عامرڈوگر کیسے جیتے

2008 ء کے انتخابات میں جاویدہاشمی نے عامر ڈوگر کے والد ملک صلاح الدین ڈوگر کو بڑے مارجن سے شکست دی۔

shakir.hussain512@hotmail.com

حلقہ این اے 149 کے لیے اہلِ ملتان نے ووٹ تو16 اکتوبر 2014 ء کو ڈالا،لیکن فیصلہ 15 اکتوبر کی رات میں ہوگیا جب میں اپنے کاموں سے فارغ ہو کر گھر آرہا تھا تو ملک عامر ڈوگر کے گھر کے باہر جشن تھا ۔ڈھول تاشے پر جوانوں کا رقص جاری تھا ۔

گاڑیوں کی لمبی لائنیں یہ بتا رہی تھیں کہ جیت کا تاج عامر ڈوگر کے ماتھے پر سجنے والا ہے۔دوسری جانب جب میں جاوید ہاشمی کے وائٹ ہاؤس کے سامنے سے گزرا تو وہاں پر اندھیرا راج کر رہا تھا۔ ان کے پارکنگ ایریا میں گاڑیاں اتنی کم تھیں کہ مجھے حیرت ہوئی کہ کم ازکم آج کی رات تو یہاں رونق ہوتی۔اِسی اثنا میں لاہور سے قسورسعید مرزا کا فون آیا تو میں نے رات کے ساڑھے بارہ بجے خبر بریک کی کہ عامر ڈوگر آسانی سے جاوید ہاشمی کو ہرا دیں گے اور آخر کار 16 اکتوبر کا دن یہی فیصلہ لے کر طلوع ہوا۔

عامر ڈوگرجیت گئے ہم ان کو مبارک باد دیتے ہیں۔ساتھ میں تحریک انصاف کو یہ بھی باور کراتے ہیں کہ اگر ان کے پاس عامر ڈوگر کے علاوہ کوئی انتخاب ہوتا تو نتیجہ اس سے مختلف ہوتا ۔وجہ یہ ہے کہ اِس وقت ملتان میں پی ٹی آئی کے ہاں کوئی ایسا رہنما نہیں ہے جس کے دروازے 24 گھنٹے عوام کے لیے کھلے ہوں۔اسی بات کے پس منظر میں یہاں مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے کہ 2008 ء کے انتخابات میں جاویدہاشمی نے عامر ڈوگر کے والد ملک صلاح الدین ڈوگر کو بڑے مارجن سے شکست دی تو کچھ دنوں بعد مجھے ایک دوست کے کام کے سلسلے میں ڈوگرہاؤس جانے کا اتفاق ہوا تو پی پی پی کے ہارے ہوئے اُمیدوار کے گھر لوگوں کا ہجوم دیکھ کرمیں نے ملک صاحب سے پوچھا کہ اب بھی آپ کے پاس لوگوں کا رش ہے۔کیا جاوید ہاشمی لوگوں کے کام نہیں کرتے۔ملک صاحب نے اپنے روایتی انداز میں کہا:میرے حلقے کے لوگ ووٹ (ن)لیگ کو دیتے ہیں جب کہ اپنے کاموں کے لیے دستک مجھے دیتے ہیں۔


پھر انھوں نے اپنے کمرے میں بیٹھے ہوئے چند لوگوں کی طرف اشارہ کیا کہ یہ ساری فیملی جاویدہاشمی کی حامی ہے لیکن اپنے کاموں کے لیے میرے پاس ہی آئے ہیں۔اگر تحریک انصاف یہاں سے کسی اور کو ٹکٹ دیتی تو پھر جاوید ہاشمی کے لیے یہ انتخاب بڑاآسان ہوتا۔عامر ڈوگر نے جاویدہاشمی کو شکست دے کر اپنی اور اپنے والد کی شکست کا بدلہ لیا۔خود انھوں نے جب آزاد حیثیت سے انتخاب میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تو یقینا انھیں گرین سگنل ملا ہوگا کہ پی ٹی آئی ان کو سپورٹ کرے گی۔شاہ محمود نے اس طرح پی پی ملتان کی کمر توڑی اور گیلانی کو بتایا کہ وہ اس وقت کتنی طاقت میں ہیں۔ شاہ محمود قریشی باربارگیلانی پر سیاسی حملے کر رہے ہیں ۔

دوسری جانب یوسف رضا گیلانی بھی گاہے گاہے شاہ محمود قریشی کے اکلوتے چھوٹے بھائی مرید حسین قریشی کے گھر بیٹھ کر ان ہی کے خلاف رہتے ہیں۔یقینا شاہ محمود قریشی کے لیے یہ بات کسی صدمے سے کم نہ ہوگی اِسی لیے وہ اپنی تقاریر اور گفتگو میں گیلانی اور پی پی کے خوب لتے لیتے ہیں۔ویسے پی ٹی آئی کے جنون کی وجہ سے ان کا ستارہ عروج پر ہے اور یہی عروج ہی عامر ڈوگر کی کامیابی کا سبب بنا۔حالانکہ پی ٹی آئی کی مقامی قیادت نے دل کھول کر عامرڈوگر کی حمایت نہیں کی یہ تو کارکنوں کی محنت ہے کہ عامر ڈوگر جیت گئے۔

عامر ڈوگر فتح پاکر رکن قومی اسمبلی بن گئے۔سیاسی حلقے ان سے یہ پوچھ رہے ہیں کہ کیا وہ تحریک انصاف میں شامل ہوں گے ؟تو میرے خیال میں انھیں اپنی آزاد حیثیت برقرار رکھنی چاہیے کہ تحریک انصاف تو مستعفی ہونے کے لیے تیارہے ۔اگر عامرڈوگر نے اپنے لیے ''دلہن ایک رات کی''کا پوسٹرپسندکیا ہے تو یہ ان کی سیاسی غلطی ہوگی۔ بہرحال ملتان والوں نے ایک عرصے بعد قومی اسمبلی میں اپنا ایسا نمائندہ بھیجا ہے جس کے ہر طبقہ فکر میں روٹس ہیں وہ شہر کے ہر شخص کو جانتے ہیں۔بلدیاتی سیاست کے ذریعے وہ آج اِس مقام پر پہنچے ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں پی ٹی آئی قبول کرتی ہے یا نہیں کیونکہ اس وقت حلقہ این اے 149 میں پی ٹی آئی کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے شاہ محمودقریشی کی شدیدخواہش ہوگی کہ اس محفوظ ترین حلقہ میں زین قریشی مستقل امیدوار ہوں۔

بہرحال یہ تووقت ہی بتائے گا۔فی الحال ہم اس طرح مایوسی کی باتیں کر کے رنگ میں بھنگ نہیں ڈالنا چاہتے۔البتہ آخرمیں چلتے چلتے ہم آپ کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ حلقے میں مسلم لیگ کے سابق ایم این اے اور سابق ایم پی اے شیخ طاہر رشید بھی آزاد حیثیت میں کھڑے تھے ان کے پوسٹرپر نمایاں لکھا ہوا تھاکہ :''شیرملتان شیخ طاہررشید''جب کہ ان کا انتخابی نشان بکری تھا ۔موصوف واقعی شیر سے بکری ہوگئے کہ بمشکل 1440 ووٹ حاصل کر سکے ۔باقی جاویدہاشمی یہ انتخاب کس طرح ہارے؟اور پی پی کے امیدوار ڈاکٹر جاویدصدیقی ،یوسف رضا گیلانی کی انتخابی مہم کے باوجود اپنی ضمانت ضبط کیوں کروا بیٹھے،اس کے لیے ہمارے اگلے دو کالموں کا انتظار کیجیے کہ فی الحال تو ہم عامر ڈوگر کے گھر جیت کی خوشی میں منہ میٹھا کرنے جا رہے ہیں، جہاں پر دھڑادھڑمٹھائی کے ٹوکرے خالی کیے جا رہے ہیں۔
Load Next Story