عمران خان اور طاہر القادری کی سولو فلائیٹ
نواز شریف حکومت کو گرانے کے لیے طاہر القادری اور عمران خان اندرون خانہ یقیناً متحد ہیں اور متحد رہیں گے۔
عمران خان اور طاہر القادری نے دارالحکومت اسلام آباد میں دھرنوں کے ساتھ ساتھ اب مختلف شہروں میں احتجاجی جلسوں کا سلسلہ بھی شروع کر دیا ہے۔ کراچی، لاہور، میانوالی اور ملتان میں تحریک انصاف نے محیرالعقول جلسے کر کے مسلم لیگ ن اور سروے کرنیوالے اداروں کے ان دعووں کی قلعی کھول دی ہے کہ دھرنا سیاست نے عمران خان کی مقبولیت کم کر دی ہے۔
بغیر کسی خوف تردید کے، کہا جا سکتا ہے کہ عمران خان کے حالیہ جلسوں نے ان شہروں میں بھٹو، بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے جلسوں کے ریکارڈ توڑدیے ہیں۔ آصف علی زرداری کہتے ہیں، عمران خان کی سیاست پانی کا بلبلہ ہے۔ نواز شریف کو اپنے 'انتخابی تجربہ' پر، اور آصف علی زرداری کو اپنے 'مطالعہ تاریخ' پر بڑا زعم ہے، اور معلوم ہوتا ہے کہ ان کا یہ زعم ہی ان کے لیے نوشتہ ٗ دیوار پڑھنے میں رکاوٹ ثابت ہو رہا ہے۔
عمران خان کے بعد اب طاہر القادری اور چوہدری برادران بھی احتجاجی جلسوں کا آغاز کر چکے ہیں۔ طاہر القادری اور چوہدری برادران کے بدترین مخالف رانا ثنا اللہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ دھوبی گھاٹ میں طاہر القادری اور چوہدری برادران کا جلسہ، یہاں عمران خان کے گزشتہ جلسہ سے بڑا جلسہ تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس جلسہ کی تیاری کے لیے چوہدری پرویز الٰہی بطور خاص فیصل آباد گئے تھے، اور عوامی تحریک، مسلم لیگ ق، سنی اتحاد کونسل اور مجلس وحدت المسلمین کی مقامی قیادت کو جلسہ کی کامیابی کے لیے خصوصی ٹاسک سونپ کر آئے تھے۔
فیصل آباد کے بعد طاہر القادری نے 19 اکتوبر کو مینار پاکستان لاہور میں جلسہ کرنے کا اعلان کیا ہے، جہاں پہلے بھی، دسمبر 2012 ء میں، وہ بہت کامیاب جلسہ کر چکے ہیں، بلکہ اس جلسہ کی غیر معمولی کامیابی کے بعد ہی انھوں نے جنوری2013 ء میں اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کرنے اور وہاں دھرنا دینے کا عزم کیا تھا۔ رواں سال14 اگست کو جب طاہر القادری لاہور سے اسلام آباد کی طرف روانہ ہوئے تھے، تو ان کا نعرہ تھا، ''پہلے انقلاب، پھر انتخاب، اب ان کا نعرہ ہے، پہلے انتخاب، پھر انقلاب۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نواز شریف حکومت کے خلاف عمران خان، طاہر القادری اور چوہدری برادران سب الیکشن پیج پر آچکے ہیں، اور اب طاہر القادری کو سنگل آوٹ کر کے یہ نہیں کہا جا سکے گا کہ 'انقلاب' کے نام پر وہ 'جمہوریت' کو ڈی ریل کرنا چاہتے ہیں۔
اس لحاظ سے طاہر القادری کا یہ انقلابی فیصلہ، خوش آیند ہے۔ نواز شریف حکومت کو گرانے کے لیے طاہر القادری اور عمران خان اندرون خانہ یقیناً متحد ہیں اور متحد رہیں گے، لیکن کیا نواز شریف حکومت گرنے کے بعد بھی وہ متحد رہیں گے، یہ کہنا ذرا مشکل ہے، کیونکہ دونوں قائدین کی افتاد طبع کچھ اس قسم کی ہے کہ جہاں سوئی اٹک گئی، بس اٹک گئی۔ لہٰذا مڈٹرم الیکشن کی صورت میں دونوں کا اکٹھے چلنا آسان نہیں ہو گا۔ ظاہراً، تحریک انصاف کی یہ سوچی سمجھی پالیسی ہے کہ پاکستان عوامی تحریک سے الگ ہو کر چلنا ہے۔ یہ اندازہ اس وقت بھی ہوا، جب گزشتہ سال طاہر القادری نے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کیا، بلکہ تین روز تک پارلیمنٹ ہاوس کے سامنے دھرنا دیا، لیکن تحریک انصاف نے اس میں علامتی شرکت بھی گوارا نہیں کی تھی۔
بعینہ، موجودہ مارچ اور دھرنا میں بھی تحریک انصاف نے اپنے آپ کو عوامی تحریک سے حتی الامکان الگ تھلگ رکھا ہے ۔ صرف ان بحرانی دنوں میں عمران خان اور طاہر القادری میں قربت نظر آئی، جب31 اگست کو پولیس آپریشن کے بعد عمرانی دھرنا بہت سکڑ گیا تھا، اور اس مرحلہ پر اگر قادری دھرنا اس کو ریسکیو نہ کرتا، تو اس کے لیے اپنا وجود برقرار رکھنا مشکل تھا۔ حقیقتاً، عمران خان ہی نہیں، ان کی کور کمیٹی بھی طاہر القادری سے گریزاں ہے اور سولو فلائیٹ کرنا چاہتی ہے۔ ان کی سوچ غالباً یہ ہے کہ طاہرالقادری کے پاس چونکہ بیشتر نشستوں پر اپنے امیدوار نہیں ہوں گے، لہٰذا بغیر کسی اتحاد کے ہی ان کا ووٹ بینک عمران خان کی طرف کھنچا چلا آئے گا۔ اس کالم نگار کی اطلاع یہ ہے کہ تحریک انصاف نے اپنے حالیہ جلسوں کے بعد عوامی تحریک سے رابطہ بالکل ہی منقطع کر لیا تھا، نتیجتاً، طاہر القادری اور چوہدری برادران یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ اسلام آباد میں ان کا دھرنا عمران خان کے دھرنا کی چوکیداری کرنے کے مترادف ہو کر رہ گیا ہے۔
کیونکہ ان دھرنوں کا سیاسی فائدہ، سارے کا سارا، عمران خان کو پہنچ رہا ہے۔ چنانچہ، چوہدری برادران کی تجویز پر طاہر القادری نے بھی آیندہ الیکشن میں حصہ لینے اعلان کر دیا ہے، اور مسلم لیگ ق سے مل کر مختلف شہروں میں جلسے کرنے کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے۔طاہر القادری نے انقلابی سیاست سے رجوع کر کے پھر سے انتخابی سیاست میں حصہ لینے کا اعلان تو کر دیا ہے، لیکن مسئلہ ان کا بھی وہی ہے، جو عمران خان کا ہے کہ سب کچھ اپنے ہاتھ میں رکھنے کے عادی ہیں۔ ان کے یہاں تو ''کور کمیٹی'' کا بھی ''رولا'' نہیں۔ طاہر القادری اس سے پہلے دو مرتبہ الیکشن میں حصہ لے چکے ہیں، اور دونوں مرتبہ ان کی سولو فلائیٹ کا نتیجہ وہی نکلا، جو نکلنا چاہیے تھا۔ اب کی بار چوہدری برادران ان کی اتحادی ہے، لیکن اپنے دورہ جھنگ کے دوران انھوں نے جس طرح جھنگ کی تمام قومی اور صوبائی نشستوں پر عوامی تحریک کے امیدوار ''کھڑے بھی کر لیے اور جتوا بھی لیے'' اگر ان کی اس طرح اونچی اڑان رہی تو کہ پھر الیکشن کی صورت میں چوہدری برادران کے لیے طاہرالقادری سے انتخابی معاملات طے کرنا آسان نہیں ہو گا۔
جیسے پیپلز پارٹی کا انتخابی نعرہ تھا کہ ''ایک زرداری، سب پہ بھاری''۔ 2 مہینہ کے مسلسل دھرنا اور 26 کارکنوں کی قربانی کے باوجود، اگر عمران خان اور طاہر القادری ابھی تک اپنے بنیادی ہدف، وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کا استعفا، حاصل نہیں کر سکے تو اس کی بڑی وجہ ان کی یہ غلط فہمی یا خوش فہمی بھی ہے؛ مثلاً، عمران خان اپنے دھرنا سے مخاطب ہوتے ہیں، تو معلوم ہوتا ہے کہ جیسے شاہراہ دستور پر تنہا ان ہی کا آزادی دھرنا موجود ہے۔ اس طرح، طاہر القادری اپنے دھرنے سے خطاب کرتے ہیں، تو لگتا ہے کہ جیسے شاہراہ دستور پر تنہا ان ہی کا انقلابی دھرنا فروکش ہے۔ تعجب ہے کہ ان دھرنوں سے خائف ہو کر نوازشریف، آصف علی زرداری، فضل الرحمن، سراج الحق، اسفند یار ولی اور الطاف حسین، سب اکٹھے ہو گئے، اور پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ایک دوسرے کے شانہ بہ شانہ نظر آئے، لیکن آفرین ہے عمران خان اور طاہر القادری پر کہ حکومتی اتحاد کے خلاف اکٹھے ہو کر ایک مشترکہ پریس کانفرنس نہ کر سکے، بلکہ لندن میں دوطرفہ ملاقات کی تصدیق بھی معذرت خواہانہ انداز میں کی گئی۔
پھر، عمران خان اور طاہر القادری، دونوں اپنی تقریروں میں یہ تو کہتے ہیں کہ پنجاب میں شہباز شریف کے دور حکومت سے، پہلے والا دور حکومت ہر لحاظ سے اچھا تھا، لیکن یہ کہنے سے ہچکچاتے ہیں کہ پنجاب میں وہ دور حکومت، پرویز الٰہی کا دور حکومت تھا۔ یوں یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ نواز شریف حکومت کے مقابلہ میں عمران خان، طاہر القادری اور چوہدری برادران کے درمیان مطلوبہ باہمی ہم آہنگی اور یکجہتی کی فضا پیدا نہیں ہو سکی۔ اس کا فائدہ ظاہر ہے نواز شریف حکومت کو پہنچ رہا ہے اور اس کے اعتماد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
عمران خان اور طاہر القادری کو قدرت نے جہاں ایک موقع دیا ہے، وہاں ایک آزمایش میں ڈال دیا ہے۔ بے شک ان کے آزادی، انقلابی دھرنوں کو جو پذیرائی حاصل ہوئی ہے، اور شہر شہر ان کے احتجاجی جلسوں میں جس جوش و خروش سے عوام شرکت کر رہے ہیں، اس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر عمران خان اور طاہر القادری اپنی اپنی انانیت کے حصار میں محصور رہے، اور اپنے اپنے جلسوں سے مسحور ہو کر انھوں نے اپنی اپنی سولو فلائیٹ جاری رکھی، تو کاروان آزادی اور کاروان انقلاب کے لیے منزل مقصود کا حصول ہر گزرنے والے دن کے ساتھ مشکل سے مشکل تر ہو تا جائے گا۔ سیاست میں انانیت کا نتیجہ تنہائی اور تنہائی کا نتیجہ صرف ماتم ہے۔ شاعر نے کہا تھا ؎
اس موج کے ماتم میں روتی ہے بھنور کی آنکھ
دریا سے اٹھی لیکن ساحل سے نہ ٹکرائی
بغیر کسی خوف تردید کے، کہا جا سکتا ہے کہ عمران خان کے حالیہ جلسوں نے ان شہروں میں بھٹو، بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے جلسوں کے ریکارڈ توڑدیے ہیں۔ آصف علی زرداری کہتے ہیں، عمران خان کی سیاست پانی کا بلبلہ ہے۔ نواز شریف کو اپنے 'انتخابی تجربہ' پر، اور آصف علی زرداری کو اپنے 'مطالعہ تاریخ' پر بڑا زعم ہے، اور معلوم ہوتا ہے کہ ان کا یہ زعم ہی ان کے لیے نوشتہ ٗ دیوار پڑھنے میں رکاوٹ ثابت ہو رہا ہے۔
عمران خان کے بعد اب طاہر القادری اور چوہدری برادران بھی احتجاجی جلسوں کا آغاز کر چکے ہیں۔ طاہر القادری اور چوہدری برادران کے بدترین مخالف رانا ثنا اللہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ دھوبی گھاٹ میں طاہر القادری اور چوہدری برادران کا جلسہ، یہاں عمران خان کے گزشتہ جلسہ سے بڑا جلسہ تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس جلسہ کی تیاری کے لیے چوہدری پرویز الٰہی بطور خاص فیصل آباد گئے تھے، اور عوامی تحریک، مسلم لیگ ق، سنی اتحاد کونسل اور مجلس وحدت المسلمین کی مقامی قیادت کو جلسہ کی کامیابی کے لیے خصوصی ٹاسک سونپ کر آئے تھے۔
فیصل آباد کے بعد طاہر القادری نے 19 اکتوبر کو مینار پاکستان لاہور میں جلسہ کرنے کا اعلان کیا ہے، جہاں پہلے بھی، دسمبر 2012 ء میں، وہ بہت کامیاب جلسہ کر چکے ہیں، بلکہ اس جلسہ کی غیر معمولی کامیابی کے بعد ہی انھوں نے جنوری2013 ء میں اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کرنے اور وہاں دھرنا دینے کا عزم کیا تھا۔ رواں سال14 اگست کو جب طاہر القادری لاہور سے اسلام آباد کی طرف روانہ ہوئے تھے، تو ان کا نعرہ تھا، ''پہلے انقلاب، پھر انتخاب، اب ان کا نعرہ ہے، پہلے انتخاب، پھر انقلاب۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نواز شریف حکومت کے خلاف عمران خان، طاہر القادری اور چوہدری برادران سب الیکشن پیج پر آچکے ہیں، اور اب طاہر القادری کو سنگل آوٹ کر کے یہ نہیں کہا جا سکے گا کہ 'انقلاب' کے نام پر وہ 'جمہوریت' کو ڈی ریل کرنا چاہتے ہیں۔
اس لحاظ سے طاہر القادری کا یہ انقلابی فیصلہ، خوش آیند ہے۔ نواز شریف حکومت کو گرانے کے لیے طاہر القادری اور عمران خان اندرون خانہ یقیناً متحد ہیں اور متحد رہیں گے، لیکن کیا نواز شریف حکومت گرنے کے بعد بھی وہ متحد رہیں گے، یہ کہنا ذرا مشکل ہے، کیونکہ دونوں قائدین کی افتاد طبع کچھ اس قسم کی ہے کہ جہاں سوئی اٹک گئی، بس اٹک گئی۔ لہٰذا مڈٹرم الیکشن کی صورت میں دونوں کا اکٹھے چلنا آسان نہیں ہو گا۔ ظاہراً، تحریک انصاف کی یہ سوچی سمجھی پالیسی ہے کہ پاکستان عوامی تحریک سے الگ ہو کر چلنا ہے۔ یہ اندازہ اس وقت بھی ہوا، جب گزشتہ سال طاہر القادری نے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کیا، بلکہ تین روز تک پارلیمنٹ ہاوس کے سامنے دھرنا دیا، لیکن تحریک انصاف نے اس میں علامتی شرکت بھی گوارا نہیں کی تھی۔
بعینہ، موجودہ مارچ اور دھرنا میں بھی تحریک انصاف نے اپنے آپ کو عوامی تحریک سے حتی الامکان الگ تھلگ رکھا ہے ۔ صرف ان بحرانی دنوں میں عمران خان اور طاہر القادری میں قربت نظر آئی، جب31 اگست کو پولیس آپریشن کے بعد عمرانی دھرنا بہت سکڑ گیا تھا، اور اس مرحلہ پر اگر قادری دھرنا اس کو ریسکیو نہ کرتا، تو اس کے لیے اپنا وجود برقرار رکھنا مشکل تھا۔ حقیقتاً، عمران خان ہی نہیں، ان کی کور کمیٹی بھی طاہر القادری سے گریزاں ہے اور سولو فلائیٹ کرنا چاہتی ہے۔ ان کی سوچ غالباً یہ ہے کہ طاہرالقادری کے پاس چونکہ بیشتر نشستوں پر اپنے امیدوار نہیں ہوں گے، لہٰذا بغیر کسی اتحاد کے ہی ان کا ووٹ بینک عمران خان کی طرف کھنچا چلا آئے گا۔ اس کالم نگار کی اطلاع یہ ہے کہ تحریک انصاف نے اپنے حالیہ جلسوں کے بعد عوامی تحریک سے رابطہ بالکل ہی منقطع کر لیا تھا، نتیجتاً، طاہر القادری اور چوہدری برادران یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ اسلام آباد میں ان کا دھرنا عمران خان کے دھرنا کی چوکیداری کرنے کے مترادف ہو کر رہ گیا ہے۔
کیونکہ ان دھرنوں کا سیاسی فائدہ، سارے کا سارا، عمران خان کو پہنچ رہا ہے۔ چنانچہ، چوہدری برادران کی تجویز پر طاہر القادری نے بھی آیندہ الیکشن میں حصہ لینے اعلان کر دیا ہے، اور مسلم لیگ ق سے مل کر مختلف شہروں میں جلسے کرنے کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے۔طاہر القادری نے انقلابی سیاست سے رجوع کر کے پھر سے انتخابی سیاست میں حصہ لینے کا اعلان تو کر دیا ہے، لیکن مسئلہ ان کا بھی وہی ہے، جو عمران خان کا ہے کہ سب کچھ اپنے ہاتھ میں رکھنے کے عادی ہیں۔ ان کے یہاں تو ''کور کمیٹی'' کا بھی ''رولا'' نہیں۔ طاہر القادری اس سے پہلے دو مرتبہ الیکشن میں حصہ لے چکے ہیں، اور دونوں مرتبہ ان کی سولو فلائیٹ کا نتیجہ وہی نکلا، جو نکلنا چاہیے تھا۔ اب کی بار چوہدری برادران ان کی اتحادی ہے، لیکن اپنے دورہ جھنگ کے دوران انھوں نے جس طرح جھنگ کی تمام قومی اور صوبائی نشستوں پر عوامی تحریک کے امیدوار ''کھڑے بھی کر لیے اور جتوا بھی لیے'' اگر ان کی اس طرح اونچی اڑان رہی تو کہ پھر الیکشن کی صورت میں چوہدری برادران کے لیے طاہرالقادری سے انتخابی معاملات طے کرنا آسان نہیں ہو گا۔
جیسے پیپلز پارٹی کا انتخابی نعرہ تھا کہ ''ایک زرداری، سب پہ بھاری''۔ 2 مہینہ کے مسلسل دھرنا اور 26 کارکنوں کی قربانی کے باوجود، اگر عمران خان اور طاہر القادری ابھی تک اپنے بنیادی ہدف، وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کا استعفا، حاصل نہیں کر سکے تو اس کی بڑی وجہ ان کی یہ غلط فہمی یا خوش فہمی بھی ہے؛ مثلاً، عمران خان اپنے دھرنا سے مخاطب ہوتے ہیں، تو معلوم ہوتا ہے کہ جیسے شاہراہ دستور پر تنہا ان ہی کا آزادی دھرنا موجود ہے۔ اس طرح، طاہر القادری اپنے دھرنے سے خطاب کرتے ہیں، تو لگتا ہے کہ جیسے شاہراہ دستور پر تنہا ان ہی کا انقلابی دھرنا فروکش ہے۔ تعجب ہے کہ ان دھرنوں سے خائف ہو کر نوازشریف، آصف علی زرداری، فضل الرحمن، سراج الحق، اسفند یار ولی اور الطاف حسین، سب اکٹھے ہو گئے، اور پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ایک دوسرے کے شانہ بہ شانہ نظر آئے، لیکن آفرین ہے عمران خان اور طاہر القادری پر کہ حکومتی اتحاد کے خلاف اکٹھے ہو کر ایک مشترکہ پریس کانفرنس نہ کر سکے، بلکہ لندن میں دوطرفہ ملاقات کی تصدیق بھی معذرت خواہانہ انداز میں کی گئی۔
پھر، عمران خان اور طاہر القادری، دونوں اپنی تقریروں میں یہ تو کہتے ہیں کہ پنجاب میں شہباز شریف کے دور حکومت سے، پہلے والا دور حکومت ہر لحاظ سے اچھا تھا، لیکن یہ کہنے سے ہچکچاتے ہیں کہ پنجاب میں وہ دور حکومت، پرویز الٰہی کا دور حکومت تھا۔ یوں یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ نواز شریف حکومت کے مقابلہ میں عمران خان، طاہر القادری اور چوہدری برادران کے درمیان مطلوبہ باہمی ہم آہنگی اور یکجہتی کی فضا پیدا نہیں ہو سکی۔ اس کا فائدہ ظاہر ہے نواز شریف حکومت کو پہنچ رہا ہے اور اس کے اعتماد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
عمران خان اور طاہر القادری کو قدرت نے جہاں ایک موقع دیا ہے، وہاں ایک آزمایش میں ڈال دیا ہے۔ بے شک ان کے آزادی، انقلابی دھرنوں کو جو پذیرائی حاصل ہوئی ہے، اور شہر شہر ان کے احتجاجی جلسوں میں جس جوش و خروش سے عوام شرکت کر رہے ہیں، اس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر عمران خان اور طاہر القادری اپنی اپنی انانیت کے حصار میں محصور رہے، اور اپنے اپنے جلسوں سے مسحور ہو کر انھوں نے اپنی اپنی سولو فلائیٹ جاری رکھی، تو کاروان آزادی اور کاروان انقلاب کے لیے منزل مقصود کا حصول ہر گزرنے والے دن کے ساتھ مشکل سے مشکل تر ہو تا جائے گا۔ سیاست میں انانیت کا نتیجہ تنہائی اور تنہائی کا نتیجہ صرف ماتم ہے۔ شاعر نے کہا تھا ؎
اس موج کے ماتم میں روتی ہے بھنور کی آنکھ
دریا سے اٹھی لیکن ساحل سے نہ ٹکرائی