امریکا کا ایک روزہ فوجی سیمینار

امریکا کو خوف لاحق ہے کہ اس پر 9/11 جیسا حملہ ہوسکتا ہے اور یہ محض قیاس نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے۔


Zaheer Akhter Bedari September 29, 2012
[email protected]

واشنگٹن کے جنوب میں ایک فوجی اڈے پر امریکا کی مسلح افواج کے سربراہوں کا ایک روزہ سیمینار منعقد ہوا۔

امریکا کے چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف نے اس سیمینار کو ''اسٹرٹیجک سیمینار'' کا نام دیا ہے۔ ایک انگریزی اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس دن بھر جاری رہنے والے اچھوتے سیمینار میں آنے والے پانچ برسوں کے لیے امریکا کی جنگی تیاریوں کو زیرِ بحث لایا گیا۔

اس سیمینار میں باسکٹ بال کورٹ سے بڑا دنیا کا ایک ایسا نقشہ یا ماڈل رکھا گیا تھا، جس میں ان علاقوں کی نشان دہی کی گئی تھی جن سے آنے والے پانچ برسوں میں امریکا کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ اس سیمینار میں اس بات کا جائزہ بھی لیا گیا کہ 2017 تک امریکا کو کس قدر بڑی اور کس قسم کی فوج کی ضرورت ہوگی جو ممکنہ خطرات سے نمٹ سکے۔

سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے جنرل ڈیمپسی نے 9/11 کے ایک عشرے بعد ازسرنو فوجی منصوبہ بندی کی ضرورت پر روشنی ڈالی۔ اس سیمینار میں اس اہم نکتے پر بھی غور کیا گیا عراق اور افغانستان کی دس سالہ جنگ کے بعد کیا پینٹاگون کو کم ہوتے ہوئے فوجی بجٹ کی روشنی میں ازسرنو کس طرح کی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ سیمینار کی حاصلات سے امریکی صدر بارک اوباما کو بریف کیا جائے گا۔

اس سیمینار میں اس بات پر خصوصی طور پر غور کیا گیا کہ آنے والے پانچ برسوں کے دوران ممکنہ طور پر امریکا کو کس قسم کے فوجی خطرات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ اور 9/11 جیسے حملوں کے امکانات کتنے ہیں اور اس قسم کے حملوں سے نمٹنے کے لیے کس قسم کی تیاریاں درکار ہیں۔

کیا اس قسم کے حملے میزائل حملوں کی شکل میں ہوسکتے ہیں، دہشت گردی کی شکل میں یا کمپیوٹر نیٹ ورک سائبر اٹیک کی شکل میں؟ جنرل ڈیمپسی نے کہا کہ امریکا کی سرزمین کی حفاظت کی ذمے داری فوج کی شمالی کمان کی ذمے داری ہوگی، امریکا کی خفیہ ایجنسیوں کی یہ ذمے داری ہوگی کہ وہ ملک کو ممکنہ طور پر لاحق خطرات سے فوج کی اعانت کریں۔

امریکی فوج کے چیف آف اسٹاف نے اس حوالے سے اپنے خطاب میں کہا کہ ہمیں یہ طے کرنا ہے کہ آنے والے پانچ برسوں میں ممکنہ خطرات سے نمٹنے کے لیے ہمیں کتنی فوج کی ضرورت ہوگی؟ سیمینار میں شریک ایک اعلیٰ سویلین نے کہا کہ آنے والے پانچ برسوں میں، ہم کس طرح بہتر طور پر لڑسکتے ہیں، ہمارے لڑنے کے مختلف طریقے کیا ہوسکتے ہیں، ہم کو کون سے نئے اتحادیوں کی ضرورت ہے، ہمیں کس طرح کے نئے چیلنجز کا سامنا ہوسکتا ہے؟ ان سوالوں کے ہمیں جواب تلاش کرنا ہیں۔

امریکا کے ایک فوجی اڈے پر ہونے والے اس سیمینار کی کارروائی پر نظر ڈالنے سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ اس سیمینار کا مرکزی موضوع ''امریکا کا دفاع'' ہے، اور اسی حوالے سے اس سیمینار میں آنے والے پانچ برسوں میں امریکا کی فوجی پالیسیوں کا جائزہ لیا گیا۔ مشکل یہ ہے کہ اس دفاعی منصوبہ بندی کی مخلصانہ کوششوں کے باوجود امریکی حکمرانوں کو ان پانچ برسوں کے دوران ایسی ضرورتیں پیش آسکتی ہیں جو اس کے دفاعی منصوبوں کو جارحانہ منصوبوں میں بدل سکتی ہیں۔

اگرچہ امریکا کی عالمی جنگوں کے بعد کی تاریخ نے دنیا بھر میں امریکا کو ایک جارح سامراجی ملک کے طور پر متعارف کرایا لیکن اگر ہم اس جارحانہ تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ امریکا کی ان جارحانہ پالیسیوں کا انجام بار بار ناکامی اور شکست کی شکل ہی میں سامنے آیا، جس کی مثالیں ویت نام سے عراق اور افغانستان تک مل سکتی ہیں۔ ان جنگوں میں امریکا کو خود اپنی فوج کے الم ناک جانی نقصانات کے علاوہ کھربوں ڈالر کے مالی نقصانات کا بھی سامنا کرنا پڑا اور دوسری قوموں کے لاکھوں انسان بھی مارے گئے۔

بات صرف آج کے یا گزرے ہوئے کل کے سامراجی ملکوں کی جنگ پسندی کی نہیں ہے بلکہ پوری انسانی تاریخ جنگوں، انسانوں کے قتل عام اور انسانوں کے درمیان نفرتوں سے بھری پڑی ہے۔ کرۂ ارض کی انسانی تاریخ کے ابتدائی دور بلکہ شخصی آمریتوں کے دور تک جو قتل و غارت گری ہوتی رہی، اس کا ایک جواز یہ پیش کیا جاسکتا ہے کہ اس دور کے انسانوں نے نہ اپنے مہذب ہونے کا دعویٰ کیا تھا، نہ وہ کسی مہذب کلچر سے واقف تھے۔

جدید انسانی تاریخ جو بھاپ کی دریافت سے شروع ہو کر ''جمہوری سرمایہ دارانہ سماج'' تک آپہنچی ہے، اس کو اپنے مہذب ہونے پر فخر بھی ہے اور یہ ترقی یافتہ تہذیب ماضی کے جہل پر استوار معاشروں پر آنسو بھی بہاتی ہے۔ امریکا کو جدید ترقی یافتہ تہذیب کا نمایندہ کہا جاتا ہے، لیکن یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ امریکا کی یہ مہذب سرمایہ دارانہ تہذیب جنگوں، قتل و غارت حتیٰ کہ ایٹم بموں کے استعمال سے بھری پڑی ہے۔

واشنگٹن کے شمالی علاقے کے ایک فوجی اڈے پر منعقد ہونے والے اس ایک روزہ سیمینار میں عموماً ملک کے دفاع کے حوالے ہی سے غور ہوتا رہا لیکن اس سیمینار میں 9/11 جیسے حملوں کے امکانات اور دفاع کا جائزہ بھی لیا گیا۔

اصل سوال یہی ہے کہ امریکا کے حکمرانوں نے اپنے ''قومی مفادات'' کے تحفظ کے لیے جس دہشت گردی کو جنم دیا تھا، وہ اب تیزی سے پھیل کر ساری دنیا کے جسم کا کینسر بن گئی ہے اور امریکا اور اس کے مغربی حلیف اپنے قومی جسموں کو اس کینسر سے بچانے کی کوشش بھی کررہے ہیں اور اس کینسر کو پھیلانے میں بھی معاونت کرتے نظر آرہے ہیں، جس کا مشاہدہ ہم مشرق وسطیٰ کے بدلتے ہوئے منظرنامے میں کرسکتے ہیں۔

مشرق وسطیٰ میں بے شک شخصی اور خاندانی حکمرانیوں کا راج تھا اوران خاندانی حکمرانیوں کو ختم کرکے امریکا اس خطے میں جمہوری حکومتوں کو برسر اقتدار دیکھنا چاہتا تھا، اسی ''نیک مقصد'' کے لیے اس نے لیبیا میں فضائی حملوں کے ذریعے عوامی تحریک کی مدد کی۔ اور اب شام میں بھی وہی کچھ کرنے جارہا ہے۔

کیا امریکا واقعی مشرق وسطیٰ میں خاندانی آمریتوں کو ختم کرکے جمہوری حکومتوں کو برسر اقتدار لانا چاہتا تھا یا صرف ان حکومتوں کو ختم کرنا چاہتا تھا جو اینٹی امریکا تھیں؟ مشرق وسطیٰ میں تو آج بھی بادشاہتیں قائم ہیں جن سے امریکا کی پکی یاری ہے۔ پھر جمہوریت کے فروغ کے دعوئوں کا کیا بنے گا؟

امریکا کو خوف لاحق ہے کہ اس پر 9/11 جیسا حملہ ہوسکتا ہے اور یہ محض قیاس نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایسا حملہ ہوا تو عراق اور افغانستان میں 9/11 کے کرداروں سے شکست کھانے والے امریکا کے پاس اس خوف ناک بلا سے دفاع کرنے کا کون سا راستہ رہ جاتا ہے؟

کیا امریکا اس انسانی تاریخ کی سب سے ہولناک اور بے سمت بلا کے خلاف ایٹمی ہتھیار استعمال کرے گا؟ ہمارا خیال ہے کہ آج ہمارا انسانی معاشرہ قانونی اور اخلاقی جنگوں کے علاوہ جن غیر قانونی اور غیر اخلاقی جنگوں کے دہانے پر کھڑا ہے، اس کے مضمرات پر غور کرنے اور جنگوں، نفرتوں، جارحیتوں سے بچنے کی تدبیروں پر غور کرنے کے لیے امریکی عوام کو ساری دنیا کے جنگ مخالف امن کے حامیوں کا ایک بیس روزہ سیمینار منعقد کرنا چاہیے جو دنیا کے عوام کو جنگوں، نفرتوں سے آزاد کراسکے۔ دنیا کو اب جنگ کے نہیں امن کے سیمیناروں کی ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔