی مستقبل لگا ہوا ہے۔
اصولوں کی سیاست کرنیوالے ہاشمی،فوجی بوٹوں کو سیاسی معاملات میں مداخلت کو گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں اور تحریک انصاف سے بغاوت بھی اسی گناہ سے انکار تھا۔ باغی کا یہ انکار انصاف والوں کواِتنا بُرا لگا کہ چند دن جس باغی پر تکیہ کیے ہوئے تھے یکدم اُن کو داغی بنادیا اور انتخابات میں اُن کی جگہ پیپلزپارٹی کے سابق رکن عامر ڈوگر کی حمایت میں میدان میں اُتر آئے۔اگرعامر ڈوگر جیت جاتے ہیں تو یہ اس کی جیت نہیں ہوگی بلکہ جاوید ہاشمی کے سیاسی مستقبل کی شکست ہوگی اور اِس سیاسی مستقبل کو ن لیگ سہارا دے پاتی ہے یا نہیں آج شام تک انتظار کرنا ہوگا۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
11ستمبر 2014ء کو تحریک انصاف سے بغاوت کرنیوالے جاوید ہاشمی ایک بار پھر انتخابی دنگل میں موجود ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اپنی بغاوت سے جمہوریت کو بچانے والے باغی اپنی سیٹ بچا پائیں گے بھی یا نہیں؟۔
ملتان میں قومی اسمبلی کا حلقہ 149 ہمیشہ سے مخدوموں، قریشیوں اور ڈوگروں جیسے اہم سیاسی خاندانوں کا سیاسی اکھاڑہ ثابت ہوا ہے۔ ووٹروں پر وڈیروں کی گرفت اس علاقے میں اب بھی قائم ہے۔ اس مرتبہ کے ضمنی انتخاب میں بھی صورتحال کچھ زیادہ مختلف نہیں۔
مئی 2013 میں 83 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کر کے جاوید ہاشمی نے یہاں سے کامیابی حاصل کی۔ گزشتہ برس انھوں نے اسلام آباد سے بھی کامیابی حاصل کی تھی لیکن یہ نشست انھوں نے ملتان کے حق میں چھوڑ دی تھی۔ اب وہ دوبارہ اپنے حلقے میں ووٹروں کے پاس گئے ہیں اور کامیابی کے لیے پرامید ہیں۔ ساتھ ساتھ دعوی بھی کر رہے ہیں کہ کامیابی اُنہی کی ہوگی۔دوسری جانب تحریک انصاف کے لوگ سمجھتے ہیں کہ باغی بری طرح ہار جائیں گے اور وہ اُسکی وجہ چند روز قبل کا بڑا جلسہ بتارہے ہیں۔
ملتان الیکشن کی دلچسپ بات بڑی جماعتوں کا براہ راست اس معرکے میں سامنے نہ آنا ہے لیکن در پردہ اپنی پسند کے امیدواروں کی مکمل حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ تحریک انصاف نے کوئی وجہ بتائے بغیر جاوید ہاشمی کے خلاف لڑنے سے انکار کیا ہے لیکن عامر ڈوگر کی کھل کر حمایت کر رکھی ہے لیکن حکومت کی جانب سے جاوید ہاشمی کی حمایت پر وہ نالاں ہے۔جماعت اسلامی نے کسی بھی امیدوار کی حمایت نا کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن امید یہی ہے کہ اگر جماعت کے لوگوں نے ووٹ دیا تو اپنے پرانے ساتھی کو ہی ووٹ دیں گے۔پیپلز پارٹی نے امیدوار تو کھڑا نہیں کیا لیکن آزاد امیدوار عامر ڈوگر انہی کے جانشین ہیں،سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی ان کی پشت پر موجود ہیں۔
اصل مقابلہ جاوید ہاشمی اور عامر ڈوگر کے درمیان ہی ہے۔ اونچے سیاسی درجہ حرارت میں پرامن انتخاب کروانا انتظامیہ کے لیے یقیناً بڑا چیلنج لیکن اس سے زیادہ بڑا امتحان اس حلقے کے سوا تین لاکھ ووٹروں کے لیے ہے کہ وہ آج کسے اپنی رائے کا صحیح حق دار سمجھتے ہیں۔ تاہم مبصرین مانتے ہیں کہ سب سے زیادہ اس کھیل میں داؤ پر جاوید ہاشمی کا سیاسی مستقبل لگا ہوا ہے۔
اصولوں کی سیاست کرنیوالے ہاشمی،فوجی بوٹوں کو سیاسی معاملات میں مداخلت کو گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں اور تحریک انصاف سے بغاوت بھی اسی گناہ سے انکار تھا۔ باغی کا یہ انکار انصاف والوں کواِتنا بُرا لگا کہ چند دن جس باغی پر تکیہ کیے ہوئے تھے یکدم اُن کو داغی بنادیا اور انتخابات میں اُن کی جگہ پیپلزپارٹی کے سابق رکن عامر ڈوگر کی حمایت میں میدان میں اُتر آئے۔اگرعامر ڈوگر جیت جاتے ہیں تو یہ اس کی جیت نہیں ہوگی بلکہ جاوید ہاشمی کے سیاسی مستقبل کی شکست ہوگی اور اِس سیاسی مستقبل کو ن لیگ سہارا دے پاتی ہے یا نہیں آج شام تک انتظار کرنا ہوگا۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔