…مگر عقل داڑھ
مریض کو بے ہوش یا بے حس کرنے کا یہ پرانا طریقہ ہے کہ اسے اس قدر قابو کر لو کہ وہ ہل جل نہ سکے...
معلوم ہوا کہ جس دانت میں درد ہے وہ عقل داڑھ کا پڑوسی ہے اور اس کا علاج وہی آزمودہ قدیم علاج ہے یعنی علاج دنداں اخراج دنداں۔
میں نے ڈاکٹر صاحب سے عرض کیا کہ وہ ایک بار پھر تسلی کر لیں کہ یہ بیمار دانت کیا عقل داڑھ کا واقعی پڑوسی ہے، کہیں خود عقل داڑھ تو مداخلت نہیں کر رہی کیونکہ مجھے اب اس کی ضرورت نہیں رہی اور اگر نکالنا ہی ہے تو اسے نکال دیں نہ کہ دوسرے دانت کو جو کھانے پینے میں مدد دیتا ہے اور کسی کام کا ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے میری تسلی کے لیے ایک بار پھر میرا منہ کھلوایا اور اس میں روشنیاں ڈال کر اس دانت کو ٹھکورا اور پوچھا کہ کیا درد ہوا ہے۔ میں نے کہا ،جی ہاں تو اس پر ڈاکٹر صاحب نے فیصلہ دیا کہ عقل داڑھ بخیر ہے، اس کا پڑوسی نکالنا پڑے گا جو بیمار ہے، پھر انھوں نے اس میں ٹیکے لگائے اور تھوڑی دیر بعد جب دانت کے سن ہونے کی تسلی ہو گئی تو جمور سے اس دانت کو اپنی گرفت میں جکڑ کر اسے دوچار جھٹکے دیے اور قریب رکھی ایک پلیٹ میں کسی چیز کے گرنے کی آواز آئی۔
یہ وہ بیمار دانت تھا جو طبی سائنس کے اس امریکی دور میں بھی کسی علاج سے صحت یاب نہ ہو سکا۔ ڈاکٹر صاحب چونکہ امریکا سے آئے ہیں، اس لیے میں نے انھیں امریکی سائنس کے حوالے سے یاد کیا ہے ورنہ اس کی چنداں ضرورت نہ تھی۔ کسی بیمار دانت کا علاج مدتوں سے اپنے ہاں کامیابی کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔
اس ملک کے لاری اڈوں اور ریلوے اسٹیشنوں پر ایسے ڈاکٹر بیٹھے دکھائی دیتے ہیں جو مریض کو سامنے بٹھا کر پہلے اس کا انٹرویو کرتے ہیں پھر دانت کا معائنہ کرتے ہیں اور اس کو جڑ سے نکال دینے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ مریض کو ذہنی طور پر تیار کرنے کے لیے اسے متوقع درد سے آگاہ کرتے ہیں کیونکہ منہ جیسے نازک حصے سے کسی چیز کو بزور بازو نکالنا تکلیف دہ تو ہو گا ہی۔
ویسے بھی جسم کا جو حصہ دماغ کے قریب ہوگا، اس میں درد زیادہ محسوس ہوتا ہے جیسے کان آنکھ کا درد۔ چنانچہ ہمارا دیسی ڈاکٹر مریض کو درد پر آمادہ کر کے مریض کو اپنی ٹانگوں اور گھٹنوں میں جکڑ لیتا ہے اور اسے بے بس کر دیتا ہے۔
مریض کو بے ہوش یا بے حس کرنے کا یہ پرانا طریقہ ہے کہ اسے اس قدر قابو کر لو کہ وہ ہل جل نہ سکے چنانچہ اس کے بعد ڈاکٹر صاحب تھیلے سے لوہے کا جمور نکالتے ہیں، اس کی طاقت کو اسے ہلا جلا کر دیکھتے ہیں اور پھر اﷲ کا نام لے کر مریض کے کھلے منہ میں اس اوزار کو داخل کر دیتے ہیں۔ جب مریض کہتا ہے کہ بیمار دانت ہی اس کی گرفت میں ہے ،کوئی دوسرا صحت منہ دانت نہیں تو وہ پورا زور لگا کر دانت کو جڑ سے اکھاڑ دیتے ہیں۔ اس دوران مریض کی چیخ سے ڈاکٹر صاحب کو اندازہ ہوتا ہے کہ اس کا نشانہ درست لگا ہے اور آپریشن کامیاب ہوا ہے۔
اس کے بعد زخم پر ایک مرہم لگا دی جاتی ہے، کپاس کا ایک ٹکڑا دانت کی جگہ پر رکھ دیا جاتا ہے اور یوں پل بھر میں چند روپوں کے عوض وہ ڈاکٹری مکمل ہو جاتی ہے جو کسی لمبی سی کرسی پر لیٹ کر چمکتے اوزاروں اور سفید ڈاکٹری کوٹ میں ملبوس ڈاکٹر صاحب کو ہزاروں کی فیس کے عوض کی جاتی ہے۔ دونوں میں ایک دانت ہی نکالا جاتا ہے ،کوئی امیر دانت چیخ کے بغیر سن کر دینے والے ٹیکوں کے ذریعے اور کوئی غریب دانت چیختے بلبلاتے مریض کی کمزور جیب کے ذریعے۔ پرواز دونوں کی اسی ایک جہاں میں ہوتی ہے ،کوئی پرواز کرگس کی اور کوئی شاہین کی۔
اس ساری تمہید اور کہانی کی وجہ یہ ہے کہ میرے منہ میں سے ایک اور دانت نکل گیا ہے جو ڈاکٹر نے ٹوکری میں یا پرے زمین پر نہیں پھینکا، مجھے ایک لفافے میں بند کر کے دے دیا ہے۔ نئی ڈاکٹری یہ ہے کہ جب نیا دانت بنانا ہو تو اس میں پرانے قدرتی دانت کا میٹریل لگایا جائے۔
اس پرانے دانت کو میرے حوالے کرنے کا فلسفہ یہی تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے میری عقل داڑھ بچالی، ایک فضول اور ازکار رفتہ چیز جو اگرچہ پہلے ہی محدود تھی لیکن پھر بھی کبھی کبھار استعمال کر لی جاتی تھی مگر اب جو حالات زمانہ ہیں ان میں اگر کسی چیز کی ضرورت نہیں تو وہ عقل کی ہے۔ میں دیکھتا ہوں ہم سب دیکھتے ہیں کہ عقل کی جگہ دولت کیا کیا کرشمے دکھا رہی ہے کہ اسے دیکھ کر عقل حیران و پریشان ہے۔
آپ کسی بھی بڑے سے بڑے مقام تک پہنچ جاتے ہیں کہ عقل یہ سب دیکھ کر محوِ تماشائے لب بام رہ جاتی ہے۔ ان دنوں اس مملکت خداداد میں ایسی کئی زندہ مثالیں موجود ہیں جن کے حضور عقل پانی بھرتی ہے اور بڑے بڑے افلاطون ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرتے ہیں۔ جنوبی ایشیا کے مسلمانوں نے اپنی جس ایمانی قوت کے بل بوتے پر یہ ملک بنایا تھا بلکہ عدم سے وجود میں لا کر جس نئے ملک کی بنیاد رکھی تھی اور اس معجزے سے دنیا کو اور اس کی تاریخ کو حیران کر دیا تھا، آج اس ملک میں سب سے عام اور سستی شے یہ عقل اور ایمان ہے جسے ایک حماقت سمجھا جاتا ہے۔
ایسے ملک میں اگر کسی چیز کی ضرورت نہیں تو وہ عقل داڑھ ہے لیکن افسوس کہ میرے ڈاکٹر کو ضد ہے کہ تمہاری عقل داڑھ بیمار نہیں ہے یعنی طبی معیار کے مطابق یہ صحت مند ہے۔ اس کی صحت اور بیماری کا کوئی اور معیار ہے تو اسے تم خود ہی طے کر لو اور کسی ریلوے اسٹیشن کے باہر بیٹھے ڈاکٹر کی مدد سے اسے نکلوا دو لیکن دانتوں میں عقل داڑھ سب سے زیادہ مضبوط ہوتی ہے چنانچہ درد بھی زیادہ ہوتا ہے۔