قومی سیاستدان درست اُردو بولنے کی صلاحیت سے محروم ہیں مقررین
زبان کے حوالے سے صرف ابلاغیات کےاداروں کو بد نام نہ کیا جائے ،دھرنوں میں کون سی اچھی زبان استعمال ہورہی ہے،انتظار حسین
آرٹس کونسل میں ساتویں عالمی اردو کانفرنس کے تیسرے دن سیشن ''ذرائع ابلاغ اور زبا ن'' کے موضوع پر اظہار خیال کیا گیا۔
مجلس صدارت میںانتظار حسین ، آغاناصر ،فرہاد زید ی،رضاعلی عابدی مسعود اشعر شامل تھے، مذاکرے کی گفتگو میں اصغر ندیم سید ،عبید صدیقی ،حارث خلیق ،مجاہد بریلوی ،طاہر نجمی، نذیر لغاری شریک تھے،نظامت کے فرائض احمد شاہ نے انجام دیے، ادیب انتظار حسین نے صدارتی کلمات میں کہا کہ زبان کے حوالے سے صرف ابلاغیات کے اداروں کو بد نام نہ کیا جائے ،دھرنوں اور مظاہروں میں کون سی اچھی زبان استعمال ہورہی ہے،قومی سیاستدان درست اردو بولنے کی صلاحیت سے محروم ہیں، زبان کی پاکیزگی ہمارے معاشرے سے رخصت ہوچکی ہے ، آج کے دور میں اردو اپنے کثافتی عمل سے گزر رہی ہے ۔
اردو کے ماضی کی طرح اس کا مستقبل بھی روشن نظر آرہا ہے،آرٹس کونسل کے سیکریٹری محمد احمد شاہ نے کہا کہ ٹی وی چینلز اور اخبارات کو زبان کے حوالے سے تربیت کی اشد ضرورت ہے، حارث خلیق نے کہا کہ پاکستان کا ایک انگریزی چینل اردو میں منتقل ہوگیا، ہمارے یہاں مباحثے کی زبان اردو ناگریز ہے ،مجاہد بریلوی نے کہا کہ آج کی صحافت کا المیہ یہ ہے کہ ایک دو اخبار کو چھوڑ کر کسی میں مدیرنہیں ہے جس کی وجہ سے خرابی پیدا ہوتی جارہی ہے، مسعود اشعر نے کہا کہ اردو زبان کو بگاڑنے میںمیڈیا کا بہت بڑا ہاتھ ہے ،اگر ہمارے عوام بیٹھے بیٹھائے مونث ہوجائیں گے تو ماتم ہی کیا جاسکتا ہے، میڈیا کے لوگوں کو تربیت کی ضرورت ہے، زبان خراب کرنے کیلیے انھیں آزاد نہیں چھوڑا جاسکتا،اس مسئلے پر سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے ،طاہر نجمی نے کہا کہ سیاست دان اور اینکر ز جو کچھ عوام کے ساتھ کررہے ہیں کیا وہ مذکر رہ گئے ہیں ؟اورکیا عوا م کو مونث تسلیم کرلیاگیا ہے؟پرنٹ میڈیا بھی جو برتاؤ اردو کے ساتھ کررہا ہے وہ بھی کچھ کم نہیں ہے۔
میں نے بھی ہمہ صفت شخصیات رئیس امرہوی ،ابراہیم جلیس،ابن انشاء سے بہت کچھ سیکھا، اردو زبان ان کے آگے ہاتھ باندھے کھڑی رہتی تھی،گلابوں میں رہنے والی مٹی بھی خوش بو دار ہوجاتی ہے یہ سب گلاب کی مانند رہے ہیں میں نے ایک ٹاپ اینکر کو ماورائے عدالت کی جگہ ماروائے عدالت بولتے سنا ، زبان کا تعلق قومی شناخت اور قومی ثقافت سے ہوتا ہے اس لیے تربیت بہت ضروری ہے ،آغا ناصر نے کہا کہ زیڈ اے بخاری ،فرہاد زید ی ،قمرجلیل ،اشفاق احمد بولتے بھی اچھا اور لکھتے بھی اچھا تھے وہ سکھاتے بھی تھے ، اب سکھانے والے آگے بڑھتے نہیں نہ جانے کیوں ؟ ابلاغ عامہ میں ہمیشہ عام فہم اور سادہ زبان استعمال کرنی چاہیے،اصغر ندیم سید نے کہا کہ مکالمہ کسے کہتے ہیں ''جیسے بند ہ بندے سے بات کرتا ہے ''میں نے اشفاق احمد سے پوچھا اور باباجی نے خوب جواب دیا ایک بات ایک دل سے نکلے اور دوسرے کے دل میں بیٹھ جائے تو زبان ایسی ہونی چاہیے جو لفظ اردو میں آیا وہ اردو کا ہوگیا ۔
بہت سے الفاظ ارد و میں شامل ہو کہ اردو کے ہوگئے ہیں جب زبان ٹکسال میں ڈھل کر صارف کے پاس آتی ہے تو صارف کا کمال کہ وہ اسے کیسے استعمال کرتا ہے اردو اپنے بارے میں حساس نہیں ہے اردو کسی بھی زمانے کی اسیر نہیں رہی ہے، رضا علی عابدی نے کہا کہ اک مٹھی بھر شکر گلاس میں گھول لیں تو مٹھا س کی نوعیت کچھ اور ہوگی ،اسے آکر کسی مٹکے میں ڈالیں تو مٹھاس کچھ اور ہوگی اب گلی گلی نکڑ نکڑ پر چینلز کی دکانیں بن گئیں ہیں سب عوامی ہوگئے ہیں ، ہم نے میڈیا کو آزاد کیوں چھوڑا ہوا ہے ۔
اچھی زبان گفتگو کی زبان ہوتی ہے چھاپنے کی زبان مختلف ہوتی ہے لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ آپ کون سی زبان بولتے ہیں تو میں کہتا ہو ں کہ میں اماں کی زبان بولتا ہوں،مرزاغالب گفتگو کی زبان میں خطوط تحریر کیا کرتے تھے میں تو غالب کو امام مانتا ہوں ،فرہاد زیدی نے کہا کہ ایڈیٹر تو ہر اخبار میں ہوتا ہے لیکن اب ان کی تربیت نہیں رہی ،اچھی زبان کسی بھی اخبار میں ملازمت کیلیے ضروری ہونی چاہیے پہلے ہوتی تھی اب نہیں ہے ،اردو زبان کو پاکستانی معاشرے میں باوقار مقام دینے کی اشد ضرورت ہے ،نذیر لغاری نے جب زبان کو زوبان کہا تو احمد شاہ نے فورا تصحیح کی لفظ زبا ن ہے زوبان نہیں اس پر اصغر ندیم سید نے بر جستہ کہا کہ میں نے بھی یہ لفظ غلط ادا کیا تو پروفیسر سحرانصاری نے میری اصلاح کی۔
مجلس صدارت میںانتظار حسین ، آغاناصر ،فرہاد زید ی،رضاعلی عابدی مسعود اشعر شامل تھے، مذاکرے کی گفتگو میں اصغر ندیم سید ،عبید صدیقی ،حارث خلیق ،مجاہد بریلوی ،طاہر نجمی، نذیر لغاری شریک تھے،نظامت کے فرائض احمد شاہ نے انجام دیے، ادیب انتظار حسین نے صدارتی کلمات میں کہا کہ زبان کے حوالے سے صرف ابلاغیات کے اداروں کو بد نام نہ کیا جائے ،دھرنوں اور مظاہروں میں کون سی اچھی زبان استعمال ہورہی ہے،قومی سیاستدان درست اردو بولنے کی صلاحیت سے محروم ہیں، زبان کی پاکیزگی ہمارے معاشرے سے رخصت ہوچکی ہے ، آج کے دور میں اردو اپنے کثافتی عمل سے گزر رہی ہے ۔
اردو کے ماضی کی طرح اس کا مستقبل بھی روشن نظر آرہا ہے،آرٹس کونسل کے سیکریٹری محمد احمد شاہ نے کہا کہ ٹی وی چینلز اور اخبارات کو زبان کے حوالے سے تربیت کی اشد ضرورت ہے، حارث خلیق نے کہا کہ پاکستان کا ایک انگریزی چینل اردو میں منتقل ہوگیا، ہمارے یہاں مباحثے کی زبان اردو ناگریز ہے ،مجاہد بریلوی نے کہا کہ آج کی صحافت کا المیہ یہ ہے کہ ایک دو اخبار کو چھوڑ کر کسی میں مدیرنہیں ہے جس کی وجہ سے خرابی پیدا ہوتی جارہی ہے، مسعود اشعر نے کہا کہ اردو زبان کو بگاڑنے میںمیڈیا کا بہت بڑا ہاتھ ہے ،اگر ہمارے عوام بیٹھے بیٹھائے مونث ہوجائیں گے تو ماتم ہی کیا جاسکتا ہے، میڈیا کے لوگوں کو تربیت کی ضرورت ہے، زبان خراب کرنے کیلیے انھیں آزاد نہیں چھوڑا جاسکتا،اس مسئلے پر سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے ،طاہر نجمی نے کہا کہ سیاست دان اور اینکر ز جو کچھ عوام کے ساتھ کررہے ہیں کیا وہ مذکر رہ گئے ہیں ؟اورکیا عوا م کو مونث تسلیم کرلیاگیا ہے؟پرنٹ میڈیا بھی جو برتاؤ اردو کے ساتھ کررہا ہے وہ بھی کچھ کم نہیں ہے۔
میں نے بھی ہمہ صفت شخصیات رئیس امرہوی ،ابراہیم جلیس،ابن انشاء سے بہت کچھ سیکھا، اردو زبان ان کے آگے ہاتھ باندھے کھڑی رہتی تھی،گلابوں میں رہنے والی مٹی بھی خوش بو دار ہوجاتی ہے یہ سب گلاب کی مانند رہے ہیں میں نے ایک ٹاپ اینکر کو ماورائے عدالت کی جگہ ماروائے عدالت بولتے سنا ، زبان کا تعلق قومی شناخت اور قومی ثقافت سے ہوتا ہے اس لیے تربیت بہت ضروری ہے ،آغا ناصر نے کہا کہ زیڈ اے بخاری ،فرہاد زید ی ،قمرجلیل ،اشفاق احمد بولتے بھی اچھا اور لکھتے بھی اچھا تھے وہ سکھاتے بھی تھے ، اب سکھانے والے آگے بڑھتے نہیں نہ جانے کیوں ؟ ابلاغ عامہ میں ہمیشہ عام فہم اور سادہ زبان استعمال کرنی چاہیے،اصغر ندیم سید نے کہا کہ مکالمہ کسے کہتے ہیں ''جیسے بند ہ بندے سے بات کرتا ہے ''میں نے اشفاق احمد سے پوچھا اور باباجی نے خوب جواب دیا ایک بات ایک دل سے نکلے اور دوسرے کے دل میں بیٹھ جائے تو زبان ایسی ہونی چاہیے جو لفظ اردو میں آیا وہ اردو کا ہوگیا ۔
بہت سے الفاظ ارد و میں شامل ہو کہ اردو کے ہوگئے ہیں جب زبان ٹکسال میں ڈھل کر صارف کے پاس آتی ہے تو صارف کا کمال کہ وہ اسے کیسے استعمال کرتا ہے اردو اپنے بارے میں حساس نہیں ہے اردو کسی بھی زمانے کی اسیر نہیں رہی ہے، رضا علی عابدی نے کہا کہ اک مٹھی بھر شکر گلاس میں گھول لیں تو مٹھا س کی نوعیت کچھ اور ہوگی ،اسے آکر کسی مٹکے میں ڈالیں تو مٹھاس کچھ اور ہوگی اب گلی گلی نکڑ نکڑ پر چینلز کی دکانیں بن گئیں ہیں سب عوامی ہوگئے ہیں ، ہم نے میڈیا کو آزاد کیوں چھوڑا ہوا ہے ۔
اچھی زبان گفتگو کی زبان ہوتی ہے چھاپنے کی زبان مختلف ہوتی ہے لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ آپ کون سی زبان بولتے ہیں تو میں کہتا ہو ں کہ میں اماں کی زبان بولتا ہوں،مرزاغالب گفتگو کی زبان میں خطوط تحریر کیا کرتے تھے میں تو غالب کو امام مانتا ہوں ،فرہاد زیدی نے کہا کہ ایڈیٹر تو ہر اخبار میں ہوتا ہے لیکن اب ان کی تربیت نہیں رہی ،اچھی زبان کسی بھی اخبار میں ملازمت کیلیے ضروری ہونی چاہیے پہلے ہوتی تھی اب نہیں ہے ،اردو زبان کو پاکستانی معاشرے میں باوقار مقام دینے کی اشد ضرورت ہے ،نذیر لغاری نے جب زبان کو زوبان کہا تو احمد شاہ نے فورا تصحیح کی لفظ زبا ن ہے زوبان نہیں اس پر اصغر ندیم سید نے بر جستہ کہا کہ میں نے بھی یہ لفظ غلط ادا کیا تو پروفیسر سحرانصاری نے میری اصلاح کی۔