تنازعہ کشمیر اور عالمی برادری
مسئلہ کشمیر باہمی بات چیت کے ذریعے حل نہیں ہو سکتا کیونکہ بھارت دو طرفہ تعلقات پر سنجیدہ نہیں۔
کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر جاری بھارتی جارحیت اور مودی سرکار کی ہٹ دھرمی پر مبنی رویے کے کھل کر سامنے آنے کے بعد پاکستان نے عالمی برادری کو دعوت دی ہے کہ وہ دونوں ممالک کے درمیان موجود باہمی تنازعات کے حل کے لیے اپنا موثر کردار ادا کرے۔ بھارتی حکومت کے جارحانہ اور غیر ذمے دارانہ رویے سے مکمل مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی و امور خارجہ سرتاج عزیز نے موقف اختیار کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تمام تر متنازع معاملات کے حل کے لیے دو طرفہ بات چیت کا ''میکنزم'' کامیاب نہیں ہو سکا' اب بال عالمی برادری کے کورٹ میں ہے کہ دونوں ممالک کے مابین تنازعات کو حل کرائے۔
جمعرات کو قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی خارجہ امور کے اجلاس کو بریفنگ کے دوران سرتاج عزیز نے کمیٹی اراکین کو لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر سیز فائر کی بھارتی خلاف ورزیوں کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ عالمی برادری نے پاکستان اور بھارت کو یہ موقع دیا کہ وہ دو طرفہ بات چیت کے میکنزم کے ذریعے اپنے تنازعات کو حل کریں تاہم ہم نے دنیا کو واضح طور پر بتا دیا ہے کہ دو طرفہ مذاکرات کا عمل یہ ہدف حاصل نہیں کر سکا۔ پاکستان نے ہمیشہ بھارت کے ساتھ باہمی تنازعات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا ہے۔ اب پہلی بار پاکستان کا بھارتی رویے کے باعث مایوسانہ ردعمل سامنے آیا ہے جس میں اس نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر باہمی بات چیت کے ذریعے حل نہیں ہو سکتا کیونکہ بھارت دو طرفہ تعلقات پر سنجیدہ نہیں۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کا تنازع پیدا ہونے کے بعد بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لعل یہ مسئلہ خود اقوام متحدہ لے کر گئے تھے اور اقوام متحدہ نے قرارداد منظور کی تھی کہ کشمیر کا مسئلہ استصواب رائے سے طے کیا جائے۔ پنڈت جواہر لعل نہرو بڑی مہارت سے ٹال مٹول سے کام لیتے رہے اور اس مسئلے کو حل نہیں کیا بعدازاں بھارت نے یہ مسئلہ جنگ کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی مگر اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ بعدازاں جولائی 1972 میں دونوں ممالک کے درمیان شملہ معاہدہ ہوا جس میں طے پایا کہ وہ باہمی تنازعات بات چیت کے ذریعے حل کریں گے۔
اس کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی بار مذاکرات کے دور ہوئے مگر 42 سال سے زائد عرصہ گزر گیا ان مذاکرات کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ نریندر مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد بھارت نے پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے کے بجائے جارحانہ رویہ اپناتے ہوئے کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر اشتعال انگیزی کا سلسلہ شروع کر دیا۔ مودی سرکار کا یہ خیال ہے کہ چونکہ اس وقت پاکستانی افواج شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی میں مصروف ہے اس لیے پاکستان پر دباؤ بڑھانے اور اپنی من مانی شرائط تسلیم کرانے کا یہ بہترین موقع ہے۔ بھارتی حکومت نے ایک جانب پاکستان کے خلاف فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ شروع کیا تو دوسری جانب دہشت گردی کو آڑ بناتے ہوئے پاکستان کے خلاف الزامات پر مبنی پروپیگنڈا مہم شروع کر دی۔
بھارتی میڈیا نے مودی سرکار کے اس منافقانہ اور سازش پر مبنی کردار کو طشت ازبام کرتے ہوئے بتا دیا کہ پاکستان کے خلاف فائرنگ اور گولہ باری کا حکم خود مودی سرکار نے دیا تھا۔ ورکنگ باؤنڈری پر بھارتی فائرنگ اور گولہ باری سے متعدد افراد ہلاک اور ہزاروں بے گھر ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین نے ایل او سی اور ورکنگ باؤنڈری کے دورے کے موقع پر بھارتی جارحیت کا خود مشاہدہ کیا لیکن بھارت نے اپنے علاقے میں ان مبصرین کو آنے کی اجازت نہیں دی جس سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ فائرنگ کا سلسلہ بھارت نے شروع کیا جب کہ پاکستان نے ردعمل کے طور پر فائرنگ کر کے بھارتی توپوں کو خاموش ہونے پر مجبور کیا۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین اویس لغاری نے واضح کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی گزشتہ دنوں امریکی صدر بارک اوباما سے ملاقات میں دہشت گردی کے خلاف مل کر سرجیکل اسٹرائیکس کی بات ہوئی تھی' لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر حالیہ حملے اسی کا نتیجہ ہو سکتے ہیں۔
سرتاج عزیز نے یہ واضح کر دیا ہے کہ ہماری مسلح افواج کسی بھی بیرونی جارحیت کا بھرپور جواب دینے کے لیے پوری طرح سے تیار ہیں' بھارت کسی بھی مہم جوئی یا پاکستان کے اندر ''سرجیکل اسٹرائیکس'' کا متحمل نہیں ہو سکتا، انھوں نے کہا کہ ہم نے پاک افواج کو حکم دیا ہے کہ وہ کسی بھی بھارتی جارحیت کا بھرپور جواب دیں۔ پاکستان نے بھارت کو واضح طور پر بتا دیا ہے کہ کشمیریوں کی شمولیت کے بغیر کوئی بات چیت نہیں ہو سکتی اور بھارت کے ساتھ کسی بھی ڈائیلاگ سے پہلے کشمیری قیادت کو اعتماد میں لینا ضروری ہے۔
مودی سرکار مسئلہ کشمیر پر بات چیت کے لیے آمادہ ہی دکھائی نہیں دیتی، وہ یہ گھناؤنا منصوبہ بنا رہی ہے کہ کشمیر کو بھارت کا مستقل حصہ ہی قرار دے دیا جائے۔ بھارت کے یہ مکروہ عزائم منظر عام پر آنے کے بعد پاکستان یہ محسوس کرنے پر مجبور ہو گیا کہ وہ بھارت پر دباؤ بڑھانے کے لیے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے عالمی برادری سے مدد لے۔ اب اقوام متحدہ اور عالمی برادری پر یہ بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس مسئلے کے حل کے لیے اپنا ٹھوس کردار ادا کرے۔
جمعرات کو قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی خارجہ امور کے اجلاس کو بریفنگ کے دوران سرتاج عزیز نے کمیٹی اراکین کو لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر سیز فائر کی بھارتی خلاف ورزیوں کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ عالمی برادری نے پاکستان اور بھارت کو یہ موقع دیا کہ وہ دو طرفہ بات چیت کے میکنزم کے ذریعے اپنے تنازعات کو حل کریں تاہم ہم نے دنیا کو واضح طور پر بتا دیا ہے کہ دو طرفہ مذاکرات کا عمل یہ ہدف حاصل نہیں کر سکا۔ پاکستان نے ہمیشہ بھارت کے ساتھ باہمی تنازعات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا ہے۔ اب پہلی بار پاکستان کا بھارتی رویے کے باعث مایوسانہ ردعمل سامنے آیا ہے جس میں اس نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر باہمی بات چیت کے ذریعے حل نہیں ہو سکتا کیونکہ بھارت دو طرفہ تعلقات پر سنجیدہ نہیں۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کا تنازع پیدا ہونے کے بعد بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لعل یہ مسئلہ خود اقوام متحدہ لے کر گئے تھے اور اقوام متحدہ نے قرارداد منظور کی تھی کہ کشمیر کا مسئلہ استصواب رائے سے طے کیا جائے۔ پنڈت جواہر لعل نہرو بڑی مہارت سے ٹال مٹول سے کام لیتے رہے اور اس مسئلے کو حل نہیں کیا بعدازاں بھارت نے یہ مسئلہ جنگ کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی مگر اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ بعدازاں جولائی 1972 میں دونوں ممالک کے درمیان شملہ معاہدہ ہوا جس میں طے پایا کہ وہ باہمی تنازعات بات چیت کے ذریعے حل کریں گے۔
اس کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی بار مذاکرات کے دور ہوئے مگر 42 سال سے زائد عرصہ گزر گیا ان مذاکرات کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ نریندر مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد بھارت نے پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے کے بجائے جارحانہ رویہ اپناتے ہوئے کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر اشتعال انگیزی کا سلسلہ شروع کر دیا۔ مودی سرکار کا یہ خیال ہے کہ چونکہ اس وقت پاکستانی افواج شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی میں مصروف ہے اس لیے پاکستان پر دباؤ بڑھانے اور اپنی من مانی شرائط تسلیم کرانے کا یہ بہترین موقع ہے۔ بھارتی حکومت نے ایک جانب پاکستان کے خلاف فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ شروع کیا تو دوسری جانب دہشت گردی کو آڑ بناتے ہوئے پاکستان کے خلاف الزامات پر مبنی پروپیگنڈا مہم شروع کر دی۔
بھارتی میڈیا نے مودی سرکار کے اس منافقانہ اور سازش پر مبنی کردار کو طشت ازبام کرتے ہوئے بتا دیا کہ پاکستان کے خلاف فائرنگ اور گولہ باری کا حکم خود مودی سرکار نے دیا تھا۔ ورکنگ باؤنڈری پر بھارتی فائرنگ اور گولہ باری سے متعدد افراد ہلاک اور ہزاروں بے گھر ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین نے ایل او سی اور ورکنگ باؤنڈری کے دورے کے موقع پر بھارتی جارحیت کا خود مشاہدہ کیا لیکن بھارت نے اپنے علاقے میں ان مبصرین کو آنے کی اجازت نہیں دی جس سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ فائرنگ کا سلسلہ بھارت نے شروع کیا جب کہ پاکستان نے ردعمل کے طور پر فائرنگ کر کے بھارتی توپوں کو خاموش ہونے پر مجبور کیا۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین اویس لغاری نے واضح کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی گزشتہ دنوں امریکی صدر بارک اوباما سے ملاقات میں دہشت گردی کے خلاف مل کر سرجیکل اسٹرائیکس کی بات ہوئی تھی' لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر حالیہ حملے اسی کا نتیجہ ہو سکتے ہیں۔
سرتاج عزیز نے یہ واضح کر دیا ہے کہ ہماری مسلح افواج کسی بھی بیرونی جارحیت کا بھرپور جواب دینے کے لیے پوری طرح سے تیار ہیں' بھارت کسی بھی مہم جوئی یا پاکستان کے اندر ''سرجیکل اسٹرائیکس'' کا متحمل نہیں ہو سکتا، انھوں نے کہا کہ ہم نے پاک افواج کو حکم دیا ہے کہ وہ کسی بھی بھارتی جارحیت کا بھرپور جواب دیں۔ پاکستان نے بھارت کو واضح طور پر بتا دیا ہے کہ کشمیریوں کی شمولیت کے بغیر کوئی بات چیت نہیں ہو سکتی اور بھارت کے ساتھ کسی بھی ڈائیلاگ سے پہلے کشمیری قیادت کو اعتماد میں لینا ضروری ہے۔
مودی سرکار مسئلہ کشمیر پر بات چیت کے لیے آمادہ ہی دکھائی نہیں دیتی، وہ یہ گھناؤنا منصوبہ بنا رہی ہے کہ کشمیر کو بھارت کا مستقل حصہ ہی قرار دے دیا جائے۔ بھارت کے یہ مکروہ عزائم منظر عام پر آنے کے بعد پاکستان یہ محسوس کرنے پر مجبور ہو گیا کہ وہ بھارت پر دباؤ بڑھانے کے لیے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے عالمی برادری سے مدد لے۔ اب اقوام متحدہ اور عالمی برادری پر یہ بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس مسئلے کے حل کے لیے اپنا ٹھوس کردار ادا کرے۔