موسم انتخابی بہاروں کا
پاکستان کی تو بات ہی کچھ اور ہے یہاں دو اقسام کے مارچ شروع ہوئے ایک انقلابی دوسرا آزادی مارچ.
تاریخی طور پر اکتوبر انقلاب کا مہینہ کہلاتا ہے، جیسے ہی کوئی انقلاب اکتوبر کہتا ہے فوراً دماغ سوویت انقلاب کی سمت جاتا ہے ویسے اس ماہ کو تحریکیں شروع کرنے کا مہینہ کہا جا سکتا ہے کیونکہ موسم نہ سخت ہوتا ہے اور نہ نرم، بارش کے امکانات کم ہو جاتے ہیں مگر پاکستان کی تو بات ہی کچھ اور ہے یہاں دو اقسام کے مارچ شروع ہوئے ایک انقلابی دوسرا آزادی مارچ، ایک کی قیادت علامہ طاہر القادری دوسرے کی عمران خان کر رہے تھے آزادی مارچ تو شروع بھی ہوا اور منزل پر جا کے بیٹھ گیا مگر انقلابی مارچ کو لاشوں کے انبار اٹھانے پڑے، ظاہر ہے انقلاب مارچ میں تو توقع کی جا سکتی ہے کہ انقلاب کی ابتدا ہی خون سے ہوتی ہے وہ کم بہے یا زیادہ مگر کارواں اس کے بغیر نہ آگے بڑھتا ہے اور نہ متحرک ہوتا ہے، سو اس کا ایندھن پنجاب گورنمنٹ نے فراہم کر دیا اور تماشا دیکھنے لگی۔
اس کو کیا معلوم تھا کہ وہ اپنے ہی نظام کے خلاف ایندھن فراہم کر رہی ہے بظاہر تند و تلخ الفاظ میں اسمبلی کی تقریریں چلتی رہیں۔ محض دھرنے کی مخالفت کے لیے جس سے دھرنے کو اور تقویت ملی کیونکہ بولنے والوں کی پوری ٹولی جمہوریت بچاؤ کے لفظ سے باہر نہ نکل سکتی ایسی اسمبلی جس نے نہ ماضی کے پانچ برسوں میں کسی کو کچھ ڈلیور (Deliver) کیا اور نہ حال زرداری صاحب نے تو جوش خطابت میں تمام ذمے داری کسی دجال پر ڈال دی اور خود مبرا ہو گئے مگر موجودہ حکومت نے نہ کوئی دجال تلاش کیا اور نہ ملنے کی امید ہے اس کو تو تمام بوجھ خود اٹھانا ہے۔ حالانکہ زرداری کی جمہوریت نوک نیزہ پہ تھی۔
اس لیے زرداری صاحب کو فرینڈلی اپوزیشن کا نام دیا گیا مگر مسئلہ این آر او کا تھا جس میں تمام فیصلے بیرون ملک ہو چکے تھے اس لیے زرداری صاحب کے دور میں قادری صاحب نے جب انقلابی دھرنا دیا تو ان کی سادگی کی بنا پر پہلے تو ان کے خلاف پروپیگنڈا کیا گیا کہ غیر ملکی ایجنٹ۔ پھر دھرنے میں نہایت آسانی سے ان کو خوشی خوشی کنٹینر سے باہر نکال کر کاغذی معاہدے سے روگردانی کر دی چوٹ کھائے ہوئے زرداری صاحب کی اس بار قادری صاحب انقلاب مارچ کو انتخاب مارچ میں بدلنے میں کامیاب ہو گئے قادری صاحب نے مزدوروں کے شہر فیصل آباد میں ابتدائے اکتوبر میں ایک فقید المثال جلسہ کر ڈالا۔ یہ جلسہ درحقیقت 60 روزہ دھرنوں میں جو پیغامات دیے گئے اس کا نتیجہ تھا جس کا اثر یہ ہوا کہ ملک کی بیشتر پارٹیوں میں سراسیمگی پھیل گئی اور انھیں ایسا محسوس ہوا کہ ان کے پاؤں تلے زمین نکل گئی۔
صد افسوس جناب عابد حسن منٹو جو خود کو ورکرز پارٹی کا رہنما کہتے ہیں اور موجودہ حکومت کی بھارت نوازی پر قربان ہیں انھیں ایسا لگتا ہے کہ موجودہ بھارتی حکومت گاندھی جی کی ہے نہ کہ نریندر مودی کی جن کے نظریاتی دوستوں نے گاندھی جی پر گولیاں برسائیں کیونکہ گاندھی نے پاکستان کو میر عثمان علی خان دکن کی امداد پاکستان پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ جناب بھارت نہ اب کوئی ترقی پسند ملک ہے اور نہ عملاً سیکولر، وہ فرقہ پرستوں اور سرمایہ داروں سے گٹھ جوڑ کر کے حکومت کر رہا ہے اگر کسی بھی حکومت کو دیکھنا ہے تو اس کی داخلہ پالیسی اور خارجہ پالیسی کے خدوخال کا جائزہ لیں اور نواز شریف اور زرداری کی خارجہ اور داخلہ پالیسی یکساں ہے۔ پیپلز پارٹی کے پاس کوئی پروگرام نہیں بس وہ ذوالفقار علی بھٹو بے نظیر بھٹو اور میر مرتضیٰ بھٹو کی شہادت کی بنا پر حکمرانی کر رہے ہیں اور کراچی کا جلسہ بھی انتظامی اور حکومتی سرپرستی میں ایسا ہو جائے گا کہ پیپلز پارٹی کا وقار مجروح نہ ہو پیپلز پارٹی اس وقت جن مقامات پر سرگرم ہے، ان میں لیاری، چانڈیو گوٹھ، گزری، پرانا گولیمار یہ تمام علاقہ اور شہر میں گزدرآباد اگر تاریخ کے اوراق پلٹیے تو 1948ء کا ایک صفحہ پڑھتے جائیے، بڑے کام کا ہے۔
لیاری سے لے کر سولجر بازار تک آباد شہر کے وسطی علاقے پر ہندوؤں، پارسیوں، کرسچن حضرات کی اکثریت تھی ہندو یا تو ہجرت کر رہے تھے یا دیہات اور چھوٹے شہروں کو جا رہے تھے کراچی میں ہندو مسلم فساد ایک بار ہوا کہ جناح صاحب کی شیریں و آہنی زبان نے چند گھنٹوں میں ختم کر دیا تھا مگر پاکستان چوک کے قریب ایک بلڈنگ ایک ہندو عورت کی تھی اس میں بہت سے خاندان ہندوؤں کے آباد تھے ایک رات چند شرپسندوں نے ایک پروگرام بنایا کہ پہلے بلڈنگ کے ایک کونے پر حملہ کر کے آگ لگا دی جائے جگہ خالی کی جائے اور نقدی لوٹ لی جائے اسی بلڈنگ میں ایک انقلابی مزدور رہنما سوبھو گیان چندانی بھی رہتے تھے بلڈنگ میں آنا جانا کافی لوگوں کا رہتا تھا تو اس بلڈنگ کی مالکن کو یہ پسند نہ تھا۔
بہرحال ایک شب جب لوگ حملہ کرنے کی غرض سے جمع ہونے لگے تو لوگوں نے ان کے تیور اور حملہ کرنے کے ساز و سامان سے اندازہ لگا لیا کہ کچھ ہونے والا ہے دیکھتے ہی دیکھتے یہ خبر لیاری تک جا پہنچی سیکڑوں کی تعداد میں وہاں سے مزدور پاکستان چوک آ گئے اور بلڈنگ کے گرد گھیرا کر لیا حملہ آوروں کو بھگا کے دم لیا اور ہندو عورتوں اور مردوں کو محفوظ کیا یہ مسلمان تھے جنھوں نے ہندوؤں کو بچایا اور یہ تمام کے تمام پاکستان کمیونسٹ پارٹی کے رکن تھے اس وقت سندھ پر ایوب کھوڑو کی حکومت تھی مگر یہ بلڈنگ محفوظ رہی کمیونسٹ پارٹی کے جو عہدے دار وہاں ہفتوں پہرہ دیتے رہے ان میں امام علی نازش، شرف علی، سعید ہارون بھی شامل تھے، مگر یہ روشن خیال علاقہ 1974ء سے لے کر آج تک نسل پرستی کی لپیٹ میں ہے اور روز بروز اس علاقے میں نسل پرستی کا بول بالا ہے کمیونسٹ پارٹی پر (CCP) تو 1954ء سے پابندی لگ گئی۔ مگر اس پارٹی کے ثمرات کو پی پی پی نے 70ء کے الیکشن میں کیش کر لیا اور بھٹو صاحب کی شہادت کے بعد پارٹی نے یکسر اپنا نظریہ حیات بدل لیا اور اب وقت ایسا آ گیا ہے کہ وہ بلاول ہاؤس شہر بہ شہر بنوا رہی ہے ایک بڑے طویل عرصے کے بعد پھر عوام کی باتیں ہو رہی ہیں۔
رہ گیا سوبھوگیان چندانی ان کی عمر 100 سال کے لگ بھگ ہے اور زیر علاج ہیں آپ عبدالمجید سندھی، حیدر بخش جتوئی اور سندھ کی ترقی پسند تحریک کے اہم لوگوں میں سے ہیں۔ 1953ء میں طلبہ تحریک میں جن لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ان کی زیادہ عمر تو زیر زمین گزری اور اکثر ان میں سے زمین کی گود میں سو گئے لیاری میں کوئی ایسی پارٹی نہیں جو وہاں کے نوجوانوں کی رہنمائی کرے اور حالات بدل ڈالے اگر پیپلز پارٹی چاہتی تو لیاری کو ایک نمونہ بناسکتی تھی مگر اس نے لیاری کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا 1968-69ء اور 1971ء تک نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن لیاری کے نوجوانوں کے ساتھ مل کر چاکیواڑہ کے ٹرام پٹہ پر مظاہرے کرتے تھے۔ لیکن بعد میں لیاری کو بنانے کے بجائے بگاڑنے کی کوشش کی گئی، گھروں پر قبضے شروع ہوئے اور لیاری کے عوام نے گزری کے گرد و نواح میں پناہ تلاش کی وہ سالہا سال کے رہائشی جو کبھی خود بستیاں بساتے اور بچاتے تھے آج وہ خود پناہ گزیں ہیں لیاری جہاں سے حب تک سائیکل ریس ہوتی تھی، فٹبال میچ ہوتے تھے، نظریاتی محفلیں ہوتی تھیں، ادبی مسائل پر مباحثے ہوتے تھے ایسا لگتا ہے وہاں کی نمو فرقہ پرست اور نسل پرست کھا گئے میرے دوست عبدالحی بلوچ اور ان کے ساتھی سب کے سب اپنی آوازیں کھو بیٹھے نظریات پر نسل پرستی حاوی ہوتی جا رہی ہے۔
اسی لیے اس دور میں روشن پرستی جو قادری صاحب نے اختیار کی اس نے عوام میں کشش پیدا کی اور لوگ ان کی باتوں پر کان دھرنے لگے ہیں انقلاب مارچ نے پورے پاکستان کو متاثر کیا ہے رفتہ رفتہ پیپلز پارٹی سندھ کی پارٹی بنتی جا رہی ہے کیونکہ اب قیادت جو نعرے لگا رہی ہے وہ علاقائی نوعیت کے ہیں۔
جئے سندھ موومنٹ کے نعروں میں اور پی پی کے نعروں میں فرق جاتا رہا بلکہ جئے سندھ گروپ کے بانی جی ایم سید کے پوتے شاہ صاحب اور ان کے ہمنواؤں کے نظریہ فکر میں واضح بہتری ہے اور اس کے مرکزی خیال سے ظاہر ہوتا ہے کہ میرا پیغام محبت ہے اور محبت۔ ابھی چند روز قبل سندھ یکجہتی کانفرنس میں جو قرارداد منظور کی گئی اس میں کہا گیا ہے کہ یہ کانفرنس واضح کرتی ہے کہ سندھ میں ہزاروں سال سے ایک قومی وحدت ہے اور یکجہتی کو برقرار رکھا جائے گا اور سندھ میں آباد مستقل وحدتوں اور لوگوں کا تحفظ کیا جائے گا۔ ایک اور نکتہ جو قرارداد میں شامل ہے وہ ہے مذہبی، لسانی، نسل پرستی، عدم برداشت، تشدد اور امتیازی سلوک کی مذمت۔ ظاہر ہے دہشت گردی اور تقسیم نے عوام سے روٹی کپڑا اور مکان چھین لیا ہے اور ایک چہرے پر دوسرا خول لگا کر عوام کو بے وقوف بنایا جا رہا ہے ۔