باکس آفس ہٹ
عوام کی سادہ لوحی دیکھیں کہ صفائی و نظر بندی کی حقیقت جاننا چاہتے ہیں۔
چھ دہائیوں سے زائد عرصے پر محیط ملک میں جاری و ساری طوائف الملوکی کے خاتمے کے لیے عوامی قوت کے مظاہرے کا ایک ٹریلر گزشتہ دو ماہ سے اسلام آباد کے ریڈ زون اور ملحقہ علاقوں میں چل رہا ہے۔ اعصابی جنگ جاری ہے، ہٹ دھرمی کے خو کو اپنے آزمودہ تاخیری حربوں پر مکمل اعتماد تھا اور وہ انھیں آزماتے رہے۔ جواب میں اپنے بینر تلے بننے والی فلم کا ٹریلر بھی دیکھا یا صاف نظر آرہاتھا کہ فلم باکس آفس پر ہٹ ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔
دوسری طرف پہلی فلم کے ٹریلر دیکھنے والوں کی بے چینی دیکھی نہ جاتی تھی، پر زور اصرار تھا کہ فلم پورے ملک میں بیک وقت ریلیز کی جائے تاکہ عوام کے صبر و مجبوری کو بے وقوفی سمجھنے والوں کو لگ پتہ جائے۔ مگر اسی لگ پتہ جانے کی ہولناکیوں کا اندازہ ان غازیوں، ان پراسرار بندوں کو بخوبی تھا کہ جن کو قدرت نے ذوق گدائی بخشا ہے۔ وہ جس اعصاب شکن دور سے گزر رہے تھے اس میں خود کوگہرے پانیوں کی طرح پرسکون رکھنا اعلیٰ تربیتی مراحل کے جھمیلوں سے گزرنے کے بعد ہی آتا ہے۔اختیارات رکھنے کے باوجود اختیارات کے بے مہار استعمال سے خود کو باز رکھنا سب سے بڑا جہاد ہے اور اٹھنے کے لیے بے چینی سے منتظر انگلیوں کو اٹھنے سے باز رکھنا بہترین جنگی حکمت عملی۔ کھوٹے کھرے کو اس طرح علیحدہ کرنا کہ جانبداری کا الزام بھی نہ آئے، حقیقت میں منصفی کہلاتی ہے۔
عوام امید و بیم کی کشمکش میں مبتلا ہے۔ سلطانی جمہور کا زمانہ آیا چاہتا ہے، مگر آکے نہیں دیتا، اور آئے بھی تو کیسے جمہور تو کسی کو نظر ہی نہیں آتا اگر کسی کو نظر آنے بھی لگے تو ان کو دہشت گرد، باغی اور لشکری ثابت کرنے کے لیے زیر سایہ پلنے والے بچہ جمہوروں کو میدان میں اتار دیا جاتا ہے، نام آپ چاہے جو بھی رکھ لیں۔ ٹمی، نمی، ٹلو، پلو مگر ہوتے سارے بادشاہ ہیں۔ ہاتھ کی صفائی کہہ لیں یا نظر بندی کا کمال کہ انھیں جیسے دو سو (200) تین سو (300) کے قریب بادشاہ اسمبلی کی نشستوں پر براجمان نظر آتے ہیں۔
عوام کی سادہ لوحی دیکھیں کہ صفائی و نظر بندی کی حقیقت جاننا چاہتے ہیں۔ مورکھوں کو اس بات کا اندازہ ہی نہیں کہ جو کچھ سامنے آئے گا ان کے وہم وگمان بھی نہ ہوگا کہ نہ صرف ان کے ساتھ بلکہ ان کی مملکت خداداد کے ساتھ ہاتھ ہوگیا ہے، بشرطیکہ کوئی قوت مزاحم نہ ہوئی تو۔ اگر بات معمولی ہوتی تو فقیر اپنی گدڑی اور کمبل اٹھاکر فصیل شہر کے خارجی دروازے کا رخ کرنے میں دیر نہ لگاتا۔ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے اورجوکچھ بھی ہے بہت بھیانک ہے۔ اسمبلی کے اندر اور باہر کے گلو بٹوں کی دو رخی عوام سے ڈھکی چھپی نہیں رہی۔
قبل جو سب کچھ بالا بالا ہوجاتا تھا اور عوام کو ہوا تک نہ لگنے دی جاتی تھی، دھرنے کے طفیل سب کچھ کھل کر سامنے آگیا ہے۔ پہلی بار عوام پہ حقیقت آشکار ہوئی ہے ۔ اب چیخ پکار کیسی؟ پانچ سال تک انتظار کرو ہم ٹھہرے پرانے کھلاڑی، پرانے شکاری، اس وقت تک نئے جال کا بندوبست کرلیںگے۔ تم لوگوں کو صرف انتخاب کرنے کی اجازت ہے، اس پہ پچھتانے یا واویلا کرنے کی نہیں، نہ ایسا کوئی قانون بنا ہے نہ ہم بننے دیںگے۔ ہم نے اسمبلی اور ارکان اسمبلی کی عزت و حرمت قائم رکھنے کا حلف اٹھایا ہے اور ہم وہ قائم رکھیںگے، چاہے اس کے لیے ہمیں عوام کی لاشوں پر سے ہی کیوں نہ گزرنا پڑے۔
ہم تین ساڑھے تین صد ارکان اسمبلی 18 کروڑ عوام کے نمایندے ہیں، یہ ساٹھ ستر ہزار کہاں سے 18 کروڑ عوام کے نمایندے ہوگئے۔ دوسری طرف ہمارے پڑوسی اپنے نادان دوستوں کی پھرتیاں دیکھ دیکھ کر ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو رہے ہیں کہ ہم نے تو ابھی اپنے دورے کی حتمی تاریخوں کا اعلان ہی نہیں کیا اور یہ ہیں کہ دورے کی منسوخی پر سینہ کوبی کر کرکے ہلکان ہوئے جا رہے ہیں۔ تین ساڑھے تین ارب کی سرمایہ کاری کے ہاتھ سے نکل جانے کے خوف سے عوام الناس پہ لرزہ طاری کیا جارہا ہے مگر چودہ ماہ میں چار سو ارب کا جو چونا عوام الناس کو لگ چکا ہے اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ کہاں تک حقیقت ہے، کہاں تک فسانہ، یہ تو مقدس ایوان کے نامزد کردہ باغی اور لشکری جانیں جو ببانگ دہل ان رازوں پر سے پردہ اٹھانے پر کمربستہ دکھائی دیتے ہیں۔ بس ذرا چھیڑیے، پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے۔ فریقین میچ کا دورانیہ سڈن ڈیتھ (SUDDEN DEATH) تک لے جانے کے خواہاں نظر آتے ہیں۔
وزیراعظم سے مصافحہ کرتے وقت کبھی معزز ارکان اسمبلی یا وزیروں باتدبیروں کی باڈی لینگویج پر غور کیجیے گا، قوم کی کیمیا سامنے آجائے گی۔ ہم نے تو جب سے آنکھ کھولی ہے ان کو فلانے صویب (صاحب) زندہ باد اور ڈھاکے صویب (صاحب) زندہ باد کرتے دیکھا ہے اور ہمیشہ سے عنان حکومت ایسے ہی لوگوں کے ہاتھ میں دیکھا ہے۔ یادداشت کے کسی کونے کھانچے میں کوئی عنان اقتدار کو پایہ حقارت سے ٹھکرا دینے والا محفوظ ہو تو مجھے بھی ضرور بتائیے گا۔ سنا ہے عمران خان نے پرویز مشرف کی وزیراعظم بنا دینے کی پیشکش کو پایہ حقارت سے ٹھکرا دیا تھا۔
کسی سے نہ ڈرنے کے بلند بانگ دعوے کرنے والے کی طرف سے تصدیق کے منتظر ہیں۔ ایوب خان نے اس وقت مطالبات ماننے پر آمادگی ظاہر کی جب پلوں کے نیچے سے سارا پانی گزرچکا تھا، انارکی اور برساتی لیڈروں کی چیخ و پکار سے کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی، ورنہ ایوب خان کے اس اعلان کے بعد کہ وہ آیندہ صدارتی امیدوار نہیں ہوںگے احتجاجی تحریکوں کا سلسلہ بند ہوجانا چاہیے تھا۔ بھٹو صاحب کی سرد مہری کی وجہ بھی تکبر اور فیوڈل انداز فکر تھا۔ آج کی سردمہری کا گزشتہ کی سرد مہریوں سے موازنہ کرکے دیکھیں جواب حاصل کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔
یحییٰ خان درست راستہ اپناتے تو بھٹو صاحب کو دو لخت ملک نہ ملتا، نہ ہی ناکردہ گناہ کی پاداش میں دار پر لٹکنا پڑتا، ''اسلام چاہیے یا نہیں'' طرز کا صاف و شفاف ریفرنڈم بھی عوام کو نہ بھولا ہوگا جس کی بدولت امیرالمومنین طویل عرصے تک خلیفہ گیری کرتے رہے۔ 2013 کے صاف و شفاف انتخابات یوں سمجھ لیں ان کے ہونہار شاگردوں کا کارنامہ ہے جن کی عوام سے محبت اسی طرح کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے جس طرح کہ امیرالمومنین کو تھی اور محبت اور جنگ میں کچھ بھی ناجائز نہیں ہوتا۔
عوام کا سیلاب حفاظتی بندوں سے ٹکرا رہا ہے۔ سعی اس بات کی کرنی چاہیے کہ اس کی بے لگام تباہ کاریوں سے بچ بچاکر اس کے متعین کردہ راستوں سے گزار دیا جائے۔ عقل مند کو اشارہ کافی ہوتا ہے۔ نظر آرہا ہے کہ غلطی کرنے والوں کو اپنی غلطیوں کا احساس ہوگیا ہے۔ طفیلیوں کے شوروغوغا کی پرواہ نہ کریں وگرنہ ایک اور سویلین ایوب خان، ایک اور سویلین یحییٰ خان کے ہاتھوں میں اقتدار سونپ کر احسان کا صلہ چاہے گا اور عوام ہاتھ ملتی رہ جائے گی۔