وی وی آئی پی کلچر اور ہماری نفسیات
۔ ہم سب پر لازم ہے کہ انسانیت کا احترام کریں۔ قانون کی پاسداری کریں۔اور اپنے اندر موجود اس احساس برتری کو کچل دیں۔
پاکستان میں وی وی آئی پی کلچر کی روایت انتہائی پرانی ہے۔ آپ جب کسی امیر یا خوشحال طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے طرز زندگی اور رہن سہن کا بغور جائزہ لیں تو زیادہ تر مواقعے پر ان کے لائف اسٹائل میں خود پسندی، تکبر، اسراف اور ظاہری نمودونمائش کا عنصر صاف نظر آتا ہے۔
اپنے اردگرد نظر دوڑایے تو پتا چلتا ہے کہ بڑی گاڑیوں میں سوار لوگ چاہے وہ فیملیز کے ساتھ ہوں یا غریب ٹھیلے والے، موٹرسائیکل والے، سائیکل والے، پیدل چلنے اور حتیٰ کہ چھوٹی گاڑی رکھنے والے افراد کو حقارت سے دیکھتے ہوئے سڑک پرگاڑیاں دوڑاتے نظر آتے ہیں اور اگر سگنل بند ملے تو اس پر تھوڑی دیر رکنا اپنی توہین کے مترادف سمجھتے ہیں۔ اور منہ ہی منہ میں بڑبڑاتے ہوئے آگے والی گاڑی یا موٹرسائیکل یا پھر سوزوکی والے کو ہٹنے کا یا پھر سگنل توڑنے کا اشارہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور اگر ٹریفک کانسٹیبل ان کو رکنے کا اشارہ کرے تو اسے تحقیر سے جھڑکتے ہوئے نظر آتے ہیں اور اگر چھوٹا موٹا چالان کاٹ بھی دیا جائے تو اسے باعث فخر سمجھتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک جرمانہ یا چالان بھر کر قوانین کی خلاف ورزی کرنا یا سڑک پر بادشاہ بننا جائز امر ہے۔ اور یہ کہ وہ آیندہ بھی ایسی کسی حرکت پر نادم نہ ہوں گے بلکہ بنے اس طرز عمل کو جاری و ساری رکھیں گے کیونکہ جرمانے کی یہ معمولی رقم کی حیثیت تو ان کے نزدیک بھیک سے بھی کم ہے۔
ٹریفک کانسٹیبل سے بدتمیزی اور سڑک پر تکبر اور رعونت کے ساتھ گاڑی چلانا تو ان کی شان کے عین مطابق ہے اور ٹریفک قوانین کی پاسداری کو بزدلانہ طرز عمل سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ پھر اس طریقے سے سڑک پر دوسری گاڑیوں کو اوورٹیک کرنا بھی باعث فخر سمجھا جاتا ہے۔حتیٰ کہ بعض لوگ جو اپنے آپ کو اشرافیہ کا حصہ سمجھتے ہیں۔
جمعے کی نماز میں بھی اپنے سے کم مالی حیثیت کے طبقے کے ساتھ یا مزدوروں کے آگے پیچھے نماز پڑھنا بھی اپنے لیے توہین آمیز سمجھتے ہیں اور اپنے لیے خاص مسجدوں کا انتخاب کرتے ہیں ۔جہاں ان کو اپنے ہی طرح کے لوگوں کی قربت نصیب ہو تاکہ شان و وقار میں کمی نہ آئے۔ ایک نوجوان کھلاڑی کی ایک عام ٹریفک وارڈن کے ساتھ تکرار اور جھگڑے کی مثال تو سب کے سامنے ہے۔ موصوف نے اس بات کا برا منایا کہ ان کو دوران ڈرائیونگ موبائل فون استعمال کرنے سے کیوں روکا گیا اور ان کا چالان کیوں کیا گیا۔ پھر کبھی اپنے آس پاس نظر دوڑائیں تو ایسے سیکڑوں واقعات ہمارے مشاہدے کا حصہ بنتے ہیں کسی بھی سماجی تقریب یا کنسرٹ میں داخلے کی کوشش میں سیکیورٹی اہلکاروں سے بدتمیزی اور لڑائی جھگڑا کرنا اور اپنے گارڈز اور رعب و دبدبے کی بنیاد پر وہاں داخل ہونا باعث فخر سمجھا جاتا ہے۔
کچھ عرصے پہلے ہمارے ایک صوبے کے سابق وزیر اعلیٰ اور گورنر کے صاحبزادے کا سیکیورٹی گارڈ پر فائرنگ کا واقعہ اس کی ایک مثال ہے۔ چاہے آپ اس تقریب کے مہمان ہوں یا نہ ہوں جہاں پر اپنے رعب و دبدبے کی بنیاد پر داخل ہونا بہادری کی مثال مانا جاتا ہے۔ پھر کسی بینک کی مثال لے لیجیے۔ اتنے طویل بینکنگ آوورز میں جو عموماً صبح 9 سے شام 5:30 تک ہوتے ہیں اگر کبھی کوئی کیشیئر کھانے کا 15 منٹ کا وقفہ لے لے تو کسٹمرز یا اکاؤنٹ ہولڈرز حضرات اس کو ایسی ڈانٹ پلاتے ہیں جیسے انھوں نے بینک خرید لیا ہے یا پھر وہ کیشیئر ان کا ذاتی ملازم ہو اور حتیٰ کہ بل جمع کرانے والے حضرات جو بینک کے کلائنٹس بھی نہیں ہیں ان کا رویہ انتہائی قابل اعتراض ہوتا ہے اور یہ سب کچھ کیوں صرف اس لیے کہ ان کے دماغ میں ایک چیز موجود ہے کہ جیسے بینک ان ہی کے پیسے سے چل رہا ہے اور ویسے بھی فری مارکیٹ اکانومی کسٹمر تو بادشاہ ہے سو جو چاہے کرے اس کی کوئی حدود و قیود ہی نہیں۔
کسی بڑی کمپنی کے چیف ایگزیکٹو یا مینجنگ ڈائریکٹر کو دیکھ لیجیے آگے پیچھے سیکیورٹی کمپنی کی گاڑیاں اور آفس میں آتے وقت پروٹوکول اور نچلے ملازمین سے ہاتھ ملانا تو خیر درکنار بلکہ سلام کا جواب دینا بھی اپنی توہین سمجھتے ہیں جواب میں صرف سر ہلانا ضروری سمجھتے ہیں بھلا ان سے کوئی پوچھے کہ آپ کو سلام کیا گیا ہے کوئی سوال تو نہیں پوچھا گیا جس پر آپ اپنا سر ہلا رہے ہیں پھر شادی بیاہ کی تقریبات میں دیر سے تشریف لانے اور یہ تقاریب رات دیر تک جاری رہنا ایک معمول ہے تحقیقات کی جائیں تو پتا چلتا ہے کہ وقت پر آنے والے لوگ تو سادہ لوح اور کچھ کے نزدیک تو بے وقوف خیال کیے جاتے ہیں کسی سرکاری ادارے میں کام کے لیے جانا ہو تو جب تک وہاں کا کلرک دوسروں کو چھوڑ کر آپ کو Serve نہ کرے یا کسی کو فوقیت نہ دے تو آپ کی شان میں کمی آجاتی ہے۔ روڈ پر ہوٹر لگی ہوئی گاڑیاں عام مشاہدے میں آتی ہیں اگر کوئی ٹریفک کانسٹیبل ان کو روکنے کی جسارت کرے تو فوراً موبائل فون نکال کر نمبر ملانا شروع۔
جو اس بات کا اشارہ ہوتا ہے کہ جناب تمہاری خیر نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک عام پولیس آفیسر یا کانسٹیبل ان گاڑیوں کو روکنے کی ہمت ہی نہیں کرتا۔ جس کا کچھ لوگ ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ میڈیا میں بہت دفعہ اس قسم کے واقعات دکھائے گئے ہیں کہ حکومت کی نمبر پلیٹ لگی ہوئی گاڑیاں (چاہے وہ نمبر پلیٹ جعلی بھی ہو) ان کو روکنے کی کوئی جسارت کر ہی نہیں سکتا اور یہ گاڑیاں دندناتے ہوئے جہاں چاہے داخل ہوجائیں حتیٰ کہ ریڈ زون میں آجائیں کوئی پوچھنے والا موجود نہیں۔ ٹریفک سگنل کو بند کرکے ٹریفک اہلکار پہلے ان گاڑیوں کو راستہ دیتے ہیں چاہے وہ ان کا استحقاق ہو یا نہ ہو۔
لیکن کوئی نہیں پوچھنے والا۔ ٹریفک اہلکار کا کام تو ان کو سلیوٹ مارنا اور ان کو راستہ دینا ہے اگر ایسا نہ کرے تو توہین کا مرتکب قرار۔ تکبر اور برتری کا احساس ہماری نفسیات میں رچ بس چکا ہے طاقت، جاہ و جلال اور پیسے کے بل بوتے پر تو اس ملک میں سارے کام ہوجاتے ہیں۔ اس کے لیے ضروری نہیں کہ وہ محکمہ حکومت کا ہو یا پرائیویٹ سیکٹر میں۔ ایک کروڑ پتی آدمی کا بچہ اگر کسی پرائیویٹ اسکول میں فیل ہوجائے تو اس کی ایک دھمکی کہ وہ اپنے بچوں کو اسکول سے نکال لے گا۔ کار گر ثابت ہوتی ہے اور بچہ اگلے ہی دن اگلی کلاس میں پروموٹ کردیا جاتا ہے۔
یہ تو چند مثالیں ہیں اگر اس نفسیات کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو اس کے لیے ایک کالم تو کیا کئی کالم بھی ان مثالوں کو سمونے کے لیے کافی ہیں اب ہم بڑے بڑے جاگیرداروں کی گارڈز سمیت سڑکوں پر بادشاہت، ایک سینیٹر کے لیے فلائٹ میں تاخیر کرنے اور ایک سابق وزیر اعظم کے سپوت کے گارڈ کی فائرنگ سے بے گناہ نوجوان کی فائرنگ کا گلہ کس سے کریں۔
ان میں سے کسی بھی واقعے کی کوئی Justification قابل قبول نہیں۔ لیکن ضرورت تو اس بات کی بھی ہے ہم بحیثیت قوم اپنی خود احتسابی کریں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ کلچر ہم سب کے مزاج اور نفسیات کا حصہ بن گیا ہو اور شاید ان واقعات پر صرف زبانی جمع خرچ کرکے یا کچھ لوگوں کو اس کا مورد الزام ٹھہرا کر ہم اس کلچر سے اتنی آسانی سے جان نہ چھڑا سکیں۔ ہم سب پر لازم ہے کہ انسانیت کا احترام کریں۔ قانون کی پاسداری کریں۔ اور اپنے اندر موجود اس احساس برتری کو کچل دیں۔ جو ہمیں اس کلچر کا حصہ بناتا ہے جس دن ایسا ہوگیا ہمیں خود بخود اس قابل نفرت کلچر سے نجات مل جائے گی جو شاید اس وقت قوم کی اہم ضرورت ہے۔