الف سے امن ب سے بچپن اور ت سے تعلیم

2013ء کے دوران دنیا کے مختلف شورش زدہ علاقوں میں لاکھوں بچے مختلف غیر انسانی سرگرمیوں کی زد میں آئے۔


Zahida Hina October 19, 2014
[email protected]

اپنے پلو میں جگنو سمیٹنے والی لڑکیوں اور رنگین کنچوں سے کھیلنے والے لڑکوں کو دیکھئے تو آنکھوں میں ٹھنڈک اترتی ہے۔ بچپن اور لڑکپن کی معصومیت اور شرارت کی ان زندہ تصویروں کے بارے میں کون سوچ سکتا ہے کہ کچھ سفاک دل ایسے بھی ہوں گے کہ جگنو سمیٹنے والیوں سے ان کے جگنو چھین کر ان کے پر نوچ لیں اور کنچے کھیلنے والے لڑکوں کی آنکھیں بارود کی نذر کر دی جائیں۔ ایک ناقابل یقین بات لیکن ہماری تیسری دنیا کی حقیقت یہی ہے۔

یہ نہ ہوتی تو خلیج ٹائمز، کے سینئر تجزیہ کار جوناتھن پاور کو کیوں یہ لکھنا پڑتا کہ ''2013ء کے دوران دنیا کے مختلف شورش زدہ علاقوں میں لاکھوں بچے مختلف غیر انسانی سرگرمیوں کی زد میں آئے، متحارب گروپوں نے بچے بھرتی کیے اور انھیں بارودی سرنگوں کے علاقے میں بھیجا، لاتعداد بچے جنسی یا سنگین جسمانی تشدد کا نشانہ بنے۔ چند مہینوں پہلے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے ''مسلح تنازعات اور بچے'' کے عنوان سے سالانہ رپورٹ پیش کی جس میں سنگین انکشافات کیے گئے ہیں۔ اُن کے مطابق ''ہم نے رپورٹ میں سات قومی افواج اور پچاس سے زائد مسلح گروپوں سے متعلق دستاویزی ثبوت جمع کیے ہیں جو بچوں کی بھرتی میں ملوث ہیں۔ یہ گروپ وسطی افریقی ریپبلک، جنوبی سوڈان، شام اور دیگر سات ملکوں میں برسرپیکار ہیں اور فوجی مقاصد کے لیے بچوں کو استعمال کر رہے ہیں۔

2013ء میں مسلح سرگرمیوں کے دوران ہلاک یا جسمانی اعضاء سے محروم ہونے والے بچوں کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا۔ جن ملکوں میں ایسے واقعات پیش آئے ان میں افغانستان، وسطیٰ افریقی ریپبلک، صومالیہ، کانگو، شام اور عراق شامل ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں بوکاسا حکومت کی بے رحمی کے کئی پہلو بے نقاب کیے جس میں اسکول کے سیکڑوں طلبا کا قتل شامل ہے، جنھیں کال کوٹھریوں میں گلا گھونٹ کر قتل کیا گیا۔ یہ انکشاف فرانسیسی صدر گسکارڈ ڈی ایسٹینگ کی انتخابی مہم پر بجلی بن کر گرا، جس کی وجہ بوساکا کے ساتھ ان کی گہری دوستی تھی، کئی مرتبہ بوساکا نے انھیں تحفے میں ہیرے پیش کیے تھے۔ آج پھر یہ ملک خانہ جنگی میں بری طرح الجھا ہوا ہے، اور ایک اندازے کے مطابق یہ خانہ جنگی سیکڑوں بچوں کو ہلاک یا عمر بھر کے لیے اپاہج بنا چکی ہے۔

متاثر ہونے والے بچوں کی اکثریت بارودی مواد کے پھٹنے سے ہلاک یا اپاہج ہوئی۔ اس مرتبہ فرانس، وسطی افریقی ریپبلک میں جاری خانہ جنگی میں مصالحت کار کا کردار ادا کر رہا ہے۔ مگر متحارب گروپوں کی جانب سے بچوں کی بھرتی روکنے میں ناکام ہے۔ نائیجیریا میں 200 کے قریب اسکول طالبات بوکو حرام نامی تنظیم کے ہاتھوں اغوا کر لی جاتی ہیں۔ افغانستان میں جہاں امریکی اور نیٹو انخلا کی تیاریوں میں لگے ہوئے ہیں وہاں کے بارے میں یونیسیف نے ایک دستاویزی رپورٹ تیار کی ہے جس کے مطابق گزشتہ سال 97 کم عمر لڑکوں کو بطور ''چائلڈ سولجر'' بھرتی کر کے جنگ میں استعمال کیا گیا۔ ان میں سے کچھ لڑکوں کی عمر آٹھ سال کے قریب تھی۔

رپورٹ کے مطابق ان میں 72 بچوں کو مسلح اپوزیشن گروپوں نے بھرتی کیا جن میں طالبان اور حقانی نیٹ ورک سرفہرست ہیں۔ نو بچے خودکش حملوں کے لیے بھرتی کیے گئے۔ شام میں جاری خانہ جنگی ایک اندازے کے مطابق دس ہزار سے زائد بچوں کی جانیں لے چکی ہے۔ دسمبر 2013ء میں الیپو شہر میں حکومت کی جانب سے بیرل بمبوں کا استعمال سیکڑوں بچوں کی ہلاکت اور انھیں عمر بھر کے لیے اپاہج بنانے کا سبب بنا۔ اسی طرح پاکستان میں فرقہ وارانہ اور انتہاپسند جنگجو تنظیموں کی جانب سے کم عمر بچوں کا بطور خودکش حملہ آور استعمال کئی برسوں سے جاری ہے۔''

اس تناظر میں دیکھئے تو 2014ء کے نوبل امن انعام کے شراکت دار ملالہ یوسفزئی اور کیلاش سیتارتھی دونوں کا انتخاب سمجھ میں آتا ہے۔ دونوں برصغیر کے رہنے والے ہیں جہاں کی دونوں حکومتیں تلوار سونتے ایک دوسرے پر جھپٹ پڑنے کے لیے بے تاب رہتی ہیں، جہاں جنگ جوئی اور اسلحہ اندوزی پر خطیر رقم خرچ کی جاتی ہے جو اگر سماجی بہبود کے معاملات پر خرچ ہوتی تو ہمارے خطے کی تقدیر بدل جاتی۔ نوبل امن انعام دینے والی کمیٹی نے یوں تو دنیا کو لیکن سب سے بڑھ کر پاکستان اور ہندوستان کو یہ قاعدہ پڑھایا ہے جس میں الف سے امن، ب سے بچپن اور ت سے تعلیم کی بات کی گئی ہے۔ ملالہ پر جولائی 2012ء میں چلائی جانے والی گولی خطا ہو گئی، وہ جب زندگی اور موت کی کشمکش میں گرفتار تھی اس وقت سے ستمبر 2014ء تک میں اس کے بارے میں 3 کالم لکھ چکی ہوں۔

ان کالموں پر مجھے تند و تیز ای میلز اور دھمکی آمیز ایس ایم ایس سے 'نوازا' گیا۔ یہ ہم لکھنے والوں کی زندگی کا ایک معمول ہے۔ انتہا پسند اور جنونی مزاج رکھنے والے دلیل سے بات کرنے کے نہ قائل ہیں اور نہ قابل، اسی لیے وہ تولہ بھر سیسہ اور چھٹانک بھر بارود کو اپنے سے مختلف خیالات رکھنے والوں کو خاموش کرنے کا سب سے موثر ذریعہ سمجھتے ہیں۔ آج تیسری دنیا میں ادیبوں اور بطور خاص صحافیوں کے لیے زندگی بہت مشکل ہو گئی ہے۔

پرمسرت خاندانی زندگی کے نکتے، تعلیم کیجیے، کھانے پکانے کے نسخے لکھیے اور موت کے بعد کے مراحل کو سہل کرنے کے لیے اوراد و وظائف تحریر کیجیے تو آپ محفوظ و مامون ہیں لیکن جدید تعلیم، انسانی حقوق، اقلیتوں کے مسائل اور دہشت گردی کے اثرات، عورتوں کے لیے مساوی حقوق اور مساوی مواقع کی بات کیجیے تو آپ گردن زدنی ہیں۔

وہ انعام جس پر ہمارے ملک میں جشن ہونا چاہیے تھا اس کے بارے میں سناٹا ہے۔ ہماری کرکٹ یا ہاکی ٹیم کوئی انعام لائے تو ہم یوں جشن مناتے ہیں جیسے یہ لوگ چاند پر جھنڈے گاڑ آئے ہوں لیکن ڈاکٹر عبدالسلام اور ملالہ یوسف زئی کو طبعیات اور امن کا نوبل انعام مل جائے تو ہم کوشش یہی کرتے ہیں کہ یہود و نصاریٰ کی اس 'سازش' کو نظر انداز کر دیں اور اگر دنیا چیخ چیخ کر ہمیں اس طرف متوجہ کرے تو ہم نیم دلی سے اس اعزاز کے ملنے کا اعتراف کریں۔

ہمارے یہاں کیلاش ستیارتھی کا ذکر بہت سرسری طور پر کیا گیا۔ یہ وہ ہندوستانی ہیں جن کے اور ملالہ کے درمیان اس سال کا امن نوبل انعام مشترک رہا۔ داد ملنی چاہیے نوبل امن کمیٹی کو جس نے اس انعام کے اعلان سے برصغیر کے لوگوں کو یہ پیغام دیا کہ خطے کے ان دونوں ملکوں کی تقدیر ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے۔ دوسرے یہ کہ ان دونوں ملکوں کی حکومتوں نے اپنے بچوں کے بچپن کو اپنی نااہلیوں سے کس طرح زہر بنا رکھا ہے اور تیسرا نکتہ یہ کہ ابتدائی تعلیم سے یہاں کے بچے کس طرح محروم رکھے گئے ہیں۔

پاکستان میں بہ طور خاص لڑکیوں کی تعلیم کے دشمن یہ سن کر خوش ہوں گے کہ سرحد کی دوسری جانب جو لوگ رہتے ہیں، ان میں ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو کیلاش ستیارتھی کو ''مغرب کا ایجنٹ'' سمجھتے ہیں۔ مدھیا پردیش کے رہنے والے کیلاش پڑھ لکھ کر الیکٹریکل انجینئر بن گئے تھے۔ اچھی خاصی ملازمت تھی ایک مناسب اور آرام دہ زندگی کہ اچانک ان کے ذہن میں ایک چراغ جل اٹھا۔ ان کے ارد گرد رہنے والے بچے اپنے بچپن سے محروم زندگی گزار رہے تھے، کوئی کھیت میں بیگار مزدوری کر رہا تھا، کوئی کسی فیکٹری میں غلاموں کی زندگی گزار رہا تھا، کوئی سڑکوں پر بھیک منگوانے والے 'استاد' کی چاکری کر رہا تھا۔

کیلاش کے دل میں خنجر اتر گیا۔ ان بچوں سے ان کا بچپن چھیننے کا حق کسی کو نہیں تھا۔ وہ سوچتے رہے کہ پھر ایک روز انھوں نے نوکری سے استعفیٰ دیا۔ دلی کے ایک نچلے متوسط علاقے کالکا جی کی ایک تباہ حال گلی میں ایک دفتر کھولا اور اس پر ''بچپن بچاؤ اندولن'' کا بورڈ لگایا اور ان بچوں کو غلامی اور غربت سے آزاد کرانے کی مہم میں جٹ گئے۔ وہ اب تک 80 ہزار بچوں کو آزاد کرا چکے ہیں۔ کیلاش ان لوگوں کو بہت ناگوار گزرتے ہیں جن کے مفادات پر ان بیگار مزدور اور غلام بچوں کی آزادی سے ضرب پڑتی ہے۔ اسی لیے ان کے بہت سے دشمن ہیں۔

60 برس کے کیلاش ستیارتھی اور 17 برس کی ملالہ یوسفزئی کے درمیان بچپن کو بچانے اور بچوں میں تعلیم پھیلانے کی خواہش مشترک ہے۔ ان دونوں کو کن الفاظ میں مبارک باد دی جائے کہ یہ دونوں جو بہ ظاہر ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں۔ ایک بوڑھا، ایک نوجوان، ایک عورت دوسرا مرد، ایک ہندو تو ایک مسلمان، ایک ہندوستانی اور دوسرا پاکستانی۔ یہ دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور دونوں کی جدوجہد برصغیر میں رہنے والوں کو زندگی کا نیا قاعدہ پڑھاتی ہے۔ الف سے امن، ب سے بچپن اور ت سے تعلیم۔ اپنے خطے میں امن پھیلائیے، اپنے بچوں کا بچپن انھیں واپس لوٹائیے اور ان میں تعلیم عام کیجیے کہ یہ پورے برصغیر کے لیے نجات کی راہ اور نسخہ شفا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں