الیکشن کمیشن کی مالی و انتظامی خودمختاری

پنچایت اور جرگے کی جانب سے خواتین کو ووٹ کاسٹ کرنے سے روکنا انتخابات کے حقیقی نتائج کو متاثر کرتا ہے۔


Editorial October 19, 2014
خواتین کے ووٹ کا حق سلب کرنا نہایت سنگین معاملہ ہے کیونکہ ملک کی 51 فیصد آبادی خواتین پر مشتمل ہے، فوٹو فائل

جمعہ کو الیکشن کمیشن نے پارلیمنٹ کی انتخابی اصلاحات کمیٹی کے سامنے پیش کردہ اپنی سفارشات میں مالی و انتظامی خودمختاری کی مانگ کی ہے۔ انتظامی امور میں خودمختاری اور مالی فنڈز کے استعمال میں آزادی کے باعث ادارے اپنی بہتر کارکردگی کے لیے درست فیصلے باآسانی لے سکتے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے اصلاحات کمیٹی کو مزید سفارش کی ہے کہ خواتین کو ووٹ دینے سے روکنے کے لیے پنچایت اور جرگے کے ممبران کے خلاف سخت ترین سزا مقرر کی جائے، الیکشن کمیشن ذرائع کے مطابق ان کے لیے موجودہ قوانین میں سزائیں کم ہیں لہٰذا ان کو کم سے کم پانچ سال قید تک سزا اور جرمانہ پچاس ہزار یا اس سے زائد مقرر کیا جائے۔

خواتین کے ووٹ کا حق سلب کرنا نہایت سنگین معاملہ ہے کیونکہ ملک کی 51 فیصد آبادی خواتین پر مشتمل ہے، شہری علاقوں میں خواتین پر پابندیوں کا وہ سلسلہ نہیں جو گاؤں دیہات اور قبائلی علاقوں میں روا رکھا جاتا ہے۔ پنچایت اور جرگے کی جانب سے خواتین کو ووٹ کاسٹ کرنے سے روکنا انتخابات کے حقیقی نتائج کو متاثر کرتا ہے، اس تناظر میں الیکشن کمیشن کی یہ سفارش بالکل صائب ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے یہ سفارش بھی کی گئی ہے کہ الیکشن ٹریبونلز کی انتخابی عذرداریوں کے لیے مدت 4 ماہ سے بڑھا کر 6 ماہ مقرر کی جائے جب کہ آئندہ ٹریبونلز کے لیے ہائیکورٹ کے حاضر سروس ججز کی خدمات لی جائیں۔ کمیٹی کو سفارش کی گئی کہ الیکشن کمیشن کو قانونی تحفظ دیا جائے کہ ممبران پارلیمنٹ کے اثاثوں کی جانچ پڑتال کر سکے۔

یہ نہایت اہم معاملہ ہے کیونکہ موجودہ قانون کے تحت کمیشن اثاثوں کی جانچ پڑتال ازخود نہیں کر سکتا لہٰذا جانچ پڑتال کا اختیار الیکشن کمیشن کو ملنے سے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔ اصلاحات کمیٹی کو تجویز دی گئی ہے کہ انتخابات اور انتخابی مہم کے دوران اخراجات کی حد کو قانونی طور پر صوبائی اسمبلی کے لیے 40 لاکھ اور قومی اسمبلی کے لیے 60 لاکھ مقرر کیا جائے، اس وقت صوبائی اسمبلی کے لیے اخراجات کی حد 10 اور قومی کے لیے 15 لاکھ روپے ہے جب کہ کاغذات نامزدگی کے لیے صوبائی اسمبلی کی موجودہ فیس 2 ہزار کو بڑھا کر 30 ہزار اور قومی اسمبلی کے لیے کاغذات نامزدگی کی موجودہ فیس 5 ہزار کو 50 ہزار مقرر کیا جائے۔

فیس میں اضافے کا مقصد غیر سنجیدہ لوگوں کو انتخابات میں کاغذات جمع کرنے سے روکنا بھی ہے۔ یہ سفارش بھی کی گئی ہے الیکشن کمیشن کو مکمل طور پر مالی خود مختار ادارہ بنایا جائے جب کہ الیکشن کمیشن کے انتظامی اختیار میں قانونی تحفظ دیا جائے کہ انتخابات کے شیڈول جاری ہونے کے ساتھ ہی ملک بھر کے تمام اداروں کے ملازمین کو الیکشن کمیشن کے ماتحت کر دیا جائے اور الیکشن کمیشن کو نائب قاصد سے سیکرٹریز تک تبادلے کا اختیار حاصل ہو جائے۔

یہ حقیقت ہے کہ موجودہ ملکی سیاسی صورتحال میں جہاں اپوزیشن نے محتاط انداز میں جب کہ تحریک انصاف پاکستان اور پاکستان عوامی تحریک نے اپنے دھرنوں اور جلسوں میں انتخابی بے ضابطگیوں اور دھاندلیوں کی شکایات کی ہیں وہاں وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے کہ ملک کو ایک شفاف، قابل اعتماد، اور متفقہ انتخابی اصلاحات پر مبنی سفارشات کا جامع پروگرام دیا جائے اور ایسی آئینی ترامیم ہوں جن کی روشنی میں الیکشن کمیشن خود مختار ہو، جس کی زیر نگرانی آئندہ ہونیوالے الیکشن کی شفافیت پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |