بات کچھ اِدھر اُدھر کی پاکستان کو اب ایبولا کا بھی خطرہ

ایبولا کےحوالے سےعوام میں آگہی کی اشدضرورت ہےجس کی ذمہ داری جلسوں کی کوریج میں ہمہ وقت مصروف میڈیا پربھی عائد ہوتی ہے۔


جاہد احمد October 17, 2014
ابھی پاکستان پولیو کو قابو کرنے میں ناکامی کا منہ دیکھ رہا ہے تو ایبولا کا خطرہ بھی منڈلانے لگا ہے۔ مجھے پوری اُمید ہے کہ اگر سنجیدگی دکھائی جائے تو ہم اِس کا مقابلہ کرسکتے ہین مگر شرط صرف ایک ہے اور وہ ہے اتحاد۔ فوٹو: فائل

لاہور: حال ہی میں عالمی ادارہ صحت نے پاکستان میں ایبولا وائرس کے پھیلاؤ بارے انتباہ جاری کرتے ہوئے پاکستان کو اس مہلک وائرس کے خلاف موئثر حفاظتی اقدامات اٹھانے کی بھرپور تاکید کی ہے۔

ایبولا وائرس فی الوقت پوری شدت سے مغربی افریقہ کے تین ممالک سیریالون، گینی اور لائیبیریا میں وبا کی صورت اختیار کر چکا ہے جبکہ اس وائرس سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد ساڑھے چار ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ اس جان لیوا وائرس سے متاثر افراد میں موت کی شرح نوے فیصد تک ہوتی ہے اور بدنصیب مریض ایبولا کی علامات ظاہر ہونے کے چھ سے سولہ دن کے اندر اندر ختم ہو جاتا ہے۔

اس وائرس کا شکار ہوئے مریض میں علامات وائرس سے متاثر ہونے کے دو دن سے تین ہفتے بعد ظاہر ہونا شروع ہوتی ہیں۔علامات میں تیز بخار، گلے کی خرابی،پٹھوں اور سر میں درد، قے، اسہال، جگر اور گردوں کی کارکردگی کا متاثر ہونااور بعد ازاں جسم کے اندرونی و بیرونی حصوں سے خون کا بہنا شامل ہیں۔ ایبولا جسم کے مدافعتی نظام کو چکما دینے کی صلاحیت رکھنے والا ایسا وائرس ہے جو انسانی جسم کے مدافعتی نظام میں موجود انٹرفیرون نامی پیغام رسانی کے نظام کو یرغمال بنا کر اسے مدافعتی نظام کو اپنی موجودگی کے بارے میں اطلاع دینے سے روکے رکھتا ہے۔ دریں اثناء یہ وائرس خون میں شامل ہو کر جسم کے مختلف حصوں کے خلیات کو تباہ کرکے اپنی تعداد اور قوت میں اضافہ کرتا چلا جاتا ہے۔جسم کے مدافعتی نظام کو بالآخر جس وقت اس وائرس کی جسم میں موجودگی کی اطلاع پہنچتی ہے یہ وائرس اپنا کام کر چکا ہوتا ہے۔ ایسے موقع پر مدافعتی نظام' ٹربو موڈ' میں خون میں کثرت سے پھیل چکے ایبولا وائرس کے خلاف حرکت میں آتے ہوئے اسے پوری قوت سے ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وائرس کی موجودگی اور اثرات کے باعث کمزور پڑ چکی خون کی شریانوں کو پھاڑنے کا سبب بن جاتا ہے ۔ یہ صورتحال مریض کی موت پر منتج ہوتی ہے۔

مغربی افریقہ میں ایبولا وائرس کے پھیلاؤ کی یوں تو کئی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن بظاہربڑی وجہ فروٹ بیٹ نامی نسل کی ایک چمگادڑ معلوم ہوتی ہے۔ یہ چمگادڑ ایبولا وائرس کے لئے گھر کا کام کرتی ہے اور اپنے جسم میں اس وائرس کا ذخیرہ رکھنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ مغربی افریقہ کے ممالک میں اس چمگادڑ کا شکار کر کے اسے شوق سے کھایا بھی جاتا ہے اور سوپ بنا کر بھی پیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر وجوہات میں اس چمگادڑ کے منہ لگے پھل زمین سے اٹھا کر کھانے والے جانور بھی اس وائرس کا شکار ہو سکتے ہیں اور متاثرہ جانور سے یہ وائرس انسان میں منتقلی کا باعث بھی بنتا ہے۔ ایبولا زندہ یا مردہ چمگادڑوں، گوریلوں، جانوروں اور انسانوں سے انسانوں میں منتقل ہوتا ہے۔ ایک دفعہ یہ وائرس انسان میں منتقل ہو جائے تو افریقہ جیسے خطہ میں جہاں صحت کی نا کافی سہولیات ہیں اس وائرس کا وبا کی شکل اختیار کرنا آسان بات ہے۔

کیونکہ اس بیماری کے خلاف اب تک کوئی ویکسینیشن میسر نہیں اور نہ ہی اس وائرس کو جسم سے ختم کرنے کے لئے کوئی دوا موجود ہے توایبولا کے خلاف لڑنے کا واحد طریقہ متاثرہ شخص کی قوتِ مدافعت کو قائم رکھنا ہے۔ متاثرہ شخص کی دیکھ بھال اور قوت مدافعت کو قائم رکھنے کے لئے صحت کی جدید سہولیات، تجربہ کار طبی معاون، ساز و سامان اور ڈاکٹروں کی ضرورت ہے جو بلاشبہ مہنگا کام ہے۔ دوسری جانب ایبولا کو پھیلنے سے روکنے کا طریقہ محض احتیاطی تدابیر ہیں جس میں افریقہ سے باہر جانے والے افردا کی روانگی سے قبل ایبولا کے حوالے سے طبی جانچ پڑتال کو لازمی قرار دیا جانا شامل ہے۔ اس کے علاوہ مغربی ممالک نے اپنے ہوائی اڈوں پر ایبولا کاؤنٹرز تشکیل دیے ہیں جہاں افریقہ سے آنے والے افراد کی طبی جانچ پڑتال کے علاوہ دیگر مسافروں پر بھی نظر رکھی جارہی ہے۔

حالانکہ پاکستان میں فی الوقت ایبولا کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا لیکن عالمی ادارہ صحت کے انتباہ کو اس لئے انتہائی سنجیدگی سے لینا چاہیے کہ پاکستان ، افغانستان اور نائجیریا دنیا کے وہ آخری تین ممالک ہیں جو اپنے ملک سے پولیو کو ختم کرنے میں ناکام رہے ہیں ۔ پاکستان میں اس سال اب تک سامنے آئے پولیو کے کیسزکی تعداد پچھلے سال سامنے آئے کل 93 کیسز سے بڑھ چکی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے باعث بے گھر ہوئے آئی ڈی پیز، مذہبی افکار، ہیلتھ ورکرز کی ٹارگٹ کلنگ، ملک میں پھیلی سیاسی بے چینی اور نظام گراؤ نظام بچاؤ کے اس ماحول نے پولیو پر قابو پانے کی مہم کو مشکلات سے دو چار کیا ہے ۔

ایسے ماحول میں اگر پاکستان پولیو کو قابو کرنے میں ناکامی کا منہ دیکھ رہا ہے تو کسی غلط فہمی میں رہے بغیر یہ سمجھنا ازحد ضروری ہے کہ ایبولا کے حوالے سے پاکستان میں صحت کی سہولیات اس قدر نہیں کہ اس وائرس کی آمد کی صورت میں اسے پھیلنے سے روکا جا سکے۔ دیگر مسائل اپنی جگہ مگرسونے پہ سہاگا پاکستان کا افغانستان سے 2600 کلومیٹر طویل کھلا پڑا بارڈر ہے جہاں دونوں اطراف سے ملکی ، افغانی اور تمام اقسام کے غیر ملکی افراد کی نقل و حرکت پر خاص پابندی نہیں۔

یہ صورتحال پاکستان میں ایبولا کے درآمد ہوآنے کے حوالے سے خطرے کی گھنٹی بجاتی ہے۔کم از کم یہ بات خوش آئند ہے کہ ایبولا کے انتباہ کے فوراً بعد حکومت نے ہوائی اڈوں پر پاکستان میں داخل ہونے والے افراد کے حوالے سے ضروری حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کے فوری اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ لیکن پاک افغان بارڈر کے حوالے سے دونوں حکومتوں کو ایبولا کے خلاف حکمتِ عملی کے لئے شدید تعاون کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی عوام میں اس وائرس کی آگہی بارے زیادہ سے زیادہ شعور پیدا کرنا بھی حد درجہ اہم ہے جس کی ذمہ داری دھرنوں اور جلسوں کی کوریج میں ہمہ وقت مصروف میڈیا پر عائد ہوتی ہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں