بات کچھ اِدھر اُدھر کی جو آج بھی دلوں پر راج کرتے ہیں

لوگ آج بھی سوچتے ہیں کہ اگر سلیم صاحب زندہ ہوتے تو وہ فلاں ڈرامے کے کردار کو کتنی خوبصورتی سے نبھاتے۔

لوگ آج بھی سوچتے ہیں کہ اگر سلیم صاحب زندہ ہوتے تو وہ فلاں ڈرامے کے کردار کو کتنی خوبصورتی سے نبھاتے۔

انہوں نے پندرہ نومبر 1944ء میں ہندوستان کے شہر ناگپور میں ایک اعلی تعلیم یافتہ سید پختون فیملی کے ہاں آنکھ کھولی، والدین نے ان کا نام سید شیر خان رکھا ۔کون جانتا تھا کہ ایک دن یہ سلیم ناصر کے نام سے جانا جائیں گے اور اس کا شمار اُن عظیم اداکاروں میں ہوگا جو اپنی زندگی میں بھی اور اپنے مرنے کے بعد بھی حقیقی معنوں میں لوگوں کے دلوں پر راج کرتے ہیں اور ان کی کمی کو محسوس کیا جاتا ہے۔ والد کا تعلق مردان سے تھا جبکہ والدہ کا ہندوستان سے۔اس امتزاج نے وہ شاہکار تخلیق کیا کہ پھر انہوں نے جس کردار کو بھی ادا کیا اس میں زندگی بھر دی۔شہرت اگر ایک گھنے درخت کی مانند تصور کریں تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ چاہے وہ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی میں ان کی ملازمت کا دور ہو یا پردہ ا سکرین پر بطور اداکار شاخیں خودبخود جھک کر انہیں ڈھانپ لیتی تھیں۔

سلیم ناصر نے اپنے ہر کردار میں اپنی چھاپ چھوڑی اس کا اندازہ ان کی سیریز ہی نہیں بلکہ ان کے طویل دورانیے کے ڈراموں کو دیکھ کر بھی لگایا جا سکتا ہے۔1857 ء کی جنگ آزادی کے پس منظر میں بننے والی فلم " زیب النساء"جس میں وحید مراد، شمیم آراء، تمنا، طالش کے مد مقابل سلیم ناصر نے بھی اداکاری کے زبردست جوہر دیکھائے۔ ڈرامہ " دستک " میں بطور وکیل ان کا کردار انتہائی شاندار تھا۔ حسینہ معین کا لکھا ہوا ڈرامے 'ان کہی' میں شہناز شیخ، شکیل، جاوید شیخ کے مقابلے میں اداکاری کے میدان میں ان کی برتری صاف دکھائی دیتی ہے۔ سلیم ناصر نے نشان حیدر میں جب کیپٹن سرور شہید کا کردار ادا کیا تو دیکھنے والے کو یوں لگا جیسے وہ بھی ان کے ساتھ میدان جنگ میں موجود ہیں۔ اسلامی تاریخ پر بننے والے ڈرامے "آخری چٹان " میں سلطان جلال الدین خوارزمی کا کردار ادا کیا، ان کی ڈائیلاگز کی ادائیگی اور اس میں اس قدر ٹھہراؤ کہ دیکھنے والے کی آنکھ میں بھی اداسی پھیلتی چلی گئی۔

اور جب بات ہو انور مقصود کے لکھے ہوئے "آنگن ٹیڑھا" کی توگھریلو ملازم " اکبر" کا کردار ایسا کہ بشری انصاری، شکیل اور ارشد محمود جیسے اداکار بھی دیکھنے والے کو وزن میں ہلکے محسوس ہونے لگے ۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ ایک ملازم کے کردار میں بھی چھا جائیں گے ۔ حسینہ معین کے لکھے ہوئے " بندش" میں خالدہ ریاست، طلعت حسین کے ساتھ ان کی اداکاری بے حد خوبصورت رہی ۔ وہ "جانگلوس " میں بھی ایک مختلف کردار میں دکھائی دئے۔ یوں لگتا ہے جیسے اس وقت کے ڈرامہ لکھنے والے ان کی صلاحیتیوں کے امتحان لیتے تھے، ان کی شخصیت کو سامنے رکھ کر ان کا کردارکا نقشہ کھینچتے تھے اور سلیم ناصر کامیابی کی ضمانت بنتے ہوئے اس کردار کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچادیتے تھے۔





آج ہی کے روز 19 اکتوبر 1989ء کو حرکت قلب بند ہو جانے کی وجہ سے 44 سالہ سلیم ناصر ہم سے جدا ہو گئے۔ آج جب بھی پاکستان ٹیلی وژن کے لیجینڈری ادکاروں کا نام آتا ہے تو سلیم ناصر کے بغیر یہ فہرست ادھوری دکھائی دیتی ہے۔وہ اپنی ذات میں فن کا ایک ادارہ تھے۔ انہوں نے اس سنہری دور میں فنی دنیا میں قدم رکھا جب میرٹ فن کی بنیاد تھا، اور اسی بنیاد کے بل بوتے پر انہوں کی شہرت کی بلندیوں پر اپنے نام کا سکہ جمادیا۔

لوگ آج بھی سوچتے ہیں کہ اگر سلیم صاحب زندہ ہوتے تو وہ فلاں ڈرامے کے کردار کو کتنی خوبصورتی سے نبھاتے ۔ درحقیقت سلیم ناصر جیسے اداکاروں کی کمی ہر دور میں محسوس ہوتی ہے اور ہوتی رہے گی۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story