پرتشدد ہجوم کی تربیت

جب 27 دسمبر 2007 کی شام کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں پیپلز پارٹی کی سربراہ بے نظیر بھٹو کو خودکش دھماکے...


Dr Tauseef Ahmed Khan September 29, 2012
[email protected]

گستاخانہ فلم کے خلاف گزشتہ جمعے کو ہونے والا احتجاج تشدد اور لوٹ مار کے واقعات کی بنا پر بدترین دن میں تبدیل ہو گیا۔

اس دن سڑکوں پر 15 سے 25 سال کے نوجوانوں کا راج تھا اور اس ہجوم میں شرپسند بھی شامل ہوئے، ان شرپسندوں نے کراچی میں 6 سینمائوں اور 10 سے زیادہ بینکوں کو نذر آتش کر دیا، ان ہی شرپسندوں نے اس احتجاج سے ایک دن پہلے سول اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ پر حملہ کیا اور وارڈ میں قیمتی طبی آلات کے علاوہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے حساس آلات کو بھی تباہ کیا۔

ان لوگوں نے ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکل عملے کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ کراچی کے سب سے بڑے سرکاری اسپتال میں لاکھوں روپے کا نقصان اور طبی عملے پر تشدد کا فریضہ انجام دینے کے بعد یہ لوگ اپنے گھروں کو چلے گئے۔ سول اسپتال کے احاطے میں موجود سفید کپڑوں میں ملبوس پولیس کے دو نوجوانوں نے ہنگامے کے دوران کمپیوٹر اور پرنٹر لے جانے والے دو افراد کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔

یہ احتجاج اس نفرت انگیز فلم بنانے والے شخص کے خلاف تھا جس نے اپنی مذموم حرکت سے کروڑوں لوگوں کے ذہنوں کا چین لوٹ لیا۔ کراچی میں امن و امان کی رپورٹنگ کرنے والے سینئر صحافیوں کا کہنا ہے کہ ایک زمانے میں ہنگامہ کرنے والے شر پسند بینک کے ریکارڈ پر توجہ دینے کے بجائے کیش کی تجوری توڑنے کی کوشش کرتے تھے۔

جب کراچی میں ممتاز عالم دین مفتی نظام الدین شامزئی کو قتل کر دیا گیا تو مدرسوں کے طلبا نے کراچی کی سڑکوں پر خوب ہنگامہ آرائی کی تھی، اس وقت پرتشدد گروہ نے بینکوں اور پٹرول پمپوں کو نشانہ بنایا تھا۔ ایسے ہی ایک ہجوم نے ایم اے جناح روڈ پر قائداعظم اکیڈمی کی عمارت کو نذر آتش کیا تھا جس کی بنا پر اکیڈمی کی لائبریری میں موجود قیمتی کتابیں جل کر خاک ہو گئی تھیں۔

ان ہنگاموں کے دوران کراچی میں ایک انگریزی کے تجارتی اخبار کی عمارت کو آگ لگا دی گئی تھی، اس وقت شرپسندوں کا اصل ہدف اس عمارت کی نچلی منزل پر قائم ایک تجارتی بینک تھا۔ اس بینک کو سب سے پہلے لوٹا گیا تھا، جب فائر بریگیڈ کا عملہ آگ بجھانے کے بعد اس بینک کی عمارت میں داخل ہوا تو بینک کے اسٹرانگ روم میں ایک شخص کی لاش موجود تھی، شاید یہ شخص سیف ہائوس سے لوٹے گئے نوٹ لے جانے کی کوشش میں موت سے ہمکنار ہو گیا تھا۔

جب 27 دسمبر 2007 کی شام کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں پیپلز پارٹی کی سربراہ بے نظیر بھٹو کو خودکش دھماکے میں شہید کیا گیا تو کراچی میں جلائو گھیرائو اور لوٹ مار کی بدترین صورتحال پیدا ہوئی تھی۔ اس شام سے رات گئے تک شہر میں ہونے والے ہنگاموں میں گاڑیوں اور املاک کو نذرآتش کرنے کے ساتھ بینکوں کو لوٹنے پر خصوصی توجہ دی گئی تھی، اس دن تو شرپسندوں نے چلتی گاڑیوں کو الٹ کر آگ لگا دی تھی جس سے گاڑیوں میں سوار بہت سے افراد زخمی ہوئے تھے۔

ان ہنگاموں کے دوران دکانوں سے سامان لوٹنے اور بینکوں سے کیش لوٹنے پر خصوصی توجہ دی گئی تھی، کراچی میں اس دن یوں محسوس ہوتا تھا کہ شر پسند کب سے ایسے موقعے کی تلاش میں تھے، اس دن تو اندرون سندھ ریل گاڑیوں، ریلوے اسٹیشنوں کی عمارتوں اور ریلوے لائنوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا تھا، اس ہنگامے میں پھنسے لوگوں کو اس بات پر حیرت تھے کہ یہ لوٹ مار کرنے والے کہاں سے آ گئے۔

21 ستمبر کو یوم عشق رسولﷺ کے موقعے پر احتجاج کرنے والوں میں شامل شرپسندوں نے بینکوں، ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ریسٹورنٹ کے علاوہ سینما گھروں کو خاص طور پر نشانہ بنایا۔ اس دن صرف کراچی میں 6 سینمائوں کو نذر آتش کیا گیا۔ ان سینمائوں کو نذر آتش کرنے سے پہلے قیمتی سامان کو لوٹا گیا، اربوں روپے کا نقصان ہوا اور تین سو افراد روزگار سے محروم ہوئے۔ فلم کے شعبے کی رپورٹنگ کرنے و الے سینئر صحافی پرویز مظہر نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ان ہنگاموں میں کراچی کے تاریخی سینما جل کر خاک ہو گئے۔

بتایا جاتا ہے کہ ایک سینما 1949 میں قائم کیا گیا، اور اس سینما کا افتتاح قائد اعظم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح نے کیا تھا۔ ایک سینما کا افتتاح 1969میں کیا گیا، یہ سینما انگریزی فلموں کی نمائش کے حوالے سے شہرت کا حامل ہے۔

ایک سینما 1974 میں تعمیر ہوا، یہ اپنے وقت کا جدید ترین سینما تھا۔ گارڈن پر نذر آتش ہونے والا سینما 1963میں تعمیر ہوا تھا۔ اس وقت کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے سینما کا افتتاح کیا تھا۔ مزدور رہنما عثمان بلوچ کا کہنا ہے کہ 1967 میں جب ذوالفقار علی بھٹو، ایوب خان کی حکومت سے علیحدہ ہو کر کراچی آئے اور انھوں نے پیپلز پارٹی کے قیام کے لیے رابطے شروع کیے تو لیاری کے چند سیاسی نوجوانوں نے 70 کلفٹن میں بھٹو صاحب سے ملاقات کی اور ملاقات میں طے ہوا کہ بھٹو صاحب اس سینما میں رات کا شو دیکھنے آئیں گے اور فلم شو کے اختتام پر دیکھنے والے نوجوانوں سے ان کی ملاقات کرائی جائے گی۔

عثمان بلوچ کا کہنا ہے کہ بھٹو صاحب سینما میں رات کا شو دیکھنے آئے اور شو کے اختتام پر سینما کے دروازے پر ان کی لیاری کے نوجوانوں سے ملاقات ہوئی۔ سیاسیات کے طالب علموں کا کہنا ہے کہ سینما گزشتہ صدی کی چوتھی دہائی سے تفریح کے ادارے کی حیثیت اختیار کر گیا تھا مگر دائیں بازو کے رجعت پسندوں کو کبھی بھی سینما کی سماجی حیثیت پسند نہیں آئی، یہ ہی وجہ ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں جب سینمائوں کے خاتمے کی پالیسی پر عمل درآمد شروع ہوا۔

محمود اعظم فاروقی نے پہلے مرحلے میں پاکستان ٹیلی وژن پر پیش کی جانے والی پاکستانی فلم کی نمائش پر پابندی عائد کر دی۔ اس دوران کراچی کے مرکزی علاقے صدر میں رین بو سینٹر قائم ہوا۔ بھارتی فلموں کے کیسٹ انتہائی سستے داموں کراچی سمیت پورے ملک میں دستیاب ہونے لگے یوں اجتماعی تفریح کے مراکز یعنی سینما ٹوٹنے لگے۔ بلڈنگ اتھارٹی نے سینما کے ٹوٹنے اور ان کی جگہ شاپنگ سینٹر اور پلازہ تعمیر کرنے کے لیے کسی تاخیر کے بغیر این او سی جاری کرنے شروع کیے، بہت سے سینما دیکھتے ہی دیکھتے ختم ہو گئے۔

ہر شخص کو احتجاج کا بنیادی حق ہے مگر یہ حق تشدد، املاک کو نذر آتش اور لوٹ مار کی اجازت نہیں دیتا مگر یہ عجیب ستم ظریفی ہے کہ جب بھی کسی بات پر احتجاج ہوتا ہے تو بینک اور سینما نذر آتش ہوتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب کس طرح احتجاج کرنے والے گروہ کی تربیت ہو سکتی ہے اور نوجوانوں کو تشدد اور لوٹ مار سے کیسے روکا جا سکتا ہے۔

اس حکمت عملی کی تیاری پر بحث و مباحثہ ہونا چاہیے۔ ہجوم کو احتجاج کے دوران لوٹ مار اور تشدد سے روکنے کے لیے ان کی تربیت کا آغاز اسکول کی سطح سے نصاب کی تبدیلی سے ہونا چاہیے۔ اسکول کی سطح کے نصاب سے نفرت اور تشدد کو ابھارنے والے ابواب کو خارج کیا جائے تو ملک میں پر امن مظاہروں کی روایت شروع ہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔