حیاتِ جاوداںشہید حکیم محمد سعید
حکیم صاحب محترم کی فلاحی وعلمی خدمات کا دائرہ بھی قومی ہونے کے علاوہ عالمی بھی تھا۔
پاکستان وہ خوش نصیب خطہ ہے جہاں سے بہت سے مفکّر اور اہل دل اٹھے اور انھوں نے ملک و قوم کی خدمت کو اپنا شعار بنایا۔ ان ہی قابل قدر شخصیات میں سے ایک شہیدِ پاکستان حکیم محمد سعید بھی ہیں۔
یوں تو بہت سی شخصیات نے علم و حکمت کے میدانوں میں اہم خدمات پیش کی ہیں لیکن حکیم محمد سعید واحد شخصیت ہیں جنہوں نے خودکو علم وحکمت ہی کے لیے وقف کر دیا تھا۔اول تو ہمدرد جیسا بے مثال ادارہ قائم کرنا ہی اہم ترین کارنامہ ہے مگر اس کے تحت مدینۃ الحکمت جیسے شہر کی تعمیر اللہ اکبر، جسے حکیم محمد سعید کی علمی و تعلیمی تحریک کا ایک سنگ میل قرار دیا جا سکتا ہے۔حکیم صاحب شہید نے اس شہر ِبے مثال کی بنیاد پاکستان بھر سے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے ہمراہ رکھی ۔
تاریخی اعتبار سے اس جگہ محمد بن قاسم نے سندھ آمد کے وقت قیام کیا تھا اسی مناسبت سے ہر سال ہمدرد کے زیر اہتمام یوم باب الاسلام کے عنوان سے ایک شاندار تقریب منعقد کی جاتی ہے۔ مدینۃ الحکمت محض ایک علمی و تعلیمی منصوبہ نہیں بلکہ ایک انقلاب پرور اقدام اور تحریک ہے جس کی غرض و غایت اسلام کی عظمت رفتہ کی بازیافت ہے اور یہ تاریخ اسلام کی اس عظیم الشان روایت کا تسلسل بھی ہے جس کا آغاز عباسی حکمران ابوجعفر منصور کے عہد خلافت میں بیت الحکمت کی بنیاد رکھنے سے ہوا تھا جسے ہارون الرشید اور مامون الرشید نے عروج سے ہمکنار کیا تھا۔
مدینۃ الحکمت کی تعمیر ایک طرف تو تاریخ کے عمیق مطالعے کا ثمر ہے جو بیت الحکمت ، دارالعلم اور خزانۂ علم کے نام سے عالم اسلام کے طول و عرض میں صدیوں تک سر گرم عمل رہے اور دوسری طرف یہ نتیجہ ہے اس وسیع مشاہدے کا جو حکیم محمد سعید نے دنیا کے بڑے بڑے علمی و تحقیقی اداروں کے معائنے کے دوران میں کیا ،اس کے قیام کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ اس شہر علم کو بسانے کا خیال شہید کو اللہ کے گھر میں آیا۔
شہید حکیم محمد سعید جن مقاصد کے لیے زندہ تھے ،ان مقاصد کی تکمیل کے لیے وہ ان گنت ادارے اور اپنی ذاتی مثالوں کا بہت دور سے نظر آنے والا روشنی کا ایک مینار چھوڑ گئے ہیں۔ وہ اعلیٰ اخلاق اور تہذیبی وضعداری کا ایک پر کشش مجسمہ تھے۔حکیم صاحب شہید جہد مسلسل کے ذریعے محیرالعقول کامیابیوں کا ایک ایسا جیتا جاگتا نمونہ بن گئے تھے جو پژمردہ ارادوں میں ایک نئی روح پھونک دیتا تھا۔ ان کی شخصیت میں دین داری ، نیکی اور ایثار کو بنیادی حیثیت حاصل تھی۔آپ تقسیم کے بعد انڈیا سے جما جمایا کاروبار چھوڑ کر خالی ہاتھ پاکستان آگئے تھے مگر حکیم صاحب نے ثابت کردکھایا کہ بے سرو سامانی میں بھی ایک پرعزم آدمی اپنی دنیا آباد کر سکتا ہے اور کٹھن سے کٹھن حالت میں بھی اخلاقی اور ملی روایات کی حفاظت کی جا سکتی ہے.
آج کا ہمدرد انڈیا کے ہمدرد سے کئی گنا بڑا رتبہ رکھتا ہے ۔سچ یہ ہے کہ وہ اپنی مثال آپ تھے اور ان جیسا کوئی نہیں تھا۔ دنیا کے بڑے بڑے دانشوروں ، طبیبوں، عملی شخصیتوں، سائنسدانوں اور حکمرانوں کے ساتھ ان کے ذاتی مراسم تھے اور یہ سارے تعلقات اور ذاتی مراسم وہ علم و تحقیق کے فروغ اور پاکستان کے وقار کو بلند کرنے کے لیے بروئے کار لاتے۔ آج بھی موجودہ وقت کی عالمی اور بڑی شخصیات جن میں اردن کے شہزادہ حسن بن طلال ،اسلامی ملکوں کی تنظیم او آئی سی کے سابق سیکریٹری جنرل اور ترکی میں ہونے والے حالیہ الیکشن میں صدارتی امیدوار اکمل الدین احسان اوغلو، کویت کے وزیر صحت عبدالرحمن العوادی ،سعودی عرب کے سابق وزیر تیل ذکی یمانی، اردن کے شہزادہ حسن بن طلال ،عالمی ادارہ صحت کے ریجنل ڈائریکٹر ڈاکٹر حسین الجزائری، موتمر عالم اسلامی کے صدر ڈاکٹر عبداللہ النصیف اور دیگر قابل ذکرعالمی شخصیات شامل ہیں۔
شہید حکیم محمد سعید ملک میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کا ایک جال بچھا دینا چاہتے تھے کہ علم کی روشنی پھیلے اور عوام کو جہالت کی تاریکیوں سے نجات ملے۔ اسی لیے انھوں نے خود اس مقصد کی عملی تفسیر بنتے ہوئے حکومت کی طرف دیکھنے کی بجائے اپنے وسائل سے ادارے تعمیر کرنا شروع کر دیے تھے۔ بے لوث خدمات، علم و اخلاق اور کردار سازی کے ساتھ شگفتگی نے ان کو حکمرانوں سے بلند تر مقام عطا کیا تھا۔ وہ بیش قیمت ملی سرمائے کی حیثیت اختیار کر گئے تھے اور ان کی آواز عالمی سطح پر بھی بہت غور سے سنی جاتی تھی۔ وہ پاکستان کی سلامتی اور عالمِ اسلام کے اتحادکے نہایت مضبوط اور بلند ستون تھے۔
آپ ایک صحت مند انقلاب لانے کے آرزو مند تھے۔ اسی لیے انھوں نے قوم میں صحت کا شعور اجاگر کرنے کے لیے سپاہ صحت قائم کی۔وہ کہا کرتے تھے کہ دنیا میں ہمیشہ صحت مند اقوام نے ہی سر بلندی حاصل کی ہے اور تعمیر پاکستان کے لیے افراد ملت کی صحت لازمی ضرورت ہے۔انھوں نے ہی صحت مند نونہال ،صحت مند پاکستان کا نعرہ بلند کیا بلکہ عملی طور پر اس کے لیے کوششیں بھی کیں۔مزید یہ کہ صحت کے قومی شعور کی اس ملی خدمت کی مثال انگریزی اور اردو میںطب و صحت کے حوالے سے ان کی30 سے زائدکتب موجود ہیں۔ ان کی تخلیقی، علمی اورانتظامی صلاحیتوں نے انھیں ایک نابغۂ روزگار بنا دیا تھا۔
حکیم صاحب محترم کی فلاحی وعلمی خدمات کا دائرہ بھی قومی ہونے کے علاوہ عالمی بھی تھا۔ آج کے ادارے عالمی اداروں سے امداد لیتے ہیں مگر جب عالمی ادارہ صحت کو مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تو انھوں نے ہمدرد کی طرف سے مالی تعاون سے اس کو استحکام عطا فرمایا۔پاکستان کے سیکڑوں نونہالوں اور نوجوانوں کو تعلیم کے حصول کے لیے وظائف، لاکھوں کتب کی مفت فراہمی،غریبوں کے مفت علاج کے لیے ہمدرد گشتی شفاخانے،دیہاتوں کے مستحق بچوں کے لیے تمام ترجدید تعلیمی سہولتوں سے آراستہ ہمدرد ولیج اسکول اور بے شمار فلاہی کارنامے شہید حکیم محمد سعید کا صدقۂ جاریہ ہیں ۔بچوں سے ان کی محبت پورا پاکستان جانتا ہے۔
نونہالان پاکستان بھی ان سے اتنی ہی محبت کرتے جس کا ثبوت ایک شاندار تقریب میں پاکستان بھر کے بچوں کی جانب سے انھیں قائدِ نونہال کا خطاب دیا گیا ۔شہید پاکستان حکیم محمد سعید کی بچوں کی ذہنی، جسمانی ،علمی اصلاح کے لیے ہمدرد نونہال اور ہمدرد صحت کا اجراء اور فکری صلاحیتوں کے اظہار کے لیے ہمدرد نونہال اسمبلی کا قیام اس محبت کا عملی نمونہ ہیں اور یہ محبت بعد از شہادت بھی آپ کے ساتھ رہی کہ حکومت پاکستان نے آپ کے یوم ولادت 9 جنوری کو سرکاری طور پر بچوں کا قومی دن قرار دیا۔ 17 اکتوبر کسی نا عاقبت اندیش نے علی الصباح انھیں حالتِ روزہ میں ان کے مطب آمد پرانھیں گولیاں مارکر شہید کردیا، آج بھی شہید حکیم محمد سعید کا مشن اسی توانائی اور پر عزم طور پر جاری ہے ۔شہید حکیم محمد سعید بظاہر تو ہم میں موجود نہیں مگر ان کی باعزم اور باہمت بیٹی سعدیہ راشد کی رہ نمائی میںآج بھی ہمدرد ،پاکستان سمیت اقوام عالم میں علم و حکمت فکر و دانش کے میدانوں میں کامیابیوں کی روشن مثالوں کے ساتھ ممتاز حیثیت کا حامل ہے ۔
شہید ہو کر بھی حکیم صاحب حیات جاوداں پا گئے ۔ان کا نام رہتی دنیا تک اپنے بلند پایاںکارناموں اور خدمات کے سبب ہمیشہ زندہ رہے گا۔ اگر ہم چشم تصور میں دیکھیں تو وہ ہمیں پکارتے ملیں گے ۔
کلیوں کو میں سینے کا لہو دے کر چلا ہوں
برسوں مجھے گلشن کی فضا یاد کرے گی