حلقہ 149 لمحۂ فکریہ
ایک باغی ہے دوسرا بھی باغی ہے اوراگر ایک داغی ہےتو دوسرا کون سا صاف ہے۔لہذا اصل معاملہ ان ووٹروں کےمسائل کو حل کرناہے۔
www.facebook.com/syedtalathussain.official
twitter.com/talathussain12
KARACHI:
ملتان کے ضمنی انتخابات میں عقل اور فکر رکھنے والے تمام حلقوں کے لیے بہت سے اشارے اور مستقبل میں اپنی سیاست میں بہتری پیدا کرنے کے مواقع موجود ہیں۔ مگر اس کے لیے اس ضمنی انتخاب کا ہوش و حواس قائم رکھ کر جائزہ لینا ضروری ہے۔ جاوید ہاشمی نے یہ حلقہ ہار کر ایک مرتبہ پھر ان سیاستدانوں کے لیے لمحہ فکریہ پیدا کر دیا ہے جو کسی بھی وجہ سے اپنے علاقے کے لوگوں سے دور ہو جاتے ہیں۔
ہاشمی صاحب 2013ء کے انتخاب کے بعد اس ریت کے تحت چل رہے تھے کہ شاید ان کی قبولیت کے لیے نام ہی کافی ہے۔ کئی دوسرے بڑے سیاستدانوں کی طرح دو تین یا چار، پانچ مختلف مقامات پر منتخب ہونے کی کوشش شاید سیاسی مقام بڑھانے کے لیے وقتی طور پر تو اچھی معلوم ہو مگر یہ عمل ان تمام حلقوں میں بسنے والوں کے حقوق کی خلاف ورزی بھی ہے اور ان کے ووٹ کی تضحیک بھی۔ قومی معیار پر سیاسی بڑا پن حلقوں کی سیاست میں چھوٹا پن متصور ہوتا ہے۔
ہاں آبائی حلقے میں دوسرے علاقوں کی نسبت اتنی آسانی ضرور آ جاتی ہے کہ روایتی جان پہچان کے علاوہ اپنی غیر حاضری کے باوجود کوئی نمایندہ اپنے کارندے کے ذریعے یہاں کے مکینوں کے مسائل کو اپنی غیر موجودگی کے باوجود کسی حد تک حل کر سکے۔ اس طرح وہ اپنی غیر حاضری کو کچھ عرصے کے لیے محسوس نہیں ہونے دیتا۔ مگر آج کل کے دور میں عوام کے عذاب کچھ اتنے شدید ہیں کہ اب ان کو اپنا نمایندہ 1122 کی سہولت کی طرح ہر وقت ٹیلی فون کے دوسرے سرے پر اپنے حلقے میں موجود چاہیے۔ اور جو یہ کام کرنے سے قاصر ہیں وہ میڈیا میں بے شک۔ 12 فٹ کا ہو اپنے حلقے میں اس پہاڑ کی مانند ہے جو نظر سے ہٹتے ہی ذہن سے بھی اوجھل ہو جاتا ہے۔
عامر ڈوگر اپنی تمام تر طاقت اور وسائل کے ساتھ تھانہ کچہری اس وقت کر رہے تھے جب جاوید ہاشمی باغی ہونے کے ہار پہن کر عمران خان کے برابر میں کنٹینر پر کیمروں کی چمک دمک سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ سیاست دان بڑا ہو یا چھوٹا اگر حلقے میں کام نہیں کرے گا تو حلقہ اسے قبول نہیں کرے گا۔
عامر ڈوگر نے این اے 149 میں نو ہزار کچھ ووٹوں سے قومی طور پر نام کمایا ہے مگر اب ان کے سامنے بھی یہی معاملہ کھڑا ہے جس کو نظر انداز کرنے کی سزا جاوید ہاشمی کو ملی۔ عامر ڈوگر یہاں سے منتخب ہونے کے بعد اب ایسا کیا کام کریں گے کہ ان کے ساتھ نتھی دھڑوں کی امیدیں پوری ہوں۔ اگر وہ عقل مند ہیں تو ان کو ابھی سے اس سوال کے جواب کی تلاش شروع کر دینا چاہیے۔ انتخاب میں ان کی جیت اخلاقی جیت نہیں ہے اور نہ ہی وہ کسی نئی سیاست کی ایسی میز پر بیٹھے ہیں جو فرشتوں نے اپنے ہاتھوں سے بنائی ہو۔ مقامی طور پر ان کی خاص شہرت ہے جو کسی سے بھی چھپی نہیں ہے۔
ان کا ڈانگ سوٹا تگڑا ہے۔ جاوید ہاشمی کی طرح روایتی جماعت کو چھوڑ کر پیپلز پارٹی کے بدترین مخالف یعنی پاکستان تحریک انصاف کی مدد سے انھوں نے یہ انتخاب جیتا۔ وہ بھی پارٹی سے بھاگ کر میدان میں آئے جاوید ہاشمی بھی پارٹی چھوڑ کر آئے اگر ایک باغی ہے دوسرا بھی باغی ہے اور اگر ایک داغی ہے تو دوسرا کون سا صاف ہے۔ لہذا اصل معاملہ ان ووٹروں کے مسائل کو حل کر نا ہے۔
جو ان کی جیت پر بھنگڑے ڈال کر بے حال ہو رہے ہیں۔ اور جن میں سے چند ایک اس انتخاب کو تاریخی قرار دے رہے ہیں (ایک تو ہمارے ملک میں سب کچھ فوراً تاریخی بن جاتا ہے نہ جانے تصور کی زرخیزی ہے یا محض بے وقوفی) اگر عامر ڈوگر کسی ایسی جماعت کے پلیٹ فارم سے کھڑے ہوتے جو اپنے تمام تر اعتراضات کے باوجود رائج طریقہ کار کے تحت اپنے سیاسی اہداف کے لیے آئین اور پارلیمان کے اندر رہتے ہوئے حکومت کے ساتھ ٹکر لے رہی ہوتی تو شاید ڈوگر صاحب خود کو اپنے حلقے کے عوام کے لیے جاوید ہاشمی سے زیادہ موثر نمایندہ ثابت کر پاتے۔
حلف لینے کے بعد ان کا فنڈز تک حصول بھی آسان ہو جاتا جس سے مختلف گلیوں اور سڑکوں پر ترقیاتی اسکیموں کی تختیاں لگتی ہیں اور ممبر قومی اسمبلی کا ٹھپہ گاڑی پر سجا کر منتخب نمایندہ اپنے حلقے میں اتراتے ہوئے آگے پیچھے گھومتا ہے۔ مگر عامر ڈوگر کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کو سیاسی طور پر جتوانے والی جماعت ان کی جیت پر نہیں جاوید ہاشمی کی ہار پر خوش ہے۔ اگر سچی بات کہی جائے تو ہمیں یہ ماننا ہو گا کہ عامر ڈوگر، عمران خان کے وزیر اعظم بننے کی خواہش، مخدوموں کی لڑائی اور دھرنوں اور وعدوں کے بڑے کھیل میں ایک مہر ہ بن گئے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے لیے ان کا اسمبلی میں ہونا یا نہ ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔
تحریک انصاف تو ان اسمبلیوں کو مانتی ہی نہیں۔ دلچسپ صورت حال یہ ہے کہ عمران خان ایک ہاتھ سے عامر ڈوگر کو تھپکی دے کر قومی اسمبلی کے اندر بھیج رہے ہیں اور دوسرے ہاتھ سے اپنے منتخب نمایندگان کو ان کی نشستوں سے اٹھا کر مستعفی حالت میں کنٹینر پر کھڑا کرنے میں مصروف ہیں۔ اس عجیب و غریب سیاسی لائحہ عمل میں عامر ڈوگر کی جیت کیا معنی رکھتی ہے؟ ہاں اگر تحریک انصاف نئے انتخابات کروا کر اپنی پسند کی حکومت بنوا پائے تو معاملہ دوسرا ہے۔ لیکن فی الحال اس "اگر" کے ساتھ اتنے "مگر" جُڑ چکے ہیں کہ یہ ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔ لہذا عامر ڈوگر بطور قومی اسمبلی کے ممبر شاید خود کو اس ایوان میں بہت اکیلا محسوس کرے جس میں پہنچنے پر وہ اْس وقت یقینا بہت خوش ہونگے۔
یہ انتخابات کتنے انقلابی ہیں کتنے روایتی؟ یہ تبدیلی کا عکس ہے یا سوچ کا مقام یہ جاننے کے لیے ایکسپریس نیوز میں شایع شدہ یہ رپورٹ دوبارہ سے پڑھ لیجیے
قومی اسمبلی کے حلقہ 149 کے ضمنی انتخابات کے نتائج 11 مئی 2013ء کے عام انتخابات سے زیادہ مختلف نہیں۔ گزشتہ روز تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امید وار اپنے مد مقابل کو مئی 2013ء کے عام انتخابات کے برعکس زیادہ ووٹوں کے فرق سے نہ ہرا سکے۔ یہ نتائج نہ صرف عمران خان کے عام انتخابات میں دھاندلی سے متعلق ووٹوں کے تناسب کے حوالے سے اپنائے جانے والے مضبوط موقف بلکہ تحریک انصاف کی مقبولیت پر بھی سوالیہ نشان بن گئے ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ قومی اسمبلی کے حلقہ 149 کے ضمنی انتخابات میں لوگوں کی طرف سے حق رائے دہی کا تناسب مئی 2013ء کے عام انتخابات سے زیادہ مختلف نہیں۔ اور یہ عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات سے مطابقت نہیں رکھتے۔
عام انتخابات میں اس وقت کے تحریک انصاف کے امیدوار جاوید ہاشمی نے لگ بھگ 10 ہزار کے ووٹ مارجن سے اپنے مد مقابل امیدوار کو شکست دی تھی اور ضمنی الیکشن میں بھی کوئی ایسا بڑا معرکہ نہیں مارا جا سکا، باوجود اس کے کہ تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان دھرنا کنٹینرز کے ذریعے میڈیا میں دو ماہ سے مہم چلائے ہوئے ہیں۔ عام انتخابات میں اس وقت کے تحریک انصاف کے امیدوار جاوید ہاشمی نے 83 ہزار اور مد مقابل امیدوار نے73 ہزار ووٹ حاصل کیے۔ اسی طرح تحریک انصاف کا امیدوار 10 ہزار ووٹوں کے مارجن سے جیتا تھا۔ ضمنی الیکشن کے غیر مصدقہ نتائج کے مطابق تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار عامر ڈوگر 50 ہزار اور ان کے مد مقابل مسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ امیدوار جاوید ہاشمی نے 41 ہزار ووٹ حاصل کیے۔ اور یہ مارجن 9 ہزار ووٹوں کا بنتا ہے، یہ نتائج زیادہ مختلف نہیں۔
ایک ضمنی انتخاب ضمناً بھی انقلابی نہیں ہو سکتا۔ مگر اس کے با وجود ایک چیز اسکو انقلاب کا پیش خیمہ ثابت کر سکتی تھی اگر عامر ڈوگر کو سوا لاکھ ووٹ پڑتا اور جاوید ہاشمی کی ضمانت ضبط ہوجاتی وہ تو نہیں ہوا۔ اگر اپنی خالی نشست جیت لینا انقلاب ہے تو پاکستان تبدیل ہوگیا ہے ورنہ یہ ویسا ہی جیسا پہلے تھا۔