دو میدانِ جنگ

مذاہب عیسایت اور یہودیت کے نزدیک میدانِ جنگ، بیت المقدس، یروشلم یا بیت اللحم اور اس کے گرد و نواح کے علاقے ہیں۔


Orya Maqbool Jan October 17, 2014
[email protected]

تینوں ابراہیمی مذاہب کے ماننے والے اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ اس دنیا کے خاتمے سے پہلے ایک انتہائی خونریز جنگ برپا ہو گی اور اس کے بعد اللہ ایک ایسی حکومت قائم کر دے گا جو دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گی۔ تینوں اس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ اس جنگ میں فتح کا سہرا کسی مسیحا کے ماتھے پر سجے گا۔ عیسائی حضرت عیسیٰ کے لوٹ آنے پر ذرا مختلف انداز میں یقین رکھتے ہیں جب کہ مسلمانوں کے ہاں ایک امیر، خلیفہ یا رہنما یا امام کی صورت میں مہدی کا ظہور ہے جو مسیحِ دّجال سے جنگ کرے گا۔ دّجال کا مطلب جھوٹا ہوتا ہے اور مسلمان احادیث کی روشنی میں یہ تصور بھی رکھتے ہیں کہ اس جھوٹے مسیح یعنی دّجال سے آخری جنگ کے لیے اللہ حضرت عیسیٰ کو دوبارہ دنیا میں نازل فرمائے گا۔

جب کہ یہودیوں کے مسیحا کا تصور ان کی روایات کے مطابق ایک ایسے شخص کا ہے جسے اللہ دوبارہ اس دنیا میں یہودی عالمی سلطنت کے قیام کے لیے بھیجے گا۔ تینوں مذاہب ایک خوفناک جنگ کی تیاریوں میں مدتوں سے مصروف ہیں۔ لیکن ان میں دو مذاہب عیسایت اور یہودیت کے نزدیک میدانِ جنگ، بیت المقدس، یروشلم یا بیت اللحم اور اس کے گرد و نواح کے علاقے ہیں۔ جب کہ مسلمانوں کے نزدیک میدانِ جنگ دو ہیں۔ ایک یروشلم کے اردگرد شام، لبنان، اردن اور عراق جب کہ دوسرا میدانِ جنگ ہندوستان ہے۔ یہ دونوں ایک ہی وقت میں ظہور پذیر ہو گے۔ رسول اللہ صلی علیہ و سلم نے فرمایا ''تم میں سے ایک لشکر ضرور ہند پر حملہ کرے گا۔

جس کو اللہ فتح دے گا۔ یہ لشکر ہند کے حکمرانوں کو زنجیروں میں جکڑ کر لائے گا۔ اللہ اس لشکر کے گناہ معاف کر دے گا۔ پھر جب یہ لوگ واپس لوٹیں گے تو شام میں عیسیٰ ابنِ مریم کو پائیں گے۔ (الفتن۔ نعیم بن حماد)۔ یہ حدیث دونوں جنگوں کا ایک ہی زمانے اور وقت میں ہونے کا پتہ دیتی ہے۔ ان دونوں جنگوں کے میدان میں لڑنے والوں کے لیے بشارتیں بھی کتبِ احادیث میں پائی جاتی ہیں۔ ''حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''میری امت کی دو جماعتوں کو اللہ نے جہنم کی آگ سے محفوظ فرمایا ہے'' ایک وہ جماعت جو ہندوستان سے جنگ کرے گی اور دوسری وہ جماعت جو عیسیٰ ابنِ مریم کے ساتھ ہو گی۔ (نسائی۔ کتاب الجہاد، مسندِ احمد)۔

اس مقدس جنگ کا سب سے پہلے آغاز پوپ اربن دوم نے25 نومبر1095ء کو کونسل آف کلیر مونٹ میں اپنی تقریر سے کیا۔ اس نے انتہائی جو شیلے انداز میں اعلان کیا کہ مسلمان ایک وحشی قوم ہے اور ان کو قتل کرنا ایک مقدس مذہبی فریضہ ہے۔ یروشلم کو کافروں سے آزاد کرانا اور ایشائے کوچک کو اس ''گند'' سے صاف کرنا ہم پر فرض ہے۔ کس قدر شرم کی بات ہے کہ یسوع کا مزار مسلمانوں کے قبضے میں ہے''۔ اس کے صرف چھ ماہ بعد1096ء کے موسمِ بہار میں ساٹھ ہزار فوجیوں کے پانچ لشکر مسلمانوں سے جنگ کے لیے روانہ ہو گئے۔ ایسے لگتا تھا پورا یورپ مسلمانوں سے جنگ کے لیے نکل کھڑا ہوا ہے۔

اس کے بعد کی کئی صدیاں کشت و خون کی صدیاں ہیں۔ لیکن پوپ اربن کی تقریر کا ایک اور حصہ بہت عجیب ہے۔ اس نے یورپ کے تمام عیسائیوں کو پکارتے ہوئے کہا کہ ''اگر باہر کا کوئی شخص تمہارے کسی رشتے دار کو قتل کر دے تو کیا تم اس کا انتقام نہیں لو گے۔ کیا تم اپنے خداوند، اپنے مصلوب یسوع کا انتقام نہیں لو گے''۔ اس کی نیت یہودیوں پر حملہ کرنے کی نہیں تھی، لیکن اس سے پہلے کہ یورپ کے مسلمانوں کے لیے لشکر ترتیب دیتے وہ اپنے اندر بسنے والے یہودیوں پر ٹوٹ پڑے۔ صلیبی جنگجوؤں نے یہودیوں کا قتلِ عام کیا، سینا گو گوں کو مسمار کیا، تورات کے نسخوں کو جلایا اور انھیں ڈرایا کہ یا تو عیسایت قبول کر لو،، یا پھر موت قبول کر لو۔ ایسے میں پوپ کے کہنے پر بیشتر بشپوں نے یہودیوں کو گرجا گھروں میں پناہ دی۔ لیکن یہ حربے کچھ دیر تک ہی کامیاب رہے، پھر صلیبی جنگوں کے خاتمے پر پوپ نے سولہویں صدی میں یورپ میں یہودیوں کی نسل کشی کی حمایت کر دی۔

اس کے بعد کی تین چار صدیاں ایسی گزریں کہ یہودی کبھی ایک شہر سے نکالے جاتے اور کبھی دوسرے سے۔ ہر عیسائی اپنی تقریروں اور تحریروں میں اسپین میں ازابیلا اور فرڈینیڈ کی جنگ کا حوالہ دیتا۔ وہ اس معرکے کو عیسائی غلبے کی علامت سمجھتے، جس کے نتیجے میں اسپین کو مسلمانوں اور یہودیوں، دونوں سے پاک کر دیا گیا تھا۔ لیکن یورپ میں چرچ کے اقتدار نے جو مظالم عام آدمی پر ڈھائے، اور جس کے طرح ان کے مذہبی رہنماؤں نے اپنے ہی لوگوں کو کافر کہہ کر زندہ آگ میں جلایا، اس سے ایک ایسی نفرت پھوٹی جس نے مسیحی چرچ کے اقتدار کو زمین بوس کر دیا۔ انقلاب فرانس کے بعد ان کا اقتدار گرجا گھروں تک محدود ہو گیا۔ ایسے میں یہودی اپنی اس مقدس جنگ کو یاد کرنے لگے جو انھیں ارضِ مقدسہ واپس دلائے گی اور وہاں ان کی حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام جیسی عالمی حکومت قائم ہو گی۔ صہیونیت ایک نظریہ بن کر ابھری اور اس نے جلد ہی پوری یہودی قوم کو جذباتی طور پر اپنا ہمنوا بنا لیا۔

باقی اقوام کو یہودی دانشوروں اور مفکروں نے سیکولر نظریات کی بنیاد پر رنگ، نسل، زبان اور علاقے میں ایسا الجھایا کہ وہ جو کبھی مسلمانوں اور یہودیوں کو قتل کر کے ان سے اس دنیا کو پاک صاف کرنے کا دعویٰ لے کر اٹھے تھے آپس میں اس طرح لڑے کہ جنگ عظیم اوّل اور جنگ عظیم دوم میں کروڑوں لوگوں کا خون بہا کر تھک ہار کر بیٹھ گئے۔ اس دوران معیشت اور میڈیا پر قابض یہودیوں کو ارض مقدس کی جنگ یاد آئی اور وہ آہستہ آہستہ وہاں جا کر آباد ہونے لگے: ان کا یورپ کے مسیحیوں سے ایسا گٹھ جوڑ ہوا کہ سب نے مل کر انھیں ایک ریاست تحفے میں دے دی۔ لیکن اس کے ساتھ ہی انھوں نے مسلمانوں کی سرزمین پر ایسی لکیریں بھی کھنچیں کہ وہ 51 ریاستوں میں تقسیم کر دیے گئے۔ ان ریاستوں کی سرحدوں کو محترم اور مقدس بنا دیا گیا تا کہ یہ کبھی ایک ملت کی صورت اکٹھے نہ ہو سکیں۔

تینوں مذاہب آج بھی اس آخری جنگ کا انتظار کر رہے ہیں اور تیاری بھی۔ تقریباً 919 سال قبل جس آخری جنگ کی طرف پیش قدمی کا اعلان پوپ اربن نے کیا تھا اور 118 سال قبل جس عالمی ریاست کے قیام کے لیے ہزال نے دنیا بھر کے یہودیوں کو اکٹھا کر کے مشہور عالم پروٹوکولز تحریر کیے تھے، اب یوں لگتا ہے اپنے آخری مراحل میں داخل ہو چکی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس دوران مسلمانوں کے مرکز کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جنگ عظیم میں مسلمانوں کا خیمہ شام کے شہروں میں سب سے اچھے شہر دمشق کے قریب ''الغوطہ'' کے مقام پر ہو گا (سننن ابوداؤد، مستدرک)۔ اس ہیڈ کوارٹر پر فاتح مسلمان خراسان سے آئیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''جب کالے جھنڈے مشرق سے نکلیں گے تو ان کو کوئی چیز نہیں روک سکے گی حتیٰ کہ وہ ایلیا (بیت المقدس میں نصب کر دیے جائے گے (مسند احمد)۔ یہ جنگ تو برپا ہو چکی، اور اس کے لیے دنیا بھر سے لوگ وہاں پہنچ رہے ہیں۔

لیکن سب حیران ہیں کہ ایسے وقت میں جب افغانستان اور پاکستان کے وہ علاقے جو خراسان کہلاتے ہیں، وہاں سے لوگ اس آخری جنگ کے لیے روانہ ہو رہے ہیں۔ ادھر پورا یورپ اور امریکا ان کے خلاف متحد ہو رہا ہے اور بقول بارک اوباما، اس جنگ میں فتح بہت مشکل ہے، ہو سکتا ہے ہمیں تیس سال لگ جائیں۔ ایسے ماحول میں بھارت پاکستان کی سرحدوں پر حملہ آور کیوں ہے۔ یہ ہے وہ دوسرا میدانِ جنگ جس کی ہادی برحق صلی اللہ علیہ و سلم نے خبر دی ہے۔ نریندر مودی کی اٹھان بالکل ویسی ہی ہے جیسے جرمنی میں ہٹلر کی ہوئی تھی۔ جمہوری طور پر منتخب، نسلی تعصب کا علمبردار اور پڑوسی اقوام کو ختم کرنے کا عزم لیے ہوئے۔ ہٹلر کے اس جنون کی قیمت جرمنی کو بھگتنا پڑی تھی اور نریندر مودی کے جنون کی قیمت بھارت بھگتے گا۔ اس لیے کہ میرا ایمان ہے اور میرے ایمان کی وجہ ہے کہ اس جنگ میں فتح کی بشارت میرے آقا صلی اللہ علیہ و سلم نے دی ہے۔ مجھے حیرت ان لوگوں پر ہوتی ہے جو دیکھ رہے ہیں کہ دنیا کی تمام اقوام ان سے لڑنے کے لیے پر تول رہی ہیں، ان پر حملہ آور بھی ہیں، اور یہ سب وہ اپنی الہامی کتابوں کی رواتیوں پر یقین کر کے ایک ہزار سال سے کر رہی ہیں۔ ایسے میں ہم عزت کی زندگی نہیں ذلت کی موت چاہتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں