مسائل حل ہوں تو کیسے
ایک تحقیقی ادارے نے رپورٹ دی ہے کہ پاکستان میں شمسی توانائی سے تین لاکھ میگا واٹ بجلی حاصل کی جاسکتی ہے۔
KARACHI:
مسائل تو بہت ہیں مگر ان کے حل ہونے میں رکاوٹیں حائل ہیں اور وہ مسائل بظاہر ملکی لگتے ہیں، لیکن یہ ہیں عالمی ۔ مثال کے طور پر سب کو پینے کا صاف پانی مہیا کیا جاسکتا ہے مگر ملٹی نیشنل کمپنیوں سے پھر پانی کون خریدے گا اور ان کے منافعے کے نام پر لوٹ مار اورکمیشن بھی تو ختم ہوجائے گی۔ ہمارے ملک کے 80 فیصد لوگوں کے گھروں میں بیت الخلا نہیں ہیں، لوگ رفع حاجت کے لیے جھاڑیوں، پہاڑوں یا میدانوں کا رخ کر تے ہیں۔
اگر اس مسئلے کو حل کر دیا جائے تو پھر دفاعی اور آئی ایم ایف کے قرضوں میں کمی کرنی ہوگی۔ یہ کام ہمارے حکمران نہیں کرسکتے اس لیے کہ ایسا کرنے کی ا جازت آئی ایم ایف نہیں دے گی۔ اس لیے بھی کہ آئی ایم ایف اور عالمی بینک سے اگر قرض نہ لیں تو پھرعیاشیاں اور لوٹ مار کیسے ہوگی۔ ہمارے ملک میں مشروبات کے لیے بے شمار پھل ہیں، ہم چاہیں تو مقامی فیکٹریوں سے پھلوں کے مشروبات تیار کرسکتے ہیں مگر غیر ملکی کمپینوں کا کیا ہوگا؟ وہ کیسے اربوں ڈالر یہاں سے بٹوریں گی اور پھر مقامی آلہ کاروں کا کیا بنے گا؟ زراعت کی سب سے زیادہ پیداوار روئی کی ہے اور ہم روئی کی مصنوعات کو بڑھانے کے بجائے روئی برآمد کردیتے ہیں۔ اگر ہم بڑے پیمانے پر ٹیکسٹائل ملیں قائم کریں تو لاکھوں محنت کشوں کو روزگار فراہم کرسکتے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ غیر پیداواری اخراجات میں کمی کرکے صنعتی شعبے کے بجٹ میں اضافہ کرنا ہوگا۔ جب ہمارے پرائم منسٹر ہاؤس کے روز کے اخراجات 15 لاکھ روپے ہوں تو کیونکر صنعت کے شعبے کا بجٹ بڑھے گا۔
ایک تحقیقی ادارے نے رپورٹ دی ہے کہ پاکستان میں شمسی توانائی سے تین لاکھ میگا واٹ بجلی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اگر ایسا کیا گیا تو تیل کمپنیوں، رینٹل پاور کمپنیوں اور فرنس آئل کے بیوپاریوں کا کیا ہوگا؟ ملک کو چھوڑیں، صرف کراچی سے بجلی کمپنی ماہانہ اربوں روپے منافع کے نام پر لوٹتی ہے۔ بجلی کمپنیوں کو ری نیشنلائزڈ کرلیا جائے تو خاصی حد تک مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ ہم چاول 100 روپے کلو خریدتے ہیں جب کہ ہم چاول برآمد بھی کرتے ہیں، پہلے تو عوام کی ضرورتیں پوری کرنی چاہئیں پھر برآمد۔ دنیا کا بہترین چاول پاکستان میں پیدا ہوتا ہے، اب بھی ہمارے ہاں ڈھائی سو اقسام کے چاول پیدا ہوتے ہیں اور غریب چاول خرید نہیں پاتے۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے، یہاں سبزیاں بڑے پیمانے پر پیدا ہوتی ہیں اور عوام سو روپے کلو سبزیاں خریدنے پر مجبور ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم سبزیاں برآمد کرتے ہیں اور آلو کی بہترین پیداوار کے باوجود ہم آلو چین، ہندوستان اور بنگلہ دیش سے خرید رہے ہیں۔ گائے اور بکرے کا گوشت چار سو سے سات سو روپے کلو میں عوام خرید رہے ہیں اور ہم گوشت روس کو برآمد کرنے کا معاہدہ کر رہے ہیں۔ چینی تیس روپے کلو بک سکتی ہے مگر چینی کے بیشتر مل مالکان ان سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں جو باری باری اقتدار میں آتے رہتے ہیں، وہ کیونکر چینی سستی کریں گے۔ گنے کی خریداری مل مالکان کم پیسوں میں کرتے ہیں، کسانوں کو پیداوار کی مناسب قیمت نہیں ملتی اور عوام کو بھی مہنگی چینی خریدنی پڑتی ہے۔ حکومت اگر ان چینی ملوں کو اپنی تحویل میں لے کر فیکٹری کے پیداواری کارکنان کے حوالے کردے تو کسانوں کو گنے کی زیادہ قیمت مل سکتی ہے اور عوام کو بھی سستی چینی مہیا کی جاسکتی ہے، لیکن اس کی راہ میں حکمران خود رکاوٹ ہیں۔
کینو دنیا میں سب سے اچھا اور زیادہ بھلوال، سرگودھا میں پیدا ہوتا ہے اور بڑے پیمانے پر برآمد بھی کیا جاتا ہے، مگر کسانوں کو بہت کم قیمت ملتی ہے اور عوام بھی مہنگے کینو خریدنے پر مجبور ہیں۔ اگر بیچ میں سے آڑھتی کو نکال دیں اور حکومت خود کینو کی خریداری کرکے برآمد کرے تو کسانوں کو مناسب قیمت مل سکتی ہے اور عوام کو بھی سو روپے کے بجائے پچاس روپے کلو مل سکتا ہے۔ مگر ایسا حکومت کیوں کرے، اس لیے کہ اس سے ایک جانب ملٹی نیشنل کمپنیاں ناراض ہوجائیں گی اور دوسری جانب حکومت اور بیوپاریوں کا منافع اور کمیشن بھی ختم ہوجائے گا۔
انسان کا انسانوں سے کوئی جھگڑا نہیں رہا، جھگڑا صرف چیزوں پر ہوتا ہے۔ ملائیشیا، ترکی، البانیہ، بوسنیا اور مراکش وغیرہ میں قربانی کے بکرے، گائے، دنبے، اونٹ اور بھیڑ وغیرہ نظر نہیں آتے، جن کو قربانی کرنی ہے وہ جانور مسجد والوں کے حوالے کردیتے ہیں اور پھر مسجد والے کاٹ پیٹ کر گوشت اس کے حوالے کردیتے ہیں جس کا جانور ہے۔ ہمارے ہاں قربانی سے ہفتہ بھر پہلے گلی کوچوں میں جانور بندھے ہوئے نظر آتے ہیں اور پھر عید کے تین روز خون، گندگی، آلائشیں تعفن پھیلاتے ہیں۔
یہاں ایسا اس لیے نہیں ہوپاتا کہ پاکستان کی بیشتر مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے کھال ونگ، فطرہ ونگ، عسکری ونگ اور ویلفیئر ونگ قائم کر رکھی ہیں، خاص کر کھال کے کلیکشن کے مسئلے پر اکثر چھینا جھپٹی، جھگڑے، فائرنگ اور قتل تک ہوجاتے ہیں۔ مجھے یہ نہیں معلوم کہ یہ جماعتیں عوام کی فلاح و بہبود کس حد تک اور کیسے کرتی ہیں مگر یہ معلوم ہے کہ اگر ہم بھی ترقی یافتہ مسلم ممالک کی طرح مہذب انداز میں مسجدوں یا مخصوص احاطوں میں قربانی کریں تو اچھا ہوتا، مگر اس میں مفادات کی رکاوٹیں ہیں۔
ہم دودھ کی مصنوعات ہالینڈ، نیوزی لینڈ، انگلینڈ اور آسٹریلیا وغیرہ سے منگواتے ہیں جب کہ یہ ساری مصنوعات پنیر، مکھن، مایونیز اور ملک پاؤڈر وغیرہ پاکستان میں بہتر اور سستے داموں میں مل سکتے ہیں، اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت ڈیری فارمز کی نگہبانی کرے، ان کی پیداوار کے لیے فیکٹریز قائم کرے اور انھیں سہولتیں مہیا کرے۔ مگر ایسا کرنے سے ملٹی نیشنل کمپنیوں کی ملک پروڈکٹ کی برآمدات بند ہوجائے گی، جس سے ان کے منافعے اور اربوں روپے کی لوٹ ختم ہو کر رہ جائے گی اور عوام کو سستا دودھ اور دودھ کی مصنوعات ملنے لگیں گی۔
اس عمل سے سرمایہ داروں کو نقصان اور عوام کو فائدہ ہوگا۔ سرمایہ داروں کی حکومت کیوں کر سرمایہ داروں کا نقصان چاہے گی۔ ان تمام مسائل کا حل ہوسکتا ہے لیکن ان کی بڑی رکاوٹ یہ سرمایہ دارانہ نظام ہے اور ریاست ان کی رکھوالی کرتی ہے۔ اگر کوئی ریاست عوام کی فلاح کے لیے تھوڑی بہت بھلائی کر بھی دیتی ہے تو یہ پھر اور طریقے سے عوام کے مسائل میں اضافہ کرکے ان کا جینا دوبھر کردے گی، اس لیے عوام کے مسائل کا واحد حل ایک غیر طبقاتی آزاد معاشرے کے قیام میں مضمر ہے، جو ریاست کی جگہ پہ خودکار عبوری انجمنیں انجام دیں گی۔ ریاستوں کی سرحدوں کو توڑتے ہوئے ساری دنیا اکائی بن کر سارے مسائل حل کرے گی، ایک آسمان تلے ایک خاندان ہوگا، کوئی طبقہ ہوگا اور نہ کوئی ریاست۔
مسائل تو بہت ہیں مگر ان کے حل ہونے میں رکاوٹیں حائل ہیں اور وہ مسائل بظاہر ملکی لگتے ہیں، لیکن یہ ہیں عالمی ۔ مثال کے طور پر سب کو پینے کا صاف پانی مہیا کیا جاسکتا ہے مگر ملٹی نیشنل کمپنیوں سے پھر پانی کون خریدے گا اور ان کے منافعے کے نام پر لوٹ مار اورکمیشن بھی تو ختم ہوجائے گی۔ ہمارے ملک کے 80 فیصد لوگوں کے گھروں میں بیت الخلا نہیں ہیں، لوگ رفع حاجت کے لیے جھاڑیوں، پہاڑوں یا میدانوں کا رخ کر تے ہیں۔
اگر اس مسئلے کو حل کر دیا جائے تو پھر دفاعی اور آئی ایم ایف کے قرضوں میں کمی کرنی ہوگی۔ یہ کام ہمارے حکمران نہیں کرسکتے اس لیے کہ ایسا کرنے کی ا جازت آئی ایم ایف نہیں دے گی۔ اس لیے بھی کہ آئی ایم ایف اور عالمی بینک سے اگر قرض نہ لیں تو پھرعیاشیاں اور لوٹ مار کیسے ہوگی۔ ہمارے ملک میں مشروبات کے لیے بے شمار پھل ہیں، ہم چاہیں تو مقامی فیکٹریوں سے پھلوں کے مشروبات تیار کرسکتے ہیں مگر غیر ملکی کمپینوں کا کیا ہوگا؟ وہ کیسے اربوں ڈالر یہاں سے بٹوریں گی اور پھر مقامی آلہ کاروں کا کیا بنے گا؟ زراعت کی سب سے زیادہ پیداوار روئی کی ہے اور ہم روئی کی مصنوعات کو بڑھانے کے بجائے روئی برآمد کردیتے ہیں۔ اگر ہم بڑے پیمانے پر ٹیکسٹائل ملیں قائم کریں تو لاکھوں محنت کشوں کو روزگار فراہم کرسکتے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ غیر پیداواری اخراجات میں کمی کرکے صنعتی شعبے کے بجٹ میں اضافہ کرنا ہوگا۔ جب ہمارے پرائم منسٹر ہاؤس کے روز کے اخراجات 15 لاکھ روپے ہوں تو کیونکر صنعت کے شعبے کا بجٹ بڑھے گا۔
ایک تحقیقی ادارے نے رپورٹ دی ہے کہ پاکستان میں شمسی توانائی سے تین لاکھ میگا واٹ بجلی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اگر ایسا کیا گیا تو تیل کمپنیوں، رینٹل پاور کمپنیوں اور فرنس آئل کے بیوپاریوں کا کیا ہوگا؟ ملک کو چھوڑیں، صرف کراچی سے بجلی کمپنی ماہانہ اربوں روپے منافع کے نام پر لوٹتی ہے۔ بجلی کمپنیوں کو ری نیشنلائزڈ کرلیا جائے تو خاصی حد تک مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ ہم چاول 100 روپے کلو خریدتے ہیں جب کہ ہم چاول برآمد بھی کرتے ہیں، پہلے تو عوام کی ضرورتیں پوری کرنی چاہئیں پھر برآمد۔ دنیا کا بہترین چاول پاکستان میں پیدا ہوتا ہے، اب بھی ہمارے ہاں ڈھائی سو اقسام کے چاول پیدا ہوتے ہیں اور غریب چاول خرید نہیں پاتے۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے، یہاں سبزیاں بڑے پیمانے پر پیدا ہوتی ہیں اور عوام سو روپے کلو سبزیاں خریدنے پر مجبور ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم سبزیاں برآمد کرتے ہیں اور آلو کی بہترین پیداوار کے باوجود ہم آلو چین، ہندوستان اور بنگلہ دیش سے خرید رہے ہیں۔ گائے اور بکرے کا گوشت چار سو سے سات سو روپے کلو میں عوام خرید رہے ہیں اور ہم گوشت روس کو برآمد کرنے کا معاہدہ کر رہے ہیں۔ چینی تیس روپے کلو بک سکتی ہے مگر چینی کے بیشتر مل مالکان ان سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں جو باری باری اقتدار میں آتے رہتے ہیں، وہ کیونکر چینی سستی کریں گے۔ گنے کی خریداری مل مالکان کم پیسوں میں کرتے ہیں، کسانوں کو پیداوار کی مناسب قیمت نہیں ملتی اور عوام کو بھی مہنگی چینی خریدنی پڑتی ہے۔ حکومت اگر ان چینی ملوں کو اپنی تحویل میں لے کر فیکٹری کے پیداواری کارکنان کے حوالے کردے تو کسانوں کو گنے کی زیادہ قیمت مل سکتی ہے اور عوام کو بھی سستی چینی مہیا کی جاسکتی ہے، لیکن اس کی راہ میں حکمران خود رکاوٹ ہیں۔
کینو دنیا میں سب سے اچھا اور زیادہ بھلوال، سرگودھا میں پیدا ہوتا ہے اور بڑے پیمانے پر برآمد بھی کیا جاتا ہے، مگر کسانوں کو بہت کم قیمت ملتی ہے اور عوام بھی مہنگے کینو خریدنے پر مجبور ہیں۔ اگر بیچ میں سے آڑھتی کو نکال دیں اور حکومت خود کینو کی خریداری کرکے برآمد کرے تو کسانوں کو مناسب قیمت مل سکتی ہے اور عوام کو بھی سو روپے کے بجائے پچاس روپے کلو مل سکتا ہے۔ مگر ایسا حکومت کیوں کرے، اس لیے کہ اس سے ایک جانب ملٹی نیشنل کمپنیاں ناراض ہوجائیں گی اور دوسری جانب حکومت اور بیوپاریوں کا منافع اور کمیشن بھی ختم ہوجائے گا۔
انسان کا انسانوں سے کوئی جھگڑا نہیں رہا، جھگڑا صرف چیزوں پر ہوتا ہے۔ ملائیشیا، ترکی، البانیہ، بوسنیا اور مراکش وغیرہ میں قربانی کے بکرے، گائے، دنبے، اونٹ اور بھیڑ وغیرہ نظر نہیں آتے، جن کو قربانی کرنی ہے وہ جانور مسجد والوں کے حوالے کردیتے ہیں اور پھر مسجد والے کاٹ پیٹ کر گوشت اس کے حوالے کردیتے ہیں جس کا جانور ہے۔ ہمارے ہاں قربانی سے ہفتہ بھر پہلے گلی کوچوں میں جانور بندھے ہوئے نظر آتے ہیں اور پھر عید کے تین روز خون، گندگی، آلائشیں تعفن پھیلاتے ہیں۔
یہاں ایسا اس لیے نہیں ہوپاتا کہ پاکستان کی بیشتر مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے کھال ونگ، فطرہ ونگ، عسکری ونگ اور ویلفیئر ونگ قائم کر رکھی ہیں، خاص کر کھال کے کلیکشن کے مسئلے پر اکثر چھینا جھپٹی، جھگڑے، فائرنگ اور قتل تک ہوجاتے ہیں۔ مجھے یہ نہیں معلوم کہ یہ جماعتیں عوام کی فلاح و بہبود کس حد تک اور کیسے کرتی ہیں مگر یہ معلوم ہے کہ اگر ہم بھی ترقی یافتہ مسلم ممالک کی طرح مہذب انداز میں مسجدوں یا مخصوص احاطوں میں قربانی کریں تو اچھا ہوتا، مگر اس میں مفادات کی رکاوٹیں ہیں۔
ہم دودھ کی مصنوعات ہالینڈ، نیوزی لینڈ، انگلینڈ اور آسٹریلیا وغیرہ سے منگواتے ہیں جب کہ یہ ساری مصنوعات پنیر، مکھن، مایونیز اور ملک پاؤڈر وغیرہ پاکستان میں بہتر اور سستے داموں میں مل سکتے ہیں، اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت ڈیری فارمز کی نگہبانی کرے، ان کی پیداوار کے لیے فیکٹریز قائم کرے اور انھیں سہولتیں مہیا کرے۔ مگر ایسا کرنے سے ملٹی نیشنل کمپنیوں کی ملک پروڈکٹ کی برآمدات بند ہوجائے گی، جس سے ان کے منافعے اور اربوں روپے کی لوٹ ختم ہو کر رہ جائے گی اور عوام کو سستا دودھ اور دودھ کی مصنوعات ملنے لگیں گی۔
اس عمل سے سرمایہ داروں کو نقصان اور عوام کو فائدہ ہوگا۔ سرمایہ داروں کی حکومت کیوں کر سرمایہ داروں کا نقصان چاہے گی۔ ان تمام مسائل کا حل ہوسکتا ہے لیکن ان کی بڑی رکاوٹ یہ سرمایہ دارانہ نظام ہے اور ریاست ان کی رکھوالی کرتی ہے۔ اگر کوئی ریاست عوام کی فلاح کے لیے تھوڑی بہت بھلائی کر بھی دیتی ہے تو یہ پھر اور طریقے سے عوام کے مسائل میں اضافہ کرکے ان کا جینا دوبھر کردے گی، اس لیے عوام کے مسائل کا واحد حل ایک غیر طبقاتی آزاد معاشرے کے قیام میں مضمر ہے، جو ریاست کی جگہ پہ خودکار عبوری انجمنیں انجام دیں گی۔ ریاستوں کی سرحدوں کو توڑتے ہوئے ساری دنیا اکائی بن کر سارے مسائل حل کرے گی، ایک آسمان تلے ایک خاندان ہوگا، کوئی طبقہ ہوگا اور نہ کوئی ریاست۔