"یا ر کچھ نہیں ہو گا پاکستان کو" ۔"اللہ وارث ہے اس کا"۔ایسا ہی کہتے ہیں وہ لوگ جو پیٹ بھر کر روٹی کھاتے ہیں پیٹ پہ ہاتھ پھیرتے کہ کہیں کوئی گنجائش باقی تو نہیں رہ گئی۔ایک لمبا سا ڈکار مارتے ہیں اور سو جاتے ہیں۔ ایسے لوگ زمانے کی رفتار سے کوئی ہزار سال پیچھے رہ رہے ہیں ۔ او بھلے لوگو ! یہ اکیسویں صدی ہے جس کا مطلب ہے طاقتور کی حکمرانی اور باقی سب محکوم ، جہاں ایک بڑی گیم کھیلی جا رہی ہے اور دنیا کا ہر ملک چاہتے اور نا چاہتے ہوئے بھی اس کا حصہ بنتا جا رہا ہے، مملکتیں آپس میں ٹکرا رہی ہیں دنیا کے وسائل پر قبضہ جمانے کے لیے، طاقت کا لوہا منوانے کے لیے،عالمی منڈی میں اپنا تسلط قائم کرنے کے لیے، ملکوں کو مذہب کے نام پر آپس میں لڑانے کے لیے اور ذہنی غلام بنانے کے لیے تاکہ دنیا کا ہر انسان وہی سوچے ، وہی سمجھے، وہی دیکھے، وہی بولےاور وہی کرےجو اُس کا آقا چاہتا ہے ۔
اس وقت کمزور ممالک دنیا بھر میں ظلم و بربریت کا بازار گرم کرنے والے امریکا اور اس کے ہم رکاب اسرائیل اور بھارت کا ماتم کرتے نظر آتے ہیں ۔ دنیا میں جاری جنگ سے ایک چیز واضح ہوتی جا رہی ہے کہ اس وقت سارا کفر ایک طرف ہوتا جارہا ہے اور اس کا ہدف ہے مسلم امہ چاہے وہ کسی بھی ملک میں مقیم ہو، ابتدا اُن ملکوں سے کی جارہی ہے جن پر کسی مشکل کے بغیر قبضہ کیا جا سکے اور وہاں اپنے خریدے ہوئے لوگوں کو حکمران بنائے جائے جو ویسا ہی کریں جیسا یہ طاقتیں چاہتی ہیں اور ساتھ ساتھ وہ مسلم ممالک جو طاقتور ہیں اقوام متحدہ میں اُن کی حمایت حاصل کی جارہی ہے تاکہ کمزور مسلم ممالک پر حملے کئے جائیں، اور جو رکاوٹ پیدا کرتا ہے اُس پر دہشت گردی کا الزام عائد کیا جاتا ہے، اور امن کے دشمن کا کلنک اُس کے ماتھے پر لگا کر اُسے دنیا بھر میں بدنام کیا جاتا ہے، کچھ زبان دراز ممالک کو ڈالروں کے عوض خریدا جا رہا ہے اور ضمیر فروش حکمران عارضی مفاد کے لیے ملک و قوم کا سودا کر رہے ہیں۔
اس سب کے لیے ذمہ دار امریکا، اسرائیل، بھارت یا دنیا کا کوئی اور ملک نہیں بلکہ تباہ ہونے والے ممالک خود ہیں ۔
ایک اور چھوٹی سی مثال ہے اگر کوئی آپ کے گھر میں گھس آتا ہے تو اس کے ذمہ دار صرف اور صرف آپ ہیں نا کہ گھسنے والا۔ وہ اس لیے کے آپ اپنے گھر کی حفاظت نا کرسکے ۔ تو بجائے اس کے کہ چوروں کا شکوہ کیا جائے الٹا انہیں ان کی حرکتوں سے باز رکھنے کے لئے مکمل لائحہ عمل تیار کیا جائے۔ وہ اس لیے کے یہ اکیسویں صدی ہے جہاں بقا کا سرچشمہ اگر کوئی ہے تو وہ طاقت ہے۔ ہمیں اگر عالمی چوروں کو ان کے مذموم مقاصد سے باز رکھنا ہے تو ہمیں دفاعی ، تعلیمی، سیاسی،معاشی، فکری اور سائنسی الغرض ہر میدان میں دنیا کی رفتار سے ایک قدم آگنے چلنے کی ضرورت ہے۔
ایک بار نواب حیدر علی نے اپنےبیٹے ٹیپو سلطان سے کہا تھا ؛
"دنیا طاقت کا لوہا مانتی ہے۔ جب زمانہ زیادہ متمدن و مہذب ہو جائے گااُس وقت بھی حکومت طاقت و قوت کی چلے گی، کمزور ہمیشہ موت کا شکار ہوتے رہیں گے"۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔