شادیاں اب شادی ہالوں میں

ہمارے دیہات کے بعض صاحب حیثیت بھی شادیاں گاؤں کی جگہ کسی شہر میں کرنے کا شوق رکھتے ہیں ۔


Abdul Qadir Hassan October 19, 2014
[email protected]

NEW DELHI: پرانے ہندو کلچر میں کنجوسی یا جُز رسی ایک روایت ہے لیکن شادی بیاہ اور مکان کی تعمیر پر بے تحاشا خرچ بھی ایک روایت ہے۔ شاہ خرچی کی یہ روایت آج کس حال میں ہے مجھے معلوم نہیں لیکن ہندو کلچر کی جو پرانی روایات تھیں ان میں سے کئی روایات کے اثرات ہمارے مسلم معاشرے میں بڑے واضح ہیں چنانچہ شادی کی متعدد رسومات ہمارے کلچر کا حصہ بن چکی ہیں۔ ہمارے معلّمین شور مچاتے رہتے ہیں کہ ان ہندو روایات اور رسومات کو ترک کر دو لیکن ایسا اب تک ہو نہیں سکا۔

شادی بیاہ پر جو رونق پسندیدہ ہے وہ ہندو رسم و رواج میں ہی وافر ملتی ہے۔ اگر آج دیکھیں تو پاکستان کی برکات نے عوام میں جو عام خوشحالی پیدا کر دی ہے اگر ہمارے حکمران اسے باقی رہنے دیں اور اپنا حصہ حد سے زیادہ وصول نہ کریں تو ہمارے ہاں غربت ایسی ہرگز نہیں جو ہمارے بعض پڑوسی ملکوں خصوصاً بھارت میں عام ہے۔ ہم پاکستانی اپنی اس خوشحالی میں اتنی بچت کر لیتے ہیں یا اتنا قرض اٹھانے کی ہمت پا لیتے ہیں کہ شادی بیاہ کو خوب پررونق بنا لیں۔ اب ہمارے ہاں شادیوں کا ایک نیا انداز شروع ہوا ہے کہ ہمارے دیہات کے بعض صاحب حیثیت بھی شادیاں گاؤں کی جگہ کسی شہر میں کرنے کا شوق رکھتے ہیں ۔

جہاں شادی ہال شادی والوں کو بڑی سہولتیں دیتے ہیں اور شادی کے رسم و رواج کو آسان بنا دیتے ہیں خصوصاً شادی کا کھانا جو دیہات میں ایک مسئلہ ہوتا ہے وہ یہاں اس طرح حل ہوتا ہے کہ شادی والے کھانے کے مقررہ نرخ ادا کر کے بے فکر ہو جاتے ہیں اور سب سے اہم بات یہ کہ اگر کھانے میں کوئی نقص ہو تو اس کی ذمے داری شادی ہال والوں پر عائد ہوتی ہے۔ شادی والے اس سے محفوظ رہتے ہیں اور ایسی معاشرتی اور برادری کی ذمے داری سے محفوظ ہو جانا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ شادیوں کے انتظامات کے یہ پہلو بہت زیادہ اہم ہوتے ہیں اور ان سے کسی کے ذریعے عہدہ براء ہو جانا بہت بڑی سہولت ہے۔ اگر خدا توفیق دے تو شادیوں کو آسان بنانے والے شادی ہال سلامت رہیں۔ یہ جو معاوضہ وصول کرتے ہیں اس کے تہذیبی پہلوؤں کو گلے شکوے سے محفوظ کر لینا بڑی بات ہے۔

عرض یہ ہے کہ شادی ہال ایک غیرمعمولی سہولت ہیں لیکن یہ شہری آبادیوں میں ہی بنائے جاتے ہیں۔ اگر آپ مریض کو شہر کے اسپتال تک لے آتے ہیں تو شادی بیاہ کے علاج کے لیے بھی شہروں کا رخ کرنا بڑی سہولت ہے بشرطیکہ توفیق ہو اور اب تو لوگوں نے شادی کے اخراجات میں ان شہری شادی ہالوں کے اخراجات بھی شامل کر لیے ہیں۔ زیورات سے تو اب بڑی حد تک جان چھوٹ گئی ہے کہ سونے کی مہنگائی نے انگوٹھی اور ایک آدھ ہاتھ کی چوڑی کی مالی سکت ہی باقی رہنے دی ہے۔ اس بچت کو بھی شادی کے دیگر اخراجات میں شامل کر لیا جاتا ہے۔ غرض شادی کے غیرضروری اور کئی ایک نمائشی اخراجات پر قابو پا کر شادی ہالوں کے ذریعے شادی کو آسان کر دیا گیا ہے۔

بات ہندو کلچر کی ان روایات اور رسومات سے شروع ہوئی تھی جو شادی بیاہ میں موجود ہیں اور یہ بھی پاکستانی کلچر کا ایک حصہ بن چکی ہیں۔ یہ بھارت پسندوں بلکہ پرستوں کے لیے ایک خوشی کی بات ہے کہ ان کا کام آسان ہو جاتا ہے۔ ہندو کلچر کی دوسری روایت مکان کی تعمیر تھی۔ ہندو مکان کی تعمیر پر بہت خرچ کرتے ہیں۔ شادی وغیرہ سے زیادہ کہ یہ ایک مستقل جائیداد ہوتی ہے۔ میرے گاؤں میں مکانات کچے تھے لیکن ہندو دکانداروں کے مکانات پکے اور خوبصورت۔ ان مکانوں میں ایک بڑی سی ڈیوڑھی اور دکان جس کے ساتھ ایک اسٹور۔ ہندوؤں کے گھر کے اندر جانے کا موقع ہی نہیں ملتا تھا۔ آپ کو تعجب ہو گا کہ کوئی مسلمان کسی ہندو کے گھر میں داخل نہیں ہو سکتا تھا۔ اس روایت پر سختی سے عمل کیا جاتا تھا اور مسلمان اس کا احترام کرتے تھے۔ ہندوؤں کے گھر کی یہ عزت ان کے مذہب میں شامل تھی۔

مثلاً ہندو گھر کے باورچی خانے میں کوئی مسلمان داخل نہیں ہو سکتا تھا۔ بقول ایک ہندو دانشور کے ان کا مذہب دوسرے کئی مذاہب کی طرح نہیں ہے بلکہ یہ کئی روایات کا مجموعہ ہے اور ان ہی روایات کا نام ہندومت ہے اور ان روایات کی پابندی ہی ہندو مذہب کی پابندی اور احترام ہے۔ بات چند ثقافتی پہلوؤں کی ہو رہی تھی جن میں شادی بیاہ سرفہرست تھی اور شادیوں کے انتظامات میں شادی ہالوں کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے وہ مہنگا ہے یا سستا آرام دہ ضرور ہے اور مسلمان جو اب قدرے خوشحال ہیں اپنی شادیوں کی سب سے بڑی تقریب کو شادی ہالوں میں لے آتے ہیں یعنی سہرا بندی تک بھی شادی ہالوں میں ہو رہی ہے۔ باراتوں کی آمد و رفت بھی ان ہی شادی ہالوں میں ہوتی ہے اور دلہن بھی ان ہی آراستہ ہالوں سے رخصت ہوتی ہے۔

شادیوں کی اکثر تقریبات کی گھروں سے نکل کر شادی ہالوں میں آمد ایک نئی روایت اور نیا انداز ہے اور چونکہ اس میں قدرے سہولت ہے اس لیے اب یہ طے ہے کہ ہماری شادیاں اپنے پرانے گھروں میں نہیں ان کرائے کے عارضی گھروں میں ہوں گی۔ روایات سہولت کا تقاضا بھی کرتی ہیں اور جس میں سہولت ہو وہی روایت ایک مستقل حیثیت اختیار کر لیتی ہے اور کئی نئی روایات اگر بے عیب ہیں ہماری مذہبی روایات کے منافی نہیں ہیں تو شادی ہالوں میں ان کی منتقلی میں کیا خرابی ہے۔ بہرکیف بدلتی زندگی میں یہ سب کچھ تو ہو گا اس میں حرج ہی کیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں