عظیم قربانیوں کے ورثے کا امین بلاول بھٹو زرداری
لاول بھٹو زرداری کی قیادت میں ایک ایسے پاکستان کی تشکیل کے لیے جدوجہد کو آگے بڑھایا جائے، جہاں انتہاپسندی نہ ہو۔
بلاول بھٹو زرداری پاکستان کے اس سیاسی خانوادے کے ورثے کے امین ہیں، جو پاکستان کے استحکام، جمہوریت، منصفانہ معاشرے کے قیام اور اعلیٰ انسانی اقدار کے لیے بے لوث قربانیوں کا ورثہ ہے، اس خانوادے کا عوام کے ساتھ ایک مضبوط رشتہ ہے، جس نے جمہوریت کی بقا کے لیے طویل جہدوجہد کی ہے اور انتہاپسندی کے خلاف علم بغاوت بلند کیا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کی قیادت ایک عملیت پسند نوجوان قیادت ہے۔
انھوں نے اپنی سیاسی سوجھ بوجھ اور فیصلوں کے ذریعے خود کو ایک باشعور اور بالغ سیاست دان ثابت کیا ہے۔ ایک ایسا سیاست دان، جو عوامی امنگوں کا آئینہ دار ہے اور پاکستانی عوام کے لیے ایک روشن مستقبل کی ضمانت بھی ہے۔ انھیں اپنے کارکنوں کی زندگی اتنی ہی عزیز ہے، جتنی اپنی ذاتی زندگی۔ وہ وطن عزیز کو انتہاپسندی سے پاک ایسی ریاست دیکھنا چاہتے ہیں، جس کا تصور بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی 11 اگست 1947 کی تقریر میں دیا تھا۔ قائداعظم کے بعد اس تصور پر شہید ذوالفقار علی بھٹو نے کام کیا۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی پاکستان کو قائداعظم کے تصورات کے مطابق ایک ریاست بنانے کے لیے دہشت گردی کے خلاف کھل کر کردار ادا کیا اور اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان کے ان علاقوں میں قومی پرچم دوبارہ لہرایا جائے گا جہاں دہشت گردوں نے قبضہ کیا ہوا ہے۔
وطن دوستی کے اس قافلے کے سالاراعظم ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ ان کے بعد یہ علم مادر جمہوریت محترمہ نصرت بھٹو نے تھاما اور اس قافلے کو رکنے نہیں دیا۔ بیگم نصرت بھٹو کی قیادت میں جمہوریت کے لیے جدوجہد میں قربانیوں کی نئی تاریخ رقم کی گئی۔ محترمہ بے نظیر نے بھی اس جدوجہد کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنی جان قربان کردی لیکن اصولوں پر کبھی بھی سودے بازی نہیں کی۔ شہید محترمہ کے بعد آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نے پانچ سال تک جمہوریت کے قافلے کو رواں دواں رکھا۔
پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں پیپلز پارٹی کی قیادت کی کردارکشی اور میڈیا ٹرائل سمیت بے شمار سازشیں کی گئیں لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور شریک چیئرمین نے اپنی سیاسی فہم و فراست، مفاہمت اور اعلیٰ سیاسی اقدار کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان تمام سازشوں کو ناکام بنادیا۔ آج ایک بار پھر سیاسی اور غیر سیاسی شعبدے باز میدان میں آگئے ہیں اور انھوں نے ملک کو سیاسی اور معاشی بحران سے دوچار کردیا ہے۔ وہ اپنی شعبدے بازیوں کے ذریعے جمہوری نظام کو پٹری سے اتارنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن بلاول بھٹو زرداری اور آصف علی زرداری کی مدبرانہ سیاست نے ان کوششوں کو بھی ناکام بنادیا۔ بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پاکستان کے عوام کا ایک تازہ دم قافلہ مساوات اور انصاف کے لیے جاری جدوجہد کو آگے بڑھائے گا۔ میں یہاں پر ایک واقعے کاحوالہ دینا چاہتا ہوں، جس کا ذکر معروف صحافی رؤف کلاسرا نے اپنی کتاب میں کیا ہے۔
رؤف کلاسرا لکھتے ہیں کہ ''جنرل ضیاء اور بھٹو کے درمیان یہ جنگ کا آخری مرحلہ تھا اور اب صرف پیغام رساں کا انتظار تھا۔ دور سے ہلکے قدموں کی چاپ سن کر کن اکھیوں سے بھٹو نے دیکھا کہ ایک نوجوان افسر ہاتھ میں ایک کاغذ اور قلم پکڑے ان کی طرف آرہا ہے۔ ان چند لمحوں نے یہ فیصلہ کرنا تھا کہ جنرل ضیاء اور بھٹو کے درمیان انا اور اعصاب کی جنگ کس نے جیتنی تھی۔ جنرل ضیاء نے جس کی آخری امید بھٹو کے اندر موجود ایک کمزور انسانی روح سے وابستہ تھی، جو شاید موت کو سامنے دیکھ کر بھٹو کو گڑگڑانے پر مجبور کرسکتی تھی۔ بھٹو نے اس نوجوان افسر کو دیکھا، جس کے ہاتھ میں کاغذ اور قلم تھا۔
وہ افسر راولپنڈی کا ڈپٹی کمشنر سعید مہدی تھا۔ سعید مہدی کو سول سروس میں کام کرتے ہوئے اتنا اندازہ ہوچکا تھا کہ ان مواقع پر زیادہ لمبی تمہید اور طویل گفتگو کی ضرورت نہیں ہوتی۔ قیدی اپنا ذہن بنا چکا ہوتا ہے کہ اس نے مرنا ہے یا جینے کی بھیک مانگی ہے اور آج تک اسے یاد نہیں پڑتا تھا کہ کسی نے رحم کی درخواست نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہو۔ بھلا کون مرضی اور خوشی سے پھانسی لگنا چاہے گا۔ یہ سوچ کر سعید مہدی نے اس سوگوار ماحول میں کاغذ اور قلم بھٹو کی طرف بڑھایا۔ بھٹو وہیں جامد اور ساکت بیٹھے رہے۔ انھوں نے کاغذ اور قلم لینے کے لیے ہاتھ آگے نہیں بڑھایا، جس سے سعید مہدی کو تھوڑی سی حیرانی ہوئی۔ بھٹو نے سعید مہدی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا کہ ینگ مین! تم جانتے ہو میں کون ہوں؟ سعید مہدی نے مؤدب ہوکر کہا کہ سر آپ کا نام ذوالفقار علی بھٹو ہے۔
بھٹو نے ایک اور سوال داغا۔ ''کیا تم میرے باپ کو جانتے ہو''؟ سعید مہدی نے جواب دیا ''جی سر ان کا نام سر شاہنواز تھا اور وہ برٹش انڈیا میں ایک ریاست کے وزیراعظم بھی تھے''۔ بھٹو نے اس پر بس نہیں کی اور پھر پوچھا۔ تمہیں میرے پاس کس نے بھیجا ہے؟ سعید مہدی نے جواب دیا۔ جنرل ضیاء الحق نے۔ بھٹو نے کہا کہ تم جنرل ضیاء الحق کے باپ کا نام بتاسکتے ہو؟ سعید مہدی نے جواب دیا کہ انھیں پتہ نہیں ہے۔ بھٹو مسکرایا اور بولا۔ ینگ مین! جس شخص کے باپ کا نام تمہیں بھی معلوم نہیں ہے اور تم چاہتے ہو کہ سر شاہنواز کا بیٹا اس کے نام جان بخشی کی درخواست لکھ کر دے۔ بھٹو نے یہ کہہ کر منہ موڑ لیا اور سعید مہدی وہاں سے لوٹ گئے۔
سعید مہدی کی بھٹو سے یہ آخری ملاقات تھی۔ تاہم یہ فقرہ ان کے ذہن سے نہیں نکل سکا۔ انھیں یوں لگا کہ یہ ایک مختصر سی بات عمر بھر ان کا پیچھا کرے گی کہ جس کے باپ کا نام اسے بھی معلوم نہیں تھا حالانکہ وہ کوئی معمولی آدمی نہیں تھا بلکہ ڈپٹی کمشنر تھا، اس کے نام بھٹو رحم کی اپیل نہیں کرے گا۔ خود سعید مہدی کے لیے بہت عجیب بات تھی کہ موت کے پھندے پر کھڑے کسی انسان نے رحم کی بھیک مانگنے سے انکار کردیا۔ بھٹو کی یہ غیر معمولی بہادری سعید مہدی کو ہمیشہ کے لیے ان کا گرویدہ بناگئی تھی۔''
بلاول بھٹو کی رگوں میں اسی شہید ذوالفقار علی بھٹو کا لہو دوڑ رہا ہے، جنھوں نے تختہ دار کو قبول کیا لیکن اصولوں پر سودے بازی نہیں کی۔ یہ اصول کیا تھے؟ یہ اصول تھے جمہوریت کا راج، عوام کی حکومت، عوام کے لیے اور عوام کے ذریعے۔ بلاول بھٹو کی قیادت ایک پختہ اور باشعور سیاسی قیادت ہے۔ بلاول بھٹو پاکستانی عوام خصوصاً نوجوانوں کے لیے امید کی روشن کرن ہیں، وہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹوکی طرح چاروںصوبوں کی زنجیر ہیں۔ ان کی قیادت میں نہ صرف جمہوریت کے تحفظ کے لیے جدوجہد جاری رہے گی بلکہ ان کی قیادت پاکستان کی یکجہتی کی علامت بنی رہے گی۔ پاکستانی عوام والہانہ انداز میں بلاول سے محبت کرتے ہیں۔ یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ملک کی آئندہ سیاست کا محور و مرکز بلاول بھٹو کی شخصیت ہوگی۔ جس دن سے بلاول بھٹو نے پیپلز پارٹی کی قیادت سنبھالی ہے۔
اس دن سے عوام دوستی، روشن خیالی، رواداری اور پرامن مزاحمت کی سیاست کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے۔ ان کے بیانات اور تقاریر میں سب سے نمایاں بات عوام کی فلاح و بہبود ہوتی ہے۔ وہ ایک ایسا پاکستان چاہتے ہیں جہاں تمام مذاہب، فرقوں اور طبقات، قومی اور لسانی گروہوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے معاشی، سماجی اور سیاسی طور پر یکساں مواقع ہوں، جہاں استحصال اور استبداد کی تمام صورتوں کا خاتمہ ہو اور جہاں کسی خوف اور خطرے کے بغیر لوگ اپنی زندگی بسر کرسکیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کا شمار ترقی یافتہ اور مہذب اقوام میں کیا جائے۔ اب وقت آگیا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں ایک ایسے پاکستان کی تشکیل کے لیے جدوجہد کو آگے بڑھایا جائے، جہاں انتہاپسندی نہ ہو، کوئی خودکش بمبار معصوم لوگوں کی زندگیوں کو اپنے مذموم مقاصد کی خاطر نشانہ نہ بناسکے۔
اعتدال پسندی، مساوات اور اعلیٰ ثقافتی و اخلاقی اقدار پر مبنی معاشرہ قائم ہو، نوجوانوں کو گمراہ کرنے اور انھیں اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنے والوں کی بیخ کنی ہو، تمام شہریوں کے نہ صرف بنیادی حقوق کا تحفظ ہو بلکہ ان کی تمام وسائل تک رسائی بھی ہو۔ ہر پاکستانی کو ذاتی اور سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر ایک ترقی پسند معاشرے کی تشکیل کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ تقسیم کے بجائے جوڑنے کی بات کی جائے۔ سندھ کے عظیم صوفی شاعر حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ نے فرمایا ہے کہ
چلو چلیں ان جولاہوں کے پاس
جن کی گرہ بہت نازک ہوتی ہے
جو جوڑتے ہیں سارا دن
توڑنا، انھوں نے سیکھا ہی نہیں
انھوں نے اپنی سیاسی سوجھ بوجھ اور فیصلوں کے ذریعے خود کو ایک باشعور اور بالغ سیاست دان ثابت کیا ہے۔ ایک ایسا سیاست دان، جو عوامی امنگوں کا آئینہ دار ہے اور پاکستانی عوام کے لیے ایک روشن مستقبل کی ضمانت بھی ہے۔ انھیں اپنے کارکنوں کی زندگی اتنی ہی عزیز ہے، جتنی اپنی ذاتی زندگی۔ وہ وطن عزیز کو انتہاپسندی سے پاک ایسی ریاست دیکھنا چاہتے ہیں، جس کا تصور بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی 11 اگست 1947 کی تقریر میں دیا تھا۔ قائداعظم کے بعد اس تصور پر شہید ذوالفقار علی بھٹو نے کام کیا۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی پاکستان کو قائداعظم کے تصورات کے مطابق ایک ریاست بنانے کے لیے دہشت گردی کے خلاف کھل کر کردار ادا کیا اور اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان کے ان علاقوں میں قومی پرچم دوبارہ لہرایا جائے گا جہاں دہشت گردوں نے قبضہ کیا ہوا ہے۔
وطن دوستی کے اس قافلے کے سالاراعظم ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ ان کے بعد یہ علم مادر جمہوریت محترمہ نصرت بھٹو نے تھاما اور اس قافلے کو رکنے نہیں دیا۔ بیگم نصرت بھٹو کی قیادت میں جمہوریت کے لیے جدوجہد میں قربانیوں کی نئی تاریخ رقم کی گئی۔ محترمہ بے نظیر نے بھی اس جدوجہد کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنی جان قربان کردی لیکن اصولوں پر کبھی بھی سودے بازی نہیں کی۔ شہید محترمہ کے بعد آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نے پانچ سال تک جمہوریت کے قافلے کو رواں دواں رکھا۔
پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں پیپلز پارٹی کی قیادت کی کردارکشی اور میڈیا ٹرائل سمیت بے شمار سازشیں کی گئیں لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور شریک چیئرمین نے اپنی سیاسی فہم و فراست، مفاہمت اور اعلیٰ سیاسی اقدار کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان تمام سازشوں کو ناکام بنادیا۔ آج ایک بار پھر سیاسی اور غیر سیاسی شعبدے باز میدان میں آگئے ہیں اور انھوں نے ملک کو سیاسی اور معاشی بحران سے دوچار کردیا ہے۔ وہ اپنی شعبدے بازیوں کے ذریعے جمہوری نظام کو پٹری سے اتارنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن بلاول بھٹو زرداری اور آصف علی زرداری کی مدبرانہ سیاست نے ان کوششوں کو بھی ناکام بنادیا۔ بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پاکستان کے عوام کا ایک تازہ دم قافلہ مساوات اور انصاف کے لیے جاری جدوجہد کو آگے بڑھائے گا۔ میں یہاں پر ایک واقعے کاحوالہ دینا چاہتا ہوں، جس کا ذکر معروف صحافی رؤف کلاسرا نے اپنی کتاب میں کیا ہے۔
رؤف کلاسرا لکھتے ہیں کہ ''جنرل ضیاء اور بھٹو کے درمیان یہ جنگ کا آخری مرحلہ تھا اور اب صرف پیغام رساں کا انتظار تھا۔ دور سے ہلکے قدموں کی چاپ سن کر کن اکھیوں سے بھٹو نے دیکھا کہ ایک نوجوان افسر ہاتھ میں ایک کاغذ اور قلم پکڑے ان کی طرف آرہا ہے۔ ان چند لمحوں نے یہ فیصلہ کرنا تھا کہ جنرل ضیاء اور بھٹو کے درمیان انا اور اعصاب کی جنگ کس نے جیتنی تھی۔ جنرل ضیاء نے جس کی آخری امید بھٹو کے اندر موجود ایک کمزور انسانی روح سے وابستہ تھی، جو شاید موت کو سامنے دیکھ کر بھٹو کو گڑگڑانے پر مجبور کرسکتی تھی۔ بھٹو نے اس نوجوان افسر کو دیکھا، جس کے ہاتھ میں کاغذ اور قلم تھا۔
وہ افسر راولپنڈی کا ڈپٹی کمشنر سعید مہدی تھا۔ سعید مہدی کو سول سروس میں کام کرتے ہوئے اتنا اندازہ ہوچکا تھا کہ ان مواقع پر زیادہ لمبی تمہید اور طویل گفتگو کی ضرورت نہیں ہوتی۔ قیدی اپنا ذہن بنا چکا ہوتا ہے کہ اس نے مرنا ہے یا جینے کی بھیک مانگی ہے اور آج تک اسے یاد نہیں پڑتا تھا کہ کسی نے رحم کی درخواست نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہو۔ بھلا کون مرضی اور خوشی سے پھانسی لگنا چاہے گا۔ یہ سوچ کر سعید مہدی نے اس سوگوار ماحول میں کاغذ اور قلم بھٹو کی طرف بڑھایا۔ بھٹو وہیں جامد اور ساکت بیٹھے رہے۔ انھوں نے کاغذ اور قلم لینے کے لیے ہاتھ آگے نہیں بڑھایا، جس سے سعید مہدی کو تھوڑی سی حیرانی ہوئی۔ بھٹو نے سعید مہدی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا کہ ینگ مین! تم جانتے ہو میں کون ہوں؟ سعید مہدی نے مؤدب ہوکر کہا کہ سر آپ کا نام ذوالفقار علی بھٹو ہے۔
بھٹو نے ایک اور سوال داغا۔ ''کیا تم میرے باپ کو جانتے ہو''؟ سعید مہدی نے جواب دیا ''جی سر ان کا نام سر شاہنواز تھا اور وہ برٹش انڈیا میں ایک ریاست کے وزیراعظم بھی تھے''۔ بھٹو نے اس پر بس نہیں کی اور پھر پوچھا۔ تمہیں میرے پاس کس نے بھیجا ہے؟ سعید مہدی نے جواب دیا۔ جنرل ضیاء الحق نے۔ بھٹو نے کہا کہ تم جنرل ضیاء الحق کے باپ کا نام بتاسکتے ہو؟ سعید مہدی نے جواب دیا کہ انھیں پتہ نہیں ہے۔ بھٹو مسکرایا اور بولا۔ ینگ مین! جس شخص کے باپ کا نام تمہیں بھی معلوم نہیں ہے اور تم چاہتے ہو کہ سر شاہنواز کا بیٹا اس کے نام جان بخشی کی درخواست لکھ کر دے۔ بھٹو نے یہ کہہ کر منہ موڑ لیا اور سعید مہدی وہاں سے لوٹ گئے۔
سعید مہدی کی بھٹو سے یہ آخری ملاقات تھی۔ تاہم یہ فقرہ ان کے ذہن سے نہیں نکل سکا۔ انھیں یوں لگا کہ یہ ایک مختصر سی بات عمر بھر ان کا پیچھا کرے گی کہ جس کے باپ کا نام اسے بھی معلوم نہیں تھا حالانکہ وہ کوئی معمولی آدمی نہیں تھا بلکہ ڈپٹی کمشنر تھا، اس کے نام بھٹو رحم کی اپیل نہیں کرے گا۔ خود سعید مہدی کے لیے بہت عجیب بات تھی کہ موت کے پھندے پر کھڑے کسی انسان نے رحم کی بھیک مانگنے سے انکار کردیا۔ بھٹو کی یہ غیر معمولی بہادری سعید مہدی کو ہمیشہ کے لیے ان کا گرویدہ بناگئی تھی۔''
بلاول بھٹو کی رگوں میں اسی شہید ذوالفقار علی بھٹو کا لہو دوڑ رہا ہے، جنھوں نے تختہ دار کو قبول کیا لیکن اصولوں پر سودے بازی نہیں کی۔ یہ اصول کیا تھے؟ یہ اصول تھے جمہوریت کا راج، عوام کی حکومت، عوام کے لیے اور عوام کے ذریعے۔ بلاول بھٹو کی قیادت ایک پختہ اور باشعور سیاسی قیادت ہے۔ بلاول بھٹو پاکستانی عوام خصوصاً نوجوانوں کے لیے امید کی روشن کرن ہیں، وہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹوکی طرح چاروںصوبوں کی زنجیر ہیں۔ ان کی قیادت میں نہ صرف جمہوریت کے تحفظ کے لیے جدوجہد جاری رہے گی بلکہ ان کی قیادت پاکستان کی یکجہتی کی علامت بنی رہے گی۔ پاکستانی عوام والہانہ انداز میں بلاول سے محبت کرتے ہیں۔ یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ملک کی آئندہ سیاست کا محور و مرکز بلاول بھٹو کی شخصیت ہوگی۔ جس دن سے بلاول بھٹو نے پیپلز پارٹی کی قیادت سنبھالی ہے۔
اس دن سے عوام دوستی، روشن خیالی، رواداری اور پرامن مزاحمت کی سیاست کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے۔ ان کے بیانات اور تقاریر میں سب سے نمایاں بات عوام کی فلاح و بہبود ہوتی ہے۔ وہ ایک ایسا پاکستان چاہتے ہیں جہاں تمام مذاہب، فرقوں اور طبقات، قومی اور لسانی گروہوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے معاشی، سماجی اور سیاسی طور پر یکساں مواقع ہوں، جہاں استحصال اور استبداد کی تمام صورتوں کا خاتمہ ہو اور جہاں کسی خوف اور خطرے کے بغیر لوگ اپنی زندگی بسر کرسکیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کا شمار ترقی یافتہ اور مہذب اقوام میں کیا جائے۔ اب وقت آگیا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں ایک ایسے پاکستان کی تشکیل کے لیے جدوجہد کو آگے بڑھایا جائے، جہاں انتہاپسندی نہ ہو، کوئی خودکش بمبار معصوم لوگوں کی زندگیوں کو اپنے مذموم مقاصد کی خاطر نشانہ نہ بناسکے۔
اعتدال پسندی، مساوات اور اعلیٰ ثقافتی و اخلاقی اقدار پر مبنی معاشرہ قائم ہو، نوجوانوں کو گمراہ کرنے اور انھیں اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنے والوں کی بیخ کنی ہو، تمام شہریوں کے نہ صرف بنیادی حقوق کا تحفظ ہو بلکہ ان کی تمام وسائل تک رسائی بھی ہو۔ ہر پاکستانی کو ذاتی اور سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر ایک ترقی پسند معاشرے کی تشکیل کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ تقسیم کے بجائے جوڑنے کی بات کی جائے۔ سندھ کے عظیم صوفی شاعر حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ نے فرمایا ہے کہ
چلو چلیں ان جولاہوں کے پاس
جن کی گرہ بہت نازک ہوتی ہے
جو جوڑتے ہیں سارا دن
توڑنا، انھوں نے سیکھا ہی نہیں