گائیوں کا شہر
آج بھی رات کو سانگھڑ لوگوں کی بجائے، گائیوں کا شہر لگتا ہے۔
لاہور:
سندھ کا تاریخی شہر، سانگھڑ پر یہ نام کیسے پڑا ، اس پر مختلف آراء پائی جاتی ہیں، ان میں سے ایک رائے یہ بھی ہے کہ اس شہر سے سانگ نہرگذرتی تھی، اس لیے اس نہر کی نسبت سے اس شہر پر سانگھڑ نام پڑا۔ بہرحال اس سلسلے میں اب بھی یہ سوال حل طلب ہے۔
لیکن ایک چیز تاریخ میں عیاں ہے کہ نارا کے پانی سے آباد مکھی جھیل میں سے نکلنے والی ایک نہر سانگ واہ شمال سے جنوب مغرب کی طرف سانگھڑ کی طرف جاتی تھی، اسی نہر کے ذریعے مکھی کے مالوند لوگ کشتیوں کے ذریعے تب چھوٹے سے شہر سانگھڑ آنے کے لیے شہر کے موجودہ رحمت شاہ چوک پر لنگرانداز ہوتے تھے، پھر یہ لوگ ٹیلوں پر موجود دکانوں سے روز مرہ استعمال کی اشیاء خریدتے خاص طور پر گڑ اور باجرہ بھی ساتھ لے جاتے۔ اس سے پہلے بازار کے ساتھ موجود بنیوں سیٹھوں کے گھروں میں جاکر برتنوں میں لایا ہوا خالص گھی، مکھن اور شہد بیچتے اور ملنے والے پیسے خریداری پر خرچ کرتے شام کو پھر وہی لوگ، وہی کشتی اور وہی راستہ واپس مکھی کو جاتے اس لیے کہ یہ شہر بھی اکثر شہروں کی طرح پانی کے کنارے آباد تھا۔ موجودہ شاہی بازار سے لے کر مغرب میں مٹھی کھوئی کے علاقے تک سانگھڑ کا قدیم شہر موجود تھا۔
یہ مٹھی کھوئی یعنی میٹھے پانی کا کنواں اسی نہر کے کنارے موجود تھا، جہاں سے شہرکی عورتیں، میٹھے پانی کے گھڑے بھر کر پینے کے لیے گھروں کو لے جاتی تھیں۔ اس شہر میں اکثریت بنیا دکانداروں کی تھی، جو یہاں کے کاروبار کے مالک تھے، آج بھی اس دڑوں پر تنگ گلیوں میں قدیم سندھی ہندوؤں کے خاندان اور انڈیا سے آئے ہوئے لوگ آباد ہیں، جب کہ اس کے شمال میں آم اور کھجور کے بڑے بڑے باغات تھے جو پہلے نظامانیوں اور پھر بعد میں آنے والے ہندؤں مکھیوں کی ملکیت تھے، جہاں آج ایک بھی درخت موجود نہیں، جب کہ جنوب میں نظامانیوں کا گاؤں آباد تھا، جہاں آج درختوں کے جھرمٹ میں پولیس ہیڈکواٹرز اور واپڈا کالونی موجود ہیں۔ دراصل جب انگریزوں کے دور میں مکھی جھیل خشک کی گئی تو سانگ نہر بھی اجڑ گئی، نتیجے میں کنویں کا میٹھا پانی بھی روٹھ کر زیرزمیں چلا گیا، اب صرف اس کنویں کے نشانات موجود ہیں۔ یہاں کے اوائلی ہوٹلوں میں گاڑہے شاہ کا ہوٹل تھا، جو ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھتے تھے۔
آج کل ان کا مزار درگاہ کا درجہ پا چکا ہے، اس شہر کی تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ یہاں دو بڑی برادریاں، نظامانی اور ہندو بنیے رہتے تھے، نظامانیوں کے پاس مال موشیوں کے بڑے بڑے ٹولے تھے، ان میں زیادہ ترگائیں موجود تھیں، جب کہ ہندو بنیے گائے ماتا کو مقدس سمجھتے تھے۔ نظامانیوں کے گائیوں کے جسم پر لوہے کو آگ میں گرم کر کے نشانات بنائے جاتے تھے، جس سے ان کی پہچان ہوسکتی تھی، کہ یہ کس مالک کی گائے ہے۔ اس دور میں چوری چکاری کا نام بھی نہ تھا، گائیوں کے ٹولے دریاء کے پانی کی طرح آزاد چلتے۔
کوئی ایسی وارداتیں بھی نہیں ہوتی تھی، جس سے لوگوں میں خوف پیدا ہوتا۔کبھی کوئی کئی میل دور قتل ہو جاتا، تو ہر گھر میں دکھ وحیرت کی فضا پائی جاتی تھی۔ انسان کا قتل ایک بہت بڑا گناہ سمجھا جاتا تھا، کیوں کہ تب انسانیت کا بول بالا تھا۔ کسی ضرورت مند کے کام آنا۔ دکھی سے ہمدردی کرنا، پڑوس کے گھر اور عزت کا خیال رکھنا فرض سمجھا جاتا تھا۔ تو یہ گائیں دن کو چرا گاہوں کی طرف چرنے جاتیں اور سورج غروب ہونے تک واپس گھروں کو لوٹ آتیں، پھر ان سے دودھ نکالا جاتا، اور بعد میں کھلا چھوڑا جاتا، پھر یہ گائیں، دریاء کی مست لہروں کی طرح بازار اور ہندوں بنیوں کے گھروں کا رخ کرتیں جہاں عورتیں انھیں بچا کھچا کھانا، کھلوں کی کھالیں، گلے سڑے پھل دیتی، یوں یہ گائیں کھانے پینے کے بعد ادھر ادھر سیر سپاٹا کرتی جاتیں، اور ٹولیوں کی شکل میں کہیں بیچ راستوں میں چلتی رہتیں، کہیں سڑک کنارے تو کہیں تنگ گلیوں میں بیٹھ جاتیں، صبح کا سورج طلوع ہوتا تو گھروں کی طرف ٹہلتی جاتیں۔ یوں سانگھڑکا چھوٹا سا شہر دن کو لوگوں اور رات کو گائیوں کا شہر بن گیا۔ ایک طرف نظامانیوں کی گائیں پیٹ بھرتی رہتیں تو دوسری طرف ہندو بنیے بھی گائے ماتا کی خدمت کرکے ثواب کماتے رہتے۔
اس طرح یہ شہر انسان اور جانوروں کے بھائی چارہ کا منظر پیش کرتا، وقت مٹھی سے بہتی ریت کی طرح گزرتا گیا، پہلے انگریزوں نے شہر کے آس پاس موجود چراگاہوں کو ختم کر کے زمینیں آباد کیں، اور جب تقسیم ہند ہوئی تو کئی ہندو بنیے، یہاں سے ہجرت کر کے چلے گئے اور ان کی جگہ یو پی سی پی سے آئے ہوئے لوگ بستے گئے، یوں سانگھڑ کا یہ قدیم شہر ان کی مشترکہ بستی بن گیا۔ آہستہ آہستہ آبادی بڑھنے لگی، تو شہر میں بھی وسعت آنے لگی پھر پنجاب سے ریٹائرڈ فوجی یہاں آباد ہوتے گئے، تو شہر کی ڈیموگرافی اور جاگرافی بھی بدلنے لگی یوں یہ شہر 1954میں مستقل ضلعی ہیڈ کوارٹر بنا۔ یہاں پہلے پیر پگارا کے مریدوں کی اکثریت تھی، پھر پیپلزپارٹی بنی تو کئی لوگ ذوالفقار علی بھٹو کے سحرمیںگرفتار ہوئے، پھر ایم کیو ایم، سپاہ صحابہ، جماعت اسلامی، جے یو آئی اور قوم پرست جماعتیں بھی اپنے پاؤں جمانے لگیں، یوں سانگھڑ کا سیاسی نقشہ بھی بدلتا گیا۔ جب بھانت بھانت کے لوگ یہاں آکر آباد ہونے لگے، کئی ثقافتیں آپس میں ملنے لگی تو نئی ریتیں رسمیں بھی وجود میں آئیں۔
اگر آپ نوبل لاریٹ رائٹر وی ایس نائیپال کا شاندار ناول A house for Mr. Biswas'' ''پڑہیں گے تو انگریزوں کی کالونیل اور ان کی جنم بھومی ٹرینیڈاڈ کے متعلق بھی ایسے مناظر پڑھنے کو ملیں گے، جسے وہ Multi-culti کہتے ہیں۔ آہستہ آہستہ چوری، ڈکیتی اور قتل جیسے کرائمز بھی شہر میں پلنے بڑھنے لگے۔ اب یہ شہر بد امنی اور بے بسی کا منظر پیش کرتا ہے، نئی نسل کی اپنی اپنی من مستیاں ہیں، لیکن کمال کی بات یہ ہے کہ آج بھی جب آپ سانگھڑ شہر میں داخل ہونگے تو سورج غروب ہونے کے ساتھ ہی گائیوں کا ایک بڑا سیلاب شہر کی سڑکوں اور گھروں کی گلیوں میں امنڈ آتا ہے، ایک طرف اب بھی ہندو بنیے ان کی خدمت کرتے ہیں تو دوسری طرف فروٹ اور سبزیوں کے ٹھیلوں سے پھینکا گیا، گلا سڑا فروٹ اور سبزیاں یا کریانہ اور دیگر دکانوں سے پھینکا گیا کچرا ان کی خوراک کا ذریعہ بنتے ہیں۔
ایسے ہی مناظر ایک اور نوبل لاریٹ ترکی کے اورہان پاموک نے قدیم استنبول کے پیش کیے ہیں۔ آج بھی رات کو سانگھڑ لوگوں کی بجائے، گائیوں کا شہر لگتا ہے، قدم قدم پر گائیں ٹولوں کی شکل میں منہ، کان ہلاتے اور پوچھ زمین پر مارتے ہوئے بیٹھتی ہیں، یا ادھر سے ادھر ڈڈو چال چلتی ہوئیں نظر آتی ہیں۔ دن کو سڑکوں پر پھینکے ہوئے کچروں کے ڈھیروں کو، رات کو صاف کرنے کا کام کرتی ملیں گی، کیوں کہ سانگھڑ کی میونسپل کمیٹی کے لوگ ایسا اچھا کام کر ہی نہیں سکتے۔ شہر کے لوگ بھی جزوی طور پر مطمئن ہیں کہ چلو انسان نہ سہی جانور ہی سہی، کوئی تو ہے جو شہر کی صفائی کا خیال رکھتا ہے، جب کہ گائیوں کے مالکان بھی خوش ہیں کہ ان کے جانوروں کو مفت روزی روٹی مل جاتی ہے، کیوں کہ اب وہ چراگاہیں بھی تو نہیں رہیں۔ یوں سانگھڑ شہر کا کاروبار لوگوں اورجانوروں کے بدولت چلتا رہتاہے۔ ہے نہ یہ عجیب شہر! جس کے عجائبات کے بارے میں مزید اگلے مضمون میں لکھیں گے۔