روسی صدر کے دورئہ پاکستان کا التوا
آیندہ تاریخوں میں وہ پاکستان آ سکتے ہیں جس سے دونوں ممالک میں تعلقات کی نئی راہیں ہموار ہوں گی۔
علاقائی مسائل کے حل کے لیے پاکستان میں ہونے والی دو روزہ چار ملکی سربراہ کانفرنس روس کے صدر ولادی میرپوٹن کے دورئہ پاکستان ملتوی کرنے کے باعث موخر کر دی گئی ہے۔
یہ کانفرنس 2 اکتوبر کو اسلام آباد میں شروع ہونا تھی۔ علاقائی مسائل کے حل کے لیے اسلام آباد میں چار ملکوں پاکستان' روس' افغانستان اور تاجکستان کے مابین سربراہی کانفرنس کے انعقاد کا اعلان کیا گیاتھا۔ دفتر خارجہ کے ترجمان کے مطابق چار ملکی سربراہ کانفرنس کی تاریخ میں تبدیلی روس کے صدر کی درخواست پر کی گئی۔
نئی تاریخ سفارتی ذرایع سے مہمان ملکوں کے سربراہان کی سہولت کو مدنظر رکھ کر طے کی جائے گی۔ بعض ذرایع کا کہنا ہے کہ امریکا نے بھارت کے ذریعے روسی صدر پر دورئہ پاکستان ملتوی کرنے کے لیے دبائو ڈالا۔ روس اور بھارت سرد جنگ میںاتحادی رہے ہیں۔
ممکن ہے کہ بھارت نے امریکی سازش کا مہرہ بن کر اپنے دیرینہ تعلقات استعمال کرتے ہوئے روسی صدر پوٹن کا دورئہ پاکستان ملتوی کرا دیا ہوا۔ سرد جنگ کے دوران روس کو سپر طاقت کا مقام حاصل رہا ہے۔
افغان جنگ کے بعد روس کی بہت سی ریاستوں نے اس سے آزادی تو حاصل کر لی مگر روس آج بھی ایک بڑی عسکری قوت ہے جس کی عالمی سطح پر اہمیت اور کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بعض ذرایع کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر روسی صدر کا دورہ منسوخ کیا گیا ہے۔ یہ بات بھولنی نہیں چاہیے کہ روسی صدر کا دورئہ پاکستان ملتوی ہوا ہے' منسوخ نہیں ہوا۔
آیندہ تاریخوں میں وہ پاکستان آ سکتے ہیں جس سے دونوں ممالک میں تعلقات کی نئی راہیں ہموار ہوں گی۔ پاکستان کے امریکا اور یورپ کی جانب جھکائو کے باعث پاک روس تعلقات سرد مہری کا شکار رہے ہیں لیکن اب حالات نے نیا رخ اختیار کرلیا ہے۔ امریکا کی جانب سے پاکستان پر کیے جانے والے ڈرون حملوں کے باعث دونوں ممالک کے تعلقات میں تنائو اور کشیدگی پیدا ہو رہی ہے۔
یہ وجہ ہے کہ پاکستان نیروس کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے مگر شاید امریکا اس دوستی کو اس خطے میں اپنے مفادات کے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے اس امر کا متمنی ہے کہ روس اور پاکستان ایک دوسرے سے فاصلے ہی پر رہیں اور وہ بلا شرکت غیرے اس خطے پر اپنا سکہ جمائے رکھے۔
ممکن ہے اسی سبب اس نے بھارت کو بطور ایجنٹ استعمال کرتے ہوئے روسی صدر کا دورہ ملتوی کرایا ہو۔ جہاں تک سیکیورٹی معاملات کا تعلق ہے تو اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اس خطے میں دہشت گردی کے شدید خطرات موجود ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے علاوہ روس خود بھی دہشت گردی کا شکار ہے۔
اس کے چیچنیا' داغستان اور دوسری ریاستوں سے تنازعات چلے آ رہے ہیں جس کے باعث اسے سیکیورٹی کے خطرات درپیش ہیں مگر اسے یہ امر بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ افغانستان جہاں دہشت گردی کے خطرات سب سے زیادہ ہیں اگر وہاں سیکیورٹی انتظامات بہتر بنا کر امریکی صدر اوباما دورہ کرسکتے ہیں تو پاکستان جس کے حالات افغانستان سے زیادہ بہتر ہیں وہاں سیکیورٹی انتظامات بہتر بنا کر سربراہی کانفرنس کیوں نہیں ہو سکتی۔
روسی صدر کو اس امر پر ضرور غور کرنا چاہیے اور جب دونوں ممالک نے ایک دوسرے کی جانب دوستی کا قدم بڑھایا ہے تو اس موقعے کو ضایع نہیں کرنا چاہیے۔ خوش آیند بات یہ ہے کہ صدر پوٹن نے صدر آصف علی زرداری کے نام خط بجھوایا ہے جس میں انھوں نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو مزید وسعت دینے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے صدر زرداری کو دورئہ روس کی دعوت دی ہے۔
بعض قوتوں کی پوری کوشش ہو گی کہ روس اور پاکستان میں دوستانہ تعلقات مضبوط نہ ہوں اور روسی صدر پاکستان کا دورہ نہ کریں۔ لیکن روس اور پاکستان دونوں کو بدلتے ہوئے عالمی حالات کا بروقت ادراک کرتے ہوئے باہمی تعلقات کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنا چاہیے اور اسے زیادہ سے زیادہ دوسرے شعبوں تک وسعت دینا چاہیے۔
اگر اسلام آباد میں سیکیورٹی انتظامات کا مسئلہ درپیش ہے تو اس سلسلے میں روس پاکستان کو جدید ٹیکنالوجی دے کر سیکیورٹی انتظامات بہتر بنانے میں معاونت کر سکتا ہے تاکہ سیکیورٹی معاملات کو آڑ بنا کر اس کانفرنس کے انعقاد کی راہ میں رکاوٹیں نہ پیدا کی جائیں۔
پاکستان اپنی خارجہ پالیسی کو وسعت دیتے ہوئے اس خطے میں بھارت اور روس کے ساتھ اپنے تعلقات زیادہ سے زیادہ بہتر بنانے کی تگ و دو کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روسی صدر کا دورہ منسوخ ہونے کے باوجود پاکستانی آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی اکتوبر کے پہلے ہفتے میں روس کا دورہ کریں گے۔
دونوں ممالک میں بہتر تعلقات سے دہشت گردی پر قابو پانے میں حائل رکاوٹیں دور ہوں گی جس سے اس خطے میں استحکام آئے گا۔ پاکستان' روس' افغانستان اور تاجکستان تجارتی تعلقات بہتر سے بہتر بنائیں تو اس یہاں خوشحالی کا نیا دور شروع ہو سکتا ہے۔
یہ کانفرنس 2 اکتوبر کو اسلام آباد میں شروع ہونا تھی۔ علاقائی مسائل کے حل کے لیے اسلام آباد میں چار ملکوں پاکستان' روس' افغانستان اور تاجکستان کے مابین سربراہی کانفرنس کے انعقاد کا اعلان کیا گیاتھا۔ دفتر خارجہ کے ترجمان کے مطابق چار ملکی سربراہ کانفرنس کی تاریخ میں تبدیلی روس کے صدر کی درخواست پر کی گئی۔
نئی تاریخ سفارتی ذرایع سے مہمان ملکوں کے سربراہان کی سہولت کو مدنظر رکھ کر طے کی جائے گی۔ بعض ذرایع کا کہنا ہے کہ امریکا نے بھارت کے ذریعے روسی صدر پر دورئہ پاکستان ملتوی کرنے کے لیے دبائو ڈالا۔ روس اور بھارت سرد جنگ میںاتحادی رہے ہیں۔
ممکن ہے کہ بھارت نے امریکی سازش کا مہرہ بن کر اپنے دیرینہ تعلقات استعمال کرتے ہوئے روسی صدر پوٹن کا دورئہ پاکستان ملتوی کرا دیا ہوا۔ سرد جنگ کے دوران روس کو سپر طاقت کا مقام حاصل رہا ہے۔
افغان جنگ کے بعد روس کی بہت سی ریاستوں نے اس سے آزادی تو حاصل کر لی مگر روس آج بھی ایک بڑی عسکری قوت ہے جس کی عالمی سطح پر اہمیت اور کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بعض ذرایع کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر روسی صدر کا دورہ منسوخ کیا گیا ہے۔ یہ بات بھولنی نہیں چاہیے کہ روسی صدر کا دورئہ پاکستان ملتوی ہوا ہے' منسوخ نہیں ہوا۔
آیندہ تاریخوں میں وہ پاکستان آ سکتے ہیں جس سے دونوں ممالک میں تعلقات کی نئی راہیں ہموار ہوں گی۔ پاکستان کے امریکا اور یورپ کی جانب جھکائو کے باعث پاک روس تعلقات سرد مہری کا شکار رہے ہیں لیکن اب حالات نے نیا رخ اختیار کرلیا ہے۔ امریکا کی جانب سے پاکستان پر کیے جانے والے ڈرون حملوں کے باعث دونوں ممالک کے تعلقات میں تنائو اور کشیدگی پیدا ہو رہی ہے۔
یہ وجہ ہے کہ پاکستان نیروس کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے مگر شاید امریکا اس دوستی کو اس خطے میں اپنے مفادات کے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے اس امر کا متمنی ہے کہ روس اور پاکستان ایک دوسرے سے فاصلے ہی پر رہیں اور وہ بلا شرکت غیرے اس خطے پر اپنا سکہ جمائے رکھے۔
ممکن ہے اسی سبب اس نے بھارت کو بطور ایجنٹ استعمال کرتے ہوئے روسی صدر کا دورہ ملتوی کرایا ہو۔ جہاں تک سیکیورٹی معاملات کا تعلق ہے تو اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اس خطے میں دہشت گردی کے شدید خطرات موجود ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے علاوہ روس خود بھی دہشت گردی کا شکار ہے۔
اس کے چیچنیا' داغستان اور دوسری ریاستوں سے تنازعات چلے آ رہے ہیں جس کے باعث اسے سیکیورٹی کے خطرات درپیش ہیں مگر اسے یہ امر بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ افغانستان جہاں دہشت گردی کے خطرات سب سے زیادہ ہیں اگر وہاں سیکیورٹی انتظامات بہتر بنا کر امریکی صدر اوباما دورہ کرسکتے ہیں تو پاکستان جس کے حالات افغانستان سے زیادہ بہتر ہیں وہاں سیکیورٹی انتظامات بہتر بنا کر سربراہی کانفرنس کیوں نہیں ہو سکتی۔
روسی صدر کو اس امر پر ضرور غور کرنا چاہیے اور جب دونوں ممالک نے ایک دوسرے کی جانب دوستی کا قدم بڑھایا ہے تو اس موقعے کو ضایع نہیں کرنا چاہیے۔ خوش آیند بات یہ ہے کہ صدر پوٹن نے صدر آصف علی زرداری کے نام خط بجھوایا ہے جس میں انھوں نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو مزید وسعت دینے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے صدر زرداری کو دورئہ روس کی دعوت دی ہے۔
بعض قوتوں کی پوری کوشش ہو گی کہ روس اور پاکستان میں دوستانہ تعلقات مضبوط نہ ہوں اور روسی صدر پاکستان کا دورہ نہ کریں۔ لیکن روس اور پاکستان دونوں کو بدلتے ہوئے عالمی حالات کا بروقت ادراک کرتے ہوئے باہمی تعلقات کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنا چاہیے اور اسے زیادہ سے زیادہ دوسرے شعبوں تک وسعت دینا چاہیے۔
اگر اسلام آباد میں سیکیورٹی انتظامات کا مسئلہ درپیش ہے تو اس سلسلے میں روس پاکستان کو جدید ٹیکنالوجی دے کر سیکیورٹی انتظامات بہتر بنانے میں معاونت کر سکتا ہے تاکہ سیکیورٹی معاملات کو آڑ بنا کر اس کانفرنس کے انعقاد کی راہ میں رکاوٹیں نہ پیدا کی جائیں۔
پاکستان اپنی خارجہ پالیسی کو وسعت دیتے ہوئے اس خطے میں بھارت اور روس کے ساتھ اپنے تعلقات زیادہ سے زیادہ بہتر بنانے کی تگ و دو کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روسی صدر کا دورہ منسوخ ہونے کے باوجود پاکستانی آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی اکتوبر کے پہلے ہفتے میں روس کا دورہ کریں گے۔
دونوں ممالک میں بہتر تعلقات سے دہشت گردی پر قابو پانے میں حائل رکاوٹیں دور ہوں گی جس سے اس خطے میں استحکام آئے گا۔ پاکستان' روس' افغانستان اور تاجکستان تجارتی تعلقات بہتر سے بہتر بنائیں تو اس یہاں خوشحالی کا نیا دور شروع ہو سکتا ہے۔