کڑی شرائط کے باعث وزیر اعظم یوتھ بزنس لون اسکیم ناکام ہونے کا خدشہ
خودکارنظام کامعیارپورانہ کرنے، اسٹیٹ بینک کی منفی رپورٹ اورضمانتیوں کے عدم تعاون پر30فیصد درخواستیں مسترد
بے روزگار اور باصلاحیت نوجوانوں کے لیے متعارف کرائی گئی وزیر اعظم یوتھ بزنس لون اسکیم کے پیچیدہ طریقہ کار، بینکوں کی سخت ترین شرائط، ضمانت اور اسٹیٹ بینک کی کریڈٹ ہسٹری سے تصدیق جیسے کڑے مراحل کے سبب ناکامی سے دوچار ہونے کا خدشہ ہے۔
اسکیم کے آغاز سے اب تک قرضوں کے حصول کے لیے جمع کرائی جانے والی 30فیصد سے زائد درخواستیں خودکار سسٹم کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہ ہونے کے سبب مسترد کردی گئیں جبکہ 100ارب روپے کے قرضوں کی ادائیگی کے ہدف میں سے بمشکل 5فیصد قرضوں کی درخواستیں ہی منظور ہوسکی ہیں، اسکیم کے پیچیدہ طریقہ کار، سخت ترین شرائط کے سبب اسکیم سے فائدہ اٹھانے کے خواہش مند لاکھوں بے روزگار نوجوانوں میں مایوسی پائی جاتی ہے۔
حکومت کے تمام دعوؤں کے باوجود اسکیم میں خواتین کی شمولیت کا تناسب 13فیصد تک محدود ہے۔ بینکنگ سیکٹر کے باخبرذرائع نے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ وزیراعظم یوتھ بزنس لون اسکیم میں اب تک صرف 2 بینک نیشنل بینک اور فرسٹ ویمن بینک متحرک ہیں جبکہ حکومتی ہدایات کے باوجود دیگر بڑے اور نجی بینک اس اسکیم میں شمولیت سے گریز کررہے ہیں، 2بینکوں کے علاوہ دیگر بینکوں کی عدم شمولیت کے باعث اسکیم کے لیے پہلے مرحلے میں مقررہ 100 ارب روپے مالیت کے قرضوں کے اجرا کا ہدف پورا نہ ہوسکا جبکہ نیشنل بینک آف پاکستان میں قرضوں کے اجرا کے مقررہ معیار کی جانچ پڑتال سخت خودکارنظام کی وجہ سے اسکیم کے تحت مقررہ5 ارب روپے کے مقابلے میں صرف2 ارب75 کروڑ روپے مالیت کے قرضے جاری کیے گئے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ اسکیم کے تحت قرضوں کے حصول کے لیے نیشنل بینک کو مجموعی طور پر59ہزار 39 درخواستیں موصول ہوئیں لیکن درخواست کنندگان کے بینک کے خودکارنظام سے معیارپر پورا نہ اترنے کی رپورٹ، اسٹیٹ بینک کی منفی سی آئی بی رپورٹ اور ضمانتیوں کے عدم تعاون کے سبب 30 فیصد سے زائد درخواستیں مسترد کی گئیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم یوتھ بزنس لون اسکیم زرعی کاروبار سے منسلک دیہی علاقوں کے نوجوانوں کے لیے پرکشش اسکیم ثابت ہورہی ہے، اسکیم کے تحت قرضہ خواہوں میں شہری علاقوں کے نوجوانوں کا تناسب30 تا35 فیصد جبکہ دیہی علاقوں کا تناسب60 تا65 فیصد ریکارڈ کیا گیاہے، یوتھ بزنس اسکیم کے تحت قرضوں کا اجرا ایک یا ایک سے زائد ضمانتی یا پھر قرضے کی مالیت کے مساوی جائیدادکے دستاویزات جمع کرانے سے مشروط ہے لیکن ان شرائط کوپورا کرنے کی سکت نہ رکھنے والے کراچی سمیت ملک کے شہری علاقوں سے تعلق رکھنے والے بیروزگارنوجوانوں کی بڑی تعداد اسکیم سے استفادہ نہیں کر پا رہی۔
شعبہ بینکاری کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اسکیم کے تحت زراعت سے متعلقہ کاروبار اور چھوٹے ودرمیانے درجے کے کاروبار کے لیے 8 فیصد شرح سود پر ایک سال کے گریس پیریڈ کے ساتھ 8 سالہ مدت کے جاری ہونے والے ان قرضوں سے پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار میں4 فیصد کا اضافہ ممکن ہے کیونکہ مذکورہ دونوں شعبوں میں قرضوں کے ڈوبنے کی شرح انتہائی محدود ہے خصوصاً زرعی شعبے میں 5سرفہرست بینکوں کے غیرفعال قرضوں کی شرح12 فیصد جبکہ نیشنل بینک کی شرح صرف5 فیصد ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بینکنگ انڈسٹری کے لیے جاری وزیراعظم یوتھ بزنس اسکیم ماضی کے روزگار و یلوکیب اسکیم کے مقابلے میں زیادہ محفوظ ہے، یہی وجہ ہے کہ ضمانتی کے علاوہ جائیدادکی دستاویزات رہن رکھنے جیسے اقدامات کو اسکیم کا حصہ بنایا گیا ہے۔
تاکہ ماضی میں متعارف کردہ اسی نوعیت کی فنانشل اسکیموں کی طرح بینکوں کا اربوں روپے مالیت کا سرمایہ ڈوبنے سے بچ سکے، وزیراعظم یوتھ بزنس لون اسکیم کے تحت قرضہ حاصل کرنے والے درخواست کنندہ کواپنے کاروبار کے مجموعی سرمائے میں10 فیصد سرمایہ لگانا بھی لازم ہے جبکہ سمیڈا نے بھی اسکیم سے استفادے کے خواہشمند نوجوانوں کے لیے اپنی ویب سائٹ پر 50 سے زائد چھوٹے ودرمیانے درجے کے مختلف کاروبار سے متعلق فزیبلیٹی رپورٹس جاری کی ہوئی ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ وزیراعظم یوتھ بزنس لون اسکیم کے تحت نیشنل بینک کو سب سے زیادہ 44 ہزار 879 درخواستیں پنجاب سے موصول ہوئی ہیں جبکہ خیبرپختونخوا سے5 ہزار 392 ، اندرون سندھ سے4ہزار 201، کراچی سے947، بلوچستان سے1 ہزار 345 ، آزاد کشمیر سے938 ، اسلام آباد سے803 اور گلگت بلتستان سے534 درخواستیں موصول ہوئیں، پنجاب میں اسکیم کے تحت 6 ہزار331 خواتین اور38ہزار 548 مرد نوجوانوں نے درخواستیں جمع کرائیں۔
خیبرپختونخوا میں 657 خواتین اور4 ہزار 735 مرد نوجوانوں، اندرون سندھ میں404 خواتین اور3ہزار 797 مرد نوجوانوں، کراچی میں 150 خواتین اور797 مرد نوجوانوں، بلوچستان میں92 خواتین اور1ہزار 253 مرد نوجوانوں، اسلام آباد میں178 خواتین اور625 مردنوجوانوں، آزاد کشمیر میں109 خواتین اور829 مرد نوجوانوں جبکہ گلگت بلتستان میں20 خواتین اور514 مرد نوجوانوں نے درخواستیں جمع کرائیں، اس طرح سے اسکیم کے تحت قرضوں کے حصول کے لیے پنجاب 44.88 فیصد کی شرح کے ساتھ سرفہرست رہا ہے۔
مجموعی طور پرمرد نوجوان درخواست کنندگان کی تعداد 86.55 فیصد اور خواتین کا تناسب 13.45 فیصد رہا، اسکیم کے تحت قرضوں کے حصول کے خواہشمند 31 تا35 سالہ عمر کے نوجوانوں کی تعداد 21.79 فیصد جبکہ کم تعلیم کے حامل نوجوانوں کی تعداد37.27 فیصد رہی، اسکیم کے تحت نیشنل بینک کو ریجن وائز سب سے زیادہ درخواستیں بہاولپور سے موصول ہیں جن کی تعداد7ہزار 294 ہے جس کے بعد ڈیرہ غازی خان سے 6 ہزار 552 درخواستیں اور ملتان سے6 ہزار 448 درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔
اسکیم کے آغاز سے اب تک قرضوں کے حصول کے لیے جمع کرائی جانے والی 30فیصد سے زائد درخواستیں خودکار سسٹم کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہ ہونے کے سبب مسترد کردی گئیں جبکہ 100ارب روپے کے قرضوں کی ادائیگی کے ہدف میں سے بمشکل 5فیصد قرضوں کی درخواستیں ہی منظور ہوسکی ہیں، اسکیم کے پیچیدہ طریقہ کار، سخت ترین شرائط کے سبب اسکیم سے فائدہ اٹھانے کے خواہش مند لاکھوں بے روزگار نوجوانوں میں مایوسی پائی جاتی ہے۔
حکومت کے تمام دعوؤں کے باوجود اسکیم میں خواتین کی شمولیت کا تناسب 13فیصد تک محدود ہے۔ بینکنگ سیکٹر کے باخبرذرائع نے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ وزیراعظم یوتھ بزنس لون اسکیم میں اب تک صرف 2 بینک نیشنل بینک اور فرسٹ ویمن بینک متحرک ہیں جبکہ حکومتی ہدایات کے باوجود دیگر بڑے اور نجی بینک اس اسکیم میں شمولیت سے گریز کررہے ہیں، 2بینکوں کے علاوہ دیگر بینکوں کی عدم شمولیت کے باعث اسکیم کے لیے پہلے مرحلے میں مقررہ 100 ارب روپے مالیت کے قرضوں کے اجرا کا ہدف پورا نہ ہوسکا جبکہ نیشنل بینک آف پاکستان میں قرضوں کے اجرا کے مقررہ معیار کی جانچ پڑتال سخت خودکارنظام کی وجہ سے اسکیم کے تحت مقررہ5 ارب روپے کے مقابلے میں صرف2 ارب75 کروڑ روپے مالیت کے قرضے جاری کیے گئے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ اسکیم کے تحت قرضوں کے حصول کے لیے نیشنل بینک کو مجموعی طور پر59ہزار 39 درخواستیں موصول ہوئیں لیکن درخواست کنندگان کے بینک کے خودکارنظام سے معیارپر پورا نہ اترنے کی رپورٹ، اسٹیٹ بینک کی منفی سی آئی بی رپورٹ اور ضمانتیوں کے عدم تعاون کے سبب 30 فیصد سے زائد درخواستیں مسترد کی گئیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم یوتھ بزنس لون اسکیم زرعی کاروبار سے منسلک دیہی علاقوں کے نوجوانوں کے لیے پرکشش اسکیم ثابت ہورہی ہے، اسکیم کے تحت قرضہ خواہوں میں شہری علاقوں کے نوجوانوں کا تناسب30 تا35 فیصد جبکہ دیہی علاقوں کا تناسب60 تا65 فیصد ریکارڈ کیا گیاہے، یوتھ بزنس اسکیم کے تحت قرضوں کا اجرا ایک یا ایک سے زائد ضمانتی یا پھر قرضے کی مالیت کے مساوی جائیدادکے دستاویزات جمع کرانے سے مشروط ہے لیکن ان شرائط کوپورا کرنے کی سکت نہ رکھنے والے کراچی سمیت ملک کے شہری علاقوں سے تعلق رکھنے والے بیروزگارنوجوانوں کی بڑی تعداد اسکیم سے استفادہ نہیں کر پا رہی۔
شعبہ بینکاری کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اسکیم کے تحت زراعت سے متعلقہ کاروبار اور چھوٹے ودرمیانے درجے کے کاروبار کے لیے 8 فیصد شرح سود پر ایک سال کے گریس پیریڈ کے ساتھ 8 سالہ مدت کے جاری ہونے والے ان قرضوں سے پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار میں4 فیصد کا اضافہ ممکن ہے کیونکہ مذکورہ دونوں شعبوں میں قرضوں کے ڈوبنے کی شرح انتہائی محدود ہے خصوصاً زرعی شعبے میں 5سرفہرست بینکوں کے غیرفعال قرضوں کی شرح12 فیصد جبکہ نیشنل بینک کی شرح صرف5 فیصد ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بینکنگ انڈسٹری کے لیے جاری وزیراعظم یوتھ بزنس اسکیم ماضی کے روزگار و یلوکیب اسکیم کے مقابلے میں زیادہ محفوظ ہے، یہی وجہ ہے کہ ضمانتی کے علاوہ جائیدادکی دستاویزات رہن رکھنے جیسے اقدامات کو اسکیم کا حصہ بنایا گیا ہے۔
تاکہ ماضی میں متعارف کردہ اسی نوعیت کی فنانشل اسکیموں کی طرح بینکوں کا اربوں روپے مالیت کا سرمایہ ڈوبنے سے بچ سکے، وزیراعظم یوتھ بزنس لون اسکیم کے تحت قرضہ حاصل کرنے والے درخواست کنندہ کواپنے کاروبار کے مجموعی سرمائے میں10 فیصد سرمایہ لگانا بھی لازم ہے جبکہ سمیڈا نے بھی اسکیم سے استفادے کے خواہشمند نوجوانوں کے لیے اپنی ویب سائٹ پر 50 سے زائد چھوٹے ودرمیانے درجے کے مختلف کاروبار سے متعلق فزیبلیٹی رپورٹس جاری کی ہوئی ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ وزیراعظم یوتھ بزنس لون اسکیم کے تحت نیشنل بینک کو سب سے زیادہ 44 ہزار 879 درخواستیں پنجاب سے موصول ہوئی ہیں جبکہ خیبرپختونخوا سے5 ہزار 392 ، اندرون سندھ سے4ہزار 201، کراچی سے947، بلوچستان سے1 ہزار 345 ، آزاد کشمیر سے938 ، اسلام آباد سے803 اور گلگت بلتستان سے534 درخواستیں موصول ہوئیں، پنجاب میں اسکیم کے تحت 6 ہزار331 خواتین اور38ہزار 548 مرد نوجوانوں نے درخواستیں جمع کرائیں۔
خیبرپختونخوا میں 657 خواتین اور4 ہزار 735 مرد نوجوانوں، اندرون سندھ میں404 خواتین اور3ہزار 797 مرد نوجوانوں، کراچی میں 150 خواتین اور797 مرد نوجوانوں، بلوچستان میں92 خواتین اور1ہزار 253 مرد نوجوانوں، اسلام آباد میں178 خواتین اور625 مردنوجوانوں، آزاد کشمیر میں109 خواتین اور829 مرد نوجوانوں جبکہ گلگت بلتستان میں20 خواتین اور514 مرد نوجوانوں نے درخواستیں جمع کرائیں، اس طرح سے اسکیم کے تحت قرضوں کے حصول کے لیے پنجاب 44.88 فیصد کی شرح کے ساتھ سرفہرست رہا ہے۔
مجموعی طور پرمرد نوجوان درخواست کنندگان کی تعداد 86.55 فیصد اور خواتین کا تناسب 13.45 فیصد رہا، اسکیم کے تحت قرضوں کے حصول کے خواہشمند 31 تا35 سالہ عمر کے نوجوانوں کی تعداد 21.79 فیصد جبکہ کم تعلیم کے حامل نوجوانوں کی تعداد37.27 فیصد رہی، اسکیم کے تحت نیشنل بینک کو ریجن وائز سب سے زیادہ درخواستیں بہاولپور سے موصول ہیں جن کی تعداد7ہزار 294 ہے جس کے بعد ڈیرہ غازی خان سے 6 ہزار 552 درخواستیں اور ملتان سے6 ہزار 448 درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔