پاکستان ایک نظر میں جلسے جلوس جمہوریت کا حُسن یا پھر ۔۔۔۔

جلسہ کرنے والی جماعتوں کے قائد کو اس بات سے ہرگز غرض نہیں ہوتی کہ متعلقین کو کس قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔


محمد عمیر دبیر October 17, 2014
جلسہ کرنے والی جماعتوں کے قائد کو اس بات سے ہرگز غرض نہیں ہوتی کہ متعلقین کو کس قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ فوٹو اے ایف پی

پاکستان میں جلسے جلوسوں کا موسم زور شور سے جاری ہے۔ ہر جلسہ جلوس کرنے والی پارٹی بارہا اپنی تقریر میں یہ باور کروانے کی کوشش کرتی ہے کہ یہ جلسے جلوس جمہوریت کا حسن ہے اور یہ خالصتاً عوامی مفادات اور حقوق کے حصول کے لئے نکالے گئے ہیں۔ 2014 میں ان دھرنوں ، جلسے جلسووں کی صورت تبدیل ہوگئی ہے ۔ پہلے گزشتہ ادوار میں اگرایک روڈ پر جلسہ ہوتا تو دوسرا روڈ عوام کے لئے کھلا ہوتا تھا ۔ لیکن اب کوئی بھی سیاسی مذہبی جماعت جلسہ گاہ کا تعین بعد میں کرتی ہے پہلے کنٹینر اور سیکیورٹی کے نام پر روڈ اورگلیوں کو بندکر دیا جاتا ہے ، جس سے متعلقہ لوگ ذہنی اذیت میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔

پاکستان کی تمام تر سیاسی جماعتیں چاہیے انکی نمائندگی صرف خیبرپختونخوا میں ہو یا سندھ کے دہی علاقوں میں سب کو پاکستا ن کی معاشی رگ شہر قائد میں کامیاب جلسہ کرنے کی خواہش برسوں سے رہی ہے اور کچھ جلسے کافی حد تک کامیاب بھی رہے ہیں ۔ ۔ شہر قائد میں اس وقت آباد ی کا تناسب 2کروڑ سے تجاوز کر گیا ہے اور یہاں کے باسی ماسوائے چند ایک جلسوں کے تمام ہی جلسے مسترد کرتے آئے ہیں ۔

مذہبی جماعتیں ہو ں یا سیاسی پارٹیز سب اپنے جلسوں کے لئے سیکوریٹی کے نام پر تقریبا ایک جیسے ہی انتظامات کرتی ہیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ تمام مذہبی و سیاسی جماعتیں عوام کے حقوق کی آواز بلند کرنے کے لئے جلسے منعقد کرتی ہیں تو متعلقہ رہائشیوں کے روز مرہ کے کام کاج کی مشکلات کا ذمہ دار کون ہے۔جمہوریت و مذہب کے نام پر جلسہ کرنے والی جماعتوں کے قائد کو اس بات سے ہرگز غرض نہیں ہوتی کہ متعلقین کو کس قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ماضی اور مستقبل میں ہونے والے جلسے جلوس بھی شہریوں کے لئے وبا ل و عذاب جان ہیں ۔ کل 18 اکتوبر کو دہی سندھ کی جماعت نے باغ جناح میں سیاسی اکھاڑا لگانے کا اعلان کیا ہے ۔ اس اکھاڑے کو لگنے سے ایک ہفتے پہلے سے ہی باغ جناح آباد ہو گیا ۔ بلدیاتی اداروں کی وہ گاڑیاں جو ڈیزل نہ ہونے کی وجہ سے شہر میں صفائی ستھرائی اور عوام کا کام نہیں کر سکتی وہ تمام گاڑیا ں یہاں اپنی خدمات سرانجام دے رہی ہیں ۔ بلدیاتی اداروں کے افسران ، چپڑاسی ، اور بھنگی اور تمام ہی بلدیاتی ادارے دل کھو ل کر کام کر رہے ہیں ۔دوسری طرف شہر میں پانی کی قلت ہے تو یہاں ٹینکر مافیا کے واٹر ٹینکوں کی بڑی تعداد مٹی پر چھڑکاؤ میں مصروف ہیں ۔ شہر کے ہر سائن اور بل بورڈ پر تصاویر آویزاں ہیں تو کہیں سیکورٹی کے نام پر سٹرکیں بند ۔ جلسے کے راستے میں آنے والی تمام دکانیں مارکٹیں تین دن کے لئے سیل کر دی گئی اور بند نہ کرنے نامعلوم افراد سنگین نتائج کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔

ابھی یہ باتیں دماغ میں چل رہی تھی کہ ایک دم فون کی گھنٹی بجی دوسری طرف وسیم کی روتی آواز سنائی دی ۔ میں نے خیریت دریافت کی تو کہنے لگا ابو کا انتقال ہوگیا تفصیلات معلوم کرنے پر پتا چلا کہ رضی انکل کھانا کھا کر لیٹے تو سانس کی تکلیف محسوس ہوئی ۔ ایک اولٹی کے بعد جب ہم اسپتال لے جانے کے لئے نکلے تو تمام گلیاں سیکورٹی کے باعث بند تھی ۔ میں نے نیچے اتر کر ڈیوٹی پر مامور پولیس والوں کے سامنے ابو کی زندگی کی بھیک مانگی لیکن انہوں نے کہا کہ چھوٹے سائیں آئے ہوئے ہیں، باہر جانے کی اجازت نہیں ۔ بس کبھی اس گلی کبھی اُس گلی نکلنے کی کوشش میں ابو کی جان نکل گئی ۔ ظالموں نے ہمیں جانے نہیں دیا۔ مزید تفصیلات پر پتا چلا کہ جلسہ گاہ سے ملحقہ آبادیوں میں جلسے سے تین دن قبل گھروں پر یہ کہہ دیا گیا تھا کہ مہمانوں کے آنے پر پابندی ہوگی اور آپ لوگ بھی اپنی روز مرہ کی روٹین کو مختصر رکھیں گے ۔

انسانی جان کا ضیاع ہوگیا لیکن جلسہ کرنے والوں پر کوئی اثر نہیں پڑھا۔ وسیم ابو کی میت گھر میں رکھی تھی اور جلسہ گاہ میں تیز آواز میں گانے چل رہے تھے ۔ علی الصباح صرف اس وجہ سے تدفین کی گئی کہ جنازے کو باہر جانے دیا جائے ۔ عوام اپنا درد کس کو بتاتے ۔ کن اعلی حکاموں سے اپیل کریں۔

آخر میں تمام قارئین سے گزارش ہے کہ اس سانحہ کو اعلی حکام تک پہنچائیں ۔ رب سے دعا کریں کہ ہمیں صیح معنوں میں عوامی سطح کے حکمران نصیب فرما اور ساتھ ساتھ یہ بھی دعا کریں کہ اللہ ہمارے اعمال اچھے کروادے تاکہ ہمارے حکمران اچھے ہوں ۔ سب سے آخر میں ساغر صدیقی صاحب کا ایک شعر جو انہو ں نے ضیاء الحق کو لکھ کے دیا ۔ حکمران بھی اس پر غور کریں۔
جس دو ر میں لٹ جائے غریبوں کی کمائی
اس عہد کے سلطان سے کوئی بھول ہوئی ہے

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں