جال جو بچھا دیے گئے
مسئلہ قدم قدم پر اس موت بلکہ اموات کا ہے جنھیں چیک پوسٹ اور قانون نافذ کرنے والوں کا ’’قانون نافذ‘‘ کرنا کہتے ہیں۔
وہ دن تو اب لد گئے جب خلیل خان فاختہ اڑایا کرتے تھے اور ہم خود کو اڑا کر شہر جایا کرتے تھے بلکہ اب تو ہم اکثر حسرت سے یہ گاتے رہتے ہیں کہ
اس دشت میں اک شہر تھا وہ کیا ہوا آوارگی
واقعی جہاں ''دشت'' میں پشاور نام کا ایک شہر تھا، وہاں اب شہر میں اک ''دشت'' ہے اور دشت بھی ایسا کہ قدم قدم پر شکاری، چپے چپے پر درندے اور گام گام، دام اور جال ہیں۔
وہ بھی کیا دن تھے جب ہماری نیند اس خوشی سے اڑ جاتی تھی کہ صبح شہر جائیں گے، کھائیں گے، پیئں گے، گائیں گے اور عیش کریں گے ۔۔۔ لیکن اب اس خیال سے نیند اڑ جاتی ہے کہ صبح پھر شہر جانا پڑے گا اور ایک مرتبہ پھر نہ جانے کتنی مرتبہ مریں گے اور رسوا ہوں گے۔
کبھی کبھی تو ہمیں خیال آتا ہے کہ کہیں ہم گیدڑ تو نہیں ہو گئے ہیں کیوں کہ کہاوت تو یہ تھی کہ جب گیدڑ کی موت آتی ہے تو وہ شہر کی طرف جاتا ہے اور اب یہی معاملہ ہمارے ساتھ ہے۔ لیکن اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ ہم شہر میں دھماکوں اور دوسرے خطرات سے ڈر کر یہ کہہ رہے ہیں تو آپ غلط سوچ رہے ہیں۔ موت کا ایک دن معین ہے۔
مسئلہ قدم قدم پر اس موت بلکہ اموات کا ہے جنھیں چیک پوسٹ اور قانون نافذ کرنے والوں کا ''قانون نافذ'' کرنا کہتے ہیں۔ چنانچہ اپنے اوپر بہت زیادہ قانون نافذ کرانے کے بعد، اب ہم نے شہر جانا ہی چھوڑ دیا ہے اور اپنی معلومات کا ذریعہ صرف اخبارات ہی رہ گئے ہیں۔ یہ ایک اخباری اطلاع ہی ہے کہ صوبے میں کالجوں کا جال بچھا دیا گیا ہے۔
حیرت ہوئی اب تک تو ہم نے صرف ملک میں جیلوں کا جال اور ملک میں سڑکوں کا جال بچھتے ''سنا'' تھا۔ ''سنا'' اس لیے کہ ایسا کوئی جال ہم نے بچشم خود نہیں دیکھا تھا۔ حتیٰ کہ جب بھٹو صاحب نے عوامی راج کا اتنا بڑا جال بچھایا اور ضیاء نے اسلام کا جال مدرسہ مدرسہ پھیلایا تب بھی ہم نے کوئی جال نہیں دیکھا۔ ہمیں تو اپنی بینائی پر شک ہونے لگا تھا۔
لیکن پھر ایک دانشور نے بتایا کہ وہ جال ہی کیا جو نظر آئے۔ اگر جال دکھائی دے تو پرندے پُھر کر کے اڑیں گے۔ اس لیے جال ہمیشہ ان دیکھا یعنی ''اِن ویزیبل'' ہمرنگ زمین ہوتا ہے۔ یقیناً ایسا ہی ہو گا۔ لیکن ضروری نہیں کہ ہر جال دکھائی نہ دے۔ ابھی ابھی ہم نے آپ کو ''سڑکوں'' پر اور پھر ''گاڑیوں'' پر اور پھر ''افراد'' پر اور پھر ''جیبوں'' پر قانون نافذ کرنے والوں کا ذکر کیا ہے۔
وہ بھی تو ایک جال ہی ہے اور اتنا باریک ہے کہ مچھر تک اس میں سے اپنے آپ پر قانون نافذ کرائے بغیر نہیں نکل سکتے۔ ہاں ہاتھی، گینڈے اور بھینسے وغیرہ نکل جاتے ہیں۔ لیکن قانون میں یہ لکھا ہے کہ مچھر بھی نہ گزرے، یہ بالکل بھی نہیں لکھا ہے کہ ہاتھی، بھینسے اور گینڈے، بیل بھی نہ گزریں۔ مطلب یہ کہ موٹر سائیکل پر ڈبل سواری ممنوع ہے۔ تین یا چار آدمی بے غم ہو کر بیٹھ سکتے ہیں۔
ہمارے لیے اب دہری پریشانی یہ ہو گئی ہے کہ اس نئے ''جال'' یعنی بقول حکومت کے پی کے ''کالجوں کا جال'' کا تعلق بھی سڑکوں سے ہے۔ اور ہم تم یعنی سب کا سڑکوں کے بغیر گزارہ نہیں ہوتا بلکہ یوں کہیے کہ ہم تو لوگ ہی سڑکوں کے ہیں۔
ایسے میں ذرا تصور کی آنکھ کھولیے کہ جب آپ ابھی ''قانون نافذ کرنے والوں'' کے چنگل سے نکل کر سانس بھی نہیں لے پائے ہوں گے کہ سامنے دوسرے جال یعنی ''کالج'' کا اسٹاپ دکھائی دے گا جس کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ لڑکے بیچ سڑک پر کھڑے ہوتے ہیں۔
ایک مرتبہ ہم چشم گل چشم کے ساتھ ایک بس میں سفر کر رہے تھے۔ حیران ہونے کی ضرورت نہیں کبھی کبھی قسمت انسان کو کسی بلٹیریر کے ساتھ ایک بوری میں بند کر دیتی ہے۔ چشم گل چشم عرف قہر خداوندی کے ساتھ بھی ایک ہی بس میں سفر کرنا ایسا ہی ہوتا ہے جیسے آپ کو کسی خونخوار بل ٹیریئر کے ساتھ ایک کمرے میں بند کر دیا جائے اور چابی کہیں دور پھینک دی جائے۔
راستے بھر اس کے جو اتیاچار ہم پر جاری رہے وہ تو الگ لیکن دونوں طرح کے جال بھی اس سڑک پر بچھے ہوئے تھے۔ قانون نافذ کرنے والوں سے چھوٹتے تو کالج والوں کے ہتھے چڑھتے یا یوں کہیے کہ قانون نافذ کرنے والے ہم پر جو ''قانون نافذ'' کرتے ابھی اس کا آفٹر شاک ختم بھی نہیں ہوتا تھا کہ کسی کالج کا اسٹاپ آ جاتا کیوں کہ حکومت نے کالجوں کا جال نہ صرف کچھ زیادہ ہی تنگ بنایا ہوا ہے بلکہ سارا جال سڑکوں ہی کے کنارے لگایا ہوا ہے۔
جو تھوڑی بہت خالی جگہ بچی ہوئی تھی وہاں پر پرائیویٹ اسکول، کالج اور اکیڈمیاں اور یونیورسٹیاں تعلیمی اسٹال لگائے ہوئے ہیں۔ بس اس جال در جال سڑک پر چل رہی تھی۔ پشاور شہر تک کوئی بیس کلو میٹر میں ہم نے آٹھ دس ''جال'' بھگتائے ۔۔۔ تو قہر خداوندی بول پڑا ،اس وقت بس ایک کالج اسٹاپ پر کھڑی ہوئی تھی اور سفید لباس میں ملبوس قوم کا مستقبل ۔۔۔۔ بس کے دروازوں، کھڑکیوں، شیشوں اور چھت پر اپنی لٹریسی نافذ کر رہا تھا۔ قہر خداوندی بولا ،یہ حکومت ان کالجوں کے لیے عمارتیں کیوں نہیں تعمیر کرتی؟ ہم نے کہا عمارتیں تو سب کی ہوتی ہیں۔
ہم نے گویا اسے سمجھانے کے لیے کہا تو وہ ترنت بولا تو پھر یہ لڑکے سڑکوں پر کیوں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ہم نے اس کے منحوس چہرے کی طرف دیکھا اور اس پر چہرے سے بھی زیادہ منحوس بلکہ مکروہ مسکراہٹ دیکھ کر اچانک ادراک ہوا کہ اس کی باتوں میں کچھ اور بھی ہے۔ کھل کر بولتے ہوئے کہا، میں نے تو جب بھی دیکھا ہے، ان لڑکوں کو بس اسٹاپوں پر ہی دیکھا ہے۔
دن کے ہر حصے میں اور وقت کے ہر گھنٹے میں کبھی یہ اسٹاپ خالی نہیں ہوتے۔ سڑک کے بیچوں بیچ کھڑے ہو کر یہ لوگ ''تعلیم'' حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔ تب ہماری سمجھ میں آیا کہ منحوس قہر خداوندی کا اصل مدعا کیا ہے؟ اور سمجھ میں آنے کے بعد ہم بھی سوچنے لگے کہ واقعی یہ لڑکے تو ہمیشہ سڑکوں پر یا اسٹاپ پر یا بس کے اندر اور اوپر دکھائی دیتے ہیں۔
کبھی کبھی اپنی تعلیم کا پریکٹیکل کرنے کے لیے بسوں کے شیشوں کی مضبوطی بھی دیکھتے ہیں کہ پتھروں سے ٹوٹتے ہیں یا شیشے سے پتھر کو توڑتے ہیں۔ اس دن سے ہمیں مکمل طور پر یقین ہو گیا کہ ملک میں حکومت نے واقعی جال ہی جال بچھا دیے ہیں۔ تب سے اب تک گھونسلے ہی میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ کون ان دہرے تہرے جالوں کا سامنا کر سکتا ہے۔
ان دونوں جالوں کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ دونوں کو اگر کسی پر ذرا بھی شریف آدمی کا شبہ ہوتا ہے تو پھر اس کا جو حشر ہوتا ہے وہ ہر شریف آدمی کو معلوم ہے۔ ہاں جو ذرا خطرناک دکھائی دیتا ہے، اسے دیکھ کر فوراً دوسری طرف دیکھنے لگتے ہیں۔ خصوصاً قانون نافذ کرنے والوں کو تو نہ جانے کیسے پتہ چل جاتا ہے، شاید تجربے نے سکھا دیا ہو کہ کون آدمی ''شرافت'' کا مرتکب ہو رہا ہے پھر اس کے اوپر جی بھر کے قانون نافذ کرتے ہیں۔ جب کہ کالجوں والے اس پر تعلیم کا بھرپور نفاذ کرتے ہیں۔ اکبر الہ آبادی نے کیا خوب کہا تھا
یوں قتل پہ بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی