صحت مند رہنا ہے تو پتھر کے دور کی خوراک کھائیں
قدیم طرز زندگی کے حامل افراد بلند فشار خون اور شریانوں کے سکڑنے جیسی بیماریوں میں مبتلا نہیں ہوتے، ماہرین کی تحقیق
زیرنظر مضمون معروف جریدے ''نیشنل جیوگرافک'' اگست 2014ء کی اشاعت میں شامل ہے۔ مضمون نگار نے قدیم و جدید خوراک کے بارے میں مختلف محقیقین کی رائے اور ان کی تحقیق پیش کرتے ہوئے انسان کی صحت اور اس کی خوراک کے مابین تعلق واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔
امیزون کے پس ماندہ ملک بولیویا میں یہ شام کے کھانے کا وقت ہے۔ اینا کواٹا میٹو پرال کی چھت والی جھونپڑی کے دروازے کے ساتھ ہی بنائے گئے چولھے پر رکھی ہانڈی میں چمچمہ چلا رہی ہے۔ ہانڈی کے اندر کھولتے ہوئے پانی میں کیلے اور شکرقندی نما ایک سبزی ( manioc ) اُبل رہی ہے۔ اینا کے کان اپنے شوہر، ڈیونیشیا نیٹ کی طرف بھی لگے ہوئے ہیں جو ابھی ابھی جنگل سے اپنے لاغر کتے کے ساتھ لوٹا ہے۔
سیاہ فام عورت کی شیرخوار بیٹی اس کی چھاتی سے لگی شکم سیری میں مصروف ہے، جب کہ سات سالہ ننگ دھڑنگ بیٹا ہر چند لمحے کے بعد اپنی ماں کا بازو کھینچ کر اس سے کچھ کہنے کی کوشش کرتا ہے۔ اینا کی پُرامید نگاہیں شوہر کی جانب اٹھتی ہیں مگر اس کے خالی ہاتھ دیکھ کر آنکھوں کی چمک ماند پڑجاتی ہے اور چہرے پر مایوسی کی دبیز چادر پھیل جاتی ہے۔ اینا نے ایک ہاتھ سے مچھر اڑاتے ہوئے شکستہ لہجے میں مجھے بتایا کہ جب گوشت نہ ہو تو بچے اداس ہوجاتے ہیں، مجھے امید تھی کہ میرا شوہر کوئی شکار لے کر آئے گا۔ میرا ترجمان سیاہ فام عورت کے خیالات بڑی مہارت سے میرے کانوں میں منتقل کررہا تھا۔
جنوری کی اس چمکیلی صبح کو نیٹ اپنی رائفل اور خنجر لے کر گھنے جنگلات کی طرف گیا تھا۔ اس کی نگاہیں بندر اور گوشت خور جانور، کواٹی کی متلاشی تھیں جب کہ اس کا کتا بھی زمین پر سور نما جانور (peccary) کی بُو سونگھنے کی کوشش میں تھا۔ قسمت دونوں شکاریوں پر مہربان نہیں ہوئی، اور انھیں خالی ہاتھ لوٹنا پڑا۔
انتالیس سال کی عمر میں بھی نیٹ چاق چوبند اور پُرعزم ہے۔ تاہم جب وہ ایک دھاتی پیالے میں دلیہ لے کر کھانے کے لیے بیٹھتا ہے تو حرف شکایت اس کی زبان پر بھی آ جاتا ہے۔ نیٹ کا کہنا ہے کہ اہل خانہ کی ضرورت کے مطابق گوشت کا حصول اب مشکل ہوگیا ہے۔ اس کا گھرانا دو بیویوں اور بارہ بچوں پر مشتمل ہے۔ ایک سے زائد بیویاں رکھنا اس قبیلے میں عام رواج ہے۔ نیٹ کا کہنا ہے کہ لکڑہاروں کی وجہ سے جانور خوف زدہ ہوکر دوردراز حصوں کی طرف نکل گئے ہیں، اور وہ دریا میں جاکر مچھلی کا شکار کرنے سے بھی قاصر ہے کیوں کہ طوفان اس کا ڈونگا ( چھوٹی کشتی ) بہا لے گیا تھا۔
ہم اس وقت اناچیری کے قبیلے میں ہیں۔ یہاں میں نے کئی گھروں کا دورہ کیا تھا اور ہر ایک کی کہانی کم و بیش یہی تھی۔ اناچیری دراصل قدیم ریڈانڈین قبیلے سیمانے ( Tsimane ) کی شاخ ہے جس کے اراکین کی تعداد محض 90 کے آس پاس رہ گئی ہے۔ یہ برسات کا موسم ہے جب شکار کرنا یا مچھلیاں پکڑنا ازحد دشوار ہوتا ہے۔ دریائے امیزون کے طاس کے علاقے میں لاپاز سے 225 میل کی دوری پر سان بورجا نامی قصبہ ہے۔
اس قصبے کے اطراف دو دریاؤں کے کناروں پر، سو سے زاید دیہات میں 15000 کے لگ بھگ سیمانے رہتے ہیں۔ تاہم اناچیری سان بورجا سے دو دن کی مسافت پر ہے، اور یہ مسافت بھی موٹر سے چلنے والی کشتی میں طے کرنی پڑتی ہے۔ اس قدر دوری پر واقع ہونے کی وجہ سے، حصول خوراک کے لیے اناچیری میں رہنے والے سیمانوں کا انحصار جنگل، دریا یا پھر اپنے باغیچوں میں اُگنے والی سبزیوں پر ہوتا ہے۔
میں ایشر روزنگر کے ساتھ محوسفر ہوں، وہ پی ایچ ڈی کا طالب علم اور ہماری ٹیم کا رُکن ہے۔ نارتھ ویسٹرن یورنی ورسٹی کا ماہربشریات وحیاتیات ولیم لیونارڈ اس ٹیم کا مشترکہ سربراہ ہے۔ روزنگر اور لیونارڈ کا مشترکہ مقصد سیمانے قبائل پر تحقیق کرتے ہوئے یہ جاننا ہے کہ بارانی جنگل میں ملنے والی خوراک کس طرح کی ہوتی ہے۔ وہ خاص طور پر یہ جاننے میں دل چسپی رکھتے ہیں روایتی خوراک اور طرز زندگی ترک کرکے شکر، نمک، چاول، تیل، خشک گوشت اور ڈبّا بند مچھلیوں پر صاد کرنے سے ان انڈین قبائلیوں کی عمومی صحت میں کیا تبدیلیاں رونما ہوئی ہے۔ یہ خالصتاً علمی تحقیق نہیں ہے۔ سیمانے جیسے قدیم قبائلیوں کی خوراک پر ان ماہرین بشریات کی تحقیق یہ بھی واضح کرسکتی ہے کہ باقی دنیا کے لوگوں کو کیا کھانا چاہیے۔
روزنگر نے میرا تعارف جوز میئر کنے نام کے ایک بوڑھے دیہاتی سے کروایا۔ اس نے اپنے بیٹے فلیپی میئر لیرو کے ساتھ مل کر تیس برس پہلے دریا کے کنارے ایک باغ لگایا گیا تھا جو آج بھی ہرا بھرا ہے۔ ہم جوز کی ہمراہی میں باغ میں سے گزر رہے تھے جس میں آم، پپیتے، کیلے اور سنگترے کے درخت تھے۔ بیشتر درختوں پر پھل لگے ہوئے تھے۔ ہیلی کونیا کے سرخ خوش نما پھول کھلے ہوئے تھے، جب کہ مکئی اور گنے کے پودوں کے درمیان جنگلی ادرک بھی جڑی بوٹیوں کے مانند اُگی ہوئی تھی۔
روزنگر نے بتایا کہ جوز کا باغ اس علاقے کا سب سے بڑا باغ ہے۔ اس لحاظ سے ان کی مالی حالت بھی بہتر ہونے کی توقع کی جاسکتی تھی، مگر انتالیس سالہ فلیپی کی بیوی کیٹالینا، اپنی جھونپڑی کے باہر اسی طرح کا دلیہ تیار کررہی ہے جو ہمیں دوسرے گھروں میں نظر آیا تھا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ گوشت دستیاب نہ ہونے کی صورت میں کیا باغ سے ان کی غذائی ضروریات بہ آسانی پوری ہوجاتی ہیں؟ اس پر فلیپی نے جواب دیا،''باغ پر گزارہ نہیں ہوسکتا۔ مچھلی اور جانوروں کا شکار کرنا ضروری ہے۔ ہم صرف پودے کھاکر زندہ نہیں رہنا چاہتے۔ ہمارا پیٹ گوشت کا بھی طالب ہوتا ہے۔''
اگر ہم 2050ء کو ذہن میں لائیں جب مزید دو ارب نفوس کو خوراک فراہم کرنا ہوگی تو اس سوال کا جلد جواب تلاش کرنا ازحد ضروری ہوجاتا ہے کہ ہمارے لیے کون سی خوراک بہترین ہے۔ آنے والے عشروں میں خوراک کا انتخاب پودوں پر ڈرامائی حد تک پیچیدہ اثرات مرتب کرے گا۔ مثال کے طور پر گوشت اور ڈیری کی مصنوعات پر مشتمل خوراک کے استعمال میں اضافے سے (ترقی پذیر دنیا میں یہ رجحان پہلے ہی وسعت پذیر ہے) غلّے، پھل اور سبزیوں پر بڑھتے انحصار کی نسبت عالمی وسائل پر زیادہ بوجھ پڑے گا۔
دس ہزار برس قبل زراعت کے آغاز سے پہلے تمام انسان شکار، (کھانے کے لیے پھل اور دیگر اشیاء) اکٹھا کرنے، اور ماہی گیری کے ذریعے خوراک حاصل کرتے تھے۔ کاشت کاری کے وسعت اختیار کرنے کے بعد خانہ بدوش شکاریوں اور نباتات پر گزارہ کرنے والوں کو قابل کاشت زمینیں چھوڑ کر امیزون کے جنگلات، افریقا کی بنجر چراگاہوں، جنوب مشرقی ایشیا کے دور افتادہ جزائر، اور قطب شمالی کے بے شجر میدانوں (ٹنڈرا) تک محدود ہوجانے پر مجبور کردیا گیا۔ آج دنیا میں، جانوروں کے شکار اور نباتات پر زندہ رہنے والوں کے چند ہی قبیلے باقی بچے ہیں۔
اس سے پہلے کہ یہ قبائل تاریخ کا حصہ بن جائیں، سائنس داں ان کے طرز زندگی اور خوراک کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کی کوشش کررہے ہیں۔ ایلیسا کریٹینڈن لاس ویگاس میں قائم یونی ورسٹی آف نیواڈا سے وابستہ ماہربشریات و غذائیت ہے۔ وہ تنزانیہ کے Hadza قبیلے کی خوراک پر تحقیق کر رہی ہے۔ ایلیسا کا کہنا ہے،''شکار اور پودوں پر گزارہ کرنے والے یہ لوگ 'زندہ رکاز' (لیونگ فوسل) نہیں ہیں جیسا کہ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے۔ کرۂ ارض پر ان لوگوں کی آبادی بہت کم رہ گئی ہے۔ ہمارے پاس اب محدود وقت ہے۔ اگر ہم ان خانہ بدوشوں کے طرز زندگی کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں ان کی خوراک پر فوری توجہ دینی ہوگی۔''
سیمانے، اینوٹااور ہادزا قبائل پر اب تک کی گئی تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ لوگ عام طور پر بلند فشار خون، شریانوں کا سکڑجانا جیسی بیماریوں اور دل کے امراض میں مبتلا نہیں ہوتے۔ آرکنساس یونی ورسٹی کے انسانی رکازیات کے مطالعے کے ماہر (paleoanthropologist ) پیٹر اُنگر کے مطابق بہت سے لوگوں کو یقین ہے کہ ہماری اور ہمارے قدیم آباء واجداد کی غذاؤں میں عدم موافقت پائی جاتی ہے۔
یہ تصور کہ فاسٹ فوڈ کی موجودہ دنیا میں بھی ہمارے جسم دراصل پتھر کے زمانے کی خوراک کے لیے موزوں ہیں، قدیم غذا سے استفادہ کرنے کے نئے رجحان کو مہمیز کر رہا ہے۔ حجری دور کی انسانی خوراک کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا سبب یہ تصور ہے کہ ارتقائی مراحل طے کرنے کے باوجود انسان کو وہی خوراک کھانی چاہیے جو پتھر کے زمانے میں ( 26 لاکھ سال پہلے زراعت کے جنم سے قبل کا زمانہ) اس کے آباء و اجداد کھایا کرتے تھے، نیز یہ کہ ہمارے جینز کو اتنا وقت نہیں ملا کہ وہ کاشت کاری کے ذریعے حاصل ہونے والی سبزیوں، پھلوں اور اناج کو قبول کرنے کے قابل ہوجاتے۔
کولوراڈو اسٹیٹ یونی ورسٹی کے انقلابی ماہرغذائیت لورین کورڈین نے اپنی کتاب The Paleo Diet میں لکھا ہے،''حجری دور کے انسانوں کی خوراک ہی ہماری جینیاتی ساخت سے کُلی مطابقت رکھتی ہے۔'' ان قبائل کی خوراک پر تحقیق اور یہ نتیجہ اخذ کرنے کے بعد کہ ان کی 73 فی صد سے زاید آبادی نصف سے زاید کیلوریز (حرارے) گوشت سے حاصل کرتی ہیں، کورڈین نے اپنا غذائی چارٹ وضع کیا: چربی سے پاک گوشت اور مچھلی زیادہ مقدار میں کھائیں، مگر ڈیری کی مصنوعات، پھلیوں، یا دلیہ اور اناج سے پرہیز کریں۔ دوسرے معنوں میں ان غذائی اشیاء سے دور رہیں جو پکانے کے عمل اور زراعت کی دریافت کے بعد ہماری خوراک کا حصہ بنی ہیں۔ کورڈین کا کہنا ہے اگر ہم حجری دور کی خوراک استعمال کریں تو مہذب دور کے امراض جیسے دل کے عارضوں، بلند فشار خون، ذیابیطس، سرطان یہاں تک کہ کیل مہاسوں سے بھی محفوظ ر ہ سکتے ہیں۔
یہ بڑی خوش کن بات لگتی ہے، مگر کیا یہ درست ہے کہ ہم گوشت پر مبنی خوراک ہی کھانے کے لیے ارتقائی مراحل طے کرتے ہوئے یہاں تک پہنچے ہیں؟ ہمارے آباء واجداد کے رکازوں پر تحقیق کرنے والے دونوں ماہرین رکازیات اور قبائلیوں کی خوراک کا مطالعہ کرنے والے ماہرینِ بشریات کہتے ہیں کہ صورت حال قدرے پیچیدہ ہے۔ انگر اور دیگر کا کہنا ہے کہPaleo diet سے متعلق عام تصور کئی غلط فہمیوں پر مبنی ہے۔ انسانی خوراک کے ارتقا میں گوشت کا کردار کلیدی رہا ہے۔
ریمنڈ ڈارٹ نے 1924ء میں افریقا میں پہلا انسانی رکاز دریافت کیا تھا۔ ریمنڈ نے یہ تصور عام کیا کہ ہمارے اجداد افریقی سبزہ زاروں میں زندہ رہنے کے لیے جانوروں کا شکار کیا کرتے تھے۔ 1950ء کی دہائی کے دوران اپنی تحریروں میں اس نے قدیم دور کے انسانوں کے بارے میں لکھا تھا،''یہ گوشت خور تھے۔ وہ شکار کو پکڑتے تھے اور پھر مختلف طریقوں سے اسے ہلاک کردیتے تھے۔۔۔ وہ اس کے خون سے اپنی پیاس بجھاتے تھے اور وحشیوں کی طرح گوشت کے پارچے نگل جاتے تھے۔''
کچھ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ بیس لاکھ سال قبل ہمارے اجداد کے بڑے دماغوں کے ارتقا میں گوشت کا کلیدی کردار رہا ہے۔ نباتات پر مبنی غذا کے بجائے کیلوریز سے بھرپور گوشت اور ہڈی کے گودے کو خوراک بنانے کے سبب ہمارے براہ راست آباء واجداد ( Homo erectus ) کو اضافی توانائی حاصل ہوتی رہی جس کی وجہ سے ان کے دماغ کی جسامت میں بہ تدریج اضافہ ہوتا چلا گیا۔ گوشت کی زاید اور ریشے دار نباتاتی غذا کی کم مقدار ہضم کرتے رہنے کی وجہ سے ان انسانوں کی آنتیں بھی چھوٹی ہوگئی ہوں گی۔ لیزلی ایلو نے ماہرانسانی رکازیات پیٹر وہیلر کے ساتھ مل کر پہلی بار یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ آنتوں کے چھوٹا ہونے کی وجہ سے بچ رہنے والی اضافی توانائی دماغ کو منتقل ہوتی رہی ہوگی۔
آرام کی حالت میں دماغ کو انسان کی مجموعی توانائی کا 20 فی صد درکار ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں بوزنوں (بے دم کے جانور مثلاً بن مانس) کا دماغ آٹھ فی صد توانائی کا طالب ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہومو ایریکٹس کے زمانے سے انسانی جسم زیادہ توانائی کی حامل خوراک بالخصوص گوشت پر انحصار کرتا چلا آرہا ہے۔
بیس لاکھ سال قبل زراعت کی ایجاد کے ساتھ ہی انسانی خوراک نے ایک اور اہم موڑ لیا۔ انسان نے جوار، جَو، گندم، مکئی، اور چاول جیسے غلّوں کی کاشت سے وافر مقدار میں اور قابل پیش گوئی خوراک کی رسد کو ممکن بنایا۔ ان غذاؤں کے عام ہوجانے کے بعد کاشت کاروں کی بیویاں تیزی سے بچے پیدا کرنے لگیں۔ اب وہ اوسطاً ڈھائی سال کے بعد بچہ جننے لگیں جب کہ قدیم قبائل میں دو حمل کا درمیانی عرصہ ساڑھے تین سال تھا۔
اس کے نتیجے میں کاشت کاروں کی آبادی تیزی سے بڑھنے لگی اور بہت زیادہ عرصہ گزرنے سے پہلے ہی ان کی آبادی جانوروں کے شکار اور جنگلات سے حاصل ہونے والی خوراک پر زندہ رہنے والوں (خانہ بدوشوں) کی آبادی سے بڑھ گئی۔
پچھلے ایک عشرے کے دوران ماہرین بشریات اس تغیر کے بارے میں ان بنیادی سوالات کے جواب کھوجتے رہے ہیں: کیا زراعت انسانی صحت کی بہتری کا آغاز تھی؟ یا اپنے اجداد کی خوراک سے کنارہ کش ہوکر کاشت کاری اور گلہ بانی کو اپناکر ہم نے فوڈ سیکیوریٹی کے نام پر صحت بخش غذا اور طاقت وَر جسموں سے منہ موڑ لیا؟
اوہایو اسٹیٹ یونی ورسٹی کا ماہربشریات و حیاتیات کلارک اسپنسر لارسن جب زراعت کے عروج کا احوال بیان کرتا ہے تو ایک خوف ناک تصویر سامنے آتی ہے۔ جب بالکل ابتدائی کاشت کار کُلی طور پر فصلوں پر انحصار کرنے لگے تو ان کی خوراک، خانہ بدوشوں کی خوراک کے مقابلے میں غذائی نقطۂ نظر سے کم متنوع ہوگئی۔ روزانہ ایک ہی قسم کا غلّہ کھانے کے نتیجے میں وہ دانتوں کے مختلف امراض کا شکار ہوگئے جو کہ قبائلیوں میں شاذ ہی نظر آتے تھے۔ جب کاشت کاروں نے گلہ بانی شروع کی تو گائیں، بھینسیں، بھیڑ اور بکریاں ان کے لیے دودھ اور گوشت کی فراہمی کا ذریعہ بن گئیں۔ مگر ان مویشیوں کی وجہ سے وہ متعدی امراض کا شکار بھی ہونے لگے۔ کاشت کاروں کے جسم میں فولاد کی کمی واقع ہونے سے ان کی نشوونما متاثر ہوئی اور ہر آنے والی نسل کی جسامت مختصر ہونے لگی۔
تعداد میں اضافے کے باوجود کاشت کاروں کا طرز زندگی اور خوراک واضح طور پر قبائلیوں کی طرح صحت بخش نہیں تھی۔ لارسن کے مطابق کاشت کاروں کا کثیرالعیال ہونا اس امر کا مظہر تھا کہ ' افزائش نسل کے لیے آپ کا بیماریوں سے پاک ہونا ضروری نہیں۔''
بہرحال حقیقی حجری دور کی خوراک صرف گوشت اور گودے پر مشتمل نہیں تھی۔ یہ سچ ہے کہ دنیا بھر کے خانہ بدوش کسی بھی غذا سے زیادہ گوشت کے طلب گار ہوتے ہیں ، اور عام طور پر اپنی سالانہ 30فی صد کیلوریز جانوروں سے حاصل کرتے ہیں۔ مگر بیشتر کو ایسے وقت سے بھی گزرنا پڑتا ہے جب انھیں ہفتے میں مٹھی بھر گوشت ہی دست یاب ہوپاتا ہے۔ نئی تحقیق ظاہر کرتی ہیں کہ قدیم انسان کی خوراک میں گوشت پر زیادہ انحصار دماغ کی جسامت میں اضافے کا سبب بنا۔
ایک سال پر مشتمل مشاہدہ ظاہر کرتا ہے یہ قبائلی اور خانہ بدوش اچھے شکاری نہیں ہوتے۔ مثال کے طور پر افریقا کے ہادزا اور کُنگ قبائل کے شکاری اس عرصے میں جتنی بار تیرکمان لے کر شکار کے لیے نکلے تو نصف سے زاید بار ناکامی ان کے حصے میں آئی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے آباء و اجداد کے لیے شکار کرنا کس قدر مشکل تھا جنھیں اُس زمانے میں تیر کمان جیسے ہتھیار میسر نہیں تھے۔ بحرمنجمد شمالی جیسے برفانی علاقوں میں رہنے والوں سے زیادہ گوشت کوئی نہیں کھاتا جواپنی کیلوریز کا 99 فی صد سیل، ناروھیل اور مچھلیوں سے حاصل کرتے ہیں۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ گوشت کی عدم دست یابی کی صورت میں قبائلی توانائی کہاں سے حاصل کرتے ہیں؟ اس موقع پر خاتون خانہ کام آتی ہے۔ جب گوشت، پھل یا شہد کم یاب ہوتا ہے تو گھر کے افراد اس خوراک پر انحصار کرتے ہیں جو خاتون خانہ اور بچوں نے مل کر پھلیوں کی صورت میں جمع کررکھی ہوتی ہے۔ ہادزا قبائل درکار کیلوریز کا 70 فی صد پودوں سے حاصل کرتے ہیں۔ کُنگ قبیلے کے افراد روایتی طور پر بصلے اور mongongo کے بیجوں یا گٹھلیوں پر گزارہ کرتے ہیں۔ دریائے کانگو کے طاس میں آباد پستہ قد آکا اور باکا قبائل رتالُو، اور امیزون میں آباد سیمانے اور یانومامی قبائل کچے کیلے اور کساوا (شکرقندی سے مشابہ پھل ) ، اور آسٹریلیا کے Aboriginals جڑی بوٹیوں، اور آبی اخروٹ ( water chestnut ) پر انحصار کرتے ہیں۔
لائپزش میں قائم میکس پلانک انسٹیٹیوٹ فار ایولوشنری اینتھروپولوجی سے وابستہ ماہررکازی حیاتیات ایمینڈا ہینری کہتی ہیں کہ شکاریات کے بارے میں ایک مستقل کہانی چلی آرہی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ گوشت نے ہمیں انسان بنایا ہے، مگر میرے خیال میں یہ کہانی کا ایک رُخ ہے۔ ایمینڈا کے مطابق قدیم انسان یقیناً گوشت کا دل دادہ تھا، مگر درحقیقت وہ نباتاتی خوراک پر زندہ رہتا تھا۔ ایمینڈا نے قدیم انسان کے دانتوں کے رکازوں پر نشاستے کی علامات دریافت کی تھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اسے سنگی اوزار بھی ملے جن سے اندازہ ہوتا تھا کہ انسان، کم از کم ایک لاکھ سال سے اناج بھی کھاتا آرہا ہے۔ اس طویل عرصے کے دوران یقینی طور پر اس کے جسم میں انھیں برداشت کرلینے کی خاصیت بھی پیدا ہوگئی ہوگی۔
یہ تصور درست نہیں ہے کہ حجری دور میں انسان کا جسمانی ارتقا رُک گیا تھا۔ زراعت کی دریافت کے بعد ہمارے دانت، جبڑے اور چہرے چھوٹے ہوتے چلے گئے اور ہمارے ڈی این اے میں بھی تغیرات رونما ہوئے۔ تو کیا انسان جسمانی طور پر ہنوز ارتقائی مراحل طے کررہا ہے؟ پنسلوانیا یونی ورسٹی میں جینیات کی ماہر سارہ ٹشکوف اس سوال کا جواب اثبات میں دیتی ہیں۔
اس سلسلے میں لیکٹوس کو ہضم کرنے کا عمل اہم ثبوت ہے۔ تمام بچے شیرخوارگی کے زمانے میں اپنی ماں کا دودھ پیتے اور ہضم کرتے ہیں۔ تاہم دس ہزار سال پہلے تک انسان صرف ماں کا دودھ پیتا تھا، کیوں کہ اس وقت تک مویشی پالنے کے رواج نے جنم نہیں لیا تھا۔ شیرخوارگی کا زمانہ ختم ہونے کے بعد اس کے جسم میں لیکٹیز نامی خامرے کی پیدائش رک جاتی تھی۔ یہ خامرہ لیکٹوس کو سادہ شکر میں تحلیل کرتا ہے۔
پھر جب انسان نے گلہ بانی اور مویشی پالنے کا آغاز کیا تو لیکٹیز کی عدم موجودگی دودھ کو ہضم کرنے میں بے حد مفید ثابت ہوئی، اور یورپ، مشرق وسطیٰ اور افریقا کے چرواہوں میں، رفتہ رفتہ لیکٹوس کو برداشت کرنے کی صلاحیت پیدا ہوگئی۔ جن گروہوں کا انحصار مویشیوں پر نہیں تھا جیسا کہ چینی اور تھائی، جنوب مغربی امریکا کے پیما انڈین، اور مغربی افریقا کے بانتو، وہ لیکٹوس کو برداشت کرنے صلاحیت سے محروم رہے۔
نشاستے دار غذائوں سے شکر کشید کرنے کی صلاحیت بھی انسانوں میں یکساں نہیں ہوتی۔ اس کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ ان کے جسم میں ایک مخصوص موروثی جین کی کتنی نقول ہیں۔ جو لوگ ، جیسے ہادزا قبائل، زیادہ نشاستے دار غذائیں کھاتے ہیں ان میں سائبیریا کے گوشت خوروں (Yakutافراد) کے مقابلے میں جین کی زاید نقول پائی جاتی ہیں، اور ان کا لعاب غذا کو نگلنے سے پہلے نشاستے کی تحلیل میں معاونت کرتا ہے۔
انسان کی نشوونما بے حد متنوع غذائوں پر ہوسکتی ہے۔ اس کا انحصار اس کے موروثی جینز پر ہوتا ہے۔ آج کی روایتی خوراک میں جین مت کے پیروکار ہندوستانیوں کی سبزی پر مشتمل غذا، اینوٹ کی گوشت اور ملائیشیا کے باجائو افراد کی مچھلی سے بھرپور غذائیں شامل ہیں۔ بھارت کے ساحلوں کے ساتھ موجود جزائر نکوبار کینوچمانی باشندے کیڑوں سے لحمیات حاصل کرتے ہیں۔ انسانی غذا کی اس بوقلمونی پر لیونارڈ کا کہنا ہے،''ہر طرح کے ماحول میں خوراک ڈھونڈ لینے کی صلاحیت ہی ہمیں انسان بناتی ہے۔''
تحقیقی مطالعوں (اسٹڈیز) میں بتایا گیا ہے کہ قدیم قبائلی گروہوں نے جب اپنی روایتی خوراک اور فعال طرززندگی چھوڑ کر مغربی بودوباش اختیار کرلی تو وہ مشکلات کا شکار ہوگئے۔ مثال کے طور پر وسطی امریکا کے مایا لوگ 1950ء کی دہائی سے پہلے ذیابیطس سے ناآشنا تھے۔ بعدازاں جب انھوں نے شکر سے بھرپور مغربی غذائوں کا استعمال شروع کیا تو وہ برق رفتاری سے ذیابیطس میں مبتلا ہونے لگے۔
سائبیریا کے خانہ بدوش جیسے کہ رینڈیئر چرانے والے ایوینک اور یاکوت لوگ گوشت پر گزارہ کرتے تھے، اس کے باوجود ان میں دل کے امراض نہ ہونے کے برابر تھے۔ بعدازاں سوویت یونین کا شیرازہ بکھرجانے کے بعد جب وہ قصبوں میں آباد ہوئے اور مقامی غذائیں کھانا شروع کیں تو دل کے عوارض بھی لاحق ہونے لگے۔ لیونارڈ کی تحقیق کے مطابق آج قصبوں میں آباد نصف کے قریب یاکوت موٹاپے اور ایک تہائی فشارخون (ہائپرٹینشن) کا شکار ہیں۔ اسی طرح بازاری غذائیں کھانے والے سیمانوں کی نسبت شکار اور نباتات پر انحصار کرنے والے سیمانے ذیابیطس سے محفوظ ہیں۔
ہم میں سے وہ لوگ، جن کے آباء واجداد نباتاتی خوراک کے عادی تھے، اور جو بیٹھنے والا کام کرتے ہیں، ان کے لیے بہتر ہے کہ وہ گوشت کم مقدار میں استعمال کریں۔ حالیہ تحقیق کے نتائج سے اس امر کی تصدیق ہوگئی ہے کہ اگرچہ انسان بیس لاکھ سال سے گوشت کھا رہا ہے مگر اس کی زیادہ مقدار بیشتر آبادیوں میں شریانوں کی رکاوٹ اور سرطان جیسے امراض کا سبب بنتی ہے۔ اور اس کی وجہ صرف سیرشدہ چکنائی اور کولیسٹرول نہیں ہے۔
ہماری آنتوں میں پائے جانے والے بیکٹیریا گوشت میں موجود ایک غذائی جزو کو ہضم کرتے ہیں جو L-carnitine کہلاتا ہے۔ چوہوں پر کیے گئے ایک تجربے کے دوران اس جزو نے ان کی شریانوں میں رکاوٹ پیدا کردی۔ تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ہمارا مناعتی یا دفاعی نظام سرخ گوشت میں موجود ایک قسم کی شکر پر حملہ آور ہوتا ہے جوNeu5Gc کہلاتی ہے۔ اس 'دھاوے' کے نتیجے میں معدے میں ہلکی سی جلن پیدا ہوتی ہے جو سرطان کا سبب بن سکتی ہے۔ کیلی فورنیا یونی ورسٹی کے سائنس داں اجیت ورکی کے مطابق اگر آپ صرف 45 سال تک زندہ رہنا چاہتے ہیں تو پھر گوشت بہترین غذا ہے۔
انسانی رکازیات کے بہت سے ماہرین کہتے ہیں کہ اگرچہ جدید ماہرین خوراک ہمیں غیرصحت بخش، پروسیس کی ہوئی خوراک سے گریز کا مشورہ دیتے ہیں، مگر اس خوراک میں گوشت پر زاید انحصار ہمارے اجداد کی متنوع خوراک کی نمائندگی نہیں کرتا۔ نیویارک سٹی میں واقع وینرـ گرین فائونڈیشن برائے بشریاتی تحقیق کی صدر لیزلی ایلو کہتی ہیں کہ انسانی رکازیات کے بیشتر ماہرین کو یہ بات سب سے زیادہ پریشان کرتی ہے کہ حجری دور کے تمام انسانوں کی خوراک یکساں نہیں تھی۔
دوسرے الفاظ میں کوئی ایک مثالی انسانی خوراک نہیں ہے۔ ایلو اور لیونارڈ کہتے ہیں کہ انسان کی سب سے اہم خوبی گوشت کا دل دادہ ہونا نہیں بلکہ مختلف قسم کے مساکن سے خود کو ہم آہنگ کرلینے اور مختلف غذائوں کو یکجا کرکے صحت بخش خوراک کی شکل دینے کی صلاحیت ہے۔ بدقسمتی سے بیشتر مغربی غذائیں صحت بخش خوراک کے معیار پر پوری نہیں اترتیں۔
جدید خوراک ہمیں بیمار کیوں کررہی ہے؟ اس کی وجہ ہارورڈ یونی ورسٹی کے ماہرممالیات رچرڈرینگھم بیان کرتے ہیں انسانی خوراک میں سب سے بڑا انقلاب اس وقت نہیں آیا جب ہم گوشت کھانے لگے بل کہ انقلاب اس وقت آیا جب ہم نے کھانا پکانا سیکھا۔ ہمارے آباء و اجداد نے چار لاکھ سے اٹھارہ لاکھ سال قبل کے زمانے کے دوران کھانا پکانا شروع کیا۔ رینگھم کا کہنا ہے کہ خوراک کو کوٹنے پیسنے اور گرم کرنے سے یہ معدے میں جانے سے پہلے ہی قابل ہضم ہوجاتی ہے۔
جس کی وجہ سے ہماری آنتیں اس کی تحلیل میں کم توانائی صرف کرتی اور زیادہ توانائی جذب کرتی ہیں اور اس طرح دماغ کے لیے زیادہ روغنیات کشید کرتی ہیں۔ رینگھم کے مطابق پکانے کے نتیجے میں غذا نرم اور توانائی سے بھرپور ہوجاتی ہے۔ آج ہم صرف کچی اور غیرپروسیس شدہ خوراک پر زندہ نہیں رہ سکتے، کیوں کہ ہمارا جسم پکی ہوئی خوراک کا عادی ہوچکا ہے۔
اپنے خیالات کو تحقیق کی کسوٹی پر پرکھنے کے لیے رینگھم نے چند شاگردوں کی مدد سے چوہوں کو کچی اور پکی ہوئی خوراک کھلائی۔ جب میں ہارورڈ میں واقع رینگھم کی تجربہ گاہ میں پہنچی تو اس کے ایک گریجویٹ شاگرد نے چھوٹے ریفریجریٹر کا دروازہ کھولا اور پلاسٹک کی تھیلیوں میں رکھا ہوا گوشت اور شکرقندی دکھائی۔ کچھ خوراک کچی اور کچھ پکی ہوئی تھی۔ پکی ہوئی خوراک پر پلنے والے چوہوں کا وزن اپنے کچی خوراک پر گزارہ کرنے والے ساتھیوں سے پندرہ سے چالیس فی صد تک زیادہ تھا۔ اگر رینگھم کی تحقیق درست ہے تو پھر پکانے کے عمل نے نہ صرف ابتدائی دور کے انسان کو اضافی توانائی فراہم کی ہوگی۔
جس کی وجہ سے ان کے دماغ کی جسامت بڑھنے کے ساتھ ساتھ ان کے وزن میں بھی اضافہ ہوا ہوگا۔ جدید سیاق و سباق میں اس مفروضے کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ ہم اپنی ہی کام یابی کا شکار ہوسکتے ہیں۔ خوراک کو پروسیس کرنے میں ہم نے اتنی مہارت حاصل کرلی ہے کہ انسانی ارتقا کی تاریخ میں پہلی بار بیشتر انسان ایک دن میں جتنی کیلوریز جلاتے ہیں، اس سے زیادہ حاصل کررہے ہیں۔ بہ الفاظ دیگر انھیں ضرورت سے زیادہ توانائی مل رہی ہے۔ رینگھم کا کہنا ہے کہ ہمیں پروسیس شدہ خوراک سے ملنے والی کیلوریز کی زاید مقدار کے اثرات سے مزید آگاہی حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
پروسیس شدہ خوراک کا بڑھتا ہوا رجحان ہی دنیا بھر میں موٹاپے کی وبا اور اس سے متعلق امراض کے پھیلائو کی ذمہ دار ہے۔ اگر سب لوگ مقامی پھل اور سبزیاں، کم مقدار میں گوشت، مچھلی اور کچھ مقدار میں اناج کھائیں (جیسا کہ Mediterranean diet ہے ) اور روزانہ ایک گھنٹے تک ورزش کریں تو یہ ہماری صحت اور دنیا کے لیے اچھا ہوگا۔
اناچیری میں سیمانوں سے ملاقات کی آخری شام نیٹ کی تیرہ سالہ بیٹی البانیا نے بتایا کہ اس کا باپ اور سوتیلا بھائی، سولہ سالہ البرٹو شکار سے واپس آگئے ہیں اور اپنے ساتھ کچھ لائے بھی ہیں۔ ہم اس کے پیچھے پیچھے جھونپڑی نما باورچی خانے میں داخل ہوئے۔ ہمیں کچی زمین پر شکار کیے ہوئے کچھ جانور پڑے ہوئے نظر آئے۔ البانیہ اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ جانوروں کی کھال اتارنے میں مصروف ہوگئی۔ پھر وہ ان مردہ جانوروں کو قریبی ندی میں دھونے کے لیے لے گئے، تاکہ انھیں بھوننے کے لیے تیار کیا جاسکے۔ آگ کے قریب بیٹھا ہوا نیٹ اپنی بیویوں کو شکار کی داستان سنا رہا تھا۔ نیٹ کا چھوٹا بیٹا غالباً یہ سوچ کر خوشی سے اُچھل رہا تھا کہ کئی دنوں کے بعد آج اسے گوشت کھانے کو ملے گا۔
امیزون کے پس ماندہ ملک بولیویا میں یہ شام کے کھانے کا وقت ہے۔ اینا کواٹا میٹو پرال کی چھت والی جھونپڑی کے دروازے کے ساتھ ہی بنائے گئے چولھے پر رکھی ہانڈی میں چمچمہ چلا رہی ہے۔ ہانڈی کے اندر کھولتے ہوئے پانی میں کیلے اور شکرقندی نما ایک سبزی ( manioc ) اُبل رہی ہے۔ اینا کے کان اپنے شوہر، ڈیونیشیا نیٹ کی طرف بھی لگے ہوئے ہیں جو ابھی ابھی جنگل سے اپنے لاغر کتے کے ساتھ لوٹا ہے۔
سیاہ فام عورت کی شیرخوار بیٹی اس کی چھاتی سے لگی شکم سیری میں مصروف ہے، جب کہ سات سالہ ننگ دھڑنگ بیٹا ہر چند لمحے کے بعد اپنی ماں کا بازو کھینچ کر اس سے کچھ کہنے کی کوشش کرتا ہے۔ اینا کی پُرامید نگاہیں شوہر کی جانب اٹھتی ہیں مگر اس کے خالی ہاتھ دیکھ کر آنکھوں کی چمک ماند پڑجاتی ہے اور چہرے پر مایوسی کی دبیز چادر پھیل جاتی ہے۔ اینا نے ایک ہاتھ سے مچھر اڑاتے ہوئے شکستہ لہجے میں مجھے بتایا کہ جب گوشت نہ ہو تو بچے اداس ہوجاتے ہیں، مجھے امید تھی کہ میرا شوہر کوئی شکار لے کر آئے گا۔ میرا ترجمان سیاہ فام عورت کے خیالات بڑی مہارت سے میرے کانوں میں منتقل کررہا تھا۔
جنوری کی اس چمکیلی صبح کو نیٹ اپنی رائفل اور خنجر لے کر گھنے جنگلات کی طرف گیا تھا۔ اس کی نگاہیں بندر اور گوشت خور جانور، کواٹی کی متلاشی تھیں جب کہ اس کا کتا بھی زمین پر سور نما جانور (peccary) کی بُو سونگھنے کی کوشش میں تھا۔ قسمت دونوں شکاریوں پر مہربان نہیں ہوئی، اور انھیں خالی ہاتھ لوٹنا پڑا۔
انتالیس سال کی عمر میں بھی نیٹ چاق چوبند اور پُرعزم ہے۔ تاہم جب وہ ایک دھاتی پیالے میں دلیہ لے کر کھانے کے لیے بیٹھتا ہے تو حرف شکایت اس کی زبان پر بھی آ جاتا ہے۔ نیٹ کا کہنا ہے کہ اہل خانہ کی ضرورت کے مطابق گوشت کا حصول اب مشکل ہوگیا ہے۔ اس کا گھرانا دو بیویوں اور بارہ بچوں پر مشتمل ہے۔ ایک سے زائد بیویاں رکھنا اس قبیلے میں عام رواج ہے۔ نیٹ کا کہنا ہے کہ لکڑہاروں کی وجہ سے جانور خوف زدہ ہوکر دوردراز حصوں کی طرف نکل گئے ہیں، اور وہ دریا میں جاکر مچھلی کا شکار کرنے سے بھی قاصر ہے کیوں کہ طوفان اس کا ڈونگا ( چھوٹی کشتی ) بہا لے گیا تھا۔
ہم اس وقت اناچیری کے قبیلے میں ہیں۔ یہاں میں نے کئی گھروں کا دورہ کیا تھا اور ہر ایک کی کہانی کم و بیش یہی تھی۔ اناچیری دراصل قدیم ریڈانڈین قبیلے سیمانے ( Tsimane ) کی شاخ ہے جس کے اراکین کی تعداد محض 90 کے آس پاس رہ گئی ہے۔ یہ برسات کا موسم ہے جب شکار کرنا یا مچھلیاں پکڑنا ازحد دشوار ہوتا ہے۔ دریائے امیزون کے طاس کے علاقے میں لاپاز سے 225 میل کی دوری پر سان بورجا نامی قصبہ ہے۔
اس قصبے کے اطراف دو دریاؤں کے کناروں پر، سو سے زاید دیہات میں 15000 کے لگ بھگ سیمانے رہتے ہیں۔ تاہم اناچیری سان بورجا سے دو دن کی مسافت پر ہے، اور یہ مسافت بھی موٹر سے چلنے والی کشتی میں طے کرنی پڑتی ہے۔ اس قدر دوری پر واقع ہونے کی وجہ سے، حصول خوراک کے لیے اناچیری میں رہنے والے سیمانوں کا انحصار جنگل، دریا یا پھر اپنے باغیچوں میں اُگنے والی سبزیوں پر ہوتا ہے۔
میں ایشر روزنگر کے ساتھ محوسفر ہوں، وہ پی ایچ ڈی کا طالب علم اور ہماری ٹیم کا رُکن ہے۔ نارتھ ویسٹرن یورنی ورسٹی کا ماہربشریات وحیاتیات ولیم لیونارڈ اس ٹیم کا مشترکہ سربراہ ہے۔ روزنگر اور لیونارڈ کا مشترکہ مقصد سیمانے قبائل پر تحقیق کرتے ہوئے یہ جاننا ہے کہ بارانی جنگل میں ملنے والی خوراک کس طرح کی ہوتی ہے۔ وہ خاص طور پر یہ جاننے میں دل چسپی رکھتے ہیں روایتی خوراک اور طرز زندگی ترک کرکے شکر، نمک، چاول، تیل، خشک گوشت اور ڈبّا بند مچھلیوں پر صاد کرنے سے ان انڈین قبائلیوں کی عمومی صحت میں کیا تبدیلیاں رونما ہوئی ہے۔ یہ خالصتاً علمی تحقیق نہیں ہے۔ سیمانے جیسے قدیم قبائلیوں کی خوراک پر ان ماہرین بشریات کی تحقیق یہ بھی واضح کرسکتی ہے کہ باقی دنیا کے لوگوں کو کیا کھانا چاہیے۔
روزنگر نے میرا تعارف جوز میئر کنے نام کے ایک بوڑھے دیہاتی سے کروایا۔ اس نے اپنے بیٹے فلیپی میئر لیرو کے ساتھ مل کر تیس برس پہلے دریا کے کنارے ایک باغ لگایا گیا تھا جو آج بھی ہرا بھرا ہے۔ ہم جوز کی ہمراہی میں باغ میں سے گزر رہے تھے جس میں آم، پپیتے، کیلے اور سنگترے کے درخت تھے۔ بیشتر درختوں پر پھل لگے ہوئے تھے۔ ہیلی کونیا کے سرخ خوش نما پھول کھلے ہوئے تھے، جب کہ مکئی اور گنے کے پودوں کے درمیان جنگلی ادرک بھی جڑی بوٹیوں کے مانند اُگی ہوئی تھی۔
روزنگر نے بتایا کہ جوز کا باغ اس علاقے کا سب سے بڑا باغ ہے۔ اس لحاظ سے ان کی مالی حالت بھی بہتر ہونے کی توقع کی جاسکتی تھی، مگر انتالیس سالہ فلیپی کی بیوی کیٹالینا، اپنی جھونپڑی کے باہر اسی طرح کا دلیہ تیار کررہی ہے جو ہمیں دوسرے گھروں میں نظر آیا تھا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ گوشت دستیاب نہ ہونے کی صورت میں کیا باغ سے ان کی غذائی ضروریات بہ آسانی پوری ہوجاتی ہیں؟ اس پر فلیپی نے جواب دیا،''باغ پر گزارہ نہیں ہوسکتا۔ مچھلی اور جانوروں کا شکار کرنا ضروری ہے۔ ہم صرف پودے کھاکر زندہ نہیں رہنا چاہتے۔ ہمارا پیٹ گوشت کا بھی طالب ہوتا ہے۔''
اگر ہم 2050ء کو ذہن میں لائیں جب مزید دو ارب نفوس کو خوراک فراہم کرنا ہوگی تو اس سوال کا جلد جواب تلاش کرنا ازحد ضروری ہوجاتا ہے کہ ہمارے لیے کون سی خوراک بہترین ہے۔ آنے والے عشروں میں خوراک کا انتخاب پودوں پر ڈرامائی حد تک پیچیدہ اثرات مرتب کرے گا۔ مثال کے طور پر گوشت اور ڈیری کی مصنوعات پر مشتمل خوراک کے استعمال میں اضافے سے (ترقی پذیر دنیا میں یہ رجحان پہلے ہی وسعت پذیر ہے) غلّے، پھل اور سبزیوں پر بڑھتے انحصار کی نسبت عالمی وسائل پر زیادہ بوجھ پڑے گا۔
دس ہزار برس قبل زراعت کے آغاز سے پہلے تمام انسان شکار، (کھانے کے لیے پھل اور دیگر اشیاء) اکٹھا کرنے، اور ماہی گیری کے ذریعے خوراک حاصل کرتے تھے۔ کاشت کاری کے وسعت اختیار کرنے کے بعد خانہ بدوش شکاریوں اور نباتات پر گزارہ کرنے والوں کو قابل کاشت زمینیں چھوڑ کر امیزون کے جنگلات، افریقا کی بنجر چراگاہوں، جنوب مشرقی ایشیا کے دور افتادہ جزائر، اور قطب شمالی کے بے شجر میدانوں (ٹنڈرا) تک محدود ہوجانے پر مجبور کردیا گیا۔ آج دنیا میں، جانوروں کے شکار اور نباتات پر زندہ رہنے والوں کے چند ہی قبیلے باقی بچے ہیں۔
اس سے پہلے کہ یہ قبائل تاریخ کا حصہ بن جائیں، سائنس داں ان کے طرز زندگی اور خوراک کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کی کوشش کررہے ہیں۔ ایلیسا کریٹینڈن لاس ویگاس میں قائم یونی ورسٹی آف نیواڈا سے وابستہ ماہربشریات و غذائیت ہے۔ وہ تنزانیہ کے Hadza قبیلے کی خوراک پر تحقیق کر رہی ہے۔ ایلیسا کا کہنا ہے،''شکار اور پودوں پر گزارہ کرنے والے یہ لوگ 'زندہ رکاز' (لیونگ فوسل) نہیں ہیں جیسا کہ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے۔ کرۂ ارض پر ان لوگوں کی آبادی بہت کم رہ گئی ہے۔ ہمارے پاس اب محدود وقت ہے۔ اگر ہم ان خانہ بدوشوں کے طرز زندگی کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں ان کی خوراک پر فوری توجہ دینی ہوگی۔''
سیمانے، اینوٹااور ہادزا قبائل پر اب تک کی گئی تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ لوگ عام طور پر بلند فشار خون، شریانوں کا سکڑجانا جیسی بیماریوں اور دل کے امراض میں مبتلا نہیں ہوتے۔ آرکنساس یونی ورسٹی کے انسانی رکازیات کے مطالعے کے ماہر (paleoanthropologist ) پیٹر اُنگر کے مطابق بہت سے لوگوں کو یقین ہے کہ ہماری اور ہمارے قدیم آباء واجداد کی غذاؤں میں عدم موافقت پائی جاتی ہے۔
یہ تصور کہ فاسٹ فوڈ کی موجودہ دنیا میں بھی ہمارے جسم دراصل پتھر کے زمانے کی خوراک کے لیے موزوں ہیں، قدیم غذا سے استفادہ کرنے کے نئے رجحان کو مہمیز کر رہا ہے۔ حجری دور کی انسانی خوراک کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا سبب یہ تصور ہے کہ ارتقائی مراحل طے کرنے کے باوجود انسان کو وہی خوراک کھانی چاہیے جو پتھر کے زمانے میں ( 26 لاکھ سال پہلے زراعت کے جنم سے قبل کا زمانہ) اس کے آباء و اجداد کھایا کرتے تھے، نیز یہ کہ ہمارے جینز کو اتنا وقت نہیں ملا کہ وہ کاشت کاری کے ذریعے حاصل ہونے والی سبزیوں، پھلوں اور اناج کو قبول کرنے کے قابل ہوجاتے۔
کولوراڈو اسٹیٹ یونی ورسٹی کے انقلابی ماہرغذائیت لورین کورڈین نے اپنی کتاب The Paleo Diet میں لکھا ہے،''حجری دور کے انسانوں کی خوراک ہی ہماری جینیاتی ساخت سے کُلی مطابقت رکھتی ہے۔'' ان قبائل کی خوراک پر تحقیق اور یہ نتیجہ اخذ کرنے کے بعد کہ ان کی 73 فی صد سے زاید آبادی نصف سے زاید کیلوریز (حرارے) گوشت سے حاصل کرتی ہیں، کورڈین نے اپنا غذائی چارٹ وضع کیا: چربی سے پاک گوشت اور مچھلی زیادہ مقدار میں کھائیں، مگر ڈیری کی مصنوعات، پھلیوں، یا دلیہ اور اناج سے پرہیز کریں۔ دوسرے معنوں میں ان غذائی اشیاء سے دور رہیں جو پکانے کے عمل اور زراعت کی دریافت کے بعد ہماری خوراک کا حصہ بنی ہیں۔ کورڈین کا کہنا ہے اگر ہم حجری دور کی خوراک استعمال کریں تو مہذب دور کے امراض جیسے دل کے عارضوں، بلند فشار خون، ذیابیطس، سرطان یہاں تک کہ کیل مہاسوں سے بھی محفوظ ر ہ سکتے ہیں۔
یہ بڑی خوش کن بات لگتی ہے، مگر کیا یہ درست ہے کہ ہم گوشت پر مبنی خوراک ہی کھانے کے لیے ارتقائی مراحل طے کرتے ہوئے یہاں تک پہنچے ہیں؟ ہمارے آباء واجداد کے رکازوں پر تحقیق کرنے والے دونوں ماہرین رکازیات اور قبائلیوں کی خوراک کا مطالعہ کرنے والے ماہرینِ بشریات کہتے ہیں کہ صورت حال قدرے پیچیدہ ہے۔ انگر اور دیگر کا کہنا ہے کہPaleo diet سے متعلق عام تصور کئی غلط فہمیوں پر مبنی ہے۔ انسانی خوراک کے ارتقا میں گوشت کا کردار کلیدی رہا ہے۔
ریمنڈ ڈارٹ نے 1924ء میں افریقا میں پہلا انسانی رکاز دریافت کیا تھا۔ ریمنڈ نے یہ تصور عام کیا کہ ہمارے اجداد افریقی سبزہ زاروں میں زندہ رہنے کے لیے جانوروں کا شکار کیا کرتے تھے۔ 1950ء کی دہائی کے دوران اپنی تحریروں میں اس نے قدیم دور کے انسانوں کے بارے میں لکھا تھا،''یہ گوشت خور تھے۔ وہ شکار کو پکڑتے تھے اور پھر مختلف طریقوں سے اسے ہلاک کردیتے تھے۔۔۔ وہ اس کے خون سے اپنی پیاس بجھاتے تھے اور وحشیوں کی طرح گوشت کے پارچے نگل جاتے تھے۔''
کچھ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ بیس لاکھ سال قبل ہمارے اجداد کے بڑے دماغوں کے ارتقا میں گوشت کا کلیدی کردار رہا ہے۔ نباتات پر مبنی غذا کے بجائے کیلوریز سے بھرپور گوشت اور ہڈی کے گودے کو خوراک بنانے کے سبب ہمارے براہ راست آباء واجداد ( Homo erectus ) کو اضافی توانائی حاصل ہوتی رہی جس کی وجہ سے ان کے دماغ کی جسامت میں بہ تدریج اضافہ ہوتا چلا گیا۔ گوشت کی زاید اور ریشے دار نباتاتی غذا کی کم مقدار ہضم کرتے رہنے کی وجہ سے ان انسانوں کی آنتیں بھی چھوٹی ہوگئی ہوں گی۔ لیزلی ایلو نے ماہرانسانی رکازیات پیٹر وہیلر کے ساتھ مل کر پہلی بار یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ آنتوں کے چھوٹا ہونے کی وجہ سے بچ رہنے والی اضافی توانائی دماغ کو منتقل ہوتی رہی ہوگی۔
آرام کی حالت میں دماغ کو انسان کی مجموعی توانائی کا 20 فی صد درکار ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں بوزنوں (بے دم کے جانور مثلاً بن مانس) کا دماغ آٹھ فی صد توانائی کا طالب ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہومو ایریکٹس کے زمانے سے انسانی جسم زیادہ توانائی کی حامل خوراک بالخصوص گوشت پر انحصار کرتا چلا آرہا ہے۔
بیس لاکھ سال قبل زراعت کی ایجاد کے ساتھ ہی انسانی خوراک نے ایک اور اہم موڑ لیا۔ انسان نے جوار، جَو، گندم، مکئی، اور چاول جیسے غلّوں کی کاشت سے وافر مقدار میں اور قابل پیش گوئی خوراک کی رسد کو ممکن بنایا۔ ان غذاؤں کے عام ہوجانے کے بعد کاشت کاروں کی بیویاں تیزی سے بچے پیدا کرنے لگیں۔ اب وہ اوسطاً ڈھائی سال کے بعد بچہ جننے لگیں جب کہ قدیم قبائل میں دو حمل کا درمیانی عرصہ ساڑھے تین سال تھا۔
اس کے نتیجے میں کاشت کاروں کی آبادی تیزی سے بڑھنے لگی اور بہت زیادہ عرصہ گزرنے سے پہلے ہی ان کی آبادی جانوروں کے شکار اور جنگلات سے حاصل ہونے والی خوراک پر زندہ رہنے والوں (خانہ بدوشوں) کی آبادی سے بڑھ گئی۔
پچھلے ایک عشرے کے دوران ماہرین بشریات اس تغیر کے بارے میں ان بنیادی سوالات کے جواب کھوجتے رہے ہیں: کیا زراعت انسانی صحت کی بہتری کا آغاز تھی؟ یا اپنے اجداد کی خوراک سے کنارہ کش ہوکر کاشت کاری اور گلہ بانی کو اپناکر ہم نے فوڈ سیکیوریٹی کے نام پر صحت بخش غذا اور طاقت وَر جسموں سے منہ موڑ لیا؟
اوہایو اسٹیٹ یونی ورسٹی کا ماہربشریات و حیاتیات کلارک اسپنسر لارسن جب زراعت کے عروج کا احوال بیان کرتا ہے تو ایک خوف ناک تصویر سامنے آتی ہے۔ جب بالکل ابتدائی کاشت کار کُلی طور پر فصلوں پر انحصار کرنے لگے تو ان کی خوراک، خانہ بدوشوں کی خوراک کے مقابلے میں غذائی نقطۂ نظر سے کم متنوع ہوگئی۔ روزانہ ایک ہی قسم کا غلّہ کھانے کے نتیجے میں وہ دانتوں کے مختلف امراض کا شکار ہوگئے جو کہ قبائلیوں میں شاذ ہی نظر آتے تھے۔ جب کاشت کاروں نے گلہ بانی شروع کی تو گائیں، بھینسیں، بھیڑ اور بکریاں ان کے لیے دودھ اور گوشت کی فراہمی کا ذریعہ بن گئیں۔ مگر ان مویشیوں کی وجہ سے وہ متعدی امراض کا شکار بھی ہونے لگے۔ کاشت کاروں کے جسم میں فولاد کی کمی واقع ہونے سے ان کی نشوونما متاثر ہوئی اور ہر آنے والی نسل کی جسامت مختصر ہونے لگی۔
تعداد میں اضافے کے باوجود کاشت کاروں کا طرز زندگی اور خوراک واضح طور پر قبائلیوں کی طرح صحت بخش نہیں تھی۔ لارسن کے مطابق کاشت کاروں کا کثیرالعیال ہونا اس امر کا مظہر تھا کہ ' افزائش نسل کے لیے آپ کا بیماریوں سے پاک ہونا ضروری نہیں۔''
بہرحال حقیقی حجری دور کی خوراک صرف گوشت اور گودے پر مشتمل نہیں تھی۔ یہ سچ ہے کہ دنیا بھر کے خانہ بدوش کسی بھی غذا سے زیادہ گوشت کے طلب گار ہوتے ہیں ، اور عام طور پر اپنی سالانہ 30فی صد کیلوریز جانوروں سے حاصل کرتے ہیں۔ مگر بیشتر کو ایسے وقت سے بھی گزرنا پڑتا ہے جب انھیں ہفتے میں مٹھی بھر گوشت ہی دست یاب ہوپاتا ہے۔ نئی تحقیق ظاہر کرتی ہیں کہ قدیم انسان کی خوراک میں گوشت پر زیادہ انحصار دماغ کی جسامت میں اضافے کا سبب بنا۔
ایک سال پر مشتمل مشاہدہ ظاہر کرتا ہے یہ قبائلی اور خانہ بدوش اچھے شکاری نہیں ہوتے۔ مثال کے طور پر افریقا کے ہادزا اور کُنگ قبائل کے شکاری اس عرصے میں جتنی بار تیرکمان لے کر شکار کے لیے نکلے تو نصف سے زاید بار ناکامی ان کے حصے میں آئی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے آباء و اجداد کے لیے شکار کرنا کس قدر مشکل تھا جنھیں اُس زمانے میں تیر کمان جیسے ہتھیار میسر نہیں تھے۔ بحرمنجمد شمالی جیسے برفانی علاقوں میں رہنے والوں سے زیادہ گوشت کوئی نہیں کھاتا جواپنی کیلوریز کا 99 فی صد سیل، ناروھیل اور مچھلیوں سے حاصل کرتے ہیں۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ گوشت کی عدم دست یابی کی صورت میں قبائلی توانائی کہاں سے حاصل کرتے ہیں؟ اس موقع پر خاتون خانہ کام آتی ہے۔ جب گوشت، پھل یا شہد کم یاب ہوتا ہے تو گھر کے افراد اس خوراک پر انحصار کرتے ہیں جو خاتون خانہ اور بچوں نے مل کر پھلیوں کی صورت میں جمع کررکھی ہوتی ہے۔ ہادزا قبائل درکار کیلوریز کا 70 فی صد پودوں سے حاصل کرتے ہیں۔ کُنگ قبیلے کے افراد روایتی طور پر بصلے اور mongongo کے بیجوں یا گٹھلیوں پر گزارہ کرتے ہیں۔ دریائے کانگو کے طاس میں آباد پستہ قد آکا اور باکا قبائل رتالُو، اور امیزون میں آباد سیمانے اور یانومامی قبائل کچے کیلے اور کساوا (شکرقندی سے مشابہ پھل ) ، اور آسٹریلیا کے Aboriginals جڑی بوٹیوں، اور آبی اخروٹ ( water chestnut ) پر انحصار کرتے ہیں۔
لائپزش میں قائم میکس پلانک انسٹیٹیوٹ فار ایولوشنری اینتھروپولوجی سے وابستہ ماہررکازی حیاتیات ایمینڈا ہینری کہتی ہیں کہ شکاریات کے بارے میں ایک مستقل کہانی چلی آرہی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ گوشت نے ہمیں انسان بنایا ہے، مگر میرے خیال میں یہ کہانی کا ایک رُخ ہے۔ ایمینڈا کے مطابق قدیم انسان یقیناً گوشت کا دل دادہ تھا، مگر درحقیقت وہ نباتاتی خوراک پر زندہ رہتا تھا۔ ایمینڈا نے قدیم انسان کے دانتوں کے رکازوں پر نشاستے کی علامات دریافت کی تھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اسے سنگی اوزار بھی ملے جن سے اندازہ ہوتا تھا کہ انسان، کم از کم ایک لاکھ سال سے اناج بھی کھاتا آرہا ہے۔ اس طویل عرصے کے دوران یقینی طور پر اس کے جسم میں انھیں برداشت کرلینے کی خاصیت بھی پیدا ہوگئی ہوگی۔
یہ تصور درست نہیں ہے کہ حجری دور میں انسان کا جسمانی ارتقا رُک گیا تھا۔ زراعت کی دریافت کے بعد ہمارے دانت، جبڑے اور چہرے چھوٹے ہوتے چلے گئے اور ہمارے ڈی این اے میں بھی تغیرات رونما ہوئے۔ تو کیا انسان جسمانی طور پر ہنوز ارتقائی مراحل طے کررہا ہے؟ پنسلوانیا یونی ورسٹی میں جینیات کی ماہر سارہ ٹشکوف اس سوال کا جواب اثبات میں دیتی ہیں۔
اس سلسلے میں لیکٹوس کو ہضم کرنے کا عمل اہم ثبوت ہے۔ تمام بچے شیرخوارگی کے زمانے میں اپنی ماں کا دودھ پیتے اور ہضم کرتے ہیں۔ تاہم دس ہزار سال پہلے تک انسان صرف ماں کا دودھ پیتا تھا، کیوں کہ اس وقت تک مویشی پالنے کے رواج نے جنم نہیں لیا تھا۔ شیرخوارگی کا زمانہ ختم ہونے کے بعد اس کے جسم میں لیکٹیز نامی خامرے کی پیدائش رک جاتی تھی۔ یہ خامرہ لیکٹوس کو سادہ شکر میں تحلیل کرتا ہے۔
پھر جب انسان نے گلہ بانی اور مویشی پالنے کا آغاز کیا تو لیکٹیز کی عدم موجودگی دودھ کو ہضم کرنے میں بے حد مفید ثابت ہوئی، اور یورپ، مشرق وسطیٰ اور افریقا کے چرواہوں میں، رفتہ رفتہ لیکٹوس کو برداشت کرنے کی صلاحیت پیدا ہوگئی۔ جن گروہوں کا انحصار مویشیوں پر نہیں تھا جیسا کہ چینی اور تھائی، جنوب مغربی امریکا کے پیما انڈین، اور مغربی افریقا کے بانتو، وہ لیکٹوس کو برداشت کرنے صلاحیت سے محروم رہے۔
نشاستے دار غذائوں سے شکر کشید کرنے کی صلاحیت بھی انسانوں میں یکساں نہیں ہوتی۔ اس کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ ان کے جسم میں ایک مخصوص موروثی جین کی کتنی نقول ہیں۔ جو لوگ ، جیسے ہادزا قبائل، زیادہ نشاستے دار غذائیں کھاتے ہیں ان میں سائبیریا کے گوشت خوروں (Yakutافراد) کے مقابلے میں جین کی زاید نقول پائی جاتی ہیں، اور ان کا لعاب غذا کو نگلنے سے پہلے نشاستے کی تحلیل میں معاونت کرتا ہے۔
انسان کی نشوونما بے حد متنوع غذائوں پر ہوسکتی ہے۔ اس کا انحصار اس کے موروثی جینز پر ہوتا ہے۔ آج کی روایتی خوراک میں جین مت کے پیروکار ہندوستانیوں کی سبزی پر مشتمل غذا، اینوٹ کی گوشت اور ملائیشیا کے باجائو افراد کی مچھلی سے بھرپور غذائیں شامل ہیں۔ بھارت کے ساحلوں کے ساتھ موجود جزائر نکوبار کینوچمانی باشندے کیڑوں سے لحمیات حاصل کرتے ہیں۔ انسانی غذا کی اس بوقلمونی پر لیونارڈ کا کہنا ہے،''ہر طرح کے ماحول میں خوراک ڈھونڈ لینے کی صلاحیت ہی ہمیں انسان بناتی ہے۔''
تحقیقی مطالعوں (اسٹڈیز) میں بتایا گیا ہے کہ قدیم قبائلی گروہوں نے جب اپنی روایتی خوراک اور فعال طرززندگی چھوڑ کر مغربی بودوباش اختیار کرلی تو وہ مشکلات کا شکار ہوگئے۔ مثال کے طور پر وسطی امریکا کے مایا لوگ 1950ء کی دہائی سے پہلے ذیابیطس سے ناآشنا تھے۔ بعدازاں جب انھوں نے شکر سے بھرپور مغربی غذائوں کا استعمال شروع کیا تو وہ برق رفتاری سے ذیابیطس میں مبتلا ہونے لگے۔
سائبیریا کے خانہ بدوش جیسے کہ رینڈیئر چرانے والے ایوینک اور یاکوت لوگ گوشت پر گزارہ کرتے تھے، اس کے باوجود ان میں دل کے امراض نہ ہونے کے برابر تھے۔ بعدازاں سوویت یونین کا شیرازہ بکھرجانے کے بعد جب وہ قصبوں میں آباد ہوئے اور مقامی غذائیں کھانا شروع کیں تو دل کے عوارض بھی لاحق ہونے لگے۔ لیونارڈ کی تحقیق کے مطابق آج قصبوں میں آباد نصف کے قریب یاکوت موٹاپے اور ایک تہائی فشارخون (ہائپرٹینشن) کا شکار ہیں۔ اسی طرح بازاری غذائیں کھانے والے سیمانوں کی نسبت شکار اور نباتات پر انحصار کرنے والے سیمانے ذیابیطس سے محفوظ ہیں۔
ہم میں سے وہ لوگ، جن کے آباء واجداد نباتاتی خوراک کے عادی تھے، اور جو بیٹھنے والا کام کرتے ہیں، ان کے لیے بہتر ہے کہ وہ گوشت کم مقدار میں استعمال کریں۔ حالیہ تحقیق کے نتائج سے اس امر کی تصدیق ہوگئی ہے کہ اگرچہ انسان بیس لاکھ سال سے گوشت کھا رہا ہے مگر اس کی زیادہ مقدار بیشتر آبادیوں میں شریانوں کی رکاوٹ اور سرطان جیسے امراض کا سبب بنتی ہے۔ اور اس کی وجہ صرف سیرشدہ چکنائی اور کولیسٹرول نہیں ہے۔
ہماری آنتوں میں پائے جانے والے بیکٹیریا گوشت میں موجود ایک غذائی جزو کو ہضم کرتے ہیں جو L-carnitine کہلاتا ہے۔ چوہوں پر کیے گئے ایک تجربے کے دوران اس جزو نے ان کی شریانوں میں رکاوٹ پیدا کردی۔ تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ہمارا مناعتی یا دفاعی نظام سرخ گوشت میں موجود ایک قسم کی شکر پر حملہ آور ہوتا ہے جوNeu5Gc کہلاتی ہے۔ اس 'دھاوے' کے نتیجے میں معدے میں ہلکی سی جلن پیدا ہوتی ہے جو سرطان کا سبب بن سکتی ہے۔ کیلی فورنیا یونی ورسٹی کے سائنس داں اجیت ورکی کے مطابق اگر آپ صرف 45 سال تک زندہ رہنا چاہتے ہیں تو پھر گوشت بہترین غذا ہے۔
انسانی رکازیات کے بہت سے ماہرین کہتے ہیں کہ اگرچہ جدید ماہرین خوراک ہمیں غیرصحت بخش، پروسیس کی ہوئی خوراک سے گریز کا مشورہ دیتے ہیں، مگر اس خوراک میں گوشت پر زاید انحصار ہمارے اجداد کی متنوع خوراک کی نمائندگی نہیں کرتا۔ نیویارک سٹی میں واقع وینرـ گرین فائونڈیشن برائے بشریاتی تحقیق کی صدر لیزلی ایلو کہتی ہیں کہ انسانی رکازیات کے بیشتر ماہرین کو یہ بات سب سے زیادہ پریشان کرتی ہے کہ حجری دور کے تمام انسانوں کی خوراک یکساں نہیں تھی۔
دوسرے الفاظ میں کوئی ایک مثالی انسانی خوراک نہیں ہے۔ ایلو اور لیونارڈ کہتے ہیں کہ انسان کی سب سے اہم خوبی گوشت کا دل دادہ ہونا نہیں بلکہ مختلف قسم کے مساکن سے خود کو ہم آہنگ کرلینے اور مختلف غذائوں کو یکجا کرکے صحت بخش خوراک کی شکل دینے کی صلاحیت ہے۔ بدقسمتی سے بیشتر مغربی غذائیں صحت بخش خوراک کے معیار پر پوری نہیں اترتیں۔
جدید خوراک ہمیں بیمار کیوں کررہی ہے؟ اس کی وجہ ہارورڈ یونی ورسٹی کے ماہرممالیات رچرڈرینگھم بیان کرتے ہیں انسانی خوراک میں سب سے بڑا انقلاب اس وقت نہیں آیا جب ہم گوشت کھانے لگے بل کہ انقلاب اس وقت آیا جب ہم نے کھانا پکانا سیکھا۔ ہمارے آباء و اجداد نے چار لاکھ سے اٹھارہ لاکھ سال قبل کے زمانے کے دوران کھانا پکانا شروع کیا۔ رینگھم کا کہنا ہے کہ خوراک کو کوٹنے پیسنے اور گرم کرنے سے یہ معدے میں جانے سے پہلے ہی قابل ہضم ہوجاتی ہے۔
جس کی وجہ سے ہماری آنتیں اس کی تحلیل میں کم توانائی صرف کرتی اور زیادہ توانائی جذب کرتی ہیں اور اس طرح دماغ کے لیے زیادہ روغنیات کشید کرتی ہیں۔ رینگھم کے مطابق پکانے کے نتیجے میں غذا نرم اور توانائی سے بھرپور ہوجاتی ہے۔ آج ہم صرف کچی اور غیرپروسیس شدہ خوراک پر زندہ نہیں رہ سکتے، کیوں کہ ہمارا جسم پکی ہوئی خوراک کا عادی ہوچکا ہے۔
اپنے خیالات کو تحقیق کی کسوٹی پر پرکھنے کے لیے رینگھم نے چند شاگردوں کی مدد سے چوہوں کو کچی اور پکی ہوئی خوراک کھلائی۔ جب میں ہارورڈ میں واقع رینگھم کی تجربہ گاہ میں پہنچی تو اس کے ایک گریجویٹ شاگرد نے چھوٹے ریفریجریٹر کا دروازہ کھولا اور پلاسٹک کی تھیلیوں میں رکھا ہوا گوشت اور شکرقندی دکھائی۔ کچھ خوراک کچی اور کچھ پکی ہوئی تھی۔ پکی ہوئی خوراک پر پلنے والے چوہوں کا وزن اپنے کچی خوراک پر گزارہ کرنے والے ساتھیوں سے پندرہ سے چالیس فی صد تک زیادہ تھا۔ اگر رینگھم کی تحقیق درست ہے تو پھر پکانے کے عمل نے نہ صرف ابتدائی دور کے انسان کو اضافی توانائی فراہم کی ہوگی۔
جس کی وجہ سے ان کے دماغ کی جسامت بڑھنے کے ساتھ ساتھ ان کے وزن میں بھی اضافہ ہوا ہوگا۔ جدید سیاق و سباق میں اس مفروضے کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ ہم اپنی ہی کام یابی کا شکار ہوسکتے ہیں۔ خوراک کو پروسیس کرنے میں ہم نے اتنی مہارت حاصل کرلی ہے کہ انسانی ارتقا کی تاریخ میں پہلی بار بیشتر انسان ایک دن میں جتنی کیلوریز جلاتے ہیں، اس سے زیادہ حاصل کررہے ہیں۔ بہ الفاظ دیگر انھیں ضرورت سے زیادہ توانائی مل رہی ہے۔ رینگھم کا کہنا ہے کہ ہمیں پروسیس شدہ خوراک سے ملنے والی کیلوریز کی زاید مقدار کے اثرات سے مزید آگاہی حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
پروسیس شدہ خوراک کا بڑھتا ہوا رجحان ہی دنیا بھر میں موٹاپے کی وبا اور اس سے متعلق امراض کے پھیلائو کی ذمہ دار ہے۔ اگر سب لوگ مقامی پھل اور سبزیاں، کم مقدار میں گوشت، مچھلی اور کچھ مقدار میں اناج کھائیں (جیسا کہ Mediterranean diet ہے ) اور روزانہ ایک گھنٹے تک ورزش کریں تو یہ ہماری صحت اور دنیا کے لیے اچھا ہوگا۔
اناچیری میں سیمانوں سے ملاقات کی آخری شام نیٹ کی تیرہ سالہ بیٹی البانیا نے بتایا کہ اس کا باپ اور سوتیلا بھائی، سولہ سالہ البرٹو شکار سے واپس آگئے ہیں اور اپنے ساتھ کچھ لائے بھی ہیں۔ ہم اس کے پیچھے پیچھے جھونپڑی نما باورچی خانے میں داخل ہوئے۔ ہمیں کچی زمین پر شکار کیے ہوئے کچھ جانور پڑے ہوئے نظر آئے۔ البانیہ اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ جانوروں کی کھال اتارنے میں مصروف ہوگئی۔ پھر وہ ان مردہ جانوروں کو قریبی ندی میں دھونے کے لیے لے گئے، تاکہ انھیں بھوننے کے لیے تیار کیا جاسکے۔ آگ کے قریب بیٹھا ہوا نیٹ اپنی بیویوں کو شکار کی داستان سنا رہا تھا۔ نیٹ کا چھوٹا بیٹا غالباً یہ سوچ کر خوشی سے اُچھل رہا تھا کہ کئی دنوں کے بعد آج اسے گوشت کھانے کو ملے گا۔