بھارت کی غیر اعلانیہ جنگ
بھارت کا تشدد آمیز اور غیر منصفانہ رویہ آج سے نہیں بلکہ اس وقت سے ہے جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے۔
ماضی میں یہ جملہ جنگ کے زمانے میں اندرا گاندھی (وزیراعظم ہندوستان) کے حوالے سے بے حد مشہور ہوا تھا کہ ''میں نہ مانوں'' وہ بھی بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے چونکہ کسی بھی دور میں بھارتی حکومت نے لچک کا مظاہرہ نہیں کیا، خواہ 1965 کی جنگ ہو یا 1971 کی یا آگرہ مذاکرات، بھارت پاکستانی افواج کے ہاتھوں پسپا تو بارہا ہوا مگر اپنے طور پر مفاہمت و مصلحت کا رویہ اس نے کبھی نہیں اپنایا۔
ان دنوں بھی جب نواز شریف صاحب کی محبت و ایثار واضح ہے لیکن بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے ہمارے وزیراعظم کے خلوص کی چھاؤں کو ذرہ برابر نہ محسوس کیا اور نہ ہی اپنے سلوک سے ثابت کیا کہ وہ بھی محبت کرنے والے انسان ہیں اور محبت کی زبان کو سمجھتے ہیں۔ بلکہ انھوں نے وزیراعظم پاکستان کے جذبہ خیرسگالی کا بدلہ اس طرح اتارا کہ انھوں نے غیر اعلانیہ جنگ شروع کردی اور عیدالاضحیٰ کے موقع پر ہمارے بے قصور شہریوں کو خون میں نہلادیا، کنٹرول لائن، ورکنگ باؤنڈری پر دیہات کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں 42 افراد شدید زخمی ہوئے اور 20 ہزار افراد نے نقل مکانی کی۔ بھارتی فوج کی بربریت کا جواب پنجاب رینجرز نے بہادری و جرأت کے ساتھ دیا جب کہ بھارتی افواج کی پانچویں روز بھی بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری جاری رہی اور ''میں نہ مانوں'' والا معاملہ جوں کا توں رہا۔ اس غیر انسانی سلوک سے شہدا کی تعداد میں اضافہ ہوا، ساتھ میں متعدد مویشی بھی ہلاک ہوئے۔
بھارت کا تشدد آمیز اور غیر منصفانہ رویہ آج سے نہیں بلکہ اس وقت سے ہے جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے، بھارت ایسی ہی گھناؤنی سازشوں میں ملوث رہا ہے۔ اقلیتوں کا مسئلہ بھی ویسا ہی رہا جیساکہ ماضی میں تھا، اگرچہ بھارتی آئین کی رو سے اقلیتوں کو تحفظ حاصل ہونا چاہیے لیکن مذہبی تنافر نے لاتعداد مرتبہ خون خرابہ کرایا، بھارت چھیاسٹھ سال گزرنے کے باوجود آج تک اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کی جان و مال کی حفاظت نہ کرسکا، چند ہی سال گزرے ہیں جب ہندوستان کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی تھے اور نریندر مودی وزیراعلیٰ گجرات، ان کے ایما پر 2002 میں گجرات میں کس طرح مسلمان عورتوں، معصوم بچوں اور مردوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی، گھروں میں بی جے پی کے غنڈہ عناصر نے دروازوں کو توڑا، دیواریں پھلانگیں اور باعزت و باعصمت خواتین کی بے حرمتی کی۔
گجرات میں بسنے والے اعلیٰ عہدے پر فائز حضرات نے ہزارہا فون کیے، ہر طرح سے اس وقت کے وزیراعلیٰ نریندر مودی سے رابطہ کرنے کی کوشش کی، وزیراعظم اور دوسرے حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں سے بڑھتے ہوئے تاتاری لشکر سے بچاؤ کے لیے ہر ممکن تدابیر کیں، لیکن بے سود، چونکہ یہ ایک سازش تھی، مسلمانوں سے بھرپور نفرت کا اظہار تھا اور آج وہی نریندر مودی ملک کے وزیراعظم بنے بیٹھے ہیں، ان سے یہی توقع تھی جس کا انھوں نے مظاہرہ کیا اور مزید کاری ضرب لگانے کی خواہش ان کے دل میں مچل رہی ہے۔ بھارتی وزیراعظم کے دفتر سے باقاعدہ پاکستان کو گہرا نقصان پہنچانے کا پیغام پہنچایا گیا اور اس بات کا تعلق بھارتی وزیر داخلہ کے سینئر عہدیدار سے ہے، انھوں نے ہی نریندر مودی کے خیالات کا انکشاف کیا۔
6 ستمبر 1965 کو بھارت نے چوروں کی طرح دبے پاؤں لاہور کی بین الاقوامی سرحد کو پار کیا اور اپنے ناپاک مقاصد کی تکمیل کے لیے لاہور پر تین طرف سے پیش قدمی شروع کردی۔ بھارتی فوجیں واہگہ، ہڈیارہ اور جسٹر کے راستے لاہور کی طرف بڑھنے کی متمنی تھیں لیکن ہماری شیر دل افواج نے ہندوستانی فوجوں کو بدترین شکست سے ہمکنار کیا، آخر اسی سیکٹر میں دشمن کو اپنے ایک علاقے کھیم کرن کو پاکستانی فوج کے حوالے کرنا پڑا، اپنی اس بے عزتی کا بدلہ انھوں نے مسافر گاڑیوں پر حملے کرکے لیا۔ بھارتی فضائیہ نے شہری علاقوں پر اندھادھند گولیاں برسائیں اور دھونگل اور گھکڑ کے اسٹیشنوں پر دو مسافر گاڑیوں کو اپنی جنگی ہوس کا نشانہ بنایا، آخر پاکستان کو بھی جوابی کارروائی کرنی پڑی اور بھارتی فضائیہ کے ایک طیارے کو مار گرایا۔
امن کے قیام کے لیے سب سے اہم جو قدم اٹھایا گیا اس کی ابتدا روس کی مصالحتی مشن سے ہوئی، روسی وزیراعظم الیکسی کوسیجن کی کوششوں سے پاک بھارت کے سربراہوں کی کانفرنس تاشقند کے مقام پر 4 جنوری 1966 کو شروع ہوئی، یہ کانفرنس عہدنامہ تاشقند کے نام سے مشہور ہے لیکن اس کا بھی کوئی خاطر خواہ فائدہ حاصل نہ ہوا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ 1971 میں پھر جنگ شروع ہوگئی، اس کی ابتدا بھی بھارت نے ہی کی اور اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے ایک بار پھر اس نے خونیں کھیل کھیلا، پاکستان کو دولخت کرنے میں بھارت کا پورا پورا ہاتھ تھا۔ اور ہمارے حکمرانوں کی عاقبت نااندیشی کا ہی یہ پیش خیمہ تھا۔
معاہدہ شملہ بھی امن کی کوششوں کا واضح ثبوت ہے۔ بے شمار مسائل کے ساتھ نہری پانی کا مسئلہ بھی اپنی جگہ برقرار ہے اور مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ کشمیر کا مسئلہ بھی سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے آج تک ہزاروں کشمیری جام شہادت نوش کرچکے ہیں، وہ پاکستان کو اپنا وطن مانتے ہیں ہندوستان کو نہیں لیکن ہندوستان کی حکومت زور زبردستی کے ساتھ اپنی حاکمیت قائم کرنا چاہتی ہے۔
جب تک کشمیریوں کے حوصلے بلند ہیں اور پاکستانی حکومت کو اس بات کا احساس ہے کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے، یہ جنگ اسی طرح جاری رہے گی۔ دنیا بھر کے فلاحی ادارے، اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل تماشائی بنے رہیں گے اور حالات بھی اسی طرح رہیں گے جیساکہ ماضی میں تھے اور حال میں ہیں۔ چونکہ ''میں نہ مانوں'' کا نعرہ آج بھی بھارت بلند کر رہا ہے اور امن کی فضا کو سبوتاژ کرنے میں پیش پیش ہے، وہ مسلمانوں کی شرافت، تہذیب اور دیانت داری سے پورا پورا فائدہ اٹھاتا ہے۔ اس موقع پر پاکستان کے ایک اہم اور عہد ساز شاعر یاد آگئے ہیں، نام ہے ان کا فضا اعظمی۔ انھوں نے ان ہی حالات کے تحت ہندوستان کو یہ الفاظ کہہ کر مخاطب کیا ہے۔
''گزشتہ دور کی تاریخ میں ہم نے یہ دیکھا ہے... ہماری مشکلوں کا فائدہ تم نے ہمیشہ ہی اٹھایا ہے...ہمیشہ ہی ہماری پیٹھ میں خنجر اتارا ہے...یہ وہ طرز عمل ہے جو رفاقت کے منافی ہے... کہ جو ہمسائیگی کے باہمی رشتوں کا قاتل ہے... یہ ایسے زخم ہائے خوں چکاں ہیں تم یقین مانو... کہ جو ہمسائیگی کی روح کو مجروح کرتے ہیں... بھلانا جن کا مشکل ہے... انھیں ہم نے بھلایا ہے... مگر تم اپنی کینہ پروری کی حرکت مذموم و اسفل سے... کبھی تائب نہیں ہوتے''
بے شک یہ لوگ تائب ہونے والے نہیں ہیں، اگر ہوتے تو سرحد پر معصوم چرواہوں کو فائرنگ کرکے ہلاک نہ کرتے، بے قصور لوگوں کو جیلوں میں بند کرکے ان پر تشدد نہ کرتے اور نہ ان کی عمر کے قیمتی حصے کو ضایع کرتے۔ ہمارے یہاں بھی ہندوستانی اپنی کسی نہ کسی غلطی کی بنا پر جیل میں بند کردیے جاتے ہیں لیکن جب رہا ہوتے ہیں تو اس طرح رخصت کیے جاتے ہیں کہ جیسے وہ پاکستان کی دعوت پر آئے ہوئے تھے، وہ قید میں رہتے ہوئے اچھے سلوک کا برملا اظہار کرتے ہیں۔
وہ اندھے اپاہج کرکے نہیں بھیجے جاتے ہیں لیکن بھارت دشمنی میں اس قدر آگے نکل چکا ہے کہ وہ پڑوسی ملک کے بہترین سلوک اور اعلیٰ اقدار اور انسانی رویوں سے ذرہ برابر سبق نہیں سیکھتا ہے بلکہ پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے نت نئے ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے۔ ہمارے حکمران سمجھداری سے کام لیں تو بھارت کی ہمت نہ ہو کہ وہ پاکستان کے اندرونی معاملات سے فائدہ اٹھائے اور نہ ٹیڑھی نگاہ سے دیکھ سکے۔ ہمارے ملک کے وزیراعظم نے ہندوستانی مظالم اور بے قصور لوگوں کی شہادت کا بھارت کو اب تک جواب نہیں دیا ہے، وہ خاموش ہیں، کیوں؟ کیا تجارت ملک سے زیادہ اہم ہے، انسانی جانوں سے زیادہ قیمتی؟
ان دنوں بھی جب نواز شریف صاحب کی محبت و ایثار واضح ہے لیکن بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے ہمارے وزیراعظم کے خلوص کی چھاؤں کو ذرہ برابر نہ محسوس کیا اور نہ ہی اپنے سلوک سے ثابت کیا کہ وہ بھی محبت کرنے والے انسان ہیں اور محبت کی زبان کو سمجھتے ہیں۔ بلکہ انھوں نے وزیراعظم پاکستان کے جذبہ خیرسگالی کا بدلہ اس طرح اتارا کہ انھوں نے غیر اعلانیہ جنگ شروع کردی اور عیدالاضحیٰ کے موقع پر ہمارے بے قصور شہریوں کو خون میں نہلادیا، کنٹرول لائن، ورکنگ باؤنڈری پر دیہات کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں 42 افراد شدید زخمی ہوئے اور 20 ہزار افراد نے نقل مکانی کی۔ بھارتی فوج کی بربریت کا جواب پنجاب رینجرز نے بہادری و جرأت کے ساتھ دیا جب کہ بھارتی افواج کی پانچویں روز بھی بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری جاری رہی اور ''میں نہ مانوں'' والا معاملہ جوں کا توں رہا۔ اس غیر انسانی سلوک سے شہدا کی تعداد میں اضافہ ہوا، ساتھ میں متعدد مویشی بھی ہلاک ہوئے۔
بھارت کا تشدد آمیز اور غیر منصفانہ رویہ آج سے نہیں بلکہ اس وقت سے ہے جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے، بھارت ایسی ہی گھناؤنی سازشوں میں ملوث رہا ہے۔ اقلیتوں کا مسئلہ بھی ویسا ہی رہا جیساکہ ماضی میں تھا، اگرچہ بھارتی آئین کی رو سے اقلیتوں کو تحفظ حاصل ہونا چاہیے لیکن مذہبی تنافر نے لاتعداد مرتبہ خون خرابہ کرایا، بھارت چھیاسٹھ سال گزرنے کے باوجود آج تک اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کی جان و مال کی حفاظت نہ کرسکا، چند ہی سال گزرے ہیں جب ہندوستان کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی تھے اور نریندر مودی وزیراعلیٰ گجرات، ان کے ایما پر 2002 میں گجرات میں کس طرح مسلمان عورتوں، معصوم بچوں اور مردوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی، گھروں میں بی جے پی کے غنڈہ عناصر نے دروازوں کو توڑا، دیواریں پھلانگیں اور باعزت و باعصمت خواتین کی بے حرمتی کی۔
گجرات میں بسنے والے اعلیٰ عہدے پر فائز حضرات نے ہزارہا فون کیے، ہر طرح سے اس وقت کے وزیراعلیٰ نریندر مودی سے رابطہ کرنے کی کوشش کی، وزیراعظم اور دوسرے حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں سے بڑھتے ہوئے تاتاری لشکر سے بچاؤ کے لیے ہر ممکن تدابیر کیں، لیکن بے سود، چونکہ یہ ایک سازش تھی، مسلمانوں سے بھرپور نفرت کا اظہار تھا اور آج وہی نریندر مودی ملک کے وزیراعظم بنے بیٹھے ہیں، ان سے یہی توقع تھی جس کا انھوں نے مظاہرہ کیا اور مزید کاری ضرب لگانے کی خواہش ان کے دل میں مچل رہی ہے۔ بھارتی وزیراعظم کے دفتر سے باقاعدہ پاکستان کو گہرا نقصان پہنچانے کا پیغام پہنچایا گیا اور اس بات کا تعلق بھارتی وزیر داخلہ کے سینئر عہدیدار سے ہے، انھوں نے ہی نریندر مودی کے خیالات کا انکشاف کیا۔
6 ستمبر 1965 کو بھارت نے چوروں کی طرح دبے پاؤں لاہور کی بین الاقوامی سرحد کو پار کیا اور اپنے ناپاک مقاصد کی تکمیل کے لیے لاہور پر تین طرف سے پیش قدمی شروع کردی۔ بھارتی فوجیں واہگہ، ہڈیارہ اور جسٹر کے راستے لاہور کی طرف بڑھنے کی متمنی تھیں لیکن ہماری شیر دل افواج نے ہندوستانی فوجوں کو بدترین شکست سے ہمکنار کیا، آخر اسی سیکٹر میں دشمن کو اپنے ایک علاقے کھیم کرن کو پاکستانی فوج کے حوالے کرنا پڑا، اپنی اس بے عزتی کا بدلہ انھوں نے مسافر گاڑیوں پر حملے کرکے لیا۔ بھارتی فضائیہ نے شہری علاقوں پر اندھادھند گولیاں برسائیں اور دھونگل اور گھکڑ کے اسٹیشنوں پر دو مسافر گاڑیوں کو اپنی جنگی ہوس کا نشانہ بنایا، آخر پاکستان کو بھی جوابی کارروائی کرنی پڑی اور بھارتی فضائیہ کے ایک طیارے کو مار گرایا۔
امن کے قیام کے لیے سب سے اہم جو قدم اٹھایا گیا اس کی ابتدا روس کی مصالحتی مشن سے ہوئی، روسی وزیراعظم الیکسی کوسیجن کی کوششوں سے پاک بھارت کے سربراہوں کی کانفرنس تاشقند کے مقام پر 4 جنوری 1966 کو شروع ہوئی، یہ کانفرنس عہدنامہ تاشقند کے نام سے مشہور ہے لیکن اس کا بھی کوئی خاطر خواہ فائدہ حاصل نہ ہوا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ 1971 میں پھر جنگ شروع ہوگئی، اس کی ابتدا بھی بھارت نے ہی کی اور اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے ایک بار پھر اس نے خونیں کھیل کھیلا، پاکستان کو دولخت کرنے میں بھارت کا پورا پورا ہاتھ تھا۔ اور ہمارے حکمرانوں کی عاقبت نااندیشی کا ہی یہ پیش خیمہ تھا۔
معاہدہ شملہ بھی امن کی کوششوں کا واضح ثبوت ہے۔ بے شمار مسائل کے ساتھ نہری پانی کا مسئلہ بھی اپنی جگہ برقرار ہے اور مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ کشمیر کا مسئلہ بھی سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے آج تک ہزاروں کشمیری جام شہادت نوش کرچکے ہیں، وہ پاکستان کو اپنا وطن مانتے ہیں ہندوستان کو نہیں لیکن ہندوستان کی حکومت زور زبردستی کے ساتھ اپنی حاکمیت قائم کرنا چاہتی ہے۔
جب تک کشمیریوں کے حوصلے بلند ہیں اور پاکستانی حکومت کو اس بات کا احساس ہے کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے، یہ جنگ اسی طرح جاری رہے گی۔ دنیا بھر کے فلاحی ادارے، اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل تماشائی بنے رہیں گے اور حالات بھی اسی طرح رہیں گے جیساکہ ماضی میں تھے اور حال میں ہیں۔ چونکہ ''میں نہ مانوں'' کا نعرہ آج بھی بھارت بلند کر رہا ہے اور امن کی فضا کو سبوتاژ کرنے میں پیش پیش ہے، وہ مسلمانوں کی شرافت، تہذیب اور دیانت داری سے پورا پورا فائدہ اٹھاتا ہے۔ اس موقع پر پاکستان کے ایک اہم اور عہد ساز شاعر یاد آگئے ہیں، نام ہے ان کا فضا اعظمی۔ انھوں نے ان ہی حالات کے تحت ہندوستان کو یہ الفاظ کہہ کر مخاطب کیا ہے۔
''گزشتہ دور کی تاریخ میں ہم نے یہ دیکھا ہے... ہماری مشکلوں کا فائدہ تم نے ہمیشہ ہی اٹھایا ہے...ہمیشہ ہی ہماری پیٹھ میں خنجر اتارا ہے...یہ وہ طرز عمل ہے جو رفاقت کے منافی ہے... کہ جو ہمسائیگی کے باہمی رشتوں کا قاتل ہے... یہ ایسے زخم ہائے خوں چکاں ہیں تم یقین مانو... کہ جو ہمسائیگی کی روح کو مجروح کرتے ہیں... بھلانا جن کا مشکل ہے... انھیں ہم نے بھلایا ہے... مگر تم اپنی کینہ پروری کی حرکت مذموم و اسفل سے... کبھی تائب نہیں ہوتے''
بے شک یہ لوگ تائب ہونے والے نہیں ہیں، اگر ہوتے تو سرحد پر معصوم چرواہوں کو فائرنگ کرکے ہلاک نہ کرتے، بے قصور لوگوں کو جیلوں میں بند کرکے ان پر تشدد نہ کرتے اور نہ ان کی عمر کے قیمتی حصے کو ضایع کرتے۔ ہمارے یہاں بھی ہندوستانی اپنی کسی نہ کسی غلطی کی بنا پر جیل میں بند کردیے جاتے ہیں لیکن جب رہا ہوتے ہیں تو اس طرح رخصت کیے جاتے ہیں کہ جیسے وہ پاکستان کی دعوت پر آئے ہوئے تھے، وہ قید میں رہتے ہوئے اچھے سلوک کا برملا اظہار کرتے ہیں۔
وہ اندھے اپاہج کرکے نہیں بھیجے جاتے ہیں لیکن بھارت دشمنی میں اس قدر آگے نکل چکا ہے کہ وہ پڑوسی ملک کے بہترین سلوک اور اعلیٰ اقدار اور انسانی رویوں سے ذرہ برابر سبق نہیں سیکھتا ہے بلکہ پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے نت نئے ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے۔ ہمارے حکمران سمجھداری سے کام لیں تو بھارت کی ہمت نہ ہو کہ وہ پاکستان کے اندرونی معاملات سے فائدہ اٹھائے اور نہ ٹیڑھی نگاہ سے دیکھ سکے۔ ہمارے ملک کے وزیراعظم نے ہندوستانی مظالم اور بے قصور لوگوں کی شہادت کا بھارت کو اب تک جواب نہیں دیا ہے، وہ خاموش ہیں، کیوں؟ کیا تجارت ملک سے زیادہ اہم ہے، انسانی جانوں سے زیادہ قیمتی؟